اصل خوشی ۔۔
(Malik Muhammad Shahbaz, )
کرہ ارض پر بسنے والے انسانوں کو خوشی کے
مواقع اکثر و بیشتر میسر آتے رہتے ہیں ۔ دور رواں میں کسی پیارے کا بچھڑ
جانا یا کوئی مالی و جانی نقصان ہوجاناغم کے زمرے میں آتا ہے جبکہ کسی دلی
خواہش کا پورا ہوجانا، دولت اور انعام و اکرام کا حصول ، اچھی جاب، کاروبار
میں ترقی وغیرہ خوشیوں کا سبب بنتے ہیں لیکن کیا یہ حقیقی خوشیاں ہیں ؟کیا
مال و متاع میں اضافہ ہی اصل خوشی ہے؟ کیا مادی چیزوں کے حصول کو اصل خوشی
کا نام دیا جاسکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر اصل خوشی کیا ہو سکتی ہے ؟ کوشش
ویلفیئر ٹرسٹ رائیونڈ کے ساتویں یوم تاسیس کے موقعہ پر منعقدہ پر وقار و
شاندار تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ریڈیو پاکستان سے وابستہ معروف دانشور جناب
ریاض محمود کا کہنا تھا کہ جرمنی میں کئی سال قبل ریڈیو کے مختلف شعبوں سے
وابستہ لوگوں کے لیے ایک عالمی ٹریننگ ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا اور ٹریننگ
سیشن مکمل ہونے کے کچھ عرصہ بعد ٹریننگ یافتہ افراد کا جائزہ لینے کے لیے
ایک ٹیم پاکستان آئی۔ٹیم کے سربراہ نے کسی کام کی غرض سے ہوٹل کے کمرے سے
نکل کر سڑک کنارے چلتے چلتے ایک بوڑھی عورت دیکھی جوسڑک کنارے زمین پر کپڑا
بچھا کر بیٹھی ہوئی تھی۔اس عورت کے چہرے پر جھریاں پڑی ہوئی تھیں اور اس کے
انتہائی میلے کپڑے ، بکھرے ہوئے بال اور مرجھایا ہوا چہرہ اس عورت کی غربت
و افلاس کی خبر دے رہاتھے۔جرمنی سے آئی ہوئی ٹیم کے سربراہ نے اس عورت کی
یہ حالت دیکھی تو اس سے رہا نہ گیا اوراس نے اپنا پرس نکال کر پرس میں
موجود تمام کرنسی نوٹ اس ضعیف العمر خاتون کے ہاتھوں پر رکھ دیئے۔ضعیف
العمر خاتون نے نوٹ اپنے ہاتھوں میں دیکھ کر کچھ الفاظ کہے جو وہ سمجھ نہ
سکے مگر اس عورت کے چہرے پرپڑی ہوئی جھریوں میں کمی اور رونق میں اضافہ
دیکھ کر اس سربراہ کو ایک عجیب سی کیفیت محسوس ہوئی۔ جرمنی سے آئی ٹیم کے
سربراہ کا کہنا تھا کہ اس عمل کے بعد خود کو ہلکا محسوس کررہے تھے ۔اطمینان
و سکون کے ان لمحات کو ہی شایداصل خوشی کہا جاتا ہے۔
کوشش ویلفیئر ٹرسٹ کے ڈاریکٹر محمد اقبال خان منج نے ادارے کے اغراض و
مقاصد اور مستقبل کا لائحہ عمل بیان کرتے ہوئے کہا کہ سات سال قبل گیارہ
ممبران نے مل کر ادارے کی بنیاد رکھی اور سات سالوں میں یہ تعداد ڈیڑھ سو
سے زیادہ ہوچکی ہے۔کوشش ویلفیئر ٹرسٹ کے ممبران کسی قسم کی تشہیر کے بغیر
رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر دن رات محنت کرہے ہیں۔ذاتی تشہیر اور ہر قسم
کی سیاست سے بالا ترفلاحی ادارہ کوشش ویلفیئر ٹرسٹ کی جانب سے اب تک درجنوں
غریب و لاچار بچیوں کی شادی میں مالی معاونت،سو سے زائد غریب خواتین کو
سلائی مشینیں، رمضان راشن کے علاوہ درجنوں غریب خاندانوں میں ماہانہ راشن
کی تقسیم ،درجنوں غریب مریضوں کو ویل چیئرز اور علاج معالجہ کی سہولیات اور
سینکڑوں غریب بچوں کو تعلیمی کفالت کے ساتھ ساتھ چار انتہائی غریب خواتین
کے گھر میں ٹوائلٹ کی سہولیات فراہم کی جا چکی ہیں جس کا باقاعدہ ریکارڈ
موجود ہے۔کوشش ویلفیئر ٹرسٹ ایسا ادارہ ہے جہاں نہ تو ممبران اور عہدوں کی
تشہیر کی جاتی ہے نہ ہی غریب لوگوں کی امداد کے بعد ان کی شناخت ظاہر کی
جاتی ہے ۔ انتہائی خفیہ طریقے سے جانچ پٖڑتال اور امداد کا عمل مکمل کیا
جاتا ہے۔ رائیونڈ کے بعد ڈی پی ایس قصور کے پرنسپل کرنل عدیل کی سرپرستی
میں کوشش ویلفیئر ٹرسٹ کی ایک برانچ قصور میں کھولی جا چکی ہے جہاں باقاعدہ
دفتر کے قیام کے ساتھ ساتھ ایمبولینس کی سہولت فراہم کر دی گئی ہے۔ ڈی پی
ایس قصور کے پرنسپل کرنل عدیل نے قصور برانچ کے اغراض ومقاصد بیان کیے۔
کوشش ویلفیئر ٹرسٹ مصطفی آباد ( للیانی) اور لاہور میں بھی بہت جلد برانچ
کھولنے کا ارادہ رکھتی ہے اس سلسلے میں تیاریاں عروج پر ہیں۔کوشش ویلفیئر
ٹرسٹ کے ڈاریکٹر محمد اقبال خان منج نے تقریب میں اپنی اور بیوی بچوں کی
آنکھیں عطیہ کرنے کا بھی اعلان کیا۔ محمد اقبال خان منج کی جانب سے اس
اعلان پر راقم سمیت تمام حاضرین آبدیدہ ہو گئے۔بہترین آواز میں تلاوت اور
حضور اکرم ﷺ کی شان میں گلہائے عقیدت کے بعد محمد جمیل کی جانب سے مترنم
کلام اقبال بھی پیش کیاگیا۔
لاہور میں اے لیول تک مفت تعلیم دینے والے ایک فلاحی ادارے کی سرپرست فرح
عالم ادیبہ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے حاضرین محفل کو اشک بہانے پر مجبور
کر دیا۔ فرح عالم ادیبہ نے اپنے بچپن کی آپ بیتی بیان کی تو سننے والوں کی
آنکھوں میں سمندر امڈ آیا۔بچپن میں دیہاتی زندگی سے وابستہ رہنے والی فرح
عالم ادیبہ محلے کے بچوں کے ساتھ کرکٹ کھیلا کرتی تھی ۔ایک دن دوران کھیل
نعیم نامی بچے نے گیند پھینکی تو گلی سے گزرتے ہوئے فرح کے والد صاحب کو لگ
گئی تو انہیں بہت غصہ آیا اور نعیم کوبہت زیادہ ڈانٹ کردوبارہ ساتھ کرکٹ
کھیلنے سے منع کر کے ٹیم سے نکال دیاتو نعیم روتا ہوا اپنے گھر چلا گیا۔فرح
عالم ادیبہ کہتی ہیں رات کا ڈیڑھ بج چکا تھا مگر روزانہ رات ساڑھے آٹھ بجے
سوجانے والی فرح کو نیند نہیں آ رہی تھی تو ماں سے نعیم کے گھر لے کر چلنے
کو کہا۔ کافی دیر دروازہ کھٹکھٹایا اور نعیم کے والد نے جیسے ہی دروازہ
کھولا تو فوراً پوچھا کہ نعیم گھر ہے؟ نعیم کے والد گھبرا کر بولے کہ نعیم
نے کوئی نقصان تو نہیں کردیا ؟فرح نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں بس آپ مجھے
نعیم سے ملادیں۔ نعیم کو جگایا گیا تو فرح نے اس سے معافی مانگی اور کہا وہ
کھیلنے آجایا کرے تو نعیم بہت خوش ہوا۔فرح عالم ادیبہ کا کہنا تھا کہ گھر
لوٹے تو اگلے ہی لمحے نیند آگئی تھی یعنی کسی کا دل دکھا کر انسان کو کبھی
سکون و اطمینان حاصل نہیں ہو سکتا۔فرح عالم ادیبہ کا کہنا تھا کہ ہمیشہ
معاف کرنا اور معافی مانگے کو معمول بنا لینا چاہیے۔معافی مانگ کر ہی دل کا
بوجھ ہلکا ہوتا ہے اور اصل خوشی بھی یہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ غریبوں ،لاچاروں
اور بے سہارا لوگوں کی امداد کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور حصہ ڈالتے رہنا
چاہیے۔1978 میں روزنامہ چٹان کا اداریہ لکھنے سے صحافت کے میدان میں قدم
مضبوط کرنے والے اور حالیہ نئی بات کے ایڈیٹوریل انچارج حافظ شفیق الرحمن
نے قرآن و حدیث کے حوالوں سے مزین خطاب کیا۔انہوں نے کہا کہ خدا کے دیے
ہوئے میں سے اس کی راہ میں ضرور دینا چاہیے۔انہوں نے بیان کیا کہ قیامت کے
دن اﷲ کریم اپنے بندے سے پوچھیں گے کہ میں بیمار ہوا مگر تو میری تیمارداری
کے لیے نہیں آیا ، مجھے ضرورت پیش آئی مگر تو نے میری ضرورت پوری نہیں کی ۔
بندہ حیران ہوکر اﷲ سے سوال کرے گا کہ اے اﷲ تو ہر ضرورت و بیماری سے پاک
ہے اور سب کی ضرورتیں تو پوری کرتا ہے تو بھلا میں تیری تیمارداری کیسے کر
سکتا تھا اور تیری ضرورت کیسے پوری کر سکتا تھا؟۔ اﷲ کریم ارشاد فرمائے گا
کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اگر تو اس کی تیمارداری کرتا تو مجھے وہاں
پاتا۔حافظ شفیق الرحمن کی بہترین لفاظی اور مدلل خطاب نے سامعین کے دل جیت
لیے۔معروف دانشور اور پی ٹی وی کے نامور و ڈرامہ نگارنورالحسن صاحب نے اپنے
خطاب میں کہا کہ معاف کرنے اور معافی مانگنے کی عادت کو عام کرو۔ کام والے
اوربیوی بچوں کی غلطیاں معاف کرنا اور ان سے سلام میں پہل کرنے کو اپنا
معمول بنالو یقینا کامیاب ہو جاؤ گے۔
معروف ومقبول قلم کاراوریا مقبول جان کا خطاب دلوں پر اثر کرنے والا
تھا۔انہوں نے کہا کہ غریبوں ، لاچاروں کے کام آناواقعی تحدیث نعمت ہے ۔ اﷲ
کریم جس پر اپنا خاص کرم کرتا ہے اسے اپنے بندوں کی خدمت کے لیے چن لیتا
ہے۔محمد اقبال خان منج اور ان کی ٹیم ممبران کو بھی اﷲ کریم نے اپنے بندوں
کی خدمت کے لیے چنا ہے ۔سینئر کالم نگار اوریا مقبول جان صاحب نے محمد
اقبال خان منج سمیت کوشش ویلفیئر ٹرسٹ کی پوری ٹیم کو بہترین کام پر
مبارکباد پیش کی اور انہوں نے کہا کہ یہ کام صدقہ جاریہ ہے جس کا اجرو ثواب
ہمیشہ ملتا رہتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اﷲ کے بندوں کی خدمت کرنا بہت بڑا
عمل ہے اور یہ عمل کبھی رائیگاں نہیں جائے گا۔اپنے خطاب کے آخر میں اوریا
مقبول صاحب نے ملکی امن و سلامتی اور کوشش ویلفیئر ٹرسٹ کی کاوشوں کی
قبولیت کے لیے خصوصی دعا کی ۔ معروف کالم نگار دوست مرزا محمد یٰسین بیگ کے
ہمراہ راقم کو تقریب میں شرکت کا موقع ملا جہاں معروف شاعر و دانشور الطاف
ضامن چیمہ ، قصور کے صحافی مہر سلطان اور مہر ساجد بلال سے ملاقات کا شرف
ملا۔علاقے بھر سے لوگوں کی بھر پور شرکت کوشش ویلفیئر پربھر پور اعتماد کی
علامت ہے اور مقررین کے دلنشین ، مدلل اور جامع خطابات نے محفل پر خوب رنگ
جمائے۔ کوشش ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی اپنی طرز کی یہ
بہترین تقریب تھی جس میں یقینا بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔یہ تقریب ہر لحاظ سے
کامیاب رہی جس پر کوشش ویلفیئر ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے ۔اﷲ کریم محمد
اقبال خان منج اور کوشش ویلفیئر کی پوری ٹیم کو میدان عمل میں مزید آسانیاں
عطا فرمائے اور اﷲ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین |
|