زمانہ آیا بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جسکا وہ راز اب آشکار ہو گا
یہ شعر ڈاکٹر علامہ اقبال کا ہے،کس خوبصورتی کے ساتھ انہوں نے معاشرے کے
بدلتے ہوئے رنگ کا ذکر کیا ہے،یہ زمانہ وہ ہے جب بیٹے اپنے ماں باپ کو Old
House بھیجنا فیشن سمجھتے ہیں،جب بھائی اپنی بہن کو پینٹ شرٹ میں دیکھتے
ہیں تو فخر کے ساتھ اُن کے ساتھ چلتے ہیں،جب لوگ ہندوں کے گانے بجانے کو
اپنی گاڑی میں Full Volume میں چلانے کو فخر محسوس کرتے ہیں،جب لوگ محنت سے
اتنا گھبرانے لگے ہیں کے اپنی اولادوں کو سڑکوں پر بیچنے کے لئے نکل پڑتے
ہیں پر محنت نہیں کرتے،جب لوگ سڑکوں پر اپنے آپ کو آگ لگا کر حرام موت مرنا
پسند کرتے ہیں لیکن اﷲ پر بھروسہ نہیں کرتے ،جب فحاشی عام ہو چکی ہے،پیسے
کے لئے لوگ اپنی عزت تک بیچنے کو تیار ہو جاتے ہیں،پیسے کے لئے جہاں لوگ
اپنی بیوی بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں،جہاں بہن بیٹی کو کوئی یہ کہنے والا
نہیں ہے کے بیٹی پردہ کیا کرو،جہاں انٹر نیٹ،فیس بک،وغیرہ اتنا انگریزوں نے
عام کر دیا ہے کے لوگ قرآن کا غلاف صاف نہیں کرتے اپنے موبائیل کی اسکرین
روز صاف کرتے ہیں ،جہاں لوگ درد بھرے گانے رات بھر سُن سکتے ہیں 2 منٹ کی
آذان سے اُن کو تکلیف ہوتی ہے ،اگر کسی لڑکے کی کوئی Girl Friend ہو تو سب
کہتے ہیں واہ واہ کیا بات ہے اور اگر وہی بندہ نماز پڑھتے نظر آجائے تو سب
مذاق اُڑاتے ہیں کے ماشا ء اﷲ آج تو تم مسلمان ہو گئے،آج شادیوں کے لئے
دکھاوے کے لئے 15 لاکھ بھی خرچ ہو سکتے ہیں کسی غریب کے لئے ۱۵ روپے بھی
نہیں نکلتے،آج گناہ کر کے انسان فخر سے بتاتا تھا،آج دوسرے کی بہن لوگوں کو
اچھی لگتی ہے دوسرے کی بیوی اچھی لگتی ہے لیکن جس کو اﷲ نے تمہارے لئے حلال
کیا ہے وہ اچھی نہیں لگتی جانتے ہیں کیوں ،کیوں کے جس کے منہ کو حرام لگ
گیا ہو اُس کو حلال اچھا نہیں لگتا،آج ماں باپ کی بے احترامی کو فیشن سمجھا
جاتا ہے،اگر باپ دوستوں کے سامنے ڈانٹ دے تو بیٹا باپ پر بھی ہاتھ اُٹھا
لیتا ہے،آج کے دور میں بیٹی باپ سے بھی ڈرتی ہے کیوں کے معاذ اﷲ باپ نے بھی
کئی جگہوں پر اپنی بیٹی کی عزت کو پامال کیا ہے،اے دنیا والوں ہوش میں آؤ
فرعون بن گئے ہو تو یہ بھی یاد رکھو اُس کو آج تک نہ زمین نے قبول کیا اور
نہ آسمان نے،نمرود ایک مچھر سے ہار گیا،شداد اپنی انا سے ہار گیا تم بھی
انشاء اﷲ ہارنے والے ہو کیوں کے موت سے آج تک کوئی نہیں بچا موت تو آ کر
رہے گی تم بھی مرو گے تو اﷲ کو کیا منہ دکھاؤ گے اور میں سلام پیش کرتا ہوں
اُن تمام مستورات کو جو اس پُر آشوب دور میں بھی پردہ کرتی ہیں اپنے ماں
باپ کا احترام کرتی ہیں،کوٹ اسکارف میں نظر آتی ہیں،آنکھوں میں حیا ہوتی
ہے،خدا کے دئیے راز کبھی آشکار نہیں کرتیں ،پردہ اُن کی آخری خواہش ہوتی ہے
بے شک اس دور میں چاہے وہ مرد ہو یا عورت اگر اﷲ کے خوف سے آنکھوں میں
دوسرے کے لئے عزت اور حیا ہو گی تو سمجھ لینا اﷲ بھی راضی ہوا اور رسول ؐ
بھی اور یہی ہماری زندگی کا مقصد بھی ہے اور آخری خواہش بھی،اﷲ تمام پردہ
دار مستورات کی حفاظت کرے اور اُن مردوں کی حفاظت کرے جو حلال کی طرف جاتے
ہیں اور حرام کو منہ نہیں لگاتے۔ |