ایڈ ورڈ سعید (Edward Said): تمہیدِ پیام ہی میں اپنی تقریر تمام ہو گئی

 عالمی شہرت کے حامل نابغۂ روزگار ادیب ایڈورڈ سعید(1935-2003) نے پچیس ستمبر 2003کو نیویارک میں داعی ٔ اجل کو لبیک کہا ۔ خون کے سرطان کے عارضے سے بارہ سال تک پورے عزم و استقامت کے ساتھ نبر د آزما رہنے کے بعداس جری تخلیق کار کو اجل کے بے رحم ہاتھوں کے سامنے سپر انداز ہونا پڑا ۔ انسانیت کے وقار ،سر بلندی اور فلسطینی عوام کے حقوق کا ایک بے باک حامی داغِ مفارقت دے گیا ۔علم و ادب کے شائقین اور وسیع المطالعہ ادبی حلقوں میں اس دانش ور کے کام کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ پس نو آبادیات ،مابعد جدیدیت اور مشرق و مغرب کے بدلتے ہوئے ادبی رجحانات پر گہری نظر رکھنے والے اس جری نقاد کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ،اُسے عالمی ادبیات میں شدت سے محسوس کیا گیا۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے کا سب سے بڑا فکری المیہ ، تجزیاتی مغالطہ اور معاشرتی سانحہ یہ ہے کہ اس دور ِ نا پرساں میں سرابوں میں بھٹکنے والی الم نصیب مخلوق ہر چمکتی ہوئی چیز کو سونا سمجھنے لگی ہے ۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ ،مواصلات کی برق رفتار ترقی اور محیر العقول ایجادات کے کرشمے دیکھ کر کم فہم لوگوں کو اکثر یہ گماں گزرتا ہے کہ شاید سورج کی شعاعوں کو اسیر کرنے والوں نے انھیں پتھر کے زمانے کے ماحول سے نکال کر دورِ جدید میں پہنچا دیا ہے ۔تخیل کی شادابی سے مسحور لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ دِن دُور نہیں جب زندگی کی تیرہ و تار بھیانک راتیں اپنے اختتام کو پہنچیں گی اور طلوعِ صبحِ بہاراں کے اِمکانات روشن ہو جائیں گے ۔یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ سائنسی ترقی کی چکا چوند کے باوجود جان لیوا تیرگی نے مظلوم اور بے بس و لاچار انسانیت کو دبوچ رکھا ہے ۔یہ ایک لرزہ خیز اور اعصاب شکن المیہ ہے کہ جدید دور میں سائنس و ٹیکنالوجی کی نگاہوں کو خیرہ کر دینے والی روشنیوں کے باوجود معاشرتی زندگی کے اُفق پر قرونِ وسطیٰ کے مہیب سناٹوں، خون کے آنسو رُلانے والی ہلاکت خیزیوں ،تباہ کن بے حسی اورلرزہ خیزظلمتوں کا عفریت منڈلا رہا ہے ۔ مسلسل شکستِ دِل کے باعث کارواں کے دِل سے اِحساس ِ زیاں رفتہ رفتہ عنقا ہونے لگا ہے اور کسی یگانۂ روزگار دانش ور کی دائمی مفارقت کی خبر سُن کر بھی لوگ ٹس سے مس نہیں ہوتے ۔ ایڈورڈ سعید کے نہ ہونے کی ہونی دیکھ کر دِل دہل گیا۔تقدیر کا یہ نوشتہ پڑھ کر سب لوگ دنگ رہ گئے کہ کیسے کیسے آسمان پیمانہ ٔ عمر بھر کر ردائے خاک اوڑھ کر زمین کی گہرائیوں میں سما گئے اور ہر سر کے ساتھ فقط ایک سنگ ہی باقی رہ گیا ۔ اِس ہوائے بے اماں میں سیل ِ زماں کے مہیب تھپیڑے فکر و خیال اور افکار کی جولانیوں کے سب سلسلے بہا لے گئے ۔ ا یڈورڈ سعید نے گزشتہ صدی کی تاریخ،معاصر ادبی رجحانات ،لسانی تغیرات،فکر و فلسفہ اورعالمی کلاسیک کا وسیع مطالعہ کیا تھا ۔امریکہ میں پس ساختیات کے انتہائی فعال،فطین ،مستعد اور بے باک نمائندہ کی حیثیت سے ایڈورڈ سعید نے اپنی صلاحیتوں کی دھاک بٹھا دی۔ سال 1896میں روشنی کے سفر کا آغاز کرنے والی نجی شعبے کی کو لمبیا یونیورسٹی (نیو یارک سٹی )میں انگریزی ادبیات کی تدریس پر مامور اس ماہر تعلیم کو پس نو آبادیاتی ادبیات کی تحقیق و مطالعات کے بنیاد گزار کی حیثیت سے منفر د مقام حاصل تھا ۔ایڈورڈ سعید کے مداح اسے ایک نادر،نابغہ اور حقیقی معنوں میں عوامی مقبولیت کا حامل دانش ور قرار دیتے ہیں جس کے موثر اور ہمہ گیر افکار کے اثرات ہر عہد کے ادب میں ملیں گے۔ایڈورڈ سعید نے اپنے عہد کے جن ممتاز ادیبوں کے خیالات سے استفادہ کیا ،ان سے معتبر ربط بر قرار رکھا ان کے نام درج ذیل ہیں:
مشل فوکاں (Michel Foucault)،فرانٹز فانون( Frantz Fanon)،نوم چومسکی(Noam Chomsky)،کارل مارکس (Karl Marx)،ژاک دریدا(Jacques Derrida)، انٹونیو گرامسکی(Antonio Gramsci)،ولیم شکیسپئیر(William Shakespeare)،ژان پال سارتر(Jean-Paul Sartre)،فریڈرک نطشے(Friedrich Nietzsche)، تھیوڈور ایڈورنو(Theodor W. Adorno)، جوزف کونریڈ(Joseph Conrad)، گلز ڈیلیز (Gilles Deleuze)، ایمز سیزر(Aimé Césaire)،
اقبال احمد (Eqbal Ahmad)،بر ٹرینڈ رسل(Bertrand Russell)،ریمنڈ ولیمز (Raymond Williams)، آرتھر شوپنہار(Arthur Schopenhauer)، گیامبٹسٹا ویکو(Giambattista Vico)، سٹیون مارکوس(Steven Marcus)
ایڈورڈ سعید کا شمار بیسویں صدی کے اُن رجحان ساز ادیبوں میں ہوتاہے جنھوں نے ہوائے جور و ستم بھی حریت ِ فکر و عمل کا علم بلند رکھنے پر اصرار کیا ۔ادب کے وسیلے سے عصری آ گہی پروان چڑھانے کی تمنا کرنے والے اس انتہائی زیرک،فعال اور مستعد تخلیق کار نے اپنی تخلیقی فعالیت کو بروئے کار لاتے ہوئے ستاروں پر کمند ڈالی۔تحقیق و تنقید اور لسانیات کے شعبوں میں اس کی عظیم الشان کا مرانیوں کی پُوری دنیا میں دُھوم مچ گئی ۔ دنیا بھر میں ذوقِ سلیم سے متمتع زندہ دِلوں اور ژرف نگاہوں نے اس فطین تخلیق کار کی ادبی کا مرانیوں کو ہمیشہ بہ نظر تحسین دیکھا۔ رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تما م استعاروں سے مزین اس کے اسلوب نے پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیا ۔ اس نے افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر سفاک ظلمتوں کو کافور کر کے جہان ِتازہ کی جانب سرگرم سفر رہنے کا پختہ عزم کر رکھا تھا۔ ایڈورڈ سعیدنے اپنی معرکہ آرا تصانیف سے عالمی ادبیات کی ثروت میں جو اضافہ کیا اس کا ایک عالم معتر ف ہے۔ ذوقِ سلیم سے متمتع ادب اور فنون لطیفہ سے گہری دلچسپی رکھنے والے اس کو ہ پیکر تخلیق کارنے اپنی زندگی علم و ادب،فنون لطیفہ اور تحقیق و تنقیدکے فروغ کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ بچپن ہی سے پیانو بجانے میں اس نے گہری دلچسپی لی ۔ایڈورڈ سعید نے ادب اور فنون لطیفہ کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے سلسلے میں جو گراں قدر خدمات انجام دیں وہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ایڈورڈ سعید کا شمار اوپیرا کے ممتاز نقادوں،پیانو کے ماہرین،ریڈیو ،ٹیلی ویژن اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ عظیم شخصیات،زیرک،معاملہ فہم اور دُور اندیش سیاست دانوں،میڈیا کے ماہرین،شعلہ بیان مقررین اور ہر دل عزیز ادیبوں میں ہوتا تھا۔تیشۂ حرف سے فصیل ِ جبر کو منہدم کرنے کے لیے کوشاں رہنے والے اس جری ،پُر عزم اور با ہمت تخلیق کار نے فسطائی جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر دیا ۔ اگرچہ وہ زندگی بھر سامراجی طاقتوں کے ٹکڑوں پر پلنے والے ابن الوقت ،مفاد پرست اور کینہ پرور حاسدوں کے طعنوں اور دشنام طرازی کی زد میں رہا مگر اس نے کبھی دِل بُرا نہ کیا اور اپنی دُھن میں مگن پرورشِ لوح و قلم میں مصروف رہا ۔ وہ فصلِ خزاں میں بھی خمیدہ بُور لدے چھتنار کی ڈالی تھام کرفصلِ بہار کا منتظر رہا اورفصلی بٹیروں ،مرغ باد نما اور طوطا چشم عناصر کی جانب کبھی توجہ نہ دی ۔سبک نکتہ چینی کے عادی اس کے حر ف گیروں کا خیا ل تھا کہ ایڈورڈ سعید کے طرز عمل سے بنیاد پرستوں کے موقف کو تقویت ملنے کا اندیشہ تھا۔ اس قسم کی منافرت پھیلانے والی تحریروں کے باوجود ایڈورڈ سعید اپنے موقف پر ڈٹ گیا اور ہوائے جورو ستم کے گرد آلود بگو لو ں میں بھی پورے عزم و استقلال کے ساتھ شمعِ وفا کو فروزاں رکھا ۔اس کی ایک مثال اوسلو امن معاہدے پر اس کی کڑی تنقید ہے۔ ایڈورد سعید نے اپنی پیش بینی اور بصیرت سے یہ اندازہ لگا لیاتھاکہ امریکی صدر کلنٹن ،یاسر عرفات اور اسرائیلی وزیر اعظم رابن حقائق سے شپرانہ چشم پوشی کر رہے ہیں اور فلسطین کے مظلوم عوام کے حقوق کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے۔وہ ایسی فلسطینی ریاست کو سایوں،سرابوں اور فریبِ نظر کی حکومت سمجھتا تھا جس پر اسرائیل کا مکمل قبضہ ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب 13ستمبر 1993میں وائٹ ہاؤس میں اوسلو امن معاہدے پر دستخط کی تقریب کا انعقاد ہوا تو ایڈورڈ سعید کو بھی مدعو کیا گیا مگر اس نے اس تقریب میں شرکت سے انکار کر دیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات نے یہ ثابت کر دیا کہ مظلوم فلسطینی عوام کی سب تمنائیں نقش بر آ ب ثابت ہوئیں۔ مظلوم عربوں اور فلسطینیوں کے حقوق کی خاطر ایڈورڈ سعید نے انتھک جد و جہد کی ۔اس نے دنیا بھر کی مظلوم اور محکوم انسانیت کے وقار اور سر بلندی کا عزمِ صمیم کر رکھا تھا۔ استعماری طاقتوں کے مسلط کر دہ جبر اور حبس کے ماحول نے فلسطین اور عرب ممالک کے باشندوں کی زندگی اجیرن کر دی۔ایڈورڈ سعید نے ان علاقوں کی دُکھی انسانیت کے ساتھ جو عہدِ وفا استوار کیا اسی کو علاجِ گردشِ لیل و نہار قرار دیتے ہوئے زندگی بھرصدقِ دِل سے اُس پر عمل کیا۔ خزاں کے سیکڑوں مناظر کے با وجود اُسے طلوعِ صبح ِ بہاراں کا پختہ یقین تھا اور وہ یہ بات بر ملا کہتا تھا کہ حریتِ فکر و عمل کی روشنی کی راہ میں حائل ہونے والی ہر دیوار کا مکمل انہدام ٹھہر گیا ہے ۔اس کی تحریروں سے قارئین میں عصری مسائل کے بارے میں مثبت شعور و آ گہی پروان چڑھانے میں مدد ملی۔اپنی حق گوئی و بے باکی کی وجہ سے وہ ظالم و سفاک ،موذی و مکار استعماری طاقتوں کے دِل میں کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا ۔قحط الرجال کے موجودہ دور کا فکری المیہ یہ ہے کہ یہاں جاہل بھی چرب زبانی اور عیاری سے اپنی جہالت کا انعام ہتھیا لیتا ہے مگر جوہر قابل کا کوئی پرسان حال نہیں۔مفاد پرست استحصالی عناصر کے آلۂ کار سفہااور بے کمال ا جلاف و ارذال کی رعونت کا یہ حال تھا کہ سب کے سب سنگِ ملامت لیے نکل آئے اور اُسے خوف و دہشت کا استاد کہہ کر طنز و تضحیک کی تیرا ندازی سے ایڈورڈ سعید کو پریشان کرنا شروع کر دیا ۔ اس کے حرف گیروں کا خیال تھا کہ ایڈورڈ سعید نے انسانیت نوازی کا بیانیہ اورحریتِ فکر و عمل کا موضوع اس مقصد کے لیے متعین کر رکھا ہے کہ اعلا نوعیت کی ثقافتی اقدار اور انسانیت نوازی کی روایات پر یلغاراور دشنام کے طومار کی راہ ہموار کی جا سکے۔ ایڈورڈ سعید نے ان چربہ ساز،سارق اور کفن دُزد گوسفندان ِ قدیم کے گروہ کی جانب کوئی توجہ نہ دی اور پوری اِستقامت سے روشنی کا سفر جاری رکھا۔عمرانیات اورعالمی ادبیات کے غیر جانب دار نقادوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایڈورڈ سعید کا شمار بیسویں صدی کے انتہائی اہم،موثر اور مخلص دانش وروں میں ہوتا ہے ۔اگرچہ وہ خود ایک عرب عیسائی تھا مگر اُس نے مسلمانوں کے مسائل پر کھل کر لکھا اورانتہا پسند عیسائیوں کی اسلام دشمنی اور عصبیت سے پردہ اُٹھا کر حق گوئی و بے باکی کی عمدہ مثال پیش کی ۔اسے اس بات کا دِلی قلق تھا کہ نو آبادیاتی نظام نے نا م نہا دروشن خیالی کی آڑ میں مظلوم انسانیت کی زندگی کی تما م رُتیں بے ثمر کر دی ہیں۔ایڈورڈ سعید نے دانش وروں پر زور دیا کہ وہ دنیا بھر کی مظلوم اور محکوم اقوام کا لہو سوزِ یقیں سے گرمانے میں ہر گز تامل نہ کریں ۔اپنے لا دینی نظریات کے باوجود جذبۂ انسانیت نوازی کے تحت اس نے ہر قسم کی عصبیت کو لائق استرداد ٹھہرایااورانسانیت کی فلاحو بہبود ،وقار اور سر بلندی کا مطمح نظر ٹھہرایا۔ امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ایڈورڈ سعید کا دبنگ لہجہ جبر کے ایوانوں پر لرزہ طاری کر دیتا تھا ۔
ایڈور ڈ سعید کلاسیقی موسیقی کا دلدادہ تھا اور اس موسیقی سے وہ ایک گونہ بے خودی حاصل کرنے کا آرزو مند تھا۔ پیانو کے ایک شوقیہ فن کار کی حیثیت سے اس نے پیانو بجانے کے جن ممتاز فن کا روں کے کمال فن کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ان میں لیف اینڈسنس (Leif Ove Andsnes) ، مارتھاآرگرچ(Martha Argerich) ، کلاڈیوآرو(Claudio Arrau)، ولاڈی میر اشکنزی (Vladimir Ashkenazy)، ڈینیل برینبومین(Daniel Barenboim)، لڈونگ بیتھوون (Ludwig van Beethoven)، الفریڈ برینڈ ول(Alfred Brendel)، فریڈرک چوپن(Frédéric Chopin)، مائرہ ہیس(Myra Hess) اور ماریا جاو پیرس (Maria Joao Pires) کے نام قابل ذکر ہیں۔موسیقی میں اس نے پیانو بجانے میں جس محنت،ریاض اور لگن کا ثبوت دیا وہ اپنی مثال آ پ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فنون لطیفہ سے وابستہ لوگ اسے ایک با کمال موسیقار کی حیثیت سے ہمیشہ محبت سے نوازتے تھے۔ ابلاغیات ،ادب اورفنون لطیفہ کے ممتاز مجلہ نیشن (Nation magazine)میں شائع ہونے والے اوپیرا پر اس کے تنقیدی مضامین قارئین میں بہت مقبول تھے۔ ن مضامین میں ایڈورڈ سعید نے موسیقی ،اداکاری اور صداکاری کے بارے میں فکر پرور اور رجحان ساز تصورات سے اہلِ ذوق کو آگاہ کیا ۔ اوپیرا کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آ ہنگ کرنے کے سلسلے میں یڈورڈ سعید کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔انسانیت کی عزت و تکریم ،سر بلندی ،انسانی حقوق اور فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کے موضوع پر اس کا دبنگ لہجہ اس کا بہت بڑا اعزاز و امتیاز سمجھا جاتا ہے۔
اپنے حقیقت پسندانہ اسلوب میں ایڈورڈ سعید نے مشرق و مغرب، سیاہ و سفید،شہری و دیہاتی،حاکم و محکوم ،ظالم و مظلوم،دیہات و قصبات،مضافات و نو آبادیات اور بڑے شہروں کی تہذیب،ثقافت اور معاشرت سے متعلق تلخ حقائق کو نہایت جرأت کے ساتھ زیبِ قرطاس کیا ہے ۔اس کی دلی تمنا تھی کہ معاشرتی زندگی سے فرسودہ اور دقیانوسی تصورات کو بیخ و بن سے اُکھاڑپھینکنے میں تخلیق کار اپنا کردار ادا کریں۔ایڈورڈ سعید نے کسی مصلحت کی پروا نہ کی اور جو فروش گندم نما استحصالی عناصر نے اپنے مکر کی چالوں ،عیاری اور خوشامد سے اپنا الو سیدھا کرنے اور دیار ِ مشرق کی پس ماندہ اقوام کو اپنا تابع بنانے کی جو روش اپنا رکھی ہے،اُسے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ایک حساس اور مخلص انسان کی حیثیت سے ایڈورڈ سعید نے اہلِ مغرب کی مسلط کردہ مصنوعی جکڑ بندیوں ،بے جا قدغنوں اور نا روا امتیازی سلوک پر اپنے رنج و غم اور کرب کا بر ملا اظہار کیااس کا پردہ فاش کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ۔مشرق کے مکینوں کو جابرانہ، گروہی اور متعصب ماحول سے نجات دلانے کے سلسلے میں ایڈورڈ سعید نے قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ رنگ اور نسل پرستی کی مظہر ان دو تہذیبوں میں جو بُعد المشرقین پایا جاتا ہے اس کے سمٹنے کے امکانات عنقا ہیں۔ ایڈورڈ سعید کی علمی ،ادبی اور تحقیقی خدمات کے بار احسان سے عالمی ادب کے طالب علموں کی گردن ہمیشہ خم رہے گی۔ اس کی وقیع تصانیف کی مقبولیت اور افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ ان معرکہ آرا تصانیف کے دنیا کی چھبیس(26) بڑی زبانوں میں تراجم کیے گئے۔تخلیقِ فن کے لمحات میں ایڈورڈ سعید نے خون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی جو سعی کی ہے اس کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے ۔اس کے اسلوب اور ڈسکورس کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اسے مانوس،مروّج و مقبول خیالات کی کورانہ تقلید سے شدید نفرت تھی اور ان سے مرعوب ہونے کے بجائے ان مخفی اور نامانوس تلخ حقائق کے احساس و ادراک پر زور دیا جو مفاد پرست استحصالی عناصر اور استبدادی طاقتوں کی اُڑائی ہوئی گَرد میں نہاں ہوتے چلے گئے ہیں۔ ایڈورڈ سعید کا اسلوب زندگی بھر مائل بہ ارتقا رہا اور اپنے فنی سفر میں اس نے خوب سے خوب تر کی جانب پیش قدمی جاری رکھی۔ عہدِ جوانی میں مروج نظریات کے انکار اور استردا دکو شعار بنانے والے اس جری تخلیق کار کے اسلوب میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نکھار آتا چلا گیا لیکن ایک بات حیران کن ہے کہ آخری عمر میں اس کی تحریروں میں ابہام اور تسلیم کا شائبہ گزرتا ہے ۔ اس کی ابتدائی عمر کی تصانیف میں جو دبنگ لہجہ، تُندی و تیزی اور سخت گیری پائی جاتی ہے وہ رفتہ رفتہ ملائمت ،مفاہمت اور مصلحت میں ڈھل گئی۔ ایڈو رڈ سعید کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں :
1.Orientalism(1978),2 Culture and Imperialism(1993) ,3.The Question of Palestine( 1979),4.Out of Place: A Memoir(1999),5.Covering Islam(1981),6.Reflections on Exile and Other Essays(2000),7.The World, the Text, and the Critic(1983),8.Representations of the Intellectual(1994),9.On late style(1999),10.Parallels and Paradoxes(2002),11.The Edward Said Reader(2000),12.Power, Politics, and Culture: Interviews with Edward W. Said(2001),13.Beginnings: Intention and Method(1975),14.Humanism and Democratic Criticism(2004),15.The Politics of Dispossession(1994),16.Musical Elaborations(1991),17.After the Last Sky(1986),18.Joseph Conrad and the Fiction of Autobiography (1966),19.Peace And Its Discontents(1995),20.Blaming the Victims(1988),21.Conversations with Edward Said(2006),22.Music at the Limits(2008),23.Freud and the Non-European(2003),24.Cultura e imperialismo(1993),25.L'orientalisme(1980),26.Manufacturing Consent: The Political Economy of the Mass Media(1988),27.Nationalism, Colonialism and Literature: Yeats and Decolonization(1988),
ایڈورڈ سعید (Edward Wadie Said)یکم نومبر 1935کو یروشلم میں پید ہوا ۔ایڈورڈ سعید کا والد واڈی ابراہیم ( Wadie Ibrahim)ایک متمول تاجر تھا ۔ایک معاملہ فہم تاجر کی حیثیت سے واڈی سعید نے اپنے عہدِ شباب میں امریکہ کی مختلف ریاستوں کے تجارتی سفر کیے۔پہلی عالمی جنگ(28 Jul 1914 – 11 Nov 1918) میں خدمات انجام دینے کی وجہ سے واڈی ابراہیم کو امریکی شہریت مِل گئی۔ ایڈورڈ سعید کی والدہ ہلڈا سعید ( Hilda Said)کی دلی تمنا تھی کہ وہ اپنے لختِ جگر کو جنگ زدہ یروشلم کے پر آشوب ماحول سے نکال کر مصر لے جائیں۔عرب ممالک اور اسرائیل کی جنگ(1948) کے زمانے میں حالات سے دِل برداشتہ ہو کر ایڈورڈ سعید کے خاندان نے مصر کی جانب نقل مکانی کی اور قاہرہ میں مقیم ہو گئے ۔ مصر کے شہر قاہرہ منتقلی کے وقت ایڈورڈ سعید کی عمر دو سال تھی ۔ قاہرہ میں ایڈورڈ سعید کے والد نے کتب اور سٹیشنری کی تجارت کرنے والی ایک فلسطینی کمپنی کے اشتراک سے کام کا آغاز کیا مگرمصر کے بازار میں بھی جب جنس گراں کے خواہاں کم کم نظر آ ئے تو یہ خاندان سال 1951میں امریکہ منتقل ہو گیا مگر ایڈ ورڈ سعیدکے خاندان کے باقی افراد قاہرہ ہی میں مقیم رہے ۔ایڈورڈ سعید کی چچی نے فلسطینی پناہ گزینوں کی بحالی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ امریکہ پہنچنے کے بعد ایڈورڈ سعید کو ذرے سے آفتاب بننے کے متعدد مواقع میسر آ ئے۔اس نے سال 1957 میں پرنسٹن یو نیورسٹی سے بی۔اے کیا ۔ اس کے بعد وہ سال 1636میں علم کی روشنی کے سفر کا آغاز کرنے والی ہارورڈ یونیورسٹی پہنچا اور انگریزی ادبیات کے اختصاصی مطالعہ میں انہماک کا مظاہرہ کرتے ہوئے دادِ تحقیق دی۔ ایڈورڈ سعید نے ہارورڈ یونیورسٹی سے سال 1960میں ایم۔اے کیا ۔ اس کے بعد ایڈورڈ سعید نے مائر جانس (Maire Jaanus)سے شادی کر لی یہ ازدواجی تعلقات چھے برس(1962–1967)پر محیط ہیں۔ایڈورڈ سعید نے ہارورڈ یونیورسٹی سے سال 1964،میں پی ایچ ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد ایڈورڈ سعید نے عملی زندگی میں شعبہ تدریس کا انتخاب کیا ۔سال 1963میں وہ کو لمبیا یونیورسٹی میں انگریزی ادبیات کی تدریس پر مامور ہوا۔ اپنی قابلیت کی بنا پر وہ صرف چار سال کے بعد اسسٹنٹ پروفیسر ہو گیا اور سال 1969میں اُسے مکمل پروفیسر کے منصب جلیلہ پر فائز کیا گیا۔ ایڈورڈ سعید نے سال 1970میں اعلاتعلیم یافتہ لبنانی لڑکی مریم سی سعید(Mariam C. Said) سے عقدِ ثانی کر لیا۔ مریم سی سعید نے بھی تخلیق ادب میں نام پیدا کیا ان کی تالیف (A World I Loved: The Story of an Arab Woman,”)کو علمی و ادبی حلقوں کی جانب سے زبردست پزیرائی ملی۔ یہ تالیف ان کی والدہ وداد مکدیسی کورٹاس (Wadad Makdisi Cortas.) عرصہ حیات ( 1917-1970 ) کی تدریس اور سیاحت سے وابستہ یادداشتوں پر مشتمل ہے ۔اپنی نانی کی خود نوشت کا حرفِ آخر نجلہ سعید(Najla Said)نے لکھا ہے جب کہ لبنان اور مشرق وسطیٰ کے حالات کا تاریخی جائزہ مریم سعید نے تحریر کیا ہے ۔ مریم سی سعید اور ایڈورڈ سعید کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوئی ۔ شوہر کی وفات کے بعد مریم سی سعید کا اب نیویارک میں مستقل قیام ہے ۔ سال 1754 میں علم کی ضیا پاشیوں کا آغاز کرنے والی کو لمبیا یونیورسٹی میں پہنچ کر ایڈورڈ سعید کی تخلیقی فعالیت نے خوب رنگ جمایااور یہیں اس کی معرکہ آرا تصنیف Orientalism, سال 1978 میں شائع ہوئی۔اس کتاب کی اشاعت سے ایڈورڈ سعید شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں تک جا پہنچا۔اس کتاب کو بیسویں صدی کی اہم ترین اور موثر ترین تصنیف قرار دیا گیا اور پوری دنیا میں اس کی زبر دست پزیرائی ہوئی۔ اس نے واضح کیا کہ مغربی تہذیب و ثقافت اور نو آبادیاتی نظام کے اسرار و رموز کی تفہیم کے لیے یہ امر نا گزیر ہے کہ اس کے سامرا جی عزائم کی تہہ تک پہنچا جائے ۔ایڈورڈ سعید کی یہ جامع تصنیف جن اہم موضوعات کا احاطہ کرتی ہے ان میں مطالعہ ادب،تقابلی ادبیات،تاریخ،علمِ بشریات،سوشیالوجی،جغرافیہ،علاقائی مطالعات اور تقابلِ ادیان شامل ہیں۔ ایڈورڈ سعید نے امریکہ اور اسرائیل کے جا رحانہ روّیے پر کھل کر تنقید کی کیونکہ ان ممالک کی مسلم اقوام کے بارے میں بیگانگی اور اہانت آمیز طرزِ عمل سے اسے شدید نفرت تھی۔ اس کا خیال تھا کہ دنیا کی بڑی طاقتوں کے اس نو عیت کی امتیازی سلوک کے باعث پس ماندہ اقوام نو آبادیاتی نظام کے چنگل میں پھنس گئیں اور ان کی زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر ہو گئیں ۔ دنیا کی بڑی طاقتیں جس دِل شکن انداز میں مظلوم انسانیت کے خلاف بر سرِ پیکار ہیں اس کے خلاف ایڈورڈ سعید کا مغلوب الغیظ اس کے اسلوب کی پہچان بن گیا۔ سامراجی طاقتوں نے مکر و فریب ،دغا و دُزدی سے کام لیتے ہوئے خودساختہ،من گھڑت اور جعلی الزامات کے تحت پس ماندہ ممالک میں جارحیت کے ارتکاب سے وہاں کے باشندوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے ۔ اس نے اس امر پر ہمیشہ اپنی گہری تشویش اور اضطراب کا اظہار کیاکہ دنیا کی طاقت ور اقوام پس ماندہ ممالک میں فسطائی جبر کو پنجے گاڑنے اور کھل کھیلنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں اور اس سلسلے میں سہولت کار کا قبیح کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ جری امریکی فاضل مسلسل چار عشروں تک پرورش لوح و قلم میں مصروف رہا ۔ایک سر گرم سیاسی مفکر ،ادبی تخلیق کار ،محقق،نقاد اورحریتِ فکر و عمل کے مجاہد کی حیثیت سے ایڈورڈ سعید نے جو موثر اور فعال کردار ادا کیا وہ ہر دور میں یاد رکھا جائے گا۔ا نسانیت کے وقار اور سر بلندی کی خاطر ایڈورڈ سعید نے مقدور بھر جد و جہد کی ۔جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے اس جلیل القدر نقاد نے سدا لفظ کی حرمت کو ملحوظ رکھنے پر اصرار کیا ۔اس نے تیشۂ حرف سے فصیل ِ جبر کے انہدام کی جو راہ دکھائی وہ ہر عہد میں دلوں کو ایک ولولۂ تازہ عطا کرتی رہے گی۔ تخلیقی فعالیت اورمطالعۂ ادب کے سلسلے میں ایڈورڈ سعید نے جو اندازِ بیاں اپنایا اس میں تہذیبی،ثقافتی ، سماجی ،معاشی اور معاشرتی اقدار کو کلیدی اہمیت حاصل رہی۔دنیا بھر میں پس ماندہ ممالک کی محکوم ،مظلوم اور قسمت سے محروم پس ماندہ اقوام کو اذیت و عقوبت کی زندگی سے نجات دلانے کے لیے ایڈورڈ سعید نے فکری سطح پر بھر پور جد و جہد کو شعار بنایا ۔اپنی جنم بھومی فلسطین سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کر نے والے اس رجحان ساز ادیب نے حریت ِضمیر سے جینے کی راہ اپنانے پر زور دیا اور فلسطین کے مظلوم باشندوں کے حقوق کے لیے انتھک جد وجہد کی۔ اساطیر اور دیو مالا سے وابستہ اسرار و رموز کی گرہ کشائی کرنے میں ایڈورڈ سعید نے جس انہماک کا ثبوت دیا وہ اس کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔ ا گرچہ وہ خود ایک عرب عیسائی تھا مگر ہر قسم کی علاقائی ،لسانی ،نسلی اور مذہبی عصبیت سے اپنا دامن بچاتے ہوئے ایڈورڈ سعید نے حبس کے ماحول میں جو طرزِ فغاں ایجاد کی وہی محکوم اقوام کی طرزِ ادا بن گئی۔دنیا بھر کے مسلمانوں کے بارے میں عیسائیوں کے سطحی ،عمومی نوعیت کے فرسودہ ،دقیانوسی اورمتعصبانہ نو عیت کی سوچ کے مظہر روّیے پر ایڈورڈ سعید نے کڑی تنقید کی۔انگریزی ادبیات،پسِ ساختیات اور تقابل ادبیات پر ایڈورڈ سعید نے جن فکر پرور اور خیال افروز مباحث کا آغاز کیا اس میں کوئی اُس کا شریک و سہیم نہیں۔ایڈورڈ سعید نے امریکہ کے ڈیڑھ سو سے زائد کالجز اور جامعات میں توسیعی لیکچرز دئیے۔ اس عالمِ آب و گِل کے کھیل کا ایڈورڈ سعید نے نہایت باریک بینی سے جائزہ لیا ۔زندگی کے نشیب و فراز کامشاہدہ کرتے وقت وہ اُسی ارتکاز توجہ کا خیال رکھتا تھا جو مطالعہ کتب کے لیے نا گزیرہے ۔یہی وجہ ہے کہ کتاب زیست کی جزئیات نگاری میں وہ حیران کن مہارت کا ثبوت دیتا ہے ۔ ذاتی مخا لفین کے لیے وسعتِ نظر اور فراخ دلی مگر سامراج کے بارے میں اس کا بے انتہا غیظ و غضب اور پیہم ستیز اس کی شخصیت کا امتیازی وصف سمجھا جاتا تھا ۔
بر طانیہ اور فرانس نے نو آبادیاتی نظام کے تحت پس ماندہ اقوام کو جس بے دردی سے لُوٹا اس کے بارے میں ایڈورڈ سعید نے حقائق پر روشنی ڈالتے ہوئے ان اقوام کے مظالم کا پردہ فاش کیا ہے ۔ اس نے اپنی تحریروں سے یہ واضح کر دیا کہ یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد وہاں کے صنعت کاروں کی استحصالی سوچ سے معیشت کا سارا منظر نامہ بدل گیا۔یورپ کے صنعت کار اپنی صنعتوں کے لیے درکار خام مال انتہائی ارزاں نرخوں پر حاصل کرنے کی فکر میں ایشیا اور افریقہ کے پس ماندہ ممالک میں پہنچے اور ان ممالک کے حاکموں سے ساز باز کر کے یہاں سے کِشت دہقاں اور معدنیات اونے پونے داموں بٹورنے لگے۔اس طرح انھیں اپنی مصنوعات کو فروخت کرنے کے لیے منڈیاں دستیاب ہو گئیں اورکوڑیوں کے مول خام مال کے حصول میں بھی کامیابی حاصل ہوئی۔ ایڈورڈ سعید کو اس بات کا قلق تھا کہ یورپی اقوام نے ایشیا اور افریقہ کے پس ماندہ ممالک کے عوام کی زندگی کی تما م رُتیں بے ثمر،کلیاں شرر ،زندگیاں پُر خطر اور آہیں بے اثر کر دی ہیں ۔یورپی اقوام نے عسکری قوت کے بل بوتے پر اپنی نو آبادیات میں اپنا تسلط قائم کر رکھا ہے ۔ان نو آبادیات میں معاشی،سیاسی،تہذیبی اور ثقافتی شعبوں میں یورپ کے غاصب اور جارحیت پسند در اندازوں نے اپنا تسلط قائم کر رکھا ہے ۔اس جارحانہ اور غاصبانہ تسلط کے خلاف ایڈورڈ سعید نے مثبت شعور و آ گہی پیدا کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔ مشرق میں واقع نو آبادیات کے بارے میں استعماری طاقتوں کی سوچ کے بارے میں ایڈورڈ سعید نے لکھاہے :
"Access to Indian (Oriental)riches had always to be made by first crossing the Islamic Provinces and by withstanding the dangerous effect of Islam as a system of quasi-Arian belief.And at least for the larger segment of eighteenth century,Britiain and France were successful" (1)
ایڈورڈ سعیداپنی ذات میں ایک انجمن اور دبستان علم و ادب تھا ۔تیسری دنیا کے ممالک کے مسائل پر اس کی گہری نظر تھی۔ ان ممالک کے باشندوں کے دِل سے احساسِ زیاں کے عنقا ہونے کو وہ ایک بہت بڑے المیے سے تعبیر کرتا تھا ۔وہ چاہتا تھا کہ غریب ممالک کے قسمت سے محروم عوام کی زندگی میں حوصلے اور اُمید کی شمع فروزاں کی جائے ۔اس کے اسلوب کا تنوع ،نُدرت اور ہمہ گیری اُسے ایک جری ،بے باک،ہمہ جہت اور جامع الحیثیات تخلیق کار کے منصب جلیلہ پر فائز کرنے کا وسیلہ ہے ۔ایک بلند پایہ نقاد، محقق ،دانش ور ،ماہر تعلیم، مدبر ،سیاست دان،ماہر علم بشریات ،ماہر لسانیات کی حیثیت سے اس نے پوری دنیا کے مظلوم انسانوں کے ساتھ درد کا رشتہ استوار کر ر کھا تھا ۔اسی معتبر رشتے کو اس نے ہمیشہ علاجِ گردش ِ لیل و نہار قرار دیا۔ایڈورڈ سعید کی حیات وعلمی و ادبی خدمات کا بہ نظر غائر جائزہ لینے پر یہ حقیقت کُھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ ایک مخلص اور دردمدن انسان تھا جس کے دِل میں سارے جہاں کا درد سمٹ آیا تھا۔ انسان دوستی اس کی پہچان تھی اور مظلوم انسانیت کے مصائب و آلام پر لکھتے وقت عجز و نیاز اور دیدۂ نم اس کی پہچان بن گئی۔ سامراج دشمنی اس کے ریشے ریشے میں سما گئی تھی اور جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے اس نے استحصالی عناصر کے مکر کا پردہ فاش کرنے میں کبھی تامل نہ کیا ۔ سامراجی طاقتوں کے کرتا دھرتا فراعنہ کے کاسۂ سر میں جو کبر و نخوت و رعونت بھری تھی اس کے خلا ف ایڈورڈ سعید نے جس جرأت کے ساتھ قلم اُٹھایا ہے وہ اس کی انفرادیت کی دلیل ہے۔ عالمی سامراج کیا ہے اس کے بارے میں ایڈورڈ سعید نے لکھا ہے :
"Imperialism means thinking about,settling on,controlling land that you do not possess,that is disrant,that is livedon and owned by others .For all kinds of reasons it attracts some people and often involves untold misery for others" (2)
اپنی تحریروں میں ایڈورڈ سعید نے اس حقیقت کی جانب متوجہ کیا ہے کہ سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا استحصالی عناصر پرانے شکاریوں کے مانند ہمیشہ نئے جال لے کر شکار گاہ میں پہنچتے ہیں اور کُھلی فضاؤں میں دانہ دُنکا چُگنے کے عادی طیور کو اسیرِ قفس رکھ کر لذتِ ایذا حاصل کرتے ہیں۔ عالمی سامراج کی سازش سے پس ماندہ اقوام کی آزادی بے وقار او رموہوم ہو کر ر ہ گئی ہے ۔ مغرب کی استعماری طاقتوں نے مشرق کے پس ماندہ ممالک میں اپنی نو آبادیاں قائم کر کے ان ممالک کی تہذیب و ثقافت ،فنون لطیفہ ،سماج اور معاشرت کے بارے میں گمراہ کُن تجزیے پیش کیے۔حقائق کی تمسیخ اور مسلمہ صداقتوں کی تکذیب مغرب کے عادی دروغ گو محققین کا وتیرہ رہا ہے ۔یہ سلسلہ اس وقت سے جاری ہے جب فرانس کے مہم جُو نپولین بونا پارٹ ( Napoleon Bonaparte)نے سال 1798میں مصر اور شام پر دھاوا بو ل دیا تھا یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ ان سابقہ نو آبادیات میں سلطانیٔ جمہور کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا ۔ان ممالک کے حکمرانوں کے سر پر تو خود مختارحکومت کا جعلی تاج سجا دیا گیا ہے مگر ان کے پاؤں بیڑیوں سے فگار ہیں۔اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے ایڈورڈ سعید نے لکھا ہے :
" They were likely,on the one hand,to be considered by many Western intelellectuals retrspective Jeremiahs denouncing the evils of past colonialism,and,on the other,to be treated by their governments in Saudi Arabia ,Kenya,Pakistan as agents of outside powers who deserved imprisonment or exile.The tragedy of this experience ,and indeed of so many post colonial experiences ,derives from the limitations of the attempts to deal with relationships that are polarized,radically uneven ,remembered differently."(3)
دوسری عالمی جنگ کے بعد پُوری دنیا میں فکر و نظر کی کایا پلٹ گئی۔ محکوم اقوام کا لہو سوزِ یقیں سے گرمانے والے قائدین نے ممولے کو عقاب سے لڑنے کا ولولہ عطا کیا ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سامراجی طاقتوں کو اپنا بوریا بستر لپیٹ کر اپنی نو آبادیات سے بادِلِ نا خواستہ کُو چ نا پڑا ۔ وقت کے اس ستم کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ جاتے جاتے سامراجی طاقتوں نے اپنے مکر کی چالوں سے یہاں فتنہ و فساد اور خوف و دہشت کی فضا پیدا کر دی۔ ایڈورڈ سعید کا خیال تھا کہ ساتا روہن اور گُرگ منش شکاری ہمیشہ نئے جال تیار کرتے رہتے ہیں ،زنجیریں بدلتی رہتی ہیں مگر الم نصیبوں کے روز و شب کے بدلنے کے امکانات معدوم دکھائی دیتے ہیں۔اس نے یہ بات ہمیشہ زور دے کر کہی کہ جب تک کسی قوم کے افراد احتسابِ ذات پر توجہ مرکوز نہیں کرتے اور حریتِ ضمیر سے جینے کی راہ نہیں اپناتے اس وقت تک اُن کی قسمت نہیں بد ل سکتی۔حریتِ فکر و عمل اور حریتِ ضمیر سے جینے کی روش وہ زادِ راہ ہے جو زمانۂ حال کو سنوارنے ،مستقبل کی پیش بینی اور لوح ِ جہاں پر اپنا دوام ثبت کرنے کا وسیلہ ہے۔ ایڈورڈ سعید ایک مر نجان ومرنج انسان تھا کسی کی دل شکنی و دِل آزاری سے اُسے کوئی غرض نہ تھی ۔ پس نو آبادیاتی دور میں ہوسِ زر نے ایک بحرانی کیفیت اختیار کر لی ہے ۔ان اعصاب شکن حالات میں سیرت و کردار کی تعمیر وقت کا اہم ترین تقاضا سمجھا جاتا ہے ۔ایڈورڈ سعید نے اس جانب متوجہ کیا کہ ہر فرد کو اپنی ملت کی تقدیر سنوارنے میں اہم کردار کرنا پڑے گا۔ایک ذمہ دار شہری کا یہ فرض نہیں کہ وہ اپنی ذات کے نکھار،نفاست،تزئین اور عمدگی کو مرکزِ نگاہ بنالے بل کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ حریتِ فکر و عمل کو شعار بنائے اور اپنے جذبات،احساسات،اور اظہار و ابلاغ کے جملہ انداز صداقت سے مزین کرے۔ایڈورڈ سعید نے پس نو آبادیاتی مطالعات پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ جہاں تک ادب میں پس نو آبادیاتی مطالعات کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ ان میں نو آبادیاتی دور کے محکوم باشندوں کے زوایہ ٔنگاہ ،وقت کے بدلتے ہوئے تیور ،فکر و خیال کی انجمن کے رنگ اور ان کے آ ہنگ پیشِ نظر رکھے جاتے ہیں۔پس نو آبادیاتی مطالعات نو آبادیات کے باشندوں کی خاص سوچ پر محیط ہوتے ہیں۔ جری تخلیق کار اس جانب متوجہ کرتا ہے کہ سامراجی طاقتوں کی نو آبادیات کے وہ مظلوم باشندے جو طویل عرصے تک سامراجی غلامی کا طوق پہن کر ستم کش ِ سفر رہے مگر سامراجی طاقتوں کے فسطائی جبر کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا،ان کا کردار ہر عہد میں لائق صد رشک وتحسین سمجھا جائے گا۔یہ دیکھا جاتا ہے کہ سامراجی طاقتوں کو جب اپنی نو آبادیات میں منھ کی کھانا پڑی اور ہزیمت اُٹھانے کے بعد جب وہ بے نیلِ مرام اِن سابقہ نو آبادیات سے نکلنے پر مجبور ہوئے تو اس کے بعد ان نو آبادیات کے با شندوں نے آزادی کے ماحول میں کس طرح اپنی انجمنِ خیال آراستہ کی۔ استعماری طاقتوں نے دنیابھر کی پس ماندہ اقوام کو اپنے استحصالی شکنجوں میں جکڑے رکھا۔سامراجی طاقتوں کی جارحیت کے نتیجے میں ان نو آبادیات کی تہذیب وثقافت،ادب،اخلاقیات،سیاسیات ،تاریخ ،اقدار و روایات اور رہن سہن کے قصر و ایوان سب کچھ تہس نہس ہو گیا۔ پس نو آبادیاتی مطالعات میں اس امر پر نگاہیں مرکوز رہتی ہیں کہ ان کھنڈرات کے بچے کھچے ملبے کے ڈھیر پر نو آزاد ممالک کے باشندوں نے آندھیوں اور بگولوں سے بچنے کے لیے صحنِ چمن کو کس طرح محفوظ رکھاتیسری دنیا کے ممالک کے مسائل اور اس کے نتیجے میں آبادی میں رونماہونے والے تغیر و تبدل کے بارے میں ایڈورڈ سعید نے اس موضوع پر حقیقت پسندانہ انداز میں لکھا ہے :
"The widespread territorial rearrangements of the post-World War Two period produced huge demographic movements,for example the Indian Muslims who moved to Pakistan after 1947 partition,or the Palestinians who were largely dispersed during Israel,s establishment to accomodate incoming European and Asian Jews; and these transformations in turn gave rise to hybrid political forms.(4)
ایڈورڈ سعید نے دیارِ مغرب کے مکینوں کی مشرق دشمنی کے خلاف نہایت بے باکی سے اظہار ِ خیال کیا ۔اس نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ مطالعۂ ادب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہومر کے زمانے ہی سے یورپی فکر پرجورو ستم اور جبر و استبداد کا عنصر حاوی رہا ہے ۔بادی النظر میں یہ تاثر عام ہے کہ ہر یورپی باشندے کا مزاج جابرانہ اور آمرانہ ہے اور نسل پرستی،سامراج کی حمایت اورمریضانہ قبیلہ پرستی اہلِ یورپ کی جبلت اور سرشت میں شامل ہے۔ایڈورڈ سعید کی زندگی شمع کے مانند گزری اس نے خبردار کیا کہ کوئی دیوتا،کسی قسم کے حالات،کوئی من گھڑت تجریدی تصوریا ضابطہ بے بس و لاچار اور بے گناہ انسانیت کے چام کے دام چلانے اور ان پر کوہِ ستم توڑنے اور مظلوم انسانوں کی زندگی کی شمع گُل کرنے کا جواز پیش نہیں کرتا ۔اُسے یقین تھا کہ ظلم کا پرچم بالآ خر سر نگوں ہو گا اور حریتِ ضمیر سے جینے والے عملی زندگی میں کامیاب و کامران ہوں گے۔ایڈورڈ سعید ان مظلوم انسانوں کا حقیقی ترجمان تھا جن کی زندگی جبر مسلسل برداشت کرتے کرتے کٹ جاتی ہے۔اس نے اس جانب متوجہ کیا کہ اقوام کی تاریخ اور تقدیر در اصل افراد ہی کی مرہونِ منت ہے ۔یہ افراد ہی ہیں جو جو کسی قوم کی تاریخ کے مخصوص عہد کے واقعات کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں اور ابہام کو دُور کر کے اِسے از سرِ نو مرتب کرتے ہیں۔افراد کی خاموشی کو تکلم اور بے زبانی کو بھی زبان کا درجہ حاصل ہے ۔ حریتِ فکر کی پیکار اور جبر کے خلاف ضمیر کی للکار سے تاریخ کا رُخ بدل جاتا ہے ۔حریتِ فکر کے مجاہد تاریخ کے اوراق سے فرسودہ تصورات اور مسخ شدہ واقعات کو حذف کر کے اپنے خونِ جگر سے نئی خود نوشت تحریر کرتے ہیں۔ جب جو ر و جفا کا بُر اوقت ٹل جاتا ہے توتاریخ میں مذکور ماضی کی بے ہنگم اور بد وضع قباحتیں جنھیں ابن الوقت مسخروں نے نظر انداز کر دیا ان پر گرفت کی جاتی ہے ۔افراد پر یہ ذمہ دار ی عائد ہوتی ہے کہ ایام ِگزشتہ کی کتاب کے اوراق میں مذکور تمام بے سرو پا واقعات کو لائق استردا دٹھہراتے ہوئے انھیں تاریخ کے طوماروں میں دبا دیں۔
پس ماندہ اور نو آبادیاتی نظام کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ممالک کے مظلوم باشندوں کا لہو سوز ،یقیں سے گرمانے میں ایڈورڈ سعید نے نہایت خلوص اور دردمندی سے کام لیا ۔ وہ ایک دردِ دِل رکھنے والااور درد آشنا مسیحا تھا جس نے نہایت خلوص سے دُکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی۔ یہ امر کس قدر لرزہ خیز اور اعصاب شکن ہے کہ کہ بے گناہ افراد کو اس شک کی بنا پر جبر کے پاٹوں میں پِیس دیا جائے کہ ان کے آبا و اجداد نے ماضی میں شقاوت آمیز نا انصافیوں کا ارتکاب کیا تھا اور موجودہ دور کے ظالم ان کا نشانہ بنتے رہے ۔اپنے بلاجواز انتقام کے لیے یہ دلیل دی جائے کہ چونکہ ان کے خاندان نے ماضی میں ظلم سہے ہیں اس لیے اب وہ نسل در نسل ان مظالم کا انتقام لیں گے اور اپنے آبا و اجداد کے دشمنوں کی زندگی اجیرن کر کے انھیں ماضی کے تلخ سمے کے سم کا ثمر کھانے پر مجبور کر دیں گے۔اس نے سادیت پسندوں پر واضح کردیاکہ کسی کو اذیت و عقوبت میں مبتلا رکھنے کی بھی حد ہونی چاہیے۔اس سے پہلے کہ مظلوموں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے فسطائی جبر کو اپنے انتہا پسندانہ روّیے پر غور کرنا چاہیے۔زندگی کا ساز بھی ایک عجیب اور منفرد آ ہنگ کا حامل ساز ہے جو پیہم بج رہا ہے مگر کوئی اس کی صدا پر کان نہیں دھرتا۔کُوڑے کے ڈھیر سے جاہ و منصب کے استخواں نو چنے اور بھنبھوڑنے والے خارش زدہ سگانِ راہ نے تو لُٹیاہی ڈبو دی ہے ۔اس قماش کا جو بھی مسخرہ درِ کسریٰ میں داخل ہوتا ہے طلوعِ صبح ِ بہاراں کی نوید عشرت آگیں لے کرغراتا ہے کہ ماضی کے فراعنہ کے برعکس اس کا مقصدلُوٹ مار،غارت گری،انسان دشمنی،اقربا پروری اور قومی وسائل پر غاصبانہ تسلط نہیں بل کہ وہ افراد کی آزادی،تعلیم،صحت اور خوش حالی پر اپنی توجہ مرکوز رکھنے کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتاہے۔ یہ ایک طرفہ تماشا ہے کہ فقیروں کے حال جُوں کے تُوں رہتے ہیں مگر بے ضمیروں کے سدا وارے نیارے رہتے ہیں۔سادہ لوح عوام کو سبز باغ اور حسین خواب دکھانے والے بھی ماضی کی طرح حقائق کو سرابوں کی بھینٹ چڑھا کر اپنی اپنی راہ لیتے ہیں ۔اپنے مطالعات میں ایڈورڈ سعید نے تاریخ کے مسلسل عمل،ریاستوں اور سامراجی تناظر کو ہمیشہ پیش ِ نظر رکھنے پر زور دیا۔
انسانیت نوازی ایڈورڈ سعید کے مزاج کا اہم وصف تھا۔ اس کے نزدیک انسانیت نوازی کاارفع معیار یہ تھا کہ جبر و استبداد کے خلاف بھر پور مزاحمت کی جائے اور مرگ آفریں استحصالی قوتوں کے مذموم ہتھکنڈوں اور بے رحمانہ انتقامی کارروائیوں کو ناکام بنانے کے لیے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے کسی قربانی سے دریغ نہ کیا جائے۔ہر ظالم سے اسے شدید نفرت تھی اور وہ چاہتا تھا کہ معاشرتی زندگی سے ان تمام شقاوت آمیز ناانصافیوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا جائے جن کے باعث تاریخ ِ انسانی کا سارا منظر نامہ ہی گہنا گیا ہے ۔تاریخ اور اس کے پیہم رواں عمل پر اس کا پختہ یقین تھا لیکن اس بات پر وہ ملول اور آزردہ تھا کہ تاریخ کے اس پیہم رواں عمل کو فاتح ،غالب،غاصب اور جارحیت کی مرتکب طاقتوں نے من مانے انداز میں مسخ کر کے اس کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے اور اس کے متعدد واقعات محض پشتارۂ اغلاط بن کر رہ گئے ہیں۔اس نے ذوقِ سلیم سے متمتع اپنے قارئین کی ذہنی بیداری کااس طرح اہتمام کیا کہ وہ اپنے حقو ق کے حصول کے لیے جہد و عمل پر مائل ہوگئے ۔ اس نے واضح کر دیا کہ قارئین کے دلوں کی بیداری اور فکر و نظر کو مہمیز کرنا وقت کا اہم ترین تقاضاہے ۔ سفاک ظلمتوں میں ستارۂ سحر دیکھنے کی تمنا کرنے والے اس رجائیت پسند ادیب نے اس حقیقت کی جانب متوجہ کیا کہ یاس و ہراس کا شکار ہونے والے دراصل شکست خوردہ ذہنیت کے مالک ہیں۔ سعیٔ پیہم ، عزم صمیم اور امید کا دامن تھام کر نا ممکن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے وہم و گمان کو صداقت میں بدلا جاسکتا ہے اور خواب کو حقیقت کا روپ دیا جاسکتا ہے ۔ کاروانِ ہستی کے تیز گام رہرو اپنی راہ میں حائل ہونے والی ہر رکاوٹ کو ضربِ کلیمی سے کچلتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔ یگانۂ روزگار فضلا کی زندگی کے مطالعہ سے اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ سیلِ زماں کے تھپیڑے اس عالمِ آب گِل کی ہر چیز کو تہس نہس کر دیتے ہیں مگر اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ریگِ ساحل پرنوشتہ وقت کی کچھ تحریریں لوحِ جہاں پر انمٹ نقوش ثبت کر کے اپنا دوام ثبت کر دیتی ہیں۔ایسے انسان نایاب ہوتے ہیں جن کی انسانیت سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت انھیں اہلِ عالم کی نظروں میں معزز و مفتخر کر دیتی ہے ۔ دُکھی انسانیت کے ساتھ بے لوث محبت دردمند اور درد آشنا انسان کو بے خوف و خطرنارِ نمرودمیں جست لگانے کا حوصلہ عطا کرتی ہے ۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مرگِ نا گہانی کے اندیشوں ،وسوسوں اور خوف کے سوتے زندگی کی ڈر سے پھوٹتے ہیں لیکن بھر پور زندگی بسر کرنے والے الوالعز م انسان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ مو ت پر ی کے منگیتر ہیں اور اجل کو چوڑیاں پہنانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔ زینہ ٔ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کر اں وادیوں کی جانب کسی کا سدھار جانا اتنا بڑا سانحہ نہیں بل کہ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہماری زندگی میں جس وقت درخشاں اقدار و روایات نے دم توڑ ا تویہ سانحہ دیکھنے کے بعد ہم کیسے زندہ رہ گئے ۔ ایڈورڈ سعید نے زندگی کی حیات آفریں اقدار و روایات کے تحفظ کو اپنا نصب العین بنا رکھا تھا ۔ موت ایسے لوگوں کی زندگی کی شمع گُل نہیں کرسکتی بل کہ ان کے لیے تو موت ایک ماندگی کا وقفہ ہے جس کے بعد ان کے افکار کی تابانیوں کا ایک غیر مختتم سلسلہ شروع ہوتا ہے جو جریدۂ عالم پر ان کی بقائے دوام کو یقینی بنا دیتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جس طرح پرتوِ خور سے شبنم کے قطرے ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں مگر اگلی صبح لالہ و گُل کی پنکھڑیوں پر پھر شبنم کے قطرے موجود ہوتے ہیں ۔ اسی طرح طلوع صبح کے وقت شمع بالعموم گل کر دی جاتی ہے اور دن بھر کے سفر کے بعد شام ہو تے ہی پھر فروزاں کر دی جاتی ہے ۔ اُسی طرح ایڈورڈ سعید کے خیالات کی شمع ہمیشہ فروزاں رہے گی اور اس کی شخصیت کی عنبر فشانی سے قریۂ جاں سدا معطر رہے گا ۔اس کے افکار کی باز گشت لمحات کے بجائے صدیوں پر محیط ہو گی۔
مرگِ مجنوں پہ عقل گُم ہے میرؔ
کیا دوانے نے موت پائی ہے

مآخذ

1.Edward Said:Orientalism,Penguine ,London,1973, Page,76
2.Edward W Said:Culture and ImperialismVintage Books,New York,1993, Page 7
3. Edward W Said:Culture and Imperialism, Page 18
4 . Edward W Said:Representation of the Intellectual,Vintage Books,New York,1996,Page,50

Prof.Dr.Ghulam Shabbir Rana
About the Author: Prof.Dr.Ghulam Shabbir Rana Read More Articles by Prof.Dr.Ghulam Shabbir Rana: 80 Articles with 257188 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.