ہر دل کو خون کر دینے والے المیے کے بعد
ہمارے حکمران دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے
ہیں۔13ماہ قبل جب لاہور میں گلشن اقبال میں بم دھماکے کے نتیجے میں 70 سے
زائد شہری لقمہ اجل بنے تو وزیراعظم نے قوم کے نام خطاب میں کہا تھا کہ
’پاکستان کی سرزمین انسانیت کے دشمنوں کے لئے تنگ کردی جائے گی ‘ دہشت گرد
جان لیں کہ ناکامی اور نامرادی ان کا مقدر ہے‘ شہریوں کے خون کے ایک ایک
قطرے کا حساب لیا جائے گا ‘ تمام متعلقہ اداروں پر واضح کردیا ہے کہ دہشت
گردوں کے سرپرست ان کے مددگار جہاں اور جس بھیس میں بھی ہوں گے ‘قانون کے
شکنجے سے نہیں بچ سکیں گے‘اشتعال پھیلانے‘نفرتوں کی آگ بھڑکانے ‘فرقہ واریت
کو ہوا دینے اور عوام کے لئے مشکلات پیدا کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں
لایا جائے گا ‘ روارکھی گئی نرمی کو سیاست کی کمزوری اور قانون نافذ کرنے
والے اداروں کی بے بسی نہ سمجھا جائے‘ عوام کے جان و مال کا تحفظ حکومت کی
آئینی ذمہ داری ہے۔کوئی دہشت گرد‘فتنہ‘ سازش اور بدامنی ہمیں اپنی طے کردہ
منزل کی طرف پیش قدمی سے نہیں روک سکتی‘بچے کچھے عناصر اپنی ناکامیوں اور
مایوسیوں کو چھپانے کے لئے چھپ کر درس گاہوں‘تفریح گاہوں اور عوامی مقامات
تک آپہنچے ہیں‘ ہم شہریوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب رکھ رہے ہیں اور
یہ حساب چکایا بھی جارہا ہے اور اسکی آخری قسط ادا ہونے تک چین سے نہیں
بیٹھیں گے‘گزشتہ تین برسوں میں حکومتی اداروں کی کارروائیوں کے نتیجہ میں
دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے۔ ہم نہیں دوبارہ سر نہیں اٹھانے
دیں گے۔انہیں پاکستان کے عوام کی جانوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے۔یہ
ہمارا ہماری حکومتی اور پاکستان کے 20 کروڑ عوام کا عزم ہے ‘ دہشت گردی کے
تمام عوامل پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ عوام کا عزم ہماری ہمت بڑھا رہا ہے ۔ ہم
پاکستان کو امن و ترقی اور خوشحالی کا گہوارہ بنانے کا عظیم مشن پورے عزم
سے جاری رکھیں گے۔
یادش بہ خیر! وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں حکومت کے دہشت گردی کے خلاف جنگ
میں پرعزم رہنے کا اظہار کیا تھا وہیں انہوں نے تمام معاملات پر قریبی نگاہ
رکھنے کے لئے اپنا دورہ امریکہ بھی منسوخ کردیا تھا۔ وزیراعظم نے 31 مارچ
2016ء کو واشنگٹن میں دو روزہ جوہری کانفرنس میں شرکت کرنا تھی لیکن سانحہ
گلشن اقبال کے بعد دورہ منسوخ کردیا تھا۔31 مارچ کو امریکی صدر اوباما نے
وزیراعظم محمد نوازشریف کو ٹیلی فون کیا اور امریکی حکومت اور عوام کی جانب
سے سانحہ لاہور پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کے عوام دکھ
کی اس گھڑی میں پاکستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ ہیں‘ مشکل گھڑی میں دورہ
امریکہ کی بجائے اپنے عوام کے ساتھ رہنے کا آپ کا فیصلہ قابل تحسین
ہے‘انسداد دہشت گردی کے لئے آپ کی قیادت کا اعتراف کرتے ہیں‘ نوازشریف کی
قیادت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نمایاں پیشرفت ہوئی‘ دہشت گردی کے
خلاف پاکستان کی ہر ممکن معاونت کریں گے‘‘۔ یہ امر ذہن نشین رہے کہ حزب
اختلاف کی مختلف جماعتیں ایک مدت سے یہ مطالبہ کر رہی تھیں کہ پنجاب میں
بھی دہشت گردی کے خلاف آپریشن کیا جائے لیکن پنجاب حکومت کے ذمہ داران کا
مؤقف تھا کہ پنجاب پولیس اور دیگر ادارے دہشت گردوں اور کالعدم تنظیموں کے
خلاف کارروائیوں کے دوران ہزاروں مشتبہ دہشت گردوں کو گرفتار کرچکے ہیں۔
عوامی حلقوں کی رائے رہی ہے کہ رینجرز‘ آرمی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو
پنجاب میں یہ آپریشن بہت پہلے شروع کردینا چاہیے تھا لیکن دیر آیددرست آید
کے مصداق فوج کا قانون کانافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے صوبہ پنجاب کے
جنوبی حصے میں ایک وسیع تر مسلح آپریشن ہوا۔
سلامتی کے امور کے ماہرین کی رائے تھی کہ اس آپریشن کے دوران سیکورٹی
اداروں نے نہ صرف دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کیں بلکہ ایسے شدت پسند
گروپوں کو بھی نشانہ بنایا جو مذہب کے نام پر منافرت پھیلاتے ہیں۔جنوبی
پنجاب کے جن علاقوں کو دہشت گردوں کی آماجگاہ‘ جولانگاہ حتیٰ کہ تربیت قرار
دیا جارہا ہے ‘ ان کے بارے سرائیکی و سیب کے شہریوں کی یہ مختلف رائے بھی
سامنے آئی کہ ’’وہاں نامی گرامی سماج دشمن عناصر کے گینگز‘چوروں‘ڈاکوؤں اور
مفرور قاتلوں کے ٹھکانے ہیں‘انہیں مقامی بڑے اور چھوٹے وڈیروں کی سرپرستی
حاصل ہے‘‘۔ ان شہری حلقوں کا مطالبہ تھا کہ اگر صوبائی اور وفاقی حکمران
یہاں لاہور کی طرح میگاپراجیکٹس شروع کریں ‘‘کوہ سلیمان پر ڈیمز بنائیں اور
پولیس کو وڈیروں کی غلامی سے نجات دلا کر مضبوط کریں تو ان جرائم پیشہ اور
سماج دشمن عناصر کو نکیل ڈالی جاسکتی ہے۔
یاد رہے کہ 27مارچ 2016ء کے سانحہ گلشن پارک کی ذمہ داری جماعت الاحرار نے
قبول کی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ جماعت الاحرار تحریک طالبان پاکستان کا ایک
گروپ ہے اس نے فاٹا اور کے پی کے میں کئی دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری
بھی قبول کی ہے۔یہ ایک شرم ناک بات ہے کہ لاہور کے سانحہ چیئرنگ کراس
13فروری 2017ء کی ذمہ داری بھی اسی دہشت گرد نیٹ ورک نے قبول کی ہے ۔ عوامی
مطالبہ ہے کہ تحقیقی اداروں کو جماعت الاحرار کے لیڈروں‘ کمین گاہوں اور
چین آف کمان کا سراغ لگا کر اس کے سہولت کاروں اور فنڈنگ کرنے والوں کو بھی
بلاتاخیر بے نقاب کرنا چاہیے۔ماضی میں جنوبی پنجاب کو بھی دہشت گردوں کے
لئے محفوظ علاقہ قرار دیا جاتا رہا اب اس امر کا سراغ لگایا جائے کہ اس
دھماکے میں بی ایس ایل بلوچستان کے دہشت گرد ملوث ہیں ‘ ملافضل اﷲ کا
افغانستان میں امریکیوں اور اشرف غنی حکومت کے زیر سایہ کام کرنے والا
خونخوار جتھہ ملوث ہے یا ان کا تعلق جنوبی پنجاب کے مبینہ دہشت گرد لشکروں
سے ہے۔ اس واقعے میں شامل تمام افراد کا سراغ لگایا جائے تاکہ قوم کو علم
ہوسکے کہ دہشت گرد کہاں سے آتے ہیں اور کارروائی ڈال کر کہاں روپوش ہوجاتے
ہیں۔ اس سوال کا جواب بھی حکمران ہی دے سکت یہیں کہ آگ لگنے سے پہلے کنویں
کیوں نہیں کھودے جاتے۔ میری رائے ہے کہ لاہور کے حالیہ خودکش دھماکہ نے
سیاسی وعسکری قیادت کو دہشت گردی کے خلاف ہمہ وقت بیدار رہنے کا پیغام دیا
ہے۔ |