آسودہ وہ ہی ہیں

چھاؤں ہو تو آدمی دھوپ کی خواہش کرتا ہے۔ دھوپ ہو تو چھاؤں کی تمنا جاگتی ہے۔ فراغت میں مصروفیت جب کہ مصروفیت میں فراغت چاہتا ہے۔ گویا انسان کی فطرت تبدیلیوں سے عبارت ہے۔

میں کل اپنی بیٹی سے ملنے جا رہا تھا۔ رستے میں کئی گاؤں آتے ہیں۔ کچے مکان جن کی لپائی بھوسے ملی مٹی سے کی گئی تھی۔ گاؤں کے گرد و نواح میں ہرے بھرے کھیت تھے۔ گھنی چھاؤں والے درختوں کی موج بہار اور فطری حسن قلب و روح میں سکون اور آسودگی بھر رہے تھے خواہش جاگی کہ میرے پاس بھی ایک ایسا کچا اور لپائی کیا مکان ہونا چاہیے۔ پانی نلکا چلا کر حاصل کروں اور مٹی کی ہانڈی میں سالن پکے جو کسی پیڑ جو ہرے بھرے کھیت میں ہو کی چھاؤں میں بیٹھ کر وہ کھانا کھاؤں۔ صاف ظاہر ہے گاؤں کے کچے اور لپائی کیے مکان میں رہنے والے شہر میں عالی شان مکان میں رہنے کی خواہش کرتے ہوں گے۔

میں جس محلے میں رہتا تھا وہاں گریب اور درمیانے طبقے کے لوگ رہتے تھے۔ وہاں ہر سال روہی نالہ قیامت توڑتا۔ اس کے باوجود لوگ وہاں سے نقل مکانی نہ کرتے۔ جب بہتری آتی دوبارہ سے رہائش اختیار کر لیتے۔ دوچار مکان کچے تھے جو بہہ جاتے رحمت ماچھی کا مکان کچا اور روہی کنارے تھا۔

رحمت ماچھی صبح شام گھروں میں اپنی مشک سے پانی سپلائی کرتا تھا۔ اس کے بعد لکڑیاں وغیرہ لاتا اور اس کی بیوی تنور کا سلسلہ چلاتی۔ شام پہٹھ پر روٹیآں لگاتی اور رحمت پہٹھ میں آگ داخل کرتا۔ نقدی کی بجائے آٹا ہی باطور عوضانہ جسے بھاڑہ - پہاڑہ کہا جاتا حاصل کرتی۔ عورتیں روٹیاں لگانے آیا کرتی تھیں۔ پیڑے بنا کر دیتی جاتیں جب کہ رحمت کی بیوٰی تنور میں روٹیآں بنا کر لگاتی تھی۔ پہٹھ پر وہ خود بی لگا لیتٰں۔ روٹیوں کے پکنے کا کام بھی ہوتا رہتا ساتھ میں باتیں بھی کرتی جاتیں۔

کڑی مشقت کے بعد ان کا کچھ دال دلیہ ہو پاتا۔ وہ پیٹ بھر کھانے کی کامنا رکھتے تھے۔ کیا کیا جائے‘ آسودگی اور خوش حالی ہمیشہ سے گریبوں کی بیرن رہی ہے۔ وہ پہلوں میں تھے جو روہی نالے کی زد میں آتے تھے۔ جب یہ بلا ٹلتی تو دوبارہ سے کائی کانوں کا جھونپڑا تعمیر کر لیتے۔

اس بار تو دوہائی ہو گئی۔ افراتفری مچ گئی۔ لوگ سامان اٹھائے بلند مقام کی طرف بڑھ رہے تھے۔ شدید پریشانی کا عالم تھا۔ درمیانے یا ان سے قدرے بہتر لوگوں پر یہ دن قیامت کے تھے۔ رحمت بچوں کو ساتھ لیے ایک پوٹلی سی باندھے اور مشک کندھے پر لٹکائے دوسروں کے ساتھ چلے جا رہا تھا۔ ساتھ میں باآواز بلند کہے جا رہا تھا:
بل اوے گریبیے اج کم آئی ایں ١

سب سامان کے حوالہ سے پریشان ہوتے وہ موج مستی اور بےفکری میں ہوتا۔ گویا کسی کے لیے سامان وبال اور کسی کے لیے بےسروسامانی بے فکری کا باعث ٹھہرتی۔ سارا سال وہ گربت کا رونا روتا اور لوگ موج مستی کی گزارتے۔ باڑ کے دنوں لوگ اپنے ساز وسامان کے لیے روتے اور پریشان ہوتے وہ بےسامان ہونے کے باعث بےفکری کے دن گزارتا ۔
بے شک آسودہ وہ ہی ہیں جو زندگی کا ہر موسم قناعت اور صبروشکر سے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واہ ری گربت آج کام آئی ہو

مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 192579 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.