عصری تعلیم اپنی مختلف خوبیوں اور خامیوں کے پیشِ نظر
مسلمانوں میں ہمیشہ بحث و تمحیص کا موضوع بنی رہی ہے۔ اس کے تئیں منفی اور
مثبت دونوں نظریات ہمارے معاشرے میں پائے جاتے ہیں۔جہاں مسلمانوں کا ایک
بڑا طبقہ عصری تعلیم کا زبردست حامی رہا ہے وہیں وہ طبقہ جس میں ہمارے بعض
علماے کرام بھی شامل ہیں ، جدید اور عصری تعلیم کا مکمل طور پر انکار نہ
کرتے ہوئے بھی حتی الامکان عصری تعلیم سے دوری بنائے رکھنے کے قائل نظر
آتا ہے۔ جولوگ عصری تعلیم کے فوائد و ثمرات کی حمایت میں ہیں اُن کی دلیل
یہ ہوا کرتی ہے کہ اس کے بغیر دورِ حاضر کے تقاضوں سے مسلم اُمّہ کما حقہٗ
عہدہ بر آ نہیں ہوسکتی اور تعمیرو ترقی کی اِ س دوڑ میں مسلمان عصری تعلیم
کے حصول کے بغیر پسماندہ رہ جائیں گے۔ جو لوگ عصری تعلیم کی مخالفت کرتے
ہیں انھیں بھی اس بات کا کسی نہ کسی درجہ میں احساس ضرور ہے کہ مسلمانوں کو
بھی ڈاکٹر، انجینئر، سائنس داں، قانون داں، جغرافیہ داں، ماہرریاضی و فلسفہ
و حکمت بننے کی سخت ضرورت ہے۔
اسلا م کی حقیقت پسندانہ اور روشن و منور فکر کے باوجود دورِ حاضر کا یہ
المیہ ہے کہ مسلمانوں کے علمی عروج و اقبال کا آفتاب جس طرح اسلام کے
ابتدائی دور سے لے کر کئی صدیوں تک اپنی پوری آب و تاب سے چمک دمک رہا تھا
۔ آج اُسی قدر وہ انحطاط و تنزلی کا شکارہے۔ عصری تعلیم کے فقدان کی وجہ
سے ہم زندگی کے کئی اہم شعبہ جات میں اہلِ مغرب کی غیر محسوس غلامی کررہے
ہیں ۔ معاشرت ،معیشت ، ثقافت، سیاست ،تجارت اور دیگر کئی اہم ترین معاملات
میں مسلمان اغیار کے دریوزہ گربن کر رہ گئے ہیں۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے
جس کا بدقسمتی سے ہم کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ مسلمان جس کی تخلیق دنیا کی
رہنمائی کے لیے کی گئی ہے اور جس کے سر پر تاجِ خلافت سجایا گیا ہے، وہ آج
خود نشانِ منزل کھو بیٹھا ہے اور سرابِ سفر کو مقصودِ حقیقی سمجھ کر اسی پر
قانع و شاکر ہے۔ اسی لیے ذلت و نکبت کے دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے۔
ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم اپنے شان دار ماضی اور عبرت ناک حال کو دیکھ کر
روشن مستقبل کی عمارت کھڑی کرنے کی بہتر منصوبہ بندی کریں، اور یہ دورِ
حاضر میں عصری تعلیم کے حصول کے بغیر ممکن نظر نہیں آتا۔ |