حضرت علامہ اقبال نے اپنی ایک تصنیف میں
تحریر کیا ہے کہ عورت ہی تہذیب و تمدن کی بنیاد ہے۔اسلام نے انسانیت کوحقوق
نسواں کانصاب دیا ۔ اس کی تعلیم اور حقوق کی جانب بھرپور توجہ کی ضرورت
ہے۔لہذا اپنی قوم کی عورتوں کو تعلیم کے زیورسے ضرورآراستہ کریں۔ بانی
پاکستان محمد علی جناح خواتین کے حقوق کے علمبردار تھے ۔ آپ ہمیشہ اپنی بہن
محترمہ فاطمہ جناح کو اپنے ساتھ برِصغیر کے تمام علاقوں جن میں پسماندہ
علاقے بھی شامل تھے کے اجلاسوں میں شرکت فرماتے تھے۔ ۔ ان کا فرمان ہے کہ
انشااﷲ پاکستان ایک ترقی پسند ملک ہوگا جس کی تعمیر و تشکیل میں خواتین
مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی نظر آئیں گی ۔ پاکستان میں خواتین کے حقوق پر
پارلیمنٹ سے بل بھی پاس ہو چکے ہیں۔ ان پر کس حد تک عمل درآمد جاری ہے یہ
تو آنے والے چند سالوں میں جانچا جا سکے گا کہ کیا خواتین اپنے بنیادی حقوق
کو سمجھ پائیں ہیں یا ابھی تک شہری اور دیہاتی خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک
روا ہے۔ جس میں انکو اپنی تعلیم، صحت ، نوکری کے فرائض اور اسکی صورت میں
مناسب معاوضے کی ادائیگی کے بارے میں قانونی، شرعی اور معاشرتی معلومات ہیں
؟ عورت مجمو عی طور پر عالمی آبادی کا نصف ہے جسکی گود میں قومیں پرورش
پاتی ہیں۔ خواتین کے بنیادی حقوق پر برملا اظہارکرنے والی اقوام آج بھی
معاشرے کی اس کُل اکائی کو دوسرے درجے کی شہری کا درجہ دیتے ہیں۔ یورپی
ممالک نے مرد و خواتین کو آمنے سامنے لاکھڑا کر دیا ہے مگر آج کی عورت آزاد
معاشرے میں رہتے ہوئے بھی غلام ہے۔ خاندان کی بنیاد عورت کو اسکے حقوق
فراہم کرنے کے دعویدارممالک اسکو وہ اہمیت نہیں دیتے جس کی وہ حقدار ہے ۔ان
ممالک میں خواتین خواہ وہ گھریلو ہو یا دفاتر میں تشدد جسمانی ہو یا نظروں
کی دوربین سے ان کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ گرچہ یہ ترقی و تہذیب یافتہ ممالک
ہیں جہاں کی عورت کو مردوں کے شانہ بشانہ چلنے اور اضافی ذمہ داریوں کو
نبھانے کے لئے بسا اوقات اپنی خواہشات کو دفن کرنا پڑتا ہے۔ایسا ہی غیر
ترقی او رغیر تہذیب یافتہ ممالک کی خواتین کی زندگی کا المیہ ہے۔
جہاں عورت کو معاشرے کی کمزور اکائی کے طور پر لیا جاتا ہے۔ عورتوں کو
مردوں کی جاگیر یا جائیداد سمجھا جاتا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تما م تر
ناہمواریوں اور بحران کی جڑ غیر تعلیم یافتہ یا اکژ اوقات تعلیم یافتہ
افراد یا گروہ ہیں۔ حقوق کے نام پر درس دیتے افراد بذاتِ خوداس بات سے
ناآشنا ہوتے ہیں کہ مرد و عورت کے حقوق و فرائض ہیں کیا؟ خواتین پر تشدد
کسی ایک خطے یا علاقے تک محدود نہیں بلکہ پوری دُنیا میں پھیلا ہوا ہے یہ
کہنا بھی درست ہے کہ جب تک خواتین کو ان کے حقوق کے بارے میں شعور و آگاہی
آتی ہے اسوقت تک کسی بھی قسم کا اقدام بے معانی ہو جاتا ہے۔ معاشرتی بے
ضابطگیوں اور نا اصافیوں کا شکار مرد بھی ہوتے ہیں لیکن ان کے لئے قانون
شاید فرق ہے۔ ان ہی معاشرتی بے ضابطگیوں اور نا اصافیوں کے خلاف 8 مارچ
1907میں امریکہ کے شہر نیویارک میں لباس سازی کی صنعت سے وابستہ سینکڑوں
کارکن خواتین نے مردوں کے مساوی حقوق اور خواتین کے بہتر حالات کار کے لئے
زبردست مظاہرہ کیا۔ جس کا مقصد تھا کہ دس گھنٹے کی طویل محنت کے عوض مناسب
تنخواہ دی جائے۔اس مظاہرے پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ لیکن اس واقعہ کے
پورے ایک سال بعد سوئی سازی کی صنعت سے وابستہ خواتین نے 8 مارچ 1908میں
بچوں سے جبری مشقت کے خاتمے اور خواتین کے ووٹ کے لئے نیویارک میں ہی
مظاہرہ کیا۔ اس مظاہرے کے دونوں نعرے بہرصورت حقوق کے لئے جنگ کا آغاز تھے۔
اس موقع پر حکومت نے پولیس کی مدد سے خواتین پر لاٹھیوں سے نہ صرف وحشیانہ
تشدد کر کے انکو لہو لہان کر دیا بلکہ انکو گھوڑوں سے باندھ کر سڑکوں پر
بالوں سے پکڑ کر گھیسٹا گیا۔بہت سی خواتین کو جیلوں میں بند کر دیا
گیا۔لیکن خواتین نے اپنی تحریک جاری رکھی جس پر ریاست نے انکو بے انتہاتشدد
کا نشانہ بنایا ۔ جہدِ مسلسل اور پرتشدد تحریک کی وجہ سے لازوال قربانیاں
رنگ لائیں اور1910 میں کوپن ہیگن میں خواتین کی پہلی عالمی کانفرنس منعقد
ہوئی۔اس کانفرنس میں 17 سے زائدممالک کی تقریباً سو کے قریب خواتین نے شرکت
کی۔ جس میں سپاسنامہ پیش کیا گیا کہ 8 مارچ کو خواتین کے حقوق کے حصول کا
عالمی دن منایا جائے۔ اس عالمی دن کی اہمیت ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ
ممالک میں اسوقت زیادہ بڑھ گئی جب پہلی عالمی جنگ میں20لاکھ روسی فوجیوں کی
ہلاکت پرخواتین نے ہڑتال کی ۔1956میں سیاہ فام مزدورں پر پابندی کے خلاف
نیویارک میں بیس ہزار سے زائد خواتین نے مظاہرے کئے۔ ان مظاہروں کی صورت
میں اقوامِ متحدہ نے بھی 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے طور پر منانے کا
فیصلہ کیا۔یہ تحریک یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ یہ شروعات تھی کہ حقوق کو عملی
طورسمجھا بھی جائے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک
میں روزآنہ 500 سے زائد خواتین تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ ایسے ہی ایشیاء اور
خاص طور پر جنوبی ایشیاء میں ہر دوسری عورت تشدد کا شکار ہے۔ دور کیوں
جائیں پاکستان میں ہزاروں خواتین غیرت کے نام پر قتل، ونی، سوارہ، وٹہ سٹہ
اور دیگر فرسودہ رسوم کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ انکی قسمت کے فیصلے علاقائی
جرگے یا خاندان کے بڑے بزرگ اپنی فہم کے مطابق کر دیتے ہیں۔ جو ان کی کم
عمری کی شادی سے لے کر ہر قسم کے ظالمانہ فیصلے پر مبنی ہوتاہے۔جبکہ
علاقائی طور پر فیصلوں سے آگے بڑھ کر دیکھیں تو عالمی سطح پر خواتین کی
سمگلنگ کا کاروبار بھی عروج پر ہے۔ حکومتوں کو اس جانب بروقت توجہ دینی
چاہیئے۔ 8 مارچ کے دن کے حوالے سے ایک جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں
55فیصد خواتین گھر بار کے علاوہ دفاتر اور کھیتوں میں اپنی ذ مہ داریاں
بااحسن و خوبی نبھا رہی ہیں۔ مگر تشدد کا شکار وہ بھی ہوتی ہیں۔ان میں سے
بیشتر خواتین کو معاوضہ ان کی محنت کے صلے میں بہت کم ملتا ہے۔ حقوق کے
زمرے میں خواتین کی ہر قسم کی تعلیم جو ان کے لئے فائدہ مند ہو لازمی ہے۔
ایسے ہی صحت کے شعبے میں 85فیصد خواتین جسمانی عوارض کے ساتھ ساتھ اعصابی
دباؤ اور نفسیاتی مسائل کا شکار رہتی ہیں۔ بعض ایسے علاقے بھی ہیں جہاں
خواتین تعلیم کے مفہوم سے ہی ناآشنا ہیں۔ یہ خواتین اپنے قانونی، معاشی،
معاشرتی حقوق کو کیا سمجھ سکیں گی۔ مذہبی لحاظ سے دیکھیں تو اسلام ہی وہ
واحد مذہب ہے جو عورت کو پیدائش سے لے کر قبر تک ہر طرح کے حقوق تفویض کرتا
ہے۔ پاکستان میں خواتین کے حقوق سے آگاہی میں مثبتت ترقی ضرور ہوئی ہے مگر
یہ ہی مثبت ثمرات شہری اور بالخصوص دیہاتی خواتین تک ضرور پہنچنے چائیے۔ یہ
بات یقین سے کہی جا سکتی ہے جن علاقوں میں سوشل میڈیا کی رسائی ہے وہاں کی
خواتین کسی حد تک باشعور ہیں لیکن جن علاقوں میں ابھی تک ایک صدی پرانا
نظام ہے وہاں تک یہ آگاہی پہنچانا ہم سب کا مذہبی اور قانونی فرض ہے۔
حکومتی ادارون کی سرپرستی کے ساتھ اگر خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والے
سنجیدہ ادارے خلوصِ نیت سے آگے بڑھیں تو حقوق کی آگاہی و فہم مشکل کام
نہیں۔لیکن کچھ ایسے مذہبی ، غیرسرکاری ، موم بتی مافیا آنٹیاں اورثقافتی
ٹھیکدار ہیں جو عورت کے حقوق اور اسکے جائز مقام کو اپنی مرضی کے سانچوں
میں ڈھالنے میں مصروف ہیں۔ جن سے شاید وقتی طور پر فائدہ ہو مگر دیرپاحصول
ناممکن ہے۔
|