پتنائی مہاورہ

کچھ بھی جو مہارت میں آ جائے اس کا روایت بن جانا فطری سی بات ہوتی ہے۔ روایت ایک شخص تک محدود نہیں رہتی۔ ایک سے دوسرا دوسرے سے تیسرا اور پھر اس کا سماج گیر ہو جانا اور اگلی نسلوں کو منتقل ہونا فطری عمل ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مختلف امرجہ میں اس کی ہیتی اور معنوی صورت بدل جاتی ہے۔ آتے وقتوں میں بھی وہ رواج میں رہتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ ویسا نہیں رہ پاتا جیسا ابتدا میں تھا۔
تکیہ ء کلام بھی اگر رواج میں آ جائے تو اسے محاورے- مہاورے کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔
اسی طرح الگ سے کہی ہوئی بات بھی مہاورہ بن جاتی ہے یا بن سکتی ہے‘ جیسے
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
زلف کا سر ہونا: مہاورہ نہیں غالب کی اختراع ہے لیکن اسے مہاورے کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔
یہ ہی صورت ایجادات و تخلیقات کی ہے۔ مارکونی کا ریڈیو کہاں سے کہاں تک جا پہنچا۔ آج اس کے بانی کا کوئی نام تک نہیں جانتا یا مار کونی کسی کو یاد تک نہیں۔
داستانی ادب میں دیکھیے کس طرح سے تبدیلی آئی۔ ناول افسانہ منی افسانہ نظمانہ منظومہ منسانہ شغلانہ وغیرہ اسی کی ترقی یافتہ صورتیں ہیں۔
ہائے میں مر جاں‘ ماں صدقے جائے‘ کتی دیا پترا وغیرہ صدیوں سے چلے آتے‘ زنانہ مہاورے ہیں۔ کتی دیا پترا کو گلی میں مختلف اشکال ملی ہیں۔ ہاں البتہ باقی دو محض شخصی اور تقریبا ہر ماں خاتون کے تکیہءکلام تک محدود رہے ہیں۔
بھاگ پری بچوں کے حوالہ سے اس قسم کی بولیاں بولتی چلی آتی ہے۔ ایک دن مجھے خیال گزرا گلی میں خاتونی تکیہ کلام کو گھر میں بھی رواج دیا جائے۔ میں تاڑ میں رہا کہ کب لڑکا یا لڑکی کوئی شرارت کرتی ہے تو اسے کتی دیا پترا یا کتی دیئے دھیے کہتا ہوں۔ ایک بار بلا ردعمل معاملہ ہو گیا تو اسے تکیہءکلام بنانا چنداں مشکل نہ ہو گا۔
میری خواہش تھی کہ لڑکا ہی ٹارگٹ میں آئے کیوں کہ میں نے اپنی بچیوں کو کبھی کچھ نہیں کہا۔ پتا نہیں کیسا نصیبا ہو۔ ماں باپ کے گھر میں ہی سکھ سکون ملتا آیا ہے۔
میری خواہش پوری ہوئی منجھلا ہی گرفت میں آیا اور خاتونی مہاورے کے گھر میں رواج پانے کی خواہش کا تلخ تجربہ ہوا۔ وہ شرارتیں کرتا ہوا اچھل کود رہا تھا کہ گر گیا۔ بری چوٹ آئی۔ میں پھرتی سے اٹھا۔ خیال گزرا موقع ہے مہاورہ آزمایا اور اس کا ردعمل دیکھا جائے۔ میں نے اٹھتے ہی اسے کتی دیا پترا دیکھتے نہیں ہو چوٹ آ گئی ہے‘ کہا۔ یقین مانیے میں نے چور آنکھ سے بھی بھاگ پری کی طرف نہ دیکھا۔
جب کوئی بچہ گر جاتا اس کا بھی ردعمل یہ ہی ہوتا تھا۔ میں نے کوئی الگ سے نہ کیا تھا۔ بچہ برابر روئے جا رہا تھا۔ اس کو پوچھنے اور دیکھنے کی بجائے مجھ پر برس پڑی کہ اب میں کتی ہو گئی ہوں۔ میں ہی زیادہ بولتی ہوں۔ تمہارا ماں کم بولتی ہے۔ تمہاری بہن کی تو گز پھر زبان ہے۔ انہیں تو تم نے کبھی کتی نہیں کہا۔ دیر تک بلاتھکان بولتی رہی اور میں بھ بھیڑ بنا بیٹھا رہا۔ کچھ میں بھی کہتا تو سارا دن بنے تھا۔
پھر اس نے برقعہ اوڑھا اور میکے جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ میں نے بڑی منت سماجت کی لیکن وہ نہ مانی۔ آخر وہ جا کر رہی۔ آج اس کو گئے بیس دن ہو گئے ہیں۔ دو بار لینے گیا ہوں لیکن وہ نہ آئی۔
اب صبح سویرے اٹھتا ہوں بچوں کو اسکول کے لیے تیار کرتا ہوں۔ انہیں رخصت کرکے دوکان پر بیٹھ جاتا ہوں۔ بچے اسکول سے سیدھے دوکان پر آ جاتے ہیں۔ انہیں لے کر گھر آ جاتا ہوں۔ ان کے ناشتے پانی کا بندوبست کرتا ہوں۔ گویا بھاگ پری کی ذمہ داری بھی اچھی بری مجھے ہی نبھانا پڑ رہی ہے۔
ایک بار اس نے کہا تھا میں چلی گئی تو ہی تمہیں میری قدر پڑے گی۔ اس کے جانے سے میری جیب اور کان سکھی ہیں لیکن لیبر کے اضافے نے تھوڑا نہیں کافی پریشان کر رکھا ہے۔ اس تجربے کی بنا پر میں یہ کہتا ہوں کہ پتنائی مہاورے کو گھر میں رواج دینے کی بجائے ان کا پتنی تک محدود رہنا ہی گھریلو لیبریائی حیات سے بچا سکتا ہے۔
سوچا تھا اگر برداشت کر گئی تو اس کے بولنے پر یا دن بھر کی تھکن ان مہاوروں کے استعمال سے کچھ ناکچھ تو کم کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔ یہ بھی ایک طرح سے میری تھکن اور غصے کا کتھارس-انشراع ہوتا۔ مگر ایسی قسمت کہاں کہ میری خواہش کو بھی تکمیل کا مزا مل جاتا۔ اب مجھے کیا پتا تھا کہ میں دانستہ اپنے کلہاڑی مار رہا ہوں۔ اس کا عمل کتنا دوہرا تھا کہ اپنے ہی عمومی کہے گئے کے دہرانے کو گل سے لل ١ بنانے پر اتر آئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١- گل بات
لل لیلا سے‘ داستان کہانی- پھیلاؤ

مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 211348 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.