خواتین کا عالمی دن اور اسلام……!
(Rana Aijaz Hussain, Multan)
آٹھ مارچ عالمی یوم خواتین کے موقع
پر دنیا بھر کے ممالک میں بڑی بڑی تقریبات، ریلیاں، کانفرنسز منعقد ہوتی
ہیں اخبارات میں کالم لکھے جاتے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا پر مباحثے منعقد
کئے جاتے ہیں، جبکہ یہ ایک المیہ ہے کہ تحفظ حقوق نسواں کے علمبردار مغربی
ممالک میں ہی خواتین کو سب سے زیادہ جنسی ظلم اور سماجی عزت و احترام سے
محرومی کا سامنا ہے۔ جبکہ دنیا بھر کی اقوام و مذاہب میں سب سے زیادہ اسلام
میں عورت کو حقوق، اور ان کے ادب و ا حترام کا حکم دیا گیا ہے، عورت خواہ
ماں ہو ، بہن ہو، بیوی ہو ، بیٹی ہو ، خادمہ ہو یا معاشرے کی کوئی عورت اسے
ہر لحاظ سے بلند مقام عطا کیا گیا ہے۔ اسلام جدید معاشرے کی عورت کو بھی
وہی حقوق، عزت و وقار، عزت نفس اور پاکی و طہارت عطاء فرماتا ہے جو اس نے
زمانہ قدیم کی عورت کو عطا ء کئے ۔ کیونکہ اسلام نہ صرف خواتین یا محض کوئی
ایک طبقہ بلکہ فلاح انسانیت کا مذہب ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان جس کے قیام کا مقصد ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیا
م تھا ، مگر قیام پاکستان کو 70 سال کا عرصہ کزرنے کے باوجود یہاں اسلامی
قوانین کا نفاذ عمل میں نہ آسکا ۔ ریاست پاکستان کے آئین کے مطابق پاکستان
اور اہل پاکستان پر حاکمیت اﷲ رب العزت کی ہے مگریہاں خالصتاً اسلامی قانون
کے نفاذ سے ہمارے حکمران نہ جانے کیوں غفلت برتتے آئے ہیں۔ اگر مملکت
خداداد پاکستان میں اسلامی قوانین کا نفاذ ہوتا تو ہمیں تحفظ حقوق نسواں
جیسے قانون کی منظوری کی ہرگز ضرورت نہ رہتی کیونکہ اسلام نے نہ صرف عورتوں
بلکہ ہر طبقے حتیٰ کہ جانوروں اور درختوں کے حقوق بھی واضح بیان کئے
ہیں۔اسلام ہمیں والدین کا احترام یا خواتین پر تشدد کا تدراک ہی نہیں ایک
بہتر انسان بننے کی بھی ترغیب دتیا ہے ۔ جیسا کہ ہر انسان میں مختلف ذہنی
اور جسمانی صلاحیتیں ہوتی ہیں۔جس طرح دنیا کی بناوٹ میں اونچ
نیچ،روشنی،اندھیرا،گرمی سردی،خشکی نمی،ریگستان،دریا سمندر،پہاڑ وغیرہ سب
اپنی الگ ہیت رکھتے ہیں اسی طرح انسانوں اور دوسرے جانداروں کو قدرت نے
مختلف قسموں کا بنایا ہے۔لیکن چونکہ انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اس
لئے اس میں غیر معمولی خوبیاں بھی پیدا کی ہیں۔وہ اگر ایک طرف درندہ صفت ہو
جاتا ہے تو دوسری طرف اپنی خوبیوں کو بروئے کار لاکر امن پسند اور بہترین
انسان بھی بن سکتا ہے۔انسان کو اچھے اور برے دونوں راستوں کی تمیز ہوتی ہے۔
اسلام کے رہنما اصولوں پر چلتے ہوئے ہم برائی کے برے انجام اور اچھائی کے
اچھے نتائج سے واقف ہوتے ہیں۔
اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے پر یہ آگاہی اور فلاح ممکن ہے کہ ہم اچھے
برے راستوں کی پہچان پاسکیں ، اور اچھے کاموں کو اپنا کر اور برے کاموں کو
چھوڑنے کی کوششیں کر کے ایک اعلیٰ انسان بن سکیں ، اور بغض،کینا،تعصب ،چغلی،غیبت
، بد اعمالی ،زنا، لاقانونیت، ترک سود اور اس طرح کی بے شمار برائیوں سے
نجات پاسکیں۔ اسلامی تعلیمات ہمیں یہ درس دیتی ہیں کہ اگر انسان اپنے اندر
نیکی اور اچھائی کو فروغ دے گا تو دنیا کی زندگی میں بھی پر سکون رہے گا
اور اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی بڑی پر لطف اور رنگینیوں سے بھر پور
زندگی پائے گا۔
آج دنیا کے بڑے بڑے ممالک میں غیر مسلم اپنی تہذیب سے تنگ آکر تیزی سے دین
اسلام کی طرف آرہے ہیں اور سچے دل سے اسلام کو قبول کر رہے ہیں۔ان لوگوں سے
اسلام کی حقانیت معلوم کی جاسکتی ہے۔ہمارے پیارے وطن پاکستان کو تو حاصل
اسی مقصد کے لئے کیا گیا تھا کہ یہاں پر ہم ایک اسلامی ریاست قائم کریں گے
مگر ہماری یہ بد قسمتی ہے کہ ہم نے نام تو اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھ لیا
لیکن عمل شریعت کے مطابق آج تک شروع نہیں کیا،مسلم لیگی ہوتے ہوئے ملک کو
اسلامی نظریہ پر نہ چلا سکنا نا اہلی نہیں تو اور کیا ہے ۔ اگر ہماری حکومت
بڑی عالمی طاقتوں کے دباؤ سے نکل کر پاکستان میں شرعی قوانین کو عملی جامہ
پہنانے کا اعلان کردے تو ہمارے ملک کا پورا معاشرہ سدھر سکتا ہے۔ آج ہم اہل
پاکستان کے عجیب حالات ہیں ، ہم میں طرح طرح کے عیب اور خرابیاں پائی جاتی
ہیں ، آج ہم محض نام کے مسلمان ہیں بلکہ ہم تو صرف اس لئے مسلمان ہیں کہ
مسلمان کے گھر پیدا ہوئے ۔اب ہم نمازیں قائم کریں نہ کریں ہم مسلمان
ہیں،جھوٹ بولیں تب بھی ہم مسلمان ہیں،رشوت لیں، غنڈہ گردی کریں، ملک میں
نقص امن کا باعث بنیں ، دشمن ملکوں کے آلہ کار بنیں پھر بھی ہم مسلمان ہیں،
غرضیکہ ہمیں وراثت میں دین اسلام مل گیا۔اب ہم اس پر جس طرح چاہیں عمل
کریں،یہی ہماری بھول ہے۔ہم کو اس بات کی فکر ہونی چاہئے کہ ہم کتنا اپنے رب
کے احکامات پر عمل کرتے ہیں اور کتنی اتباع اپنے پیارے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم کی کررہے ہیں۔ہم سودی نظام کی حمایت کرتے ہیں، ہم بسنت مناتے ہیں،ہم
سالگرہ مناتے ہیں،ہم ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں،ہم نیو ہیپی نیو ائیر مناتے ہیں
وغیرہ۔ جب ہمارے یہ حالات ہوں گے تو پھر ہم طرح طرح کے بحرانوں کا ہی شکار
ہوں گے۔کیا خرافات کے باوجود ہماری قوم کی اصلاح ممکن ہے ۔ ہم کتنے ہی
قانون کیوں نہ بنالیں ، معاشرتی نا ہمواریاں اورلاقانونیت برقرار رہے گی
جبکہ صرف اسلامی نظام ہی ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ، جس میں نہ صرف خواتین
بلکہ تمام طبقات کی فلاح موجود ہے۔ |
|