امتحانات میں کامیابی کے لیے چند خاص باتیں۔۔!!
(Rehman Mehmood Khan, Islamabad)
سالانہ امتحان میں ہر سوال کو اس کے دیے گئے نمبرز کے مطابق ہی اہمیت دیں
|
|
پیارے بچو!!یہ تو آپ جانتے ہیں کہ جو کوشش
کرتا ہے وہی کامیابی حاصل کرتا ہے، جو محنت کرتا ہے اسی کو کامیابی ملتی ہے۔
جب امتحان قریب ہوتا ہے تو ان دنوں ہمارے بچوں میں دن رات پڑھنے کا شوق
زیادہ پیدا ہوجاتا ہے، وہ کمر کس کر محنت اور جد وجہد میں لگ جاتے ہیں۔ چند
روز بعدآپ کے سالانہ امتحانات کا آغاز ہونے والا ہے اور آپ کامیابی کے لیے
ہر ممکن کوشش کر رہے ہوں گے۔دوستو!!آپ کے ماما بابا بھی آپ کو امتحان کی
تیاری کی طرف دھیان دلاتے ہیں۔
چیزیں یاد رکھنے کے لیے!!
بچو!! امریکی صدر ابراہم لنکن کا طریقہ آپ کو بتاتا ہوں کہ وہ کیسے کوئی
چیز یادرکھتا تھا۔
’’ابراہم لنکن کسی چیز کو یاد رکھنا چاہتا تھا تو اسے بلند آواز میں پڑھا
کرتا تھا۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ جب میں کوئی چیز بلند آواز سے پڑھتا ہوں تو
مجھے دو فائدے ہوتے ہیں۔
ا۔ مجھے معلوم ہوجاتا ہے کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں۔
2۔ میں جو کچھ پڑھتا ہوں اسے سُن بھی لیتا ہوں۔‘‘
دوستو!جو خیال بھی آپ کے ذہن میں آئے اسے لکھ لیں اور اپنے ذہن کو دوسرے
خیالات کی تلاش میں مصرو ف رکھیں۔کسی چیز کو یاد کرنے کے بعد اسے لکھنے کی
عادت بھی مفید ہے۔اس کے کئی فائدے ہیں۔اس سے سوچنے کی صلاحیت تیز تر ہوتی
ہے،وہ چیز واضح طور پر ہمارے دماغ میں محفوظ ہو جاتی ہے، غلطیوں کی نشاندہی
ہوتی ہے، لکھنے کی مشق ہوتی ہے، املاء یاسپیلنگ کی غلطیوں کی درستگی ہوجاتی
ہے اور لکھنے کی رفتار یعنی رائٹنگ پاور میں اضافہ ہوتا ہے۔
تاریخیں یاد رکھنے کے لیے!!
مطالعہ پاکستان یا تاریخ کے کسی مضمون میں ہمیں بے شمار تاریخیں یاد رکھنے
کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انھیں ذہن میں پہلے سے ہی موجود تاریخوں کے ساتھ
جوڑ لیں۔ مثال کے طور پر ایک پاکستانی کے لیے یہ یاد رکھنا مشکل ہے کہ
پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس 11 اگست کو 1947 ء کو منعقد ہوا
تھا۔ تاہم ہر پاکستانی یہ ضرور جانتا ہوگا کہ پاکستان 14 اگست 1947ء کو
معرضِ وجود میں آیا تھا۔اگر اسے بتایا جائے کہ قیام پاکستان سے صرف تین دن
قبل دستور ساز اسمبلی کا اجلاس ہوا تھا تو اس کے لیے یہ تاریخ یاد رکھنا
مشکل نہیں رہے گا۔ اسی اصول کی مدد سے تمام اہم تاریخی واقعات کی تاریخیں
یاد رکھی جا سکتی ہیں۔
سوالات کو حل کرنے کا اہم اصول
1۔ امتحان میں کسی سوال کا جواب لکھنے سے پہلے سوالنامہ کو اچھی طرح پڑھیے
اور سمجھئے۔ اگر پرچہ کئی حصوں پر مشتمل ہو تو ہر حصے کو اس کے نمبر اور
ضخامت کے لحاظ سے مناسب وقت دیجئے۔ ہر حصے میں پہلے وہ سوال حل کریں جو آپ
کو سب سے آسان لگتا ہو یا جو آپ کو سب سے اچھی طرح یاد ہو اور حل کرنے کے
بعد اس پر نشان لگادیں۔ اس کے بعد دوسرا آسان سوال حل کریں۔ امتحان
میں’’وقت‘‘کی بڑی اہمیت ہے۔ لہٰذا گھڑی ہمیشہ ساتھ رکھیے بلکہ اس کا وقت
پانچ دس منٹ آگے کر لیجئے تاکہ اعادہ کے لیے بھی وقت مل سکے۔ امتحان میں
لکھنے کی رفتار کو مقررہ وقت کے متوازی رکھنے کی مشق گھر میں پرانے پرچہ
جات کو ایمانداری کے ساتھ حل کر کے بھی کی جا سکتی ہے۔
2۔ معروضی سوالات یا ملٹی پل چوائس سوالات کے جوابات لکھنے کے دوران اگر آ
پ کسی سوال میں’’گمان‘‘ یا گیس(Guess) کر رہے ہیں تو ہمیشہ اپنے پہلے گمان
پر بھروسہ کریں اور اسے اس وقت تک تبدیل نہ کریں جب تک آپ کے پاس کوئی
معقول وجہ نہ ہو۔ اگر منفی مارکنگ یا نمبر ز کٹنے کا خدشہ نہ ہو تو ہرگز
کوئی سوال نہ چھوڑیں۔ چاہےGuess لگانا پڑے مگر سارا پرچہ ضرور حل کریں۔
3۔ ہر سوا ل یکساں نہیں ہوتا۔ کوئی مشکل لگتا ہے اور کوئی آسان۔ زیادہ مشکل
یا طویل سوالات میں بہت زیادہ وقت صرف نہ کیجئے۔ ہر سوال کو اس کے دیے گئے
نمبرز کے مطابق ہی اہمیت دیجئے۔ پہلے آسان اور چھوٹے سوالات حل کر لیجئے ،
اس کے بعد مشکل اور طویل سوالات کی طرف جائیے۔
4۔ پرچہ حل کرنے کے بعد اعادہ کرنے کے لیے ضرور وقت نکالیے تاکہ املاء یا
دوسری نادانستہ غلطیوں کو درست کیا جا سکے۔
خاص بات
بچو!!امتحانات کے دوران تو آپ نمازوں کی ادائیگی اوردعائیں کرتے ہیں کہ’’اے
اﷲ! ہمیں کامیاب کردے،ہماری پوزیشن آئے‘‘وغیرہ وغیرہ لیکن ایک بات جو
انتہائی اہم اور خاص ہے کہ امتحانات کے علاوہ بھی کوشش کریں کہ آپ پانچ وقت
کی نمازوں کے پابند بن جائیں تاکہ مشکل کی کسی گھڑی میں بھی رب تعالیٰ سے
رجوع کرسکیں۔ضروری نہیں کہ مشکل میں ہی اﷲ کو یاد کیا جائے،نارمل حالات میں
بھی اﷲ کو یاد کرنے کا راستہ اپنائے رکھیں۔
والدین کے لیے چند گزارشات
امتحان کا موقع بچوں کی تربیت کا سنہرا موقع ہوتاہے، اس موقع سے مربی اور
والدین اپنے بچوں کی خاطر خواہ دینی تربیت کرسکتے ہیں۔ بچوں کو بتایا جا
سکتا ہے کہ آپ کتنی بھی محنت کرلو اگر توفیق الٰہی نصیب نہ ہوئی تو کچھ بھی
نہیں کرسکتے، لہٰذا پہلی فرصت میں اﷲ سے تعلق جوڑو اور اس سے توفیق کا سوال
کرو۔ اس لیے بچوں کے ذہن ودماغ میں ہمیشہ یہ احساس بٹھانے کی کوشش کرنی
چاہیے کہ ہر معاملے میں اﷲ پر اعتماد کیا جائے، اسی سے لو لگایا جائے اور
اسی پر مکمل بھروسہ کیا جائے، پھر اس کے بعد بچے کے اندر خود اعتمادی اور
سیلف کانفیڈنس( خوداعتمادی) پیدا کیا جائے کیونکہ خوداعتمادی کامیابی اور
شخصیت سازی کے لیے بنیادی ہتھیار کی حیثیت رکھتی ہے۔بچوں کو امتحانات میں
چوری اور دھوکہ دہی سے بچائیں اور تاکید کریں کہ مسلمان چوری نہیں کرتے،
دھوکہ نہیں دیتے اور جو ایسا کرتا ہے بعد میں اس عمل پر نادم اور پشیمان
ہوتا ہے۔
ضرورت ہے کہ ماں باپ ‘اپنے بچوں کے لیے آئیڈیل بنیں، خود نماز کی پابندی
کریں، قرآن کی تلاوت کریں اور بچوں کی بھی اسیطرز پر تربیت کریں۔
٭٭٭ |
|