قابلِ تحسین و تقلید
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
ایک دینی مدرسے کی دعوت میرے لئے حیران کن
تھی اور میری صحافتی ضرورت بھی۔ ہم لوگ پہنچے تو تقریب کا آغاز ہو رہاتھا،
مسجد کی زیریں منزل میں قالین بچھے تھے، کرسیاں لگی تھیں، پروقار اور پر
سکون ماحول تھا اور سٹیج کے پس منظر میں فلیکس لگا تھا، جس سے پتہ چلتا تھا
کہ ’ہفتہ تقریبات‘منایا جارہا ہے، جس میں حفظ، حسنِ قرآت، اذان، نعت، مضمون
نگاری، مباحثہ، عربی اور اردو تقاریر اور مختلف موضوعات پر کوئز کے مقابلہ
جات شامل تھے۔ جس پروگرام کا ذکر یہاں ہو رہا ہے، وہ مباحثہ تھا۔ عجب منظر
تھا، دیکھنے میں سادہ، عام سے نوجوان، مگر بلا کا اعتماد، لہجے میں ٹھہراؤ،
جذبات میں حدت، گفتار میں گرمی، دلائل کے انبار، الفاظ کا چناؤ بہترین۔ آنے
والے نے جانے والے کی خبر لی، مزید آنے والوں کے لئے سوالات چھوڑے، دلیل سے
ایک دوسرے کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی۔ یہ نہیں تھا کہ تقریریں رٹی ہوئی
تھیں، یقینا بہت حد تک بات کو یاد کیا گیا ہوگا، مگر جانے والے کی باتوں کو
موضوع سخن بنانا ، ان کے اٹھائے گئے سوالوں کے جواب دینا بھی مباحثے کا
حُسن تھا۔ کس کس طرح اِ ن پتھروں کو تراش کر خوش شکل بنا دیا گیا تھا، کون
کون سے جوہر تھے، جنہیں نکھار بخشا گیا تھا؟ نوجوان طالب علموں کی صلاحیتوں
کی تلاش اور ان میں نکھار پیدا کرنے والے جوہر شناس اساتذہ کا بھی کمال
طلبا کے ہنر میں جھلک رہا تھا۔ مقابلہ تو تقریروں کا تھا، مگر ماحول مسرور
ومسحورکر دینے و الا تھا۔ ادارہ مصباح القران میں پورے ہفتے سے اسی قسم کی
تقاریب برپا تھیں۔ ایک منظم میلے کا سماں تھا،وقت کی پابندی، ڈسپلن اور
احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے پروگرام ہو رہے تھے۔
میں سٹیج پر بیٹھا سوچوں میں گم تھا، ایک تو میں ان نوجوان طلبا کی
صلاحیتوں سے متاثر ہو رہاتھا، دوسری طرف ان کے اساتذہ کی محنت بھی میرے
سامنے تھی، مگر ایک اہم بات بھی میرے احساس پر چھا رہی تھی، کہ مدرسے سے
باہر کی دنیا کتنی مختلف تھی، ا خبارات کو دیکھیں، ٹی وی چینلز پر نگاہ
ڈالیں، معاشرے کے مسائل اور مشکلات کو دیکھیں، پریشانیوں میں اضافہ ہوتا
جارہا ہے، رہی سہی کسر دہشت گردی نے پوری کردی ہے، نتیجہ یہ ہے کہ ہر کسی
کی نظر میں ملزم دینی مدارس ہی ہیں۔ لوگ بھی کیا کریں، کہ دہشت گردی کا بیج
بونے والے خود کو مذہب پسند ہی باور کرواتے ہیں،دوسرا ستم یہ ہوتا ہے کہ
کہیں بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو کسی نہ کسی معلوم یا
نامعلوم تنظیم کی طرف سے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کر لی جاتی ہے، جس کی
وجہ سے مذہب پسندوں پر الزام عائد کرنے میں اور بھی آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔
یقینا ایسے بھی کچھ مدارس ہو سکتے ہیں، جہاں دہشت گردی کا درس دیا جاتا ہو،
مگر یہ حقیقت ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ کوئی حقیقی مسلمان کسی دوسرے
انسان کو قتل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ایک انسان
کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔
اپنے ہاں مدارس کی تعلیم، ان کے نصاب اور دیگر معاملات پر حکومتوں، بعض
دانشوروں وغیرہ کو تحفظات ہیں۔ اب تو حکومتیں ان مدارس کے نصاب وغیرہ پر
خصوصی نگاہ رکھے ہوئے ہیں، ان کی مانیٹرنگ سختی سے ہورہی ہے، آئے روز کوئی
نہ کوئی ادارہ آکر انہیں چیک کر لیتا ہے۔ مدارس کا نصاب اب تو دین اور دنیا
کا حسین امتزاج ہے۔ سب کچھ کے باوجود بدقسمتی سے مدارس اور حکومتی گروہ میں
بہت بڑا خلا پایا جاتا ہے، یہ ایک ندی کے ایسے کنارے ہیں جو آپس میں ملتے
دکھائی نہیں دیتے، یا یوں کہیے کہ ایک دوسرے کے ساتھ مستقل برسرِ پیکار
ہیں۔ حالانکہ دونوں ہی مسلمان ہیں، پاکستانی ہیں، محب وطن ہیں۔ بات یہیں
ختم نہیں ہوتی، مذکورہ مدرسہ میں ماہانہ پروگرام بھی ہوتے ہیں، جس میں ہر
مرتبہ کوئی نیا موضوع ہوتا ہے، مہمان مقرر کا بہت سوچ بچار کے ساتھ انتخاب
ہوتا ہے، مذہبی، سماجی اور اصلاحی موضوعات پر لیکچر ہوتا ہے،ورکنگ وومن کے
لئے تربیتی پروگرام ہوتے ہیں، صرف مدرسہ کے اساتذہ اور طلبہ ہی اس میں شامل
نہیں ہوتے، بلکہ شہر سے بھی لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ یہ تو ایک چھوٹے سے
مدرسے کی مثال ہے، بے شمار ایسے مدارس موجود ہیں، جہاں بہترین انداز میں
مستقبل کی پیش بندی ہورہی ہے۔ یہاں سے تیار ہو کر نکلنے والے طالب علم جب
میدان عمل میں جائیں گے تو وہ یقینا معاشرے کے کارآمد اور باعمل شہری ہی
نہیں ہونگے بلکہ اپنی تربیت کے نتیجے میں قائدانہ کردار بھی ادا کریں گے۔ |
|