دورِ حاضر میں سائنس کی جتنی بھی ایجادات و اکتشافات ہیں
اکثریت کا ماخذ و منبع مسلمان سائنس دانوں کا مرہونِ منت ہے۔ تاریخ کی
کتابوں میں سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں مسلمان سائنس دانوں کے نام ملتے ہیں ۔
جنھوں نے جدید علوم و فنون کی آبیاری اور فروغ و ارتقا میں نمایا ں کردار
ادا کیا۔
جب یورپ جہالت کے اندھیرے غاروں میں پناہ لینے پر مجبور تھا ۔ مدارسِ
اسلامیہ بالخصوص مراکش، غرناطہ ، طیطلہ اور بغداد میں علوم و فنون کی شمعیں
روشن تھیں اور ہمارے معزز علماے کرام صرف دینی تعلیم میں محصور نہ رہتے
ہوئے اُس عہد کے تقاضوں کے تحت ضروری ’’عصری تعلیم‘‘ سے اپنے طلبہ کو
آراستہ و مزین کررہے تھے۔ اہل یورپ اپنے بچوں کو اُن کے سامنے زانوے تلمذ
تہ کرنے کے لیے بھیجا کرتے تھے۔ یورپین اقوام نے اسلامی بستیوں سے اپنی
زنبیلِ حیات میں علوم و فنون کی گراں بہا دولت بھری۔ مسلمانوں کی شان دار
علمی فتوحات کے روشن نقوش تاریخ کے صفحات پر ثبت ہیں ۔ چند مسلمان سائنس
دانوں کا مختصر ترین تعارف ’’مسلمان سائنس داں اور ان کے کارنامے ‘‘ نامی
کتاب سے ماخوذ نشانِ خاطر کرتے چلیں ۔ جن کا اپنے زمانے میں طوطی بولتا تھا
اور جنھوں نے دینی تعلیم کے جلو میں عصری تعلیم کی ترویج و اشاعت میں
بھرپور حصہ لیا ۔
(۱)ابو اسحاق ابراہیم بن جندب ( م ۱۵۷ھ/ ۷۷۶ء) : عالم اسلام کا پہلا سائنس
داں ، پہلا نجومی ، پہلا ماہرِ فلکیات اور دوربین Telescopeکا حقیقی موجد۔
(۲) جابر بن حیان ( م ۱۹۸ھ/ ۸۱۷ء) : علم کیمیا کا بانی اور تیزاب ، موم
جامہ اور بے شمار کیمیائی مرکبات کا موجد ۔
(۳) عبدالمالک اصمعی ( م ۲۱۴ھ/ ۸۳۱ء): علم حیوانیات اور نباتات پر لکھی
جانے والی سب سے پہلی پانچ کتب کا مصنف۔
(۴) حکیم یحییٰ منصور ( م ۲۱۴ھ/ ۸۳۲ء) : دنیا کی پہلی رصد گاہ
Observetoryکا صدر اور Astronomical Tableکا موجد۔
(۵) محمد بن موسیٰ الخوارزمی( م ۲۳۲ھ/ ۸۵۰ء): الجبرا کا موجد، الجبر
والمقابلہ اور علم الحساب کا مصنف۔
(۶) احمد بن موسیٰ شاکر( م ۲۴۰ھ/ ۸۵۸ء) : دنیا کا پہلا میکانیکل انجینئر
اور علم میکانیات پر پہلی کتاب کا مصنف ۔
(۷) ابو عباس احمد محمد کثیر( م ۲۴۳ھ/ ۸۶۱ء): زمیں کا صحیح محیط معلوم کرنے
والا پہلا سائنس داں۔
(۸) ابو یوسف یعقوب بن اسحاق کندی (م ۲۵۴ھ/ ۸۷۳ء) : عالم اسلام کا پہلا
فلسفی۔
(۹) ابو محمد زکریا رازی (م ۳۰۸ھ/ ۹۳۲ء) : طبّی امداد، میزانِ طبعی ، الکحل
کی دریافت کرنے والا اور فنِ طب کاامام ۔
(۱۰) حکیم ابو نصر محمد بن فارابی ( م۳۳۸ھ/ ۹۶۱ء) : علمِ اَخلاق کا بانی
اور نفسیات کا عظیم ماہر۔
(۱۱) ابو علی حسن ابن الہشیم( م ۴۱۰ھ/ ۱۰۲۱ء) : علمِ نور کا ماہر ، انعطافِ
نور کے نظریہ کا ماہر اور آنکھ کی پُتلی کا محقق اور کیمرے کا موجد ۔
(۱۲) احمد بن محمد علی مسکویہ( م ۴۲۱ھ/ ۱۰۳۲ء) : نباتیات میں زندگی ،
حیوانیات میں قوتِ حس اور دماغی ارتقا کا دریافت کرنے والا ، علمِ سماجیات
، نفسیات اور اَخلاقیات کا عظیم محقق۔
(۱۳) شیخ حسین عبداللہ بن علی سینا ( م ۴۲۸ھ/ ۱۰۳۹ء) :علمِ طبعیات ، علم
الامراض اور علم الادویہ کے فنون کا موجد اور ورنیر کیلی پرس کا موجدِ
حقیقی، سائنس دانوں میں سب سے زیادہ کتابوں کا مصنف ۔
(۱۴) ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی ( م ۴۳۹ھ/ ۱۰۴۹ء): پہلا عظیم جغرافیہ
داں ، ماہرِ آثار قدیمہ و ارضیات، برِ صغیر کا پہلا مؤرخ اور سیاح،
دھاتوں کی کثافتِ اضافی معلوم کرنے والا پہلا سائنس داں ۔
(۱۵) امام محمد بن الغزالی ( م ۵۰۵ھ/ ۱۱۱۱ء) : علمِ دین کے مجدد اور جدید
فلسفۂ اَخلاق کے بانی ، علمِ نفسیات اور فلسفہ کے عظیم محقق۔
یہ تمام ہی سائنس داں ہر مسائل کو خواہ وہ علومِ نقلیہ سے متعلق ہوں یا
علومِ عقلیہ سے، قرآن کریم ہی میں تلاش کیا کرتے تھے ۔ کیوں کہ وہ جانتے
تھے کہ قرآن میں ہر چیز کا روشن بیان موجود ہے۔
اُس دور میں تعلیم کی ’’دینی و عصری تعلیم‘‘کے نام پر تقسیم بھی عمل میں
نہیں آئی تھی۔لہٰذا کئی صدیوں تک دنیا بھر میں تمام ترقیوں کا محور مسلمان
سائنس داں ہی رہے۔
استعماری قوتوں نے جب تعلیم کی تقسیم در تقسیم کا عمل شروع کیا اور کم
نصیبی سے مسلمان اُن کی ذہنی غلامی میں مبتلا ہوگئے تو مسلمان عصری تعلیم
سے دور ہوتے چلے گئے ۔ جس کے سبب دورِ حاضر میں عالمِ اسلام کی سائنس اور
ٹیکنالوجی میں پیش رفت نہایت مایوس کن ہے۔
|