اس نے اپنے بچپن سے ایک کسان اور اس کے تین لڑاکے
بیٹوں کی کہانی سنی ہوئی تھی کہ کس طرح وہ کسان، اپنے ضدی بیٹوں کو، لکڑیوں
کے ایک گٹھے کی مدد سے عمر بھر کے لئے ایک سبق سکھانے میں کامیاب ہو گیا
تھا۔وہ کسان تو نہیں تھا بلکہ ایک بینک میں مینیجر تھا اور اپنے بچوں کی
تعلیم و تربیت میں اس نے اپنی بساط کے مطابق بھرپور کوشش بھی کی تھی۔ اور
کسی حد تک کامیاب بھی رہا تھا۔ لیکن جب اس کے بچے ، لڑکپن کے میدان کے شہسو
ار بنے تو ان میں مغل شہزادوں جیسی انا، ضد اور رقابت کے منہ زور جذبات نے
سر اٹھانا شروع کر دیا ۔ شروع شروع میں تو اس نے باتوں، باتوں میں انہیں
سمجھانے بجھانے کی بھر پور سعی کی لیکن وہ لا حاصل رہی۔
کچھ مدت بعد اس کا خیال بنا کہ وہ ان کو تھوڑی بہت ڈانٹ ڈپٹ اور مار پیٹ کے
ساتھ سمجھائے، لیکن اس میں بھی اسے خاطر خواہ ناکامی کا ہی منہ دیکھنا پڑا۔
وہ ہر آنے والی رات کے ساتھ فکروں کے اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا۔ اسے بعض
اوقات ساری ساری رات نیند بھی نہ آتی۔ اس کی شریکِ حیات بھی اس پریشانی میں
برابر کی شریک تھی۔ لیکن وہ اپنے بیٹوں کو کسی طرح سے بھی اس لڑائی جھگڑے
کی عادت سے باہر نکالنے میں ناکام رہی۔ اس کو نیند تو آ جاتی لیکن اس نیند
میں اسے ڈراؤنے خواب بھی آنے لگ پڑے تھے۔ جب ایسے خواب آتے تو اسے بھی باقی
رات جاگ کر ہی گزارنی پڑتی۔ وہ اکثر اپنے مجازی خدا سے کہا کر تی: ’ میری
نیند آپ لے لیں اور اپنا رت جگا مجھے دے دیں‘۔ لیکن یہ تبادلہ ان کے
اختیاری معاملات کے دائرے سے باہر واقع تھا۔
تھک ہار کر آخر اس مینیجر کو خیال آیا کہ اس معاملے کو کیسے مینج کیا
جائے۔اس نے اسی پرانی کہانی میں دوبارہ رنگ بھرنے کا ارادہ کیا۔اس نے اپنے
بینک کے ایک چھوٹے ملازم سے کہا کہ وہ اسے کہیں سے لکڑیوں کا ایک گٹھا لا
دے تا کہ وہ بھی اس کسان کی طرح، مظاہراتی طریقہ تدریس سے، اپنے بچوں کے
ذہنوں میں کوئی ’مَت‘ داخل کر سکے۔ اس کے ملازم نے اس کام کے لئے اس سے
پچاس روپے لے لئے ۔ اور ایک شام لکڑیوں کا ایک چھوٹا سا گٹھا گفٹ پیپر میں
لپیٹ کر اس کے گھر لے آیا۔ لڑکوں کو تجسس ہوا کہ یہ کیا تحفہ ان کے گھر کی
دہلیز سے اندر آیا ہے۔
مینیجر نے اپنی پیاری بیوی اور نہایت ہی پیارے بچوں کو بلا کر ان کی
موجودگی میں اس نایاب تحفے کے گرد لپٹے رنگین کاغذوں کی تہوں کو ایک ایک کر
کے ہٹایا۔ اور آخری کاغذ کے اترنے پر اس کی بیوی اور بچوں کا تجسس ، حیرانی
کی بجائے ناراضگی میں ڈھل گیا:
یہ بھی کوئی تحفہ ہے؟
کون بے وقوف یہ گفٹ دے کے گیا ہے؟
کس نے منگوائی یہ سوغات۔ ؟
بڑے بیٹے نے کہا :
انہیں اٹھا کر باہر پھینک دو۔
ہمیں نہیں چاہیئے ایسی چیزیں۔ ؟ ہم نے ان کا کیا کرنا ہے؟
بڑی مشکل سے مینیجر نے سب کو رام کیا اور ان سے کہا کہ ہم ان لکڑیوں سے
کوئی سبق سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس بات پر اس کی بیوی اور بچے پھوٹ پھوٹ
کر ہنسنے لگ پڑے۔
مینیجر کے لئے اس صورتِ حال کا سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔ آخر وہ غصے میں آ
ہی گیا ۔ جیسا کہ وہ اکثر آ جایا کرتا تھا جب گیم ہاتھ سے نکلتی دیکھائی
دیا کرتی۔ اس کے غصے اور سنجیدگی نے کچھ کام کیا۔ اور ماحول میں خامشی چھا
گئی۔
اب وہ اپنے اصل مقصد کی طرف آ گیا۔ اس نے اپنے تینوں بیٹوں سے کہا کہ وہ اس
گٹھے کو توڑ کر دکھائیں۔ اس بات پر بیٹوں نے بام بوس قہقہے لگانے شروع کر
دیئے۔
آخر ایک بیٹے سے رہا نہ گیا ۔ اس نے دل کی بات کہہ ہی دی: پہلے آپ خود اس
گٹھے کو توڑ کر دیکھائیں۔
اس بات پر مینیجر کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ وہ پھر غصے میں آ گیا۔ اور
اپنے بیٹے کو بدتمیز اور ناہنجار کہہ کر ۔ دوسرے بیٹے سے کہا کہ وہ اس گٹھے
کو توڑ دے۔ اس نے کہا کہ وہ کیوں توڑے۔ اسے ان لکڑیوں کو توڑ نے کا کیا
فائدہ۔ پھر اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے مینیجر نے تیسرے بیٹے سے کہا کہ :
میرے پیارے بیٹے، تم اس گٹھے کو توڑ دو۔ اس نے بڑے ادب سے جواب دیا : ابو
میں نے دوپہر کا کھانا نہیں کھایا ہو ا۔ ورنہ میں نے آپ کا حکم ماننے میں
دیر نہیں لگانی تھی۔
تینوں بیٹوں سے مایوس ہو کر ، اور یہ جانتے ہوئے کہ اس گٹھے کو وہ خود بھی
نہیں توڑ سکتا،اس نے اپنی بیوی سے کہا :
بیگم آپ بس گٹھا کھول دیں۔
اس کی بیوی نے کہا کہ:
’میں نے ابھی ابھی نیل پالش لگائی ہے اس کا ستیا ناس ہو جائے گا۔ اگر نہ
لگائی ہوتی تو ایک منٹ میں یہ گٹھا کھول کے رکھ دیتی‘۔
بیچارے مینیجر نے اپنے طے شدہ منصوبے پر عمل درآمد کروانے کے لئے،خود ہی
آگے بڑھ کر گٹھا کھول دیا اور اس میں بندھی باریک باریک چھڑیوں کو علیحدہ
علیحدہ کیا۔ جنہیں وہ جانتا تھا کہ آسانی سے توڑا جا سکتا ہے۔
اس نے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے کے لئے ایک دو چھڑیاں ِ ِ ِ ، تھوڑا
سا زور لگا کر، توڑ دیں۔ جسے دیکھ کر اس کی بیوی کے چہرے پر تمازت آ گئی۔
پھر اس نے ایک ایک چھڑی اپنے ہر بیٹے کو دی اس کا منصوبہ یہ تھا کہ جب وہ
ایک ایک چھڑی توڑ لیں گے تو وہ پھر ان کو دو دو ، اور پھر تین تین چھڑیاں
توڑنے کا کہے گا اوراس طرح اپنے ٹارگٹ تک پہنچ جائے گا۔
اس نے جو چھڑیا ں نکال کر اپنے بیٹوں کو دیں وہ اس گھٹے میں سب سے پتلی اور
کمزور تھیں۔ اب اس نے اپنے بیٹوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے کہا :
بیٹو ، دیکھو ان چھڑیوں کو توڑ دو میں تمھیں ایک چھڑی کے توڑنے پر ایک سو
روپے انعام دوں گا۔
لیکن اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جب اس نے دیکھا کہ اس کے کسی بچے سے
بھی چھڑی نہ ٹوٹی۔ جن سے ایک چھڑی نہیں ٹوٹتی ، ان سے بنڈل کیسے ٹوٹ سکتا
تھا۔ بچوں کے بازوؤں میں کوئی ستیا نہیں ہے۔ فوری طور پر مینیجر اصلی نتیجے
پر پہنچ گیا کہ بچوں کو پلایا جانے والا دودھ خالص نہیں ہے۔ لہٰذا گوالا
بدلا جائے۔ اگر دودھ خالص ہوتا تووہ چھڑیاں ضرور توڑ لیتے اور پھر ان کو
بنڈل توڑنے کا چیلنج دیا جا سکتا تھا۔ان کے کمزور جسموں میں طاقت بھرنے کے
لئے خالص دودھ کا پلایا جانا بہت ضروری ہے، لہٰذا گوالے کا بدلنا بہت ضروری
!!! |