مشعال ملک اور مشعل آزادی

سنواگرسن سکتے ہو ،دیکھو اگردیکھ سکتے ہو،غورسے سنویہ ایک نابینا ماں کے بین ہیں جواپنے جوان شہید بیٹے کی میت کے پاس بیٹھی بھارتی درندوں سے اپنے مقتول بیٹے کاگناہ پوچھ رہی ہے۔ماں کے آنسو تم دیکھ رہے ہومگرکیا تم اس ماں کادرددیکھ سکتے ہیں،نہیں اس ماں کادرددیکھنا تودرکنار تم محسوس بھی نہیں کرسکتے اوردعاکروکسی بدنصیب ماں کویہ دردنصیب نہ ہو۔ ممتا کی مٹھاس بھری محبت اورکسی بچے کی موت پرماں کی محرومی کوایک ماں کے سواکوئی نہیں سمجھ سکتا ۔ایک ماں کے بین سن کرتو پتھر بھی موم ہو جاتا ہے،ان زمینی خداؤں کے دل کیوں نہیں پگھلتے۔شایدپتھروں کی پرستش کرنیوالے ہندو خودبھی پتھر بن گئے ہیں۔کشمیری ماؤں کی گودیں اجاڑنے والے درندے کس طرح شادآباداوردنیا کے باضمیر انسان کس طرح خاموش رہ سکتے ہیں۔بھارتی سورماؤں نے اس نابیناماں کے اکلوتے فرزند کوشہیدکرکے اس کی زندگی مزید اندھیرکردی ہے ۔یہ شہید کی معصوم بہن کاماتم بھی دیکھو اورشہید کے ضعیف باپ کی نم آنکھوں میں جھانکو،کیاتم اس شہید کی بیوہ کی آہیں سن رہے ہو۔شہید کے یتیم اورشیرخوار بچے کوباپ کاپیارکون دے گا۔انہیں اپنے پیاروں کی شہادت کاغم نہیں بلکہ جموں وکشمیرمیں آزادی کاسورج طلوع ہونے سے قبل ان کے بچھڑنے اورشہیدوں کے خواب بکھرنے کادُکھ ہے۔کیا یہ منظردیکھ کرتمہارا کلیجہ باہر کونہیں آتا، کیا بھارتی بربریت کیخلاف مزاحمت اِنسانیت پرفرض اورقرض نہیں ہے۔ان سوگواروں کوچھوڑکرپچھلی گلی میں جاؤوہاں بھی ایک گھر میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے ،اس موت کی وادی میں شاید ایساکوئی گھر ہوجہاں سے شہیدوں کے جنازے نہ اٹھا ئے گئے ہوں،کئی لاکھ کشمیری اپنی آنکھوں میں آزادی کاخواب سجائے آسودہ خاک ہوگئے مگر اس کے باوجودان کے ورثا کاجوش وجذبہ ماند نہیں پڑا۔وہ دیکھوایک معصوم بچی جس نے اپنے گھر کی چھت سے گلی میں جھانکا توپیلٹ گن سے اس کی آنکھیں پھوڑدی گئیں اوراس کی بے نورآنکھوں سے علم کاشوق چھین لیا گیا۔بھارتی بربریت سے بیزاری پرکشمیری عوام حق بجانب ہیں،آزادی کیلئے ان کی اجتماعی بیداری فطری ہے۔ ہرشہادت کے بعدآزادی کیلئے ان کی بیقراری مزید بڑھ جاتی ہے ۔تحریک آزادی کشمیر اب جس مقام پرہے وہاں سے واپسی کاکوئی راستہ نہیں ۔شہید کشمیریوں کے جنازے بھارت کیخلاف عوامی ریفرنڈم بن جاتے ہیں،بھارت اس سیلاب کے آگے بندنہیں باندھ سکتا۔

کشمیریوں اورفلسطینیوں کی پکار سن کربھی عالمی ضمیر کیوں بیدارنہیں ہوتا،امریکہ ،کینیڈا،برطانیہ اوریورپ کوچھوڑیں مسلم حکمران کشمیر یوں اورفلسطینیوں کی آزادی کیلئے کیا کرداراداکررہے ہیں ۔کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کاوزن توبہت ہے مگرموصوف ویژن سے عاری ہیں۔وہ اس منصب سے انصاف کرنے میں بری طرح ناکام رہے لیکن حکومت انہیں ہٹانے کیلئے تیار نہیں ۔ہمارے ہاں فرض کی بجاآوری کارواج نہیں ،میں سمجھتا ہوں جس شخصیت کو منصب دینامقصود ہواسے روڈمیپ اور ٹائم فریم بھی دیاجائے اورجواُس روڈمیپ کے مطابق اور ٹائم فریم کے اندراندر ڈیلیور نہ کرے اس بوجھ کواس مسندسے فوری ہٹادیاجائے۔پاکستان کیلئے جموں وکشمیر کی روحانی، نظریاتی اورجغرافیائی اہمیت کودیکھتے ہوئے کسی غیرمتنازعہ،غیرتمند، متحرک اورموثر شخصیت کوکشمیر کمیٹی کاچیئرمین مقررکیاجائے جومہارت سے انگلش زبان لکھنااور بولنا جانتا ہو۔میں بھی برادرم ڈاکٹراجمل نیازی کی طرح کشمیر کمیٹی کی قیادت کیلئے مشعال حسین ملک کوانتہائی موزوں اورموثر سمجھتا ہوں۔اِن میں کشمیر کازکواجاگرکرنے کی بھرپورتڑپ ،صلاحیت اورقابلیت ہے،اگرا نہیں یہ منصب دیا گیا تووہ بھرپور کمٹمنٹ کے ساتھ ا وربااحسن اپنا فرض اداکریں گی،مشعال حسین کے کردارمیں حسینیت کی تاثیرہے۔مشعال حسین ملک مشعل کی طرح کشمیریوں کیلئے روشنی اورامید بن گئی ہیں۔ انہوں نے تحریک آزادی کشمیر کے اسیرقائداوراپنے باوفاوباصفا شوہریٰسین ملک کاپرچم اپنے ہاتھوں میں اٹھالیا ہے ۔پرعزم مشعال حسین ملک بظاہرنرم ونازک خاتون ہیں مگربھارتی بربریت کیخلاف ان کی سیاسی مزاحمت اوراستقامت قابل دیداورقابل قدر ہے۔کشمیر کمیٹی کے ہیوی ویٹ چیئرمین کی کشمیریوں کے حق میں آوازوہ خودبھی نہیں سن سکتے لیکن مشعال حسین ملک کی کشمیر کاز کے حق میں آوازسے دہلی کالال قلعہ تک دہل جاتا ہے۔مشعال حسین ملک کشمیر کاز کے حق میں آوازاٹھانا اپنافرض اورخودپرقرض سمجھتی ہیں ۔مشعال حسین ملک کے نڈرشوہریٰسین ملک ضمیر کے قیدی ہیں اوران کی عمر کے زیادہ برس جنگل اورجیل میں گزر ے ہیں ،ان دنوں بھی وہ بھارتی زندانوں بلکہ عقوبت خانوں میں ہیں ۔مشعال حسین ملک اوران کی والدہ بیگم ریحانہ نے جس دبنگ اندازسے کشمیرکی آزادی کیلئے سفارت کاری کابیڑااٹھایا ہے اس پروہ دونوں دادوتحسین کی مستحق ہیں۔پچھلے دنوں لاہورمیں ورلڈکالمسٹ کلب نے تحریک آزادی کشمیر کی بیباک حامی اورہادی مشعال حسین ملک کے ساتھ ایک سیرحاصل مکالمے کااہتمام کیا جس میں انہوں نے بڑی دردمندی اورجرأتمندی کے ساتھ کشمیریوں کی وکالت کرتے ہوئے ان پربھارتی جبرواستبداد کانقشہ کھینچا ۔قلم قبیلے کے سرخیل ڈاکٹراجمل نیازی ، ایثاررانا ، ذبیح اﷲ بلگن ،امان اﷲ خاں،رابعہ رحمن ،پروفیسرڈاکٹرعمرانہ مشتاق ،امجداقبال ،افتخارمجاز ،عابدکمالوی ،میاں محمداشرف عاصمی ایڈووکیٹ،اعجاز حفیظ خان ،تاثیرمصطفی ،ممتازحیدراعوان ،ملک غضنفر اعوان ،احسن ضیاء اورناصرچوہان ایڈووکیٹ بھی اس مکالمے میں شریک تھے۔لندن سے ممتازکالم نگارسمیع اﷲ ملک جواساتذہ میں شمارہوتے ہیں ، شرکاء نے انہیں لندن،اسلام آباد سے دبنگ کالم نگاربرادرم مظہربرلاس اوربرادرم میاں محمدسعیدکھوکھرکو بھی روحانی طورپر اپنے درمیان محسوس کیا ۔ممتازکالم نگاروں اورمنفردلہجے کے شعراء افتخار مجازاورعابدکمالوی نے اپنے مخصوص اندازمیں کشمیر کی تحریک آزادی کے حوالے سے اپناکلام پیش کیا جس کوبہت سراہاگیا ۔کشمیر کاز کیلئے مشعال حسین ملک کے پرجوش انداز اوران کی پرمغز باتوں سے شرکاء بہت متاثرہوئے ۔مشعال ملک نے کشمیر کی آزادی کیلئے قلم کاروں کی اہمیت کواجاگرکیا ۔ وہ خود بھی ایک پروفیسر کی صاحبزادی اورعلم دوست خاندان کی فرد ہیں ۔یٰسین ملک بھی اسیری کے دوران علم سے سیراورسیراب ہوتے رہے اوراِس مرد مجاہد نے قیدوبند کے دوران کشمیر کے ساتھ وفاسمیت کئی علمی امتحانات بھی نمایاں نمبروں کے ساتھ پاس کئے ۔ ہمارے کچھ نام نہاددانشور دانشمندی اوردرد مندی سے عاری ہیں،ان دوچار''دھت ''عناصر نے دوسروں کی عزت اچھالنااپنابنیادی حق سمجھ لیا ہے۔لوگ ان کی زبان کے شر سے ڈرتے ہیں ،انہیں عزت نہیں صرف شہرت سے سروکار ہے ۔پچھلے دنوں ایک قلمی اداکار نے اپنے مخصوص اندازمیں بدزبانی کرتے ہوئے کاروانِ تحریک آزادی کشمیر کے روح رواں جناب سیّدعلی گیلانی کے کسی ترجمان سے منسوب کرکے جما عۃ الدعوۃ کے سربراہ پروفیسرحافظ سعید کے بارے میں بدگمانی پیداکرنے کی ناکام کوشش کی ۔سیّدعلی گیلانی نے اپنے درداورکرب کااظہار دبنگ کالم نگار سمیع اﷲ ملک کے ساتھ بھی کیا اورانہیں اس قلمی اداکار کی کارستانی یعنی شیطانی کی رودادسنائی ۔سیّدعلی گیلانی نے فرمایا انہیں پروفیسرحافظ محمدسعید بھائیوں کی طرح عزیز ہیں اورانہیں پروفیسرحافظ محمدسعید کی تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ کمٹمنٹ پربھرپوراعتماد ہے۔سیّدعلی گیلانی کانام استعمال کرکے پروفیسر حافظ محمدسعید بارے بدگمانی پیداکرنا بھارت کی ترجمانی اوربھارتی مفادات کی نگہبانی کرنے کے مترادف ہے۔سیّدعلی گیلانی اورپروفیسر حافظ محمدسعید کے درمیان غلط فہمی پیداکرنے کی کوشش بدنیتی پرمبنی تھی جوناکام ہوگئی ۔

جنت نذیروادی کشمیرکومقتل گاہ بنادیاگیاہے ،ہندورنگوں سے سال میں ایک بار لیکن مسلمانوں کے خون سے ہررروزہولی کھیلتے ہیں، کشمیریوں کو آزادی مانگنے پرسزائے موت سنائی جاتی ہے،انہیں موت بانٹنے والے گاندھیوں اور مودیوں سے مقتدرقوتوں کے منتخب حکمران کیوں بازپرس نہیں کرتے،انہیں اپنایہ ڈبل سٹینڈرڈختم کرناہوگا۔مودی مائنڈسیٹ نے جنوبی ایشیاء کے اربوں انسانوں کواپ سیٹ کردیا ہے، دنیاجنوبی ایشیاء میں طاقت کے توازن میں بگاڑ اوردوایٹمی ملکوں کے درمیان تناؤیاتصادم کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔دنیا کے مقتدر ملک کشمیریوں اورفلسطینیوں کوان کے حق آزادی کی فراہمی کیلئے اپنامنصفانہ کرداراداکریں۔جموں وکشمیر میں کشمیریوں کی نسل کشی روکنا ہوگی۔کشمیریوں کی شہادت ان کے حق پرہونے کی ''شہادت ''ہے۔ان مسلسل شہادتوں کے باوجودان کی آزادی کاکارواں رکانہیں تھما نہیں۔اگرکشمیر میں دس بڑی عمر کے افراد راہ آزادی میں اپناسرکٹاتے ہیں توان کے متبادل کی حیثیت سے پندرہ بیس تازہ دم نوجوان مزید اپناسراٹھاتے ہوئے اپنے بزدل دشمن کوللکارتے ہیں،کشمیری شہیدوں کے جنازوں میں آزادی کے حق میں آوازوں کوان کی روح کے مطابق سمجھناہوگا۔یہ کس طرح کے سرپھرے اورسرفروش ہیں جواپنے حق آزادی سے دستبردارہونے کیلئے تیار نہیں۔ کیا آزادی کی آرزوکر نا گناہ ہے،کیا بھارتی بربریت کیخلاف علم بغاوت بلندکرنا جرم ہے۔اِس آزادی کیلئے بھگت سنگھ نے انگریزسامراج کیخلاف بغاوت کی تھی اگروہ بھارت کاہیروہے توپھر مودی سامراج کیخلاف علم بغاوت بلندکرنیوالے کشمیری بھی ہیروزہیں۔

کشمیر کی تحریک آزادی شروع ہوئے سات'' دہائیاں'' ہوگئی ہیں مگرعالمی ضمیر کشمیریوں کی '' دوہائیاں''سننے کیلئے تیار نہیں۔مُردہ ضمیر لوگ مُردہ انسانوں سے بدتراوردھرتی کابوجھ ہیں،جوانسانوں کی نسل کشی اوران کے حقوق کی پامالی پرخاموش رہے وہ بھی مجرم ہے۔متعصب اورانتہاپسند ہندوحکمران کشمیریوں کواسلام اورپاکستان کاپرچم اٹھانے کی سزادے رہے ہیں ،کشمیر ی قوم پاکستان کے ساتھ الحاق کی حامی ہے ۔بھارت باروداوربندوق کے زورپرکشمیریوں کی گردن میں غلامی کاطوق نہیں پہناسکتا،انہوں نے اپنے پیروں میں پڑی بھارتی بیڑیاں توڑدی ہیں ۔ انہیں موت کاکوئی خوف نہیں،وہ سرفروشوں کی طرح سراٹھاکرزندگی گزاریں گے۔کشمیر کے مردتودرکنار خواتین بھی بھارتی درندوں کے مقابل سربکف ہیں،غیورکشمیری حسینیت ؑ پرکاربند ہیں اورانہیں مودی کی صورت میں عہدحاضر کے یذیدکاسامنا ہے۔کشمیر کے لوگ بظاہر نرم ونازک ہیں مگر ان کی قوت اِرادی کسی چٹان کی مانند ہے۔وہ اپناسرجھکاتے نہیں سرکٹاتے ہیں،بھارتی فوج کشمیریوں کومرعوب کرنے کی بجائے الٹا ان سے خوفزدہ ہے۔ فلسطینی اورکشمیریوں کونہتے بھارتی اوراسرائیلی درندوں کامقابلہ کرتے ہوئے دماغ میں ابابیل کاتصورابھرتا ہے ۔اﷲ تعالیٰ نے ابابیل پرندوں سے جوکام لیا وہ تاریخ کاحصہ ہے ۔فلسطینی اورکشمیری بھی ابابیل پرندوں کی طرح اپنے اپنے دشمن شیطان کوکنکریاں مارتے ہیں ،غلیلوں اورپتھروں سے اپنے دشمن کونشانہ بنانے والے اپنے ایمان کی طاقت کے بل پرکئی دہائیوں سے دشمن کودندان شکن جواب دے رہے ہیں۔

جموں وکشمیر میں جاری بھارتی بربریت کانقشہ کس طرح کھینچوں ،وہ الفاظ کہاں سے تلاش کروں اورکس طرح اُس قیامت کے اثرات کوسپردقرطاس کروں جوکشمیرمیں ہرروزہزاربارآتی ہے ۔کشمیریوں کی حالت زار پرلکھتے ہوئے قلم بھی ماتم کرنے لگتا ہے،کاغذ بھی آنسوؤں میں ڈوب جاتے ہیں۔میں کشمیریوں کا دردمحسوس کرتا ہوں ،اپنی بے بسی پر روتا ہوں توان نڈرکشمیریوں کاعزم واستقلال دیکھتے ہوئے میرے آنسو تھم جاتے ہیں۔مجھے ان کی استقامت اورمزاحمت پررشک آتا ہے ۔ آزادی کشمیریوں کابنیادی حق ہے اوراس جہدمسلسل میں اب تک کئی لاکھ کشمیریوں کوشہادت کی سعادت نصیب ہوئی ۔شمع آزادی کے ہزاروں پروانے بھارتی زندانوں میں ناحق قیدکاٹ رہے ہیں،ہزاروں کشمیری زندگی بھر کیلئے معذوربنادیے گئے ، معصوم بچوں اوربچیوں سمیت ہزاروں مردوزن کشمیریوں کی بینائی چھین لی گئی۔جموں وکشمیر میں بھارتی بربریت کیخلاف مزاحمتی تحریک فطری اورجائز ہے۔کشمیر کی آزادی کاخواب شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے شمشیر کے ساتھ ساتھ موثرتدبیر کی بھی ضرورت ہے کشمیر کے ساتھ ہمارا ضرورت نہیں ضمیر کارشتہ ہے ۔کشمیر کے مستقبل کافیصلہ کشمیریوں سے بہترکوئی نہیں کرسکتا ۔مودی سرکار کی طرف سے بھارت کے مختلف شہروں سے جموں وکشمیرمیں منتقل ہونیوالے ہندو گھس بیٹھیے ہیں ،جموں وکشمیر میں ہندوخاندانوں کی آبادکاری اورمودی کی مکاری سے حقیقت تبدیل نہیں ہوگی ۔مشعال حسین ملک نے جومشعل روشن کی ہے وہ کشمیر میں آزادی کاسورج طلوع ہونے تک نہیں بجھے گی ۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126045 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.