رحمتِ خدا بوسیلہ اولیا اللہ

جس پر آشوب زمانہ سے ہم گزر رہے ہیں یہ مسلمانوں کیلئے نہایت ہی فتنوں اور آزمائشوں کا زمانہ ہے۔ آج خوش نصیب ہے وہ شخص جس کا ایمان موجود فتنوں سے بچ سکے۔ بدمذہبی اور بے دینی کی ایسی آندھی چل رہی ہے جس سے سادہ لوح مسلمانوں کا ایمان خطرہ میں ہے۔ اگرچہ اسلام میں نئے نئے فرقے پہلے بھی پیدا ہوتے رہے لیکن جو بیماری آج ہے وہ اس سے پہلے مسلمانوں میں سننے میں بھی نہیں آئی تھی۔ آج ہر جاہل شخص مفسرِ قرآن بن گیا ہے۔ اسلام کے ایسے مسلمہ مسائل جن کے متعلق یہ گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ کوئی کلمہ پڑھنے والا ان کا انکار کریگا۔ آج ان مسلم الثبوت مسائل کے منکر پیدا ہو گئے۔ انہی مسائل میں سے اللہ کے پیارے اور مخلص رسولوں اور ولیوں کا وسیلہ ہے۔ ہر زمانہ میں ہر شخص وسیلہ کا قائل اور معتقد رہا مگر آج وسیلہ کے منکر پیدا ہو گئے ہیں۔ وہ جو دنیاوی مصیبتوں اور آلام میں حاکموں اور حکیموں کے پاس بھاگے اور مارے مارے پھریں مگر انبیائے کرام اور اولیائے کرام کے وسیلہ کو مشرک اور مرتد کہتے ہوئے ذرا خوف نہیں کرتے۔ خدائے تعالٰی کا غضب جس قوم پر ہوتا ہے اسے اللہ تعالٰی وسیلہ سے محروم کر دیتا ہے۔ اور جن پر اللہ تبارک و تعالٰی کی رحمت ہوتی ہے انہیں اس کے پیاروں کا وسیلہ نصیب ہوتا ہے۔ تمام فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو قربِ الٰہی کا وسیلہ جان کر ان کے سامنے اپنا سر جھکا دیا وہ مقبولِ بارگاہ ہے۔ شیطان نے بے وسیلہ لاکھوں عبادتیں کیں مگر آدم علیہ السلام کو وسیلہ نہ بنایا اور مردود بارگاہِ الٰہی ہوا۔

تمام امتِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کا اتفاق رہا ہے کہ اللہ تعالٰی کے پیاروں کا وسیلہ پکڑنا جائز ہے۔ مگر اب آخر زمانہ میں ایک ملحد ابنِ تیمیہ اور اس کے شاگرد ابن قیم نے اولیا اللہ کے وسیلہ کا انکار کیا۔ علمائے دین نے ابن تیمیہ کو گمراہ قرار دیا ہے۔ موجودہ زمانے کے کچھ لوگ ابن تیمیہ کی پیروی میں وسیلہ کے منکر ہو گئے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ سادہ لوح مسلمانوں کو اس مسئلہ سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ اس شیطانی کے جال سے محفوظ رہ سکیں۔ اور میں ان لوگوں کو جو کہ ذرا ذرا سی بات پر اپنے خود رو نظریات کر پرچار کرتے ہوئے جمیع امت پر شرک کے بے دھڑک فتوے لگا دیتے ہیں خدارا سوچئے کہ اگر آج بھی اس امت کو پیار اور محبت سے اللہ اور اس کے حبیب کے احکامات سنا کر صراطِ مستقیم کی طرف بلایا جائے تو ہرگز ہرگا تردد نہ کریں گے بلکہ دوڑ کر شاملِ زمرہِ حق ہوں گے یہ وہ طریقِ کار ہے جس سے بگڑے ہوئے سنور بھی سکتے ہیں گمراہِ راہ صداقت بھی پا سکتے ہیں۔ اگر اب بھی اس طریقِ کار کو نہ اپنایا گیا تو آنے والی نسلیں ہمیں الزام دیں گی کہ ہمارے اکابر کیسے نااہل تھے جنہوں نے امت مسلمہ کو ترقی دینے کی بجائے تنزل کی اندھیری وادیوں میں دھکیل دیا۔ میں صمیمِ قلب سے کہتا ہوں کہ واللہ! اس امت کا مرض شرک نہیں بلکہ اس امت کا مرض خود غرضی، خود پرستی اور ہوس مال و زر ہے۔ جب تک مرض تشخیص نہ ہو علاج ممکن نہیں اور جب مرض کی تشخیص ہو جائے تو علاج ممکن بلکہ آسان بھی ہو جاتا ہے۔ اس امت کو وہ دوا چاہئے جو خود پرستی، خودغرضی اور ہوسِ مال و زر ہو کا شافی نسخہ ہو۔

وسیلہ کیا ہے؟ اہلِ لغت نے وسیلہ کی تعریف یوں کی ہے “جس کے زریعے کسی دوسری چیز کا قرب حاصل کیا جا سکے، اسے وسیلہ کہتے ہیں“۔ جبکہ کسے شے کو کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ بنانا توسل ہے۔ شرعی اصطلاح میں توسل یہ ہے کہ “اللہ تعالٰی کا قرب اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے کسی ایسی ہستی یا عمل یا شے کو ذریعہ بنایا جائے جو اللہ تعالٰی کے نزدیک محبوب اور پسندیدہ ہو“۔
ارشاہِ باری تعالٰی ہے “اے ایمان والو، اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈھو“۔ (المائدہ ٣٥: کنز الایمان)

اس آیتِ مقدسہ میں وسیلہ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کچھ لوگ صرف اعمالِ صالحہ کو وسیلہ قرار دیتے ہیں حالانکہ کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ اس کے اعمال بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہیں یا نہیں؟ جبکہ اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ کے محبوب ہونے میں کسی مومن کو کوئی شبہ نہیں ہو سکتا۔ اور جب ان اعمالِ صالحہ کو جو کہ مخلوق ہیں اور جن کی مقبولیت مشکوک ہیں، وسیلہ بنایا جا سکتا ہے تو سب سے بہتر مخلوق نبی کریم کا وسیلہ کیوں نہیں بنایا جا سکتا جو اللہ کے محبوب اور مقبول بندے ہیں۔ کفارِ مکہ بھی ہر مصیبت یعنی قحط سالی کے موقع پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر دعا کراتے تھے۔ اونٹوں چڑیوں اور ہرنیوں نے مصیبت میں حضور عیہ السلام سے فریادیں کیں۔ اعلٰی حضرت نے کیا خوب کہا ہے:
ہاں یہیں کرتی ہیں چڑیاں فریاد
ہاں یہیں چاہتی ہیں ہرنی داد
اسی در پر شتران ناشاد
گلہ رنج و عناد کرتے ہیں

غرضیہ پاک بندوں کا وسیلہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی کفار اور بے عقل مخلوق بھی قائل ہے مگر افسوس کہ اس ظاہر مسئلہ کے ایسے منکر ہوئے تو کون جانور نہیں رام لعل دوار کا پرشاد نہیں۔ اسلام کے ٹھیکے دار بننے والے مولوی نے فقط انکار ہی نہیں کیا بلکہ اس کے تمام وعظ جلسے مجلسیں اس کیلئے وقف ہو گئیں۔ وسیلہ کے قائل مسلمانوں پر شرک و کفر اور طغیان کے فتوے لگنے لگے۔ بتوں کی آیات بیغمبروں پر اور کفار کی آیات مسلمانوں پر چسپاں ہونے لگیں۔ اللہ تعالٰی کے پیاروں اور مخلص بندوں کی شان میں ایسی گستاخیاں ہونے لگیں کہ کبھی کفار کو بھی ایسی جرات نہیں ہوتی تھی۔ بعض سادہ لوگ مسلمان ان کے جبہ ودستار دیکھ کر ان کے جال میں پھنس گئے اور یہ بیماری متعدی مرض کی طرح روز بڑھنے لگی۔

اللہ تعالٰی قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرکے آپ کے آسمانے پر آجائیں اور اللہ سے معافی چاہیں اور آپ بھی ان کی سفارش کریں تو بیشک یہ لوگ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے۔(٦٤-٤)

اس آیتِ کریمہ سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام ہر مجرم کیلئے ہر وقت تا قیامت وسیلہ مغفرت ہیں۔ ظلمو میں کوئی قید نہیں اور اِذن عام ہے۔ یعنی ہر قسم کا مجرم ہمیشہ آپ کے پاس حاضر ہے۔
(٢) اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہے اور رب کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو کہ تم کامیاب ہو۔ (٣٥-٥)

اس آیتِ کریمہ سے ظاہر ہوا کہ اعمال کے علاوہ اللہ تعالٰی کے پیارے بندوں کا وسیلہ ڈھونڈنا ضروری ہے کیونکہ اعمال تو اتقو اللہ میں آ گئے اور اس کے بعد وسیلہ کا حکم فرمایا۔ معلوم ہوا کہ یہ وسیلہ اعمال کے علاوہ ہے۔

(٣) یہ اہل کتاب حضور کی تشریف آوری سے پہلے حضور کے طفیل کفار پر فتح کی دعا کرتے تھے۔ (٨٩-٢)

معلوم ہوا کہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے اہل کتاب آپ کے نام کے وسیلہ سے جنگوں میں دعائے فتح کرتے تھے اور قرآن کریم نے ان کے اس فعل پر کوئی اعتراض نہ کیا بلکہ تائید کی اور فرمایا کہ ان کے نام کے وسیلہ سے تم دعائیں مانگا کرتے تھے اب ان پر ایمان کیوں نہیں لاتے۔

اب بعض لوگ تو اولیا اللہ کے وسیلہ کے سرے سے منکر ہیں اور بعض وفات یافتہ بزرگوں کے وسیلہ ہونے کے منکر ہیں اور زندہ ولیوں کے وسیلہ کے قائل ہیں۔ اب ہم ان اعتراض کے جوابات پیش کرتے ہیں۔

اللہ ہمارا محبوب ہے اور اولیا اللہ کے محبوب ہیں۔ جب یہ اللہ کے محبوب ہیں تو یہ ہمارے بھی محبوب ہیں۔ دوست کے دشمن کو ہم اپنا دوست نہیں بنا سکتے اور دوست کے محبوب کو ہم اپنا دشمن قرار نہیں دے سکتے۔ ہم اولیا کو اس لئے مانتے ہیں کہ یہ اللہ کے محبوب ہیں اور ان کو اللہ سے نسبت ہے۔ اولیا سے نسبت رکھنا اللہ سے نسبت رکھنے کی دلیل ہے۔ اور جو اللہ والا نہ ہو اس کا اولیا سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ اولیا سے قرب اللہ کے قرب کے حصول کی دلیل ہے۔ جن لوگوں نے اولیا سے علیحدگی اختیار کی ان لوگوں نے اللہ سے علیحدگی اختیار کی۔ بعض لوگ کہتے ہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی اللہ تعالٰی فرماتا ہے:
ہم تو ان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں (سورہ: ق)
اب ولی کی بیچ میں کیا ضرورت رہ گئی؟ اگر اللہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے تو بات ختم ہو گئی کہ ہم اللہ کا قرب حاصل کرنے کیلئے انبیا و اولیا کی ذوات کو وسیلہ بنائیں۔ اب خدا کی فرمان کے مطابق وہ ہمارے قریب ہے، وہ ہماری بات سنتا ہے، ہمیں دیکھتا ہے اور ہمارے دل کی بات جانتا ہے تو ان ذوات کے وسیلہ کی کیا ضرورت پڑ گئی؟ بلکہ بات یہاں تک سامنے آ گئی کہ مشرکوں کا عقیدہ تھا وہ کہا کرتے تھے:
ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں تو محض اس لئے کہ یہ ہمیں خدا کے قریب کر دیں گے (سورہ الزمر)

تو معلوم ہوا کہ خدا کسی کو خدا کے قریب کرنےکا عقیدہ رکھنا، یہ تو مشرکوں کا عقیدہ تھا۔ مسلمانوں کا عقیدہ کہاں گیا؟ ہمارا خدا تو ہمارے قریب ہے لہٰذا ہمیں کیا ضرورت ہے کہ کسی کو خدا کے قرب کا وسیلہ اور ذریعہ بنائیں؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ کہنا کہ مخلوق کسی بندے کو اللہ کے قریب نہیں کر سکتی یہ بنیادی طور پر غلط ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہوتی تو قرآن کریم میں اللہ یوں کیوں فرماتا: پیارے حبیب (صلی اللہ علیک وسلم) ہم نے آپ کو شاہد بنا کر بھیجا۔ مبشر بناکر بھیجا۔ ہم نے آپ کو نذیر بنا کر بھیجا۔ ہم نے آپ کو اپنے حکم سے اپنے بندوں کو اپنی طرف بلانے والا بنا کر بھیجا۔ اللہ اکبر۔۔۔۔۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضور اکرم جب اللہ کے بندوں کو اللہ کے حکم سے اللہ کی طرف بلائیں گے تو اللہ کے بندوں کو اللہ کے قریب کریں گے یا نہیں؟ تو یہاں ہم کو کیوں یاد نہیں آیا کہ اللہ خود سمیع و بصیر ہے۔ وہ خود ہی اپنے بندوں کو اپنی طرف متوجہ کر لے۔ اب نبی کی کیا ضرورت پڑ گئی؟ کہ یہ انبیا و اولیا کی ذواتِ مقدسہ اللہ کے قرب کے حصول کا وسیلہ او ذریعہ بن سکتے ہیں۔ آئیے اب مشرکین کے اس قول کی وضاحت کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ہم ان (باطل) معبودوں لات، منات، عزی اور ہبل کی صرف اس لئے عبادت کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں۔ بالکل ٹھیک ہے مشرکین یہی کہتے تھے۔ لیکن کم از کم (ما نعبدھم) کا مطلب تو سمجھو (ہم ان کی عبادت نہیں کرتے صرف اس لئے کرتے ہیں) بھائی کسی کیلئے عبادت تو کریں۔ عبادت کرتے ہیں اور وہ بھی بتوں کی عبادت کرتے ہیں۔ کس لئے کرتے ہیں، ان کی غرض کیا ہے مقصد کیا ہے؟ مگر وہ بتوں کی عبادت کے قائل ہیں۔

الحمد اللہ! ہمارا ایمان کے کہ ہمارا معبود اللہ کے سوا کچھ نہیں۔ ہم نہ انبیا کی عبادت کرتے ہیں اور نہ ہی اولیا کی عبادت کرتے ہیں۔ اگر خدا کے سوا کسی کی عبادت کرتے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتے مگر ہم ان کی بھی عبادت نہیں کرتے۔ مشرکین کہتے تھے ہم ان کی عبادت کرتے ہیں۔۔۔یہی تو شرک ہے اور ہم کسی کی عبادت نہیں کرتے۔ یہاں دو باتیں ہیں ایک تو مشرکین غیر اللہ کی عبادت کرتے تھے دوسرے اس لئے کہ وہ انہیں خدا کے قریب کر دیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بتوں میں خدا کے قریب کر دینے کی صلاحیت تھی؟ بھئی نہ تو ان میں خدا کے قریب کر دینے کی صلاحیت تھی اور نہ وہ معبود ہو سکتے تھے کیونکہ معبود تو صرف ایک ہی ہے۔ اگر بتوں میں خدا کے قریب کر دینے کی صلاحیت نہیں تھی تو کیا انبیا و اولیا میں خدا کے قریب کر دینے کی صلاحیت ہے؟
آئیے قرآن پاک سے اس کی دلیل دیکھتے ہیں۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے:
میرے بندو! اللہ کی طرف کوئی وسیلہ ڈھونڈو۔ (سورہ المائدہ)

یہ ہماری بات نہیں، قرآن ہے۔ کوئی حدیث بھی نہیں کہ کوئی ضعیف کہہ دے۔ یہ تو قرآن کی آیت ہے۔ اللہ تعالٰی ہمیں خود وسیلہ ڈھونڈنے کا حکم دے رہا ہے۔ تو جس چیز کا حکم خود خدا دے تو اس کو شرک کہنے والا پھر کون ہوگا؟ رہا یہ امر کہ اس سے مراد یہاں انبیا و اولیا تھوڑے ہیں۔ نماز ہے، روزہ ہے، حج ہے، زکٰوہ ہے او اعمالِ صالحہ ہیں۔ تم نے مخلوق کو وسیلہ بنایا یہ کیا بات ہوئی؟ اگر یہ بات کہی جائے تو یہ اس سے بھی زیادہ غلط ہے۔ اگر اعمالِ صالح ہی وسیلہ بن سکتے ہیں تو بتائیں کہ اعمال مخلوق ہیں یا خالق؟ اللہ تعالٰی فرماتا ہے:
اور اللہ نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے اعمال کو۔ (سورہ: صٰفٰت)
اب بتائیں کہ اعمال مخلوق ہیں یا نہیں؟ بڑی حیرت ہوتی ہے کہ اعمال جو مخلوق ہے وہ وسیلہ ہو سکتے ہیں اور جو شخص اعمالِ صالح کا فاعل ہو وہ وسیلہ نہیں ہو سکتا۔

اعمالِ صالحہ کو تو ہم قرآن کی روشنی میں وسیلہ مانتے ہیں مگر یاد رہے کہ عمل تو کوئی چیز نہیں ہے، وہ تو ایک عرض ہے۔ ایک امر معنوی ہے وہ تو خود تو نہیں پائا جاتا۔ ایک سوال کا جواب دیجئے کہ نماز کہیں پائی جاتی ہے؟ بھئی اگر نماز کہیں پائی جاتی ہے تو نمازی میں پائی جاتی ہے۔ نمازی نماز پڑھے گا تو نماز کا وجود ہو گا۔ نمازی نہ ہو تو قیام کہاں ہو گا، رکوع کہاں ہو گا، سجود کہاں ہو گا؟ ہم اولیا کو وسیلہ اس لئے مانتے ہیں کہ اعمالِ صالحہ کا وجود بغیر عامل کے نہیں ہو سکتا۔ ورنہ نمازی سے الگ ہو کر نماز ڈھونڈو۔

ہم اولیا کرام کی ذواتِ قدسیہ کو جو وسیلہ مانتے ہیں تو وہ اعمالِ صالحہ سے الگ متصور کرکے وسیلہ نہیں مانتے۔ اور ان کو وسیلہ ماننا دراصل اعمال ہی کا وسیلہ ماننا ہے۔ اعمالِ صالحہ کو تو ہم اصل اور بنیاد مانتے ہیں اگر اعمال کا تصور ہٹا لیا جائے تو پھر وسیلہ، وسیلہ نہیں رہتا۔ اور یہ بات تو ثابت ہے کہ کوئی نیک عمل اس وقت تک وسیلہ نہیں ہو سکتا جب تک اس کا تعلق کسی نیک ذات سے نہ ہو۔ بتائیے کیا منافق نماز نہیں پڑھتے تھے؟ کلمہ پڑھنے تھے یا نہیں؟ کیا ان کی نماز ان کیلئے وسیلہ تھی؟ کیا ان کا کلمہ ان کیلئے وسیلہ تھا؟ ہرگز نہیں۔ اس کی کیا وجہ تھی۔ اس کہ وجہ یہ تھی کہ منافق وہ نماز پڑھتے تھے جس نماز کی کوئی نسبت پیارے مصطفٰی سے نہیں تھی۔ تو پتہ چلا کہ کوئی نماز اس وقت تک قابلِ قبول نہیں جب تک اس کی نسبت نماز لانے والے کی طرف نہ ہو۔ ورنہ نقالی ہو گی او نقالی کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہی فرق ہے نقالی میں اور اتباع میں۔ اللہ تعالٰی نے ہمیں حضور علیہ السلام کی اتباع کا حکم دیا تو منافقین حضور کی اتباع نہیں بلکہ نقالی کرتے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے
Hafiz Jamil
About the Author: Hafiz Jamil Read More Articles by Hafiz Jamil: 12 Articles with 52261 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.