ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی : بہ حیثیت مکتوب نگار
(Prof.Dr.Ghulam Shabbir Rana, Jhang)
ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی
(پیدائش:12نومبر1936،وفات:30جولائی2015)کی رحلت کے بعد وفا کے سب ہنگامے دم
توڑ گئے۔اس عظیم دانش ور کا ہماری بزم وفا سے اُٹھ جانا اس قدر بڑا سانحہ
ہے جس کے تصور ہی سے دِل بیٹھ جاتا ہے ۔مسلسل چار عشروں تک ہر ہفتے ڈاک کا
ہرکارہ میرے گھر کے دروازے پر دستک دیتا اور ان کا مکتوب میرے حوالے کر
جاتا اس طرح ہماری نصف ملاقات کا سلسلہ جو گزشتہ کئی برس سے جاری تھا وہ
اجل کے بے رحم ہاتھوں نے منقطع کر دیا ۔ان دنوں میرا حال عجب ہے کہ میں
حسرت بھری نگاہ سے ڈاک کے ہرکارے کی طرف دیکھتا ہوں اور وہ سر جھکا کر اپنی
راہ لیتا ہے ۔میرے نام کوئی نامہ نہیں ہوتا او ر میں یہ کہہ کر اپنے دِلِ
حزیں کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ وہ لوگ جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے اور
جن کے خطوط کے سہارے ہجوم ِغم میں بھی دِل کو سنبھال کر زندگی کے دِن پُورے
کرتے تھے وہ لوگ اپنی باری بھر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھا ر
گئے ہیں۔کس کس کا نام لوں گزشتہ چند برسوں میں علم و ادب کی کہکشاں کے بے
شمارتابندہ ستارے اُفقِ ادب سے غروب ہو گئے۔ اب تو جانگسل تنہائیوں ،سفاک
ظلمتوں اور مہیب سناٹوں نے مجھے گھیر رکھا ہے ۔سب احباب نے اپنی بستیاں
یہاں سے اس قدر دُور بسالی ہیں کہ یادِ رفتگاں پر کلیجہ منھ کو آتاہے۔ چند
روز پہلے کمپیوٹر کی سکرین پر ایک ادبی مجلے کا مطالعہ کر رہا تھا کہ ایک
ویب سائٹ پر ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کا س گنجوی کے گراں قدر مکاتیب کا ایک
مجموعہ دیکھا۔انٹر نیٹ کی اس اہم ویب سائٹ پر افادیت سے لبریز اور لائق صد
رشک و تحسین یہ تالیفی کام پروفیسر ڈاکٹر سید مقصود حسنی(قصور) کی محنت کا
ثمر ہے جو ( https://online.fliphtml5.com/hzfm/alau/) لِنک پر دیکھا جا
سکتاہے ۔آج صبح جب میں اپنی الماری کے دراز میں سے سیونگ بنک کاATM کارڈ
تلاش کر رہا تھا تو مجھے ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی کے کچھ خطوط
ملے۔یہ دیکھ کر مجھے خوش گوار حیرت ہوئی کہ ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کا س
گنجوی نے دیگر اصنافِ ادب کی طرح مکتو ب نگاری میں بھی اپنی اسلوبیاتی
مہارت کا لوہا منوایا ہے ۔ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی کا حلقۂ احباب
بہت وسیع تھا اور وہ اپنے سب احباب کے نام نہایت باقاعدگی سے خط لکھتے
تھے۔مکتوب نگاری کے وسیلے سے یہ معتبر ربط ان کے احباب کے لیے حوصلے اور
مسرت کا نقیب ثابت ہوتا تھا۔مجھے بھی وہ باقاعدگی سے خط لکھتے رہے جومیرے
پاس موجود ہیں۔ مجھے یہ جان کر دِل مسرت ہوئی کہ مایہ ناز محقق اور نقاد
پروفیسر غلام قاسم خان مشاہیر ِ ادب کے مکتوبات جمع کر رہے ہیں اور ان کی
اشاعت کے آرزومند ہیں۔میرے پاس مشاہیر ادب کے جتنے بھی خط محفوظ ہیں وہ میں
مکتوب نگاری کے بارے میں اس تمہیدی اور پس منظری مضمون کے ساتھ ان کی خدمت
میں پیش کر رہا ہوں۔میرے دِل میں یہی آرزو ہے کہ اب جس کے جی میں آ ئے وہ
یادوں کی اس کہکشاں کی ضیاپاشیوں سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام کرے
۔ احباب کے ہاتھ کے لکھے ہوئے پر خلوص جذبات کے حامل مکتوبات کو ہمیشہ سر
آنکھوں پر جگہ دی جاتی رہی ہے ۔صفحۂ قرطاس پر بکھرے مکتوبات کے الفاظ
موتیوں کے ایسے دانوں کے مانند ہیں جنھیں پر جوش مکتوب نگار نے جذبۂ بے
اختیار کو بروئے کار لاتے ہوئے قلبی و روحانی کیفیات اور سچے جذبات سے
نکھارا ہے۔یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ خطوط ہی وہ اہم اور
حسین ترین یادگار ہیں جسے رفتگان کا بیش بہا اثاثہ سمجھ کر ہر دور میں سینت
سینت کر رکھا جاتا ہے ۔
اردو زبان میں مکتوب نگاری کو بہ طور صنف ادب متعارف کرانے میں اوّلیت کا
اعزاز مرزا رجب علی بیگ سرورؔ(1785-1869) کو ملتا ہے ۔تاریخ ادب اردو میں
اگرچہ یہ خطوط اپنی قدامت اور اوّلیت کی بدولت قابل ذکر ہیں لیکن تخلیقی
اعتبار سے یہ خطوط اسلوب کی چاشنی اور موضوعاتی تنوع کا کوئی قابل قدر پہلو
سامنے نہ لا سکے ۔ اُردو زبان و ادب کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے ذوقِ
سلیم سے متمتع قارئین اس حقیقت سے بہ خوبی آگاہ ہیں کہ اردو زبان میں مکتوب
نگاری کو بہ حیثیت ایک ہر دل عزیز صنف ادب متعارف کرانے کا سہرا مرزا اسداﷲ
خان غالبؔ(1797-1869) کے سر ہے ۔مرزا اسداﷲ خان غالب ؔکے مکاتیب گلشن اردو
میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئے ،جن کی عطر بیزی سے صحنِ چمن مہک اٹھا
اور اس صنفِ ادب کی مہک سے آج بھی قریہ ٔجاں معطر ہے ۔ مرز اسداﷲ خان غالبؔ
نے اردو میں مکتوب نگاری کا آغاز 1846 یا1848کے دوران کیا ۔اس طرح اردو
زبان کو صنفِ مکتوب نگاری کے اعجاز سے نئے آفاق تک رسائی کی نوید ملی
۔غالبؔ کی مکتوب نگاری اردو نثر کے فروغ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے
۔اپنے سادہ ،حسین ،بر جستہ ،پر کشش اور دل کش اسلوب سے غالبؔ نے مراسلے کو
مکالمہ بنا دیا۔مشاہیر کے مکاتیب تاریخ ،تہذیب ،ثقافت اور درخشاں اقدار و
روایات کے امین ہوتے ہیں ۔غالبؔ نے اپنے مکاتیب میں اپنی دلی کیفیات ،سچے
جذبات اور حقیقی احساسات کے اظہار کے لیے جس طرز خاص کا انتخاب کیا وہ بعد
میں آنے والوں کے لائق تقلید بن گئی ۔یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ ہر صنف ادب
میں رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے بے شمار استعارے،لاتعداد
رنگینیاں،رعنائیاں ،دلچسپیاں اور دلکشیا ں موجود ہوتی ہیں ۔ہر زیرک تخلیق
کار جب قلم تھام کر مائل بہ تخلیق ہوتا ہے تو اپنے افکار کی جولانیوں سے وہ
مسحور کن فضا پیدا کرتا ہے جس کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ مطالعہ ٔ ادب
سے کار زارِ ہستی کے بارے میں متعدد نئے امکانات ،ارتعاشات اور ممکنات کا
اندازہ لگایا جا سکتا ہے ادب کے وسیلے سے راحتیں ،چاہتیں ،وفا اور جفا ،ہجر
و فراق ،منزلیں اور راستے ،نشیب و فراز اور طرزِ فغاں کے متعلق لا شعور کی
توانائی کو متشکل کرنے میں مددملتی ہے۔ہر صنفِ ادب کی دل کشی اپنی جگہ لیکن
جو تاثیر ،بے تکلفی اور مسحورکن اثر آفرینی مکاتیب میں پنہاں ہے اس میں
کوئی اور صنف ادب اس کی ہم سر نہیں۔ نو ناول اور سولہ افسانوی مجموعے لکھ
کر اردو ادب کی ثروت میں اضافہ کرنے والی پدما شری ایوارڈ یافتہ بھارتی
ادیبہ صالحہ عابد حسین(پیدائش :اگست 1913) کے خیال میں مکتوب نگاری بہت اہم
اور دلچسپ صنف ادب ہے ۔صالحہ عابد حسین (مصداق فاطمہ)کی والدہ مولانا الطاف
حسین حالی کی پوتی تھیں۔صالحہ عابد حسین نے مکتوبات کے حسن و رعنائی اور دل
کشی کے حوالے سے لکھا ہے :
’’ادب میں سیکڑوں دلکشیاں ہیں۔اس کی بے شمار راہیں اور ان گنت نگاہیں ہیں
لیکن خطوں میں جو جادو ہے (بشرطیکہ لکھنا آتا ہو )وہ اس کی کسی ادا میں
نہیں۔‘‘(1)
زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس رکھنے والا ادیب ہر دور میں غالبؔ کے مکاتیب
کی نثر کو اپنے اسلوب کی اساس بنائے گا۔اگر اردو زبان و ادب کے شیدائی یہ
چاہتے ہیں کہ اردو کی ایسی تحریروں کا مطالعہ کریں جن کی شگفتگی یاس و ہراس
اور اضمحلال کے پر آشوب ماحول میں دل کو سنبھالنے اور مسکراتے ہوئے کٹھن
حالات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنے پر مائل کرے تو انھیں بلا تامل غالبؔ
کے مکاتیب کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔مکاتیب کے سحر سے بچنا محال ہے ایک با
صلاحیت مکتوب نگار ذاتی اور شخصی روّیے کو جس فنی مہارت سے آفاقی نہج عطا
کرتا ہے وہ اسے ابد آشنا بنا نے کا وسیلہ ہے ۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے
مکتوبات دِلی خواہشات،توقعات،امکانات اور حسن و جمال کی واردات کا ایک
ملفوف احوال ہے جسے منتظر مکتوب الیہ دِل پر ہاتھ رکھ کر بڑے تجسس اور
اشتیاق سے کھو لتاہے اور مکتوب نگارکے دل کا احوال سن کر سر دُھنتا ہے ۔
مرزا اسداﷲ خان غالبؔ کے بعدجن مشاہیر ادب نے مکتوب نگاری پر توجہ دی ان
میں سر سید احمد خان ،مولانا محمد حسین آزادؔ ،خواجہ الطاف حسین حالیؔ
،علامہ شبلی نعمانی ،محسن الملک ،وقار الملک ،ڈپٹی نذیر احمد ،سید اکبر
حسین اکبرؔ ا لہ آبادی ،،داغؔ دہلوی،امیر مینائی ،ریاض خیر آبادی اور سید
علی ناصر کے نا م قابل ذکر ہیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اردو میں مکتوب
نگاری کو ایک مضبوط ،مستحکم اور درخشاں روایت کا درجہ حاصل ہو گیا ۔اس کے
ابتدائی نقوش تو غالبؔ کے ہاں ملتے ہیں لیکن اِس صنفِ ادب کے ارتقا ئی
مراحل کے دوران میں اس میں متعدد نئے لکھنے والے شامل ہوتے چلے گئے۔اردو
مکتوب نگاری کی روایت کو استحکام دینے اور مکاتیب کے ذریعے اردو زبان و ادب
کی ثروت میں اضافہ کرنے کے سلسلے میں بعد میں جن نامور ادیبوں نے حصہ لیا
ان میں ابوالکلام آزادؔ،علامہ محمد اقبال ،مہدی افادی ،مولوی عبدالحق ،سید
سلیمان ندوی ،نیاز فتح پوری ،مولانا محمد علی جو ہرؔ،خواجہ حسن نظامی
،عبدالماجد دریا بادی اور محمد علی ردولوی کی خدمات تار یخ ادب میں ہمیشہ
یاد رکھی جائیں گی ۔ خواتین مکتوب نگاروں میں صفیہ اختر کے خطوط کے دو
مجموعے(حرفِ آشنا،زیرِ لب) اپنے شوہر جا نثار اختر کے نام نہایت بے ساختہ
انداز میں لکھے گئے ہیں ۔منفرد اسلوب کے حامل ان خطوط کی سادہ اور رواں
زبان،مانوس لہجے ،بے تکلفی کو دیکھ کر خطوطِ غالبؔ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے
۔ صفیہ اختر (1916-1953) کا تعلق ایک علمی و ادبی گھرانے سے تھا وہ اردو کے
ممتازشاعراسرار الحق مجاز(1911-1955) کی چھوٹی بہن تھی ۔ صفیہ اختر کے
مکاتیب کے یہ مجموعے اس کی وفات کے بعد اس کے شو ہر جانثار اختر نے شائع
کیے ۔اردو مکتوب نگاری کے ارتقا میں ان تمام مشاہیر اد ب نے خون بن کر رگِ
سنگ میں اترنے کی جو سعی کی وہ تاریخ ادب میں آب زر سے لکھنے کے قابل ہے ۔
ترقی پسند تحریک جو 1936میں شروع ہوئی اس کے زیر اثر فکر و نظر میں ایک
واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی۔برصغیر میں افکار تازہ کے وسیلے سے جہان تازہ
تک رسائی کے امکانات کا جائزہ لیا جانے لگا۔اردو زبان کے ادیبوں نے جدید
علوم اور تصورات پر توجہ دی ۔اس زمانے میں نفسیات کے زیر اثر حقیقت نگار ی
اور فطرت نگاری کا عمیق مطالعہ تخلیقی عمل کی اساس بن گیا ۔اردو مکتوب
نگاری پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔تخلیق ادب کے نئے رجحانات سامنے آئے
ان کے زیر اثر اردو کے جن نابغہ روزگار ادیبوں نے مکتوب نگاری کے ذریعے
تزکیہ نفس کے امکانات سامنے لانے کی سعی کی ان میں جو ش ملیح آبادی ،فراق
گورکھ پوری ،سید سجاد ظہیر ،صفیہ اختر ،اور ڈاکٹر ایم ۔ڈی تاثیر کے نام
ممتاز حیثیت کے حامل ہیں ۔اردو ادب میں مکتوب نگاری کو ہمیشہ کلیدی اہمیت
کی حامل صنف ادب سمجھا جاتا رہاہے ۔اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا
ہے کہ بر صغیر کے اعلا معیار کے ادبی مجلات نے مختلف اوقات میں جو مکاتیب
نمبر شائع کیے انھیں بے حد پذیرائی ملی ۔ ادبی مجلات کے ان مکاتیب نمبر میں
سے کچھ حسب ذیل ہیں :
1۔ادبی مجلہ ایشیا،مکاتیب نمبر ،بمبئی،1941
2۔ادبی مجلہ آج کل ،خطوط نمبر،دہلی ،1954
3۔ادبی مجلہ نقوش،مکاتیب نمبر ،لاہور ،جلد اول ,1957
4۔ادبی مجلہ نقوش،مکاتیب نمبر ،لاہور ،جلد دوم ،1968
بادی النظر میں یہ حقیقت واضح ہے کہ مکتوب نگار کو اپنے جذبات ،احساسات اور
داخلی کیفیات کو صفحہ ٔ قرطاس پر منتقل کرنے کے جو مواقع میسر ہوتے ہیں ان
سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دل کی بات قلم و قرطاس کے معتبر حوالے سے بلا خوف و
خطر کر سکتا ہے ۔قلمی مراسلہ ایک طرح کا قلبی مکالمہ بن جاتا ہے اور اس
تخلیقی عمل کے معجز نما اثر سے مکتوب نگار اپنی افتاد طبع کے مطابق مکتوب
الیہ سے بہ زبان قلم باتیں کر کے جانگسل تنہائیوں کے کرب سے نجات حاصل کر
سکتا ہےء۔اگر مکتوب نگاری میں خلوص اور دردمندی کا عنصر شامل ہو تو مکتوب
نگار ہجر و فراق کی عقوبت سے بچ کر خط کے ذریعے وصال کے نشاط آمیز لمحات سے
فیض یاب ہو سکتا ہے ۔ نفسیاتی اعتبار سے تحلیل نفسی کے سلسلے میں کسی بھی
شخصیت کی داخلی کیفیات ،ہیجانات اور طور طریقوں کے جملہ اسرار و رموز کی
تفہیم میں مکتوبات بہت اہمیت رکھتے ہیں ۔مکاتیب ہی دراصل مکتوب نگار کی
شخصیت کے سر بستہ رازوں کی کلید ہیں۔ کسی بھی شخصیت کے اسرار و رموز اور
کردار کی تمام گتھیاں سلجھانے میں خطوط کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا
جاتا ہے ۔یہ مکاتیب ہی ہیں جو کسی شخصیت کی زندگی کے پنہاں پہلو سامنے لانے
میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مکتوب نگار اپنی
زندگی کے تمام نشیب و فراز ،جذباتی میلانات،مستقبل کے اندیشہ ہائے دور دراز
اور اس جہاں کے کار دراز کے متعلق مکتوب کی سطور کے ذریعے جو کچھ پیغام
ارسال کرتا ہے وہ نوائے سروش کی صورت میں مکتوب الیہ تک پہنچ جاتا ہے
۔مکتوب نگاری ایک ایسافن ہے جو زندگی کی کلیت پر محیط ہے ۔ حیات و کائنات
کے تمام پہلو مکاتیب کا موضوع بن سکتے ہیں یہی ان کی مقبولیت کا راز ہے ۔یہ
ایک مسلمہ صداقت ہے کہ مکاتیب زندگی کی حرکت و حرارت کے آئینہ دار ہوتے ہیں
۔مکاتیب کا زندگی کے حقائق سے گہرا تعلق ہے ۔ڈاکٹر خورشیدالاسلام نے لکھا
ہے:
’’ زندگی اپنی راہیں خود بنا لیتی ہے ۔خط اپنی باتیں خود پیدا کر لیتا ہے
۔۔۔زندہ رہنے کے لیے اور خط لکھنے کے لیے زندگی کا احترام ضروری ہے ۔‘‘(2)
انسانی زندگی میں مدوجزر کی کیفیت ہمیشہ بر قرار رہتی ہے ۔ایک تخلیق کار کا
روّیہ عجیب ہوتا ہے کبھی سوز و ساز رومی تو کبھی پیچ و تاب رازی والا
معاملہ دکھائی دیتا ہے ۔ایسے متعدد عوامل ہوتے ہیں جو کہ تخلیق کار کی
زندگی میں اس کااوڑھنا بچھونا بن کر اسے ہمہ وقت اپنی گرفت میں لیے رکھتے
ہیں ۔اس کے بعد ایسا بھی ہوتا ہے تما م حقیقتیں خیال و خواب بن جاتی ہیں
اور جنھیں ہم دیکھ کر جیتے ہیں وہی لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور
انسے وابستہ یادیں ایک دردِ لا دوا کی صورت اختیار کر لیتی ہیں ۔ متعدد
مسلمہ صداقتوں پر سرابوں کا گمان گزرتا ہے لیکن دراصل یہ سب حقیقتیں، یادیں
،فریادیں اور قلبی رودادیں سیلِ زماں کے تھپیڑوں کی زد میں آ کر پس منظر
میں چلی جاتی ہیں اور اس طرح وہ بالآخر ہمارے اجتماعی لا شعور کا حصہ بن
جاتی ہیں ۔اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اجتماعی لا شعور کا حصہ
بن جانے کے باوجود پس منظر میں چلی جانے والی صداقتیں ایک لمحے کے لیے بھی
غائب نہیں ہوتیں بل کہ ہمیشہ اپنے وجود کا اثبات کرتی رہتی ہیں۔ دیرینہ
ساتھیوں اور عزیزوں کے مکاتیب بھی اس کی ایک صورت پیش کرتے ہیں ۔ان کی
اساسی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اگرچہ ان کا تعلق ایک فرد کی نجی زندگی سے ہوتا
ہے لیکن یہ اس انداز سے زندگی کی کلیت اور جامعیت کی عکاسی کرتے ہیں کہ
پڑھنے والے کو ان میں اپنی زندگی کے تمام موسم اُترتے محسوس ہوتے ہیں ۔دِل
و دماغ کی گہرائی سے جو بات نکلتی ہے اس کی اثر آفرینی بہ ہر حال مسلمہ ہے
۔مکتوب نگار کی تابِ سخن کے اعجاز سے فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا ہوتے
چلے جاتے ہیں اور قلب و روح کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلنے والے پُر خلوص
جذبات کا یہ سیلِ رواں آلامِ روزگار کو خس وخاشاک کے مانند بہا لے جاتا ہے
۔پُر خلوص جذبات سے مزین مکاتیب کی صدا پوری انسانیت کے مسائل کی ترجمانی
پر قادر ہے ۔مکتوب نگار اپنے شعوری غور وفکر کو اپنے اسلوب کی اساس بناتا
ہے ۔بادی النظر میں مکتوب نگاری کی حدیں جذبہ ٔ انسانیت نوازی سے ملتی ہیں
۔ان دونوں میں مقاصد کی ہم آہنگی وادی ٔ خیال کو مستانہ وار طے کرنے کا
ولولہ عطا کرتی ہے اور دِلوں کی دھڑکنیں بڑھتی چلی جاتی ہیں ۔مکتوب
نگارجہاں اپنی داخلی کیفیات کو صفحہ ٔ قرطاس پر منتقل کرتا ہے وہاں زندگی
کے متعدد تلخ حقا ئق کو بھی منصہ شہود پر لاتا ہے ۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ
مکتوب نگار تخلیقِ ادب کے حوالے سے زندگی کی حرکت و حرارت کی عکاسی کرنے
والے جملہ پہلو سامنے لاتا ہے اور اس طرح زندگی کی جدلیاتی حرکت کے بارے
میں کوئی ابہام نہیں رہتا ۔وہ جانتاہے کہ خزاں بہار کے آنے جانے سے یہ
مترشح ہوتا ہے کہ فرد کی زندگی اور قلب و روح پر اترنے والے تمام موسم نہاں
خانہ ٔ دل میں عنبر فشاں گلشنِ آرزو کی کلی کے کھلنے اور مر جھانے سے عبارت
ہیں ۔مکتوب نگاری اُس ذوق ِسلیم کی مظہر ہے جو ہر لحظہ نیاطُور نئی برقِ
تجلی دکھانے کا آرزو مند رہتا ہے ۔ایک زیرک اور با شعور مکتوب نگار اپنے
اسلوب کے ذریعے دلوں کو مسخر کر لیتا ہے ۔مرزا اسداﷲ خان غالبؔ نے اپنے
ذوقِ مکتوب نگاری کے متعلق ایک شعر میں صراحت کی ہے ۔
یہ جانتا ہوں کہ تُو اور پاسخ مکتوب
ستم زدہ ہوں مگر ذوقِ خامہ فرسا کا
اردو ادب میں مکتوب نگاری نے اب ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت اختیار
کر لی ہے ۔مرزا اسدﷲ خان غالبؔ سے لے کر عہد حاضر تک اردو ادیبوں نے اپنے
خطوط کے وسیلے سے مثبت شعور و آگہی کو پروان چڑھانے کی مقدور بھر سعی کی ہے
۔سادگی و سلاست ،خلوص و دردمندی اور انسانی ہمدردی خطوط کا امتیازی وصف
قرار دیا جاتا ہے ۔مکتوب نگاری میں تکلف ،تصنع ،مافوق الفطرت عناصر
،ریاکاری اور موقع پرستی کی کوئی گنجائش نہیں ۔مراسلے کو مکالمہ بناتے وقت
دل کی بات قلم کے وسیلے سے صفحہ ٔ قرطاس پر منتقل کرنا ایک کٹھن مر حلہ ہے
۔حرفِ صداقت لکھنا اس تخلیقی عمل کے لیے نا گزیر ہے ۔یہ حقیقت فراموش نہیں
کرنی چاہیے کہ خط کے مندرجات اور موضوعات کا تعلق براہِ راست زندگی کے
معمولات سے ہوتا ہے ۔جس طرح زندگی کے تلخ حقائق سے چشم پوشی ممکن نہیں اسی
طرح مکاتیب کی اثرآفرینی سے شپرانہ چشم پوشی احسان فراموشی اور بے حسی کے
مترادف ہے ۔مکتوب نگار اپنی ذات کو پس منظر میں رکھتے ہوئے حالات کی اس
مسحور کن انداز میں عکاسی کرتا ہے کہ قاری پر تمام حقائق خود بہ خود منکشف
ہوتے چلے جاتے ہیں ۔خطوط کے ذریعے احساس ،ادراک ،وجدان اور عرفان کی جو
متاعِ بے بہا نصیب ہوتی ہے کوئی اور صنف ادب اس کی برابری نہیں کر سکتی
۔تخلیق کار ،اس کے تخلیقی عمل اور اس کے پس پردہ کارفرما لاشعوری محرکات کی
اساس پر جب تحلیل نفسی کا مرحلہ آتا ہے تو نقاد کو تخلیق کار کے مکاتیب کا
سہارا لینا پڑتا ہے ۔جب بھی کسی تخلیق کار کی حیات و خدمات پر تحقیقی کام
کا آغاز ہوتا ہے تو محقق اس کے مکاتیب کو اوّلین ماخذ کے طور پر اپنے
تحقیقی کام کی اساس بناتا ہے ۔مکاتیب میں شگفتگی ،شائستگی ،صداقت
،خلوص،دردمندی اور انسانی ہمدردی ان کے مؤثر ابلاغ کو یقینی بنانے والے
عناصر ہیں۔پرِ زمانہ کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ یہ پروازِ نُور سے کہیں
بڑھ کر تیز ہے ۔وقت کی برق رفتاریوں کے کر شموں کے مانند اقدار و روایات کے
معائر بھی تیزی سے بدلتے رہتے ہیں لیکن مکاتیب کی دل کشی اور دل پذیری کا
معیار ہر دور میں مسلمہ رہا ہے ۔بے پایاں خلوص ، بے لوث محبت ، بے انتہا
چاہتوں، لا محدودقربتوں اور سدا بہارعہد و پیماں کے امین خطوط کی اہمیت ہر
دور میں موجود رہے گی ۔دورِ جدید میں برقی ذرائع ابلاغ نے حالات کی کایا
پلٹ دی ہے ۔ آج کے دور میں ای میل ،ایس ۔ایم ۔ایس ،ٹیلی فون،انٹر نیٹ پر
بالمشافہ گفتگو اور فیکس نے فاصلو ں کی طنابیں کھینچ دی ہیں ۔اس کے باوجود
خطوط کی ترسیل کا سلسلہ جاری ہے ۔اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک
جذبوں کی صداقت کا بھرم قائم ہے ۔
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہیں
ہم تو عاشق ہیں تمھارے نام کے
یہاں مناسب ہو گا کہ منفرد اسلوب کے حامل یگانۂ روزگار فاضل ڈاکٹر عبدالحق
خان حسرت کا س گنجوی کے مکاتیب سے چند اقتباسات پیش کیے جائیں ۔ مکتوب
نگارکی مستحکم شخصیت کے اوصاف کے امین یہ مکتوبات سال 2013کے دوران میں
راقم السطور کے نام لکھے گئے۔یہ وہ عرصہ ہے جب یہ نابغۂ روزگار ادیب اور
عظیم انسان ذیابیطس ،دِل اور سانس کے عوارض میں مبتلا تھا اور جسمانی کم
زوری کے باعث اعضا مضمحل سے ہو گئے تھے اور عناصر کا اعتدال بھی عنقا ہو
گیا تھا۔اس جسمانی تکلیف کے باعث عملی زندگی کے معمولات میں بھی کٹھن
مشکلات درپیش تھیں۔ مرزا اسداﷲ خان غالب ؔ کے دور سے لے کر قحط الرجال کے
موجودہ دور تک مسلسل شکستِ دِل کے باعث معاشرتی زندگی پر بے حسی کاعفریت
منڈلا رہا ہے ۔ غالبؔ نے بھی اس امر کی شکایت کی تھی کہ اگر بیمار پڑئیے تو
تیمار دار عنقا ہے ۔اس حساس تخلیق کار کی شدید علالت کے دوران میں بہت کم
احباب کو عیادت کی توفیق ہوئی۔اس عرصے میں ان کے دیرینہ رفیق بھی ان سے کم
کم ملتے تھے اور معتبر ربط کا یہ فقدان جانگسل تنہائیوں پر منتج ہوا۔میرے
نام لکھے گئے اپنے بیش تر خطوط میں انھوں نے اپنی علالت اور جسمانی کم زوری
کا ذکر کیا۔ میں نے اُن سے ٹیلی فون پر مسلسل رابطہ رکھا اور خط بھی لکھتا
رہا۔ احباب کے ساتھ ڈاکٹر عبدالحق کا ہمدردانہ ،مشفقانہ اور پر خلوص روّیہ
ان کی مستحکم اور ہر دِل عزیز شخصیت کا امتیازی وصف تھا۔وہ مجھے برادر
ِعزیزکہہ کر مخاطب کرتے اور اپنے ہر مکتوب کا اختتام ’’آپ کا بھائی ‘‘ لکھ
کر کرتے ۔اس کے نیچے اپنے دستخط کرتے اور نیچے تاریخ ضرورلکھتے تھے۔ انھوں
نے احباب کو خط لکھنے کے لیے اپنا لیٹر پیڈ چھپوا رکھا تھا ۔ یہ لیٹر پیڈ
ان کے ذوق ِسلیم کا مظہر تھا ۔اس کے اُوپر وسط میں تسمیہ درج تھا،بائی جانب
اُوپر کونے میں ان کے فون نمبر چھپے تھے ،اس کے نیچے تاریخ لکھنے کی جگہ
تھی ۔لیٹر پیڈ کے دائیں کونے میں ان کا نام جلی حروف میں چھپا تھا جس کے
نیچے ان کی ڈگریاں (ایم اے (اردو)،ایم اے (انگریزی)،ایل ایل بی،پی ایچ۔ڈی)
لکھی تھیں ۔صفحے کے اختتام پر ایک انچ جگہ چھوڑ کر ایک لکیر کھینچ دی گئی
تھی جس کے نیچے دو سطروں میں ان کی حیدرآباد اور کراچی کی رہائش گاہ کا پتا
مع فون نمبر درج تھا۔رہائش کے لینڈ لائن فون نمبر بدل جاتے تو پرانا فون
نمبر قلم زد کر کے اس کی جگہ نیا فون نمبر لکھتے۔ وطن عزیز میں جب موبائل
فون کا استعمال عام ہو گیا تو انھوں نے اپنے لیٹر پیڈ پراپنے موبائل فون
نمبر کا اندراج بھی شروع کر دیا ۔مکتوب نگاری میں وہ ایک وضع احتیاط کے
قائل تھے ۔انھوں نے بال پوائنٹ کے بجائے ہمیشہ عمدہ آفسٹ پیپر پر چھپے سفید
لیٹر پیڈ پر خط لکھتے وقت سیاہ روشنائی والے فاونٹین پین کا استعما ل کیا ۔
ان کے مکتوبات میں قطع و برید یا پس نوشت کہیں موجود نہیں ہوتی تھی ۔ان کی
تحریر ان کی مستحکم شخصیت ،زبردست قوت ارادی اور غیر متزلزل عزم کی آئینہ
دار ہوتی تھی۔وہ سمجھتے تھے کہ جدید دور میں بر قی ڈاک (E mail)،SMS،ٹیلی
فون،فیکس اور انٹر نیٹ پر پہروں بالمشافہ بات چیت کے با وجود ڈاک کے ہرکارے
کے ذریعے ملنے والے مکتوبات کی رنگینی اور دل کشی کا اپنا ایک الگ رنگ اور
آ ہنگ ہے ۔ بے تکلفی کی شان لیے ہوئے قلمی مکتوبات سچی قلبی کیفیات کے امین
ہوتے ہیں اور یہ جس پُر وقار انداز، با کمال اسلوب،بے ساختہ شناسائی اوربے
لوث درد آ شنائی کے مظہر ہوتے ہیں اس میں کوئی اورذریعہ ٔ ابلاغ ان کا شریک
و سہیم ہر گز نہیں۔
ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی میرے محسن،مونس و غم خوار اور میرے دردِ
دِل کو سمجھنے والے حقیقی درد آ شنا تھے ۔سال 2006میں سمے کے سم کے ثمر نے
جب مجھے ہجوم ِ یاس و ہراس کی بھینٹ چڑھا دیا ۔ اجل کے بے رحم ہاتھوں نے جب
میرے دِل کی انجمن میں فروزاں کئی پیارے چراغ بجھا دئیے تو میں نے دلِ لخت
لخت کو سنبھالا اور مشیتِ ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے گوشہ نشینی
اختیار کر لی۔میں اپنے رنج و غم کا بھید کسی پر کھو لنا نہ چاہتا تھا اور
حریت ضمیر سے جیتے ہوئے صبر وتسلیم و رضا میں اسوۂ شبیر ؓپر عمل کرنے کی
کوشش کرتا رہا ۔ وہ میری زندگی کے ان صبر آزما ایام کے نشیب و فراز سے آ
گاہ تھے ۔ اسی عہدِ خزاں کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے مجھے ایک مکتوب میں یاد
دلایا :
’’زندگی بھر آپ کے مختلف رُوپ دیکھتا رہا ۔وہ وقت بھی دیکھا جب آپ نے مکمل
خاموشی اختیار کر لی تھی۔میں ان حالات اور واقعات کے پس منظرمیں کچھ نہ لکھ
سکا۔جب بھی لکھنا شروع کیاجذبات کی شدت نے قلم چھین لیا۔میں آپ کے آلام پر
رو سکتا ہوں لیکن تحریر میں اپنے جذبات کااظہار میرے بس کی بات نہیں۔‘‘(یکم
فروری2011)
۔ذیل میں ان خطوط کے چند اور اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں:
’’آپ کا خط ملا،فون پر بھی بات ہو گئی تھی۔در اصل کئی بیماریوں نے پریشان
کر رکھا ہے ۔سب سے بڑی بیماری کم زوری ہے ،اس کی وجہ سے دوسری تکالیف ہو
جاتی ہیں۔‘‘(5۔نومبر 2013)
’’ آپ کا نوازش نامہ ملا،میں آپ کا بے حد ممنون ہوں اور آپ کے لیے دعا گو
ہوں۔مجھ میں جو قوت اور صلاحیت تھی،میں نے کام لیا ہے ۔یہ مسلسل کی
بیماریاں نہ ہوتیں تو اور زیادہ اپنی سی کوشش کرتالیکن یہ بات ضرو ر ہے کہ
میں نے ادب کو صِدقِ دِل سے اپنایا ہے ۔ایک سال کا تھا کہ باپ کا سایااُٹھ
گیا،والدہ نے پرورش کی ۔یہ زندگی ایک خواب ہی تو ہے سانس نہ آئے تو یہ خواب
ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا ہے لیکن اِس بات کا افسوس ہوتا ہے کہ اﷲ نے تو بے
حد نوازالیکن میں آخرت کے لیے کچھ نہ کر سکا۔‘‘ (15۔ستمبر2013)
’’آپ کا خط مِل گیا ،بے حد ممنون ہوں ۔جواب میں تاخیر کے لیے معذرت خواہ
ہوں ،بیٹے کے ساتھ کراچی چلا گیا۔سب سے بڑی بیماری کم زوری ہے ،عمر کا بھی
تقاضا ہے لیکن میں مایوس نہیں ہوں ۔اﷲ کا شکر ادا کرتا ہوں اس نے مجھے
زندگی دی ہے یہ اس کا احسان ہے ۔‘‘(29۔ستمبر 2013)
’’ادبِ لطیف کے تازہ شمارے (مئی 2013)میں آپ کے آ ٹھ مضامین پڑھے،بے حد
خوشی ہوئی۔اِن مضامین کی روشنی میں آپ کو اور قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا
موقع مِلا ۔(11۔جون2013)
’’گزشتہ دو سال سے تو کچھ بھی نہیں لکھا ۔در اصل کم زوری اتنی زیادہ ہے کہ
ایک فرلانگ بھی پیدل نہیں چلا جاتا۔زیرِ علاج ہوں ،رسالے آ جاتے ہیں ،پڑھ
لیتا ہوں ۔ستتر (77)سال کی عمر ہو گئی ہے
،دوستوں اور ساتھیوں میں آنا جانا ختم سا ہو گیا ہے ۔تنہائی بھی بیماری ہے
،آپ میرے لیے دعا کیجیے ۔‘‘(24۔جون2013)
’’دِل کسی کام میں نہیں لگتا بس گھبراہٹ سی رہتی ہے ،علاج مسلسل ہو رہا ہے
۔میرے دونوں کان خراب ہو گئے ہیں ،اِس سے بے حد بوریت اور کوفت ہوتی ہے
۔بارہ ہزار کا آلہ ٔ سماعت بنوایا تھاوہ بے کار ثابت ہوا ۔معاف کیجیے میں
اپنی کہانی لے کر بیٹھ گیا ،میرے لیے دعا کیجیے ۔میں اب صرف دعاؤ ں کا طالب
ہوں۔‘‘(27۔اگست2013)
’’میں بیمار ہوں ،اس طر ح دوستوں اور کرم فرماؤں سے الگ تھلگ ہو گیا ہوں
۔لکھنا پڑھنا اب واجبی سا بھی نہیں رہا۔کم زوری بہت زیادہ ہے ،کم زوری کی
وجہ سے ہی بیماریا ں ہیں اگر موت آئے گی تو وہ کسی بھی بات کا انتظار نہیں
کرے گی۔آپ کی محبت کے لیے ممنون ہوں اﷲ آپ کو شاد اور آباد
رکھے۔‘‘(18۔جولائی2013)
دنیا بھر کے ممتاز علمی و ادبی مجلات کا با قاعدگی سے مطالعہ ان کی فطرت
ثانی تھی ۔ان مجلات میں شائع ہونے والی معیاری تخلیقات کے بارے میں اپنی
تنقیدی و تجزیاتی رائے مدیران جرائد کو لکھ کر ارسال کرتے ۔اس کے ساتھ ہی
تخلیق کاروں کو بھی خط لکھ کر ان کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔اس طرح وہ اہل
ِقلم کے ساتھ موقر اور معتبر ربط کا ایک وسیلہ تلاش کر لیتے تھے جس کے معجز
نما اثرسے نئے لکھنے والوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو صیقل کرنے اورفکر و نظر
کو مہمیز کرنے میں مدد ملتی تھی۔مایۂ ناز ادیب ،دانش ور ، ماہر لسانیات
،محقق اور ماہر تعلیم ڈاکٹر بشیرسیفی کی وفات پر چند برس قبل میں نے ایک
تعزیتی مضمون لکھا جو محترمہ عذرا اصغر کی ادارت میں شائع ہونے والے ادبی
مجلہ تجدید نو ،اسلام آباد میں شائع ہوا۔اس مضمون کے بارے میں اپنے تاثرات
انھوں نے میرے نام اپنے ایک مکتوب میں لکھے:
’’ڈاکٹر بشیر سیفی میرے بھی کرم فرما تھے۔جب وہ ایک رسالے کے مدیر تھے اور
میں سروس میں تھا ۔آپ نے اُن کی تصویر اِس طرح کھینچی ہے کہ انھیں زندہ کر
دیا ہے ۔‘‘(24۔جون2013)
ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاسگنجوی نے مکتوب نگاری کے فروغ کے سلسلے میں گراں
قدر خدمات انجام دیں ۔مشاہیر ادب نے ان کے نام جو خط لکھے وہ سب محفوظ کر
کے انھوں نے ایک کتاب ’’مکتوباتِ معاصرین‘‘ شائع کی ۔اس وقیع تالیف میں
انھوں نے چھے عشروں کے دوران میں اپنے نام آنے والے مکتوبات کویک جا کر کے
مکتوب نگاری کا دھنک رنگ منظر نامہ سامنے لانے کی سعی کی ہے ۔ وہ اسلامی
اقدار اور مشرقیتہذیب و تمدن کے گرویدہ تھے۔زندگی کے آخری ایام میں
روحانیت،تصوف،فلسفہ ،علم بشریات اور ما بعد الطبیعات کی طرف ان کے میلانا ت
میں اضافہ ہو گیا ۔ ان کے خطوط میں بھی ان موضوعات کا بر ملا حوالہ ملتا ہے
۔ان کے خطوط کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مکتوب نگاری کا
فن بھی ایک عطیہ ٔ خدا وندی ہے جس کے اعجاز سے ایک ادیب کواظہار و ابلاغ کا
ایسا نادر و نایاب استحقا ق مِل جاتا ہے جس کو رو بہ عمل لاتے ہوئے وہ ید
بیضا کا معجزہ دکھاتا ہے اورکنج تنہائی کے اپنے نجی لمحات کو ایک فقید
المثال ارفع تجربے کے ذریعے اجتماعی نو عیت کی فعالیت بنا دیتا ہے ۔اسے
دیکھ کر قاری پکار اُٹھتا ہے کہ یہ سب کچھ تو میرے دِل پہلے سے موجود تھا
،ان خطوط کے مطالعہ سے ماضی کی یادیں تازہ ہو گئی ہیں۔ شعلہ بیان مقررین کے
دبنگ لہجے کے پُر جوش الفاظ تو محفل کے دوران ہی ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں
مگر مکتوبات کا معاملہ الگ ہے ۔جذبوں کی صداقت کے امین مکتوبات کے حروف ہر
دور میں اپنے وجود کا اثبات کرتے چلے آ ئے ہیں۔مکتوب نگاری تزکیۂ نفس کاوہ
واحدوسیلہ ہے جو جانگسل تنہائیوں کے زہر کا تریاق ثابت ہوتا ہے ۔مکتوب نگار
کو یہ حوصلہ ملتا ہے کہ وہ بے تکلفی اورراز داری سے دِل کے افسانے نوکِ قلم
پر لا کر مکتوب الیہ کو اپنا محرم راز بنا لے۔ میرے نام ایک مکتوب میں
انھوں نے زندگی اور عرفان ِذات کے حوالے سے معنی خیز بات لکھی ہے :
’’سورج پھر سورج ہے ،وہ چمکتا ہے ،روشنی دینا ہی جانتا ہے ۔یہ اس کی سرشت
میں داخل ہے ۔جہاں میں بڑے لوگ مثلِ خورشیدزندہ رہتے ہیں،انسانیت اور قدرت
کو زندہ رکھتے ہیں۔ایسے انسان تاریخ کا حصہ ہوتے ہیں۔(یکم فروری2011)
ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی کے خطوط کی سدا بہار عطر بیزی اور ابد آ
شنا دِل آویزی مکتوب الیہ کو ایک ایسی قلبی و ذہنی رفاقت کا احساس دلاتی ہے
جو طویل جسمانی فاصلوں کے با وجود روحانی و قلبی رابطوں کو یقینی بنانے پر
قادر ہے ۔ان کے مکاتیب قارئین کے لیے ایک بیش بہا تحفہ ہیں جنھیں وہ وقت
،محنت ، گہری سوچ بچار،جذبات و احساسات اور اصلاحی و تربیتی نوعیت کے پند و
نصائح سے مزین کر کے مکتوب الیہ کی نذر کرتے تھے۔ میں جب بھی اپنے ایسے
مخلص احباب کے مکتوبات کا مطالعہ کرتا ہوں ان کے ساتھ بیتے لمحات اور ایامِ
گزشتہ کی تصویر میری نگاہوں کے سامنے آ جاتی ہے ۔زمانہ ٔ حال کے تیزی سے
بدلتے ہوئے حالات اور قحط الرجال کے مسموم ماحول میں بِیتے دِنوں یہ آ ہٹ
سُن کر دِل میں ایک لہر سی اُٹھتی ہے اور یہ سو چ دامن گیر ہو جاتی ہے کہ
کیسے کیسے لوگ راہِ جہاں سے گزر گئے۔موضوع ، مواد اور حالات و واقعات سے
قطع نظر خط رابطے کا ایک بنیادی وسیلہ ہیں ۔ ان کا پر کشش اسلوب نہاں خانہ
ٔ د ِل پر دستک دیتا ہے ۔ اپنے مافی الضمیر کو الفاظ کے قالب میں ڈھالنا
انسانی فطرت ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب اجل کا ہرکارہ اپنا
آخری مکتوب تھا مے آپہنچتاہے۔ نفسیاتی اعتبار سے یہ امر کس قدر اطمینان بخش
اور حیران کن تجربہ ہے کہ ہم اپنے جذبات و احساسات کو اپنے خطوط کے ذریعے
اپنے احباب کو منتقل کر تے رہتے ہیں اور نوکِ قلم سے دل کی کیفیات کا احوال
بیان کر دیتے ہیں ۔اپنے مکاتیب میں ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کا س گنجوی ایک
عظیم انسان کے لائق تقلید روپ میں سامنے آ تے ہیں۔
ایک راسخ العقیدہ مسلمان اورمحب وطن پاکستانی کی حیثیت سے ڈاکٹرعبدالحق خان
حسرت کا س گنجوی کی اسلام ،نظریۂ پاکستان،وطن اور اہلِ وطن کے ساتھ والہانہ
محبت اور قلبی وابستگی کوان کا بہت بڑا اعزاز و امتیاز سمجھا جاتاہے ۔ نہ
صرف پاکستان بل کہ پوری دنیا میں ان کے لاکھوں مداح موجود ہیں جو ا س درویش
منش اور فرشتہ سیرت انسان کی دائمی مفارقت کے غم سے نڈھال ہیں۔عجز و انکسار
اور اخلاق و اخلاص ان کے مزاج کا اہم وصف تھا۔ان کے خطوط میں ان کی شخصیت
کے یہ اوصاف پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں۔ فریضہ ٔ حج کی سعادت حاصل
کرنے کے بعد ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کا س گنجوی
کی طبیعت تصوف کی طرف مائل ہو گئی تھی ۔ تصوف کی شان لیے ان کے خطوط دلوں
کو ایک ولولہ ٔ تازہ عطاکرتے ہیں ۔وہ اس امر کی جانب متوجہ کرتے تھے کہ ہر
انسان کو اپنی زندگی میں عدم کے کُوچ کی فکر کرنی چاہیے ۔اﷲ کریم اس عظیم
انسان کو جوارِ رحمت میں جگہ دے ۔
کسی نے دُور سے دیکھا کوئی قریب آیا
امیر شہر میں جب بھی کوئی غریب آیا
ہوا میں زہر گُھلا پانیوں میں آگ لگی
تمھارے بعد زمانہ بڑا عجیب آیا
برس مہینوں میں ،ہفتے دنوں میں ڈھلنے لگے
جو رامؔدُور تھاوہ وقت اب قریب آیا
(رام ریاض۔1933-1990)
مآخذ
(1)صالحہ عابد حسین :یاد گار حالی ،آئینہ ٔ ادب ،لاہور ، 1966،صفحہ 310۔
(2)بہ حوالہ فرمان فتح پوری ڈاکٹر :اردو نثر کا فنی ارتقا،الوقار پبلی
کیشنز ،لاہور ،1997،صفحہ 396۔
|
|