آدم علیہ السلام کی خطا اور اسکی معافی

رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے وسیلے کے ثبوت میں ایک روایت ہمیشہ پیش کی جاتی ہے۔ وہ روایت کچھ یوں ہے “ جب آدم سے گناہ سرزد ہو گیا تو انہوں نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر نبی پاک کے وسیلے سے مغفرت کی دعا مانگی۔ الله تعالیٰ نے دریافت کیا یہ محمد کون ہیں ؟ آدم علیہ السلام نے فرمایا کہ جب تو نے مجھے پیدا کیا تو میں نے عرش پر “ لا الہ الاالله محمد رسول الله“ لکھا ہوا پایا تو میں سمجھ گیا کہ جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ رکھا ہے اس سے زیادہ عظمت والا کوئی نام نہیں ہو سکتا۔ الله تعالیٰ نے فرمایا اے آدم تم نے سچ کہا وہ نبی آخر ہیں اور تمہاری اولاد میں سے ہوں گے۔ اگر وہ نہ ہوتے تو تم بھی پیدا نہ کیے جاتے“۔ اس روایت سے معلوم ہوتا کہ نبی پاک کا وسیلہ اختیار کرنا حضرت آدم کا اپنا اجتہاد تھا یہاں تک کہ الله تعالیٰ دریافت کرنا پڑا کہ تم نے محمد صلی الله علیہ وسلم کا وسیلہ کیسے اختیار کیا۔ جب آپ آدم علیہ السلام کی توبہ کے حوالے سے قران پاک کا مطالعہ کریں گے تو اس روایت کا جھوٹ ہونا ثابت ہو جائے گا۔

سورہ بقرہ آیت ٣٧ ‘“ پس سیکھ لئے آدم نے اپنے رب سے چند کلمات‘ پھر متوجہ ہو گیا الله اس پر بے شک وہی توبہ کو قبول کرنے والا مہربان ہے۔ اس آیت سے حضرت آدم کا اپنے اجتہاد سے رسول الله کا وسیلہ اختیار کرنا غلط ثابت ہوتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کلمات کیا ہو سکتے ہیں جو کہ الله تعالیٰ نے حضرت آدم کو سکھائے۔ الله تعالیٰ نے قرآن میں وہ کلمات بھی سورہ اعراف میں ہمیں بتلا دئے۔ آیت نمبر ٢٣ ترجمہ “ اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہم کو نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے“۔ ان آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آدم علیہ السلام نے توبہ کے لئے نبی پاک کا وسیلہ اختیار نہیں کیا بلکہ الله تعالیٰ نے انہیں دعا کے کلمات سکھائے اور الله تعالیٰ نے آدم اور حوا کی توبہ ان کلمات کی بدولت قبول فرمائی۔
Baber Tanweer
About the Author: Baber Tanweer Read More Articles by Baber Tanweer: 27 Articles with 91495 views A simple and religious man.. View More