اس موضوع پر تین روایات پیش کرتا
ہوں
پہلی روایت : ترجمہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو میری
قبر کے قریب درود پڑھے تو میں سنتا ہوں اور جو دور سے پڑھے وہ مجھ تک
پہنجایا جاتا ہے" یہ روایت امام عقیلی سے منسوب ہے اور وہ اسے روایت کرنے
کے بعد کہتے ہیں کہ یہ بے اصل ہے۔ اور اس روایت کے ضعیف ہونے کے لیے راوی
کا فرمان ہی کافی ہے۔ اس کے علاوہ اسے میں ایک راوی محمد بن مروان ہے اور
وہ متروک الحدیث ہے۔ جریر کہتے ہیں کہ وہ کذاب ہے۔ عقیلی کہتے ہیں کہ ابن
نمیر کہتے تھے کہ وہ کذاب ہے۔ امام نسای اس کو متروک الحدیث کہتے ہیں۔ ابن
حبان نے کہا کہ وہ وضاع ہے۔
دوسری روایت " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی بندہ
میری قبر کے پاس مجھ پر سلام کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ
ایک فرشتہ اس سلام کو مجھ تک پہنچا دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔! بیہقی۔ یہ روایت بھی
ضعیف ہے۔ اس میں محمد بن موسی البصری ہے جس کے بارے میں ابن عدی کہتے ہیں
کہ وہ حدیثیں بناتا تھا۔ ابن حبان کہتے ہیں کہ روایتیں بناتا تھا اور اس نے
ایک ہزار سے زیادہ حدیثیں گھڑی ہیں۔ (میزان الاعتدال جلد 3 ص 141)
معنی کے لحاظ سے ان دونوں روایتوں میں تضاد ہے۔ پہلی روایت حضور کا قبر کے
قریب سماع ثابت کرتی ہے اور دوسری عدم سماع کا۔ یعنی وہ سنتے نہیں بلکہ
پہنچایا جاتا ہے۔
اب تیسری روایت پیش کرتا ہوں جو اوپر کی دونوں روایتوں کو جھوٹا ثابت کرتی
ہے۔ یہ بخاری کی ایک مشہور حدیث ہے اور کافی طویل ہے۔ میں صرف اس کا آخری
حصہ پیش کرتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔اور وہ پہلا گھر جس میں آپ داخل ہوئے وہ عام مومنین کا گھر تھا اور
یہ شہداء کے گھر ہیں اور میں جبرئیل ہوں اور یہ میرے ساتھی میکایل ہیں۔ ذرا
اپنا سر اوپر تو اٹھائيے۔ میں نے سر اٹھایا اوپر بادل سا دیکھا۔ ان دونوں
نے کہا کہ یہ آپ کا مقام ہے۔ میں (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہا کہ مجھے
چھوڑ دو کہ میں اپنے گھر میں داخل ہو جاؤں. ان دونوں نے کہا کہ آپ کی عمر
کا کچھ حصہ ابھی باقی ہے جس کو آپ نے ابھی پورا نہیں کیا اگر آپ اس کو پورا
کر لیں گے تو اپنے اس گھر میں آ جائیں گے۔ صحیح بخاری مطبوعہ دہلی ج 1 ص
185
امام بخاری نے یہ حدیث لا کر یہ ثابت کیا کہ نبی پاک اپنی قبر مبارک میں
زندہ نہیں بلکہ جنت کے اعلیٰ ترین مقام پر زندہ ہیں۔ دوسری طرف وہ ضعیف
احادیث ہیں جن کا آپس میں بھی تضاد ہے۔ ایک سچا مسلمان ضعیف احادیث کو ضرور
رد کرے گا اور صحیح احادیث پر دل و جان سے یقین کرے گا اور ہمارے ایمان کا
تقاضہ یہ ہے کہ اگر ہمیں کوئی ایسی حدیث ملے جس میں علماء کا اختلاف ہو تو
اپنے طور پر بھی اس کی تحقیق کر لیں۔ انشاء اللہ اس ذات اقدس کی مہربانی سے
آپ حق بات تک ضرور پہنچ جائیں گے۔ |