بجلی اور سوئی گیس کی غیر اعلانیہ لوڈ
شیڈنگ نے پورے ملک کے عوام کی گھریلو زندگی کوشدید متاثر کرکے اجیرن بنا
رکھا ہے بجلی آئی بجلی گئی گیس آگئی گیس چلی گئی کا ڈرامہ اب اس حد تک شدت
اختیار کر گیا ہے کہ لوگ ان سہولتوں کی عدم موجود گی سے سخت پریشان وسرا
سیما ں ہیں۔ صنعتی محنت کش ،پسماندہ طبقات کے افراد اور کسان اس مسئلہ سے
خصوصی طور پر ستم زدہ ہیں ۔بجلی بند ہو تے ہی پانی سپلائی کرنے والے ٹیوب
ویل بند ہو جاتے ہیں بھارت کی طرف سے پانی روکے جانے کے بعد ٹیوب ویل ہی
آبپاشی کا واحد ذریعہ ہیں امسال تو ہماری مخصوص فصل گندم کے متاثر ہوجانے
کا شدید خدشہ ہے ۔ طلباء کے میٹرک کے امتحانات کا زمانہ ہے بجلی بند ہونے
پر وہ امتحانات کی تیاری بخوبی نہیں کر پارہے صبح شام بارہ چودہ گھنٹے کی
لوڈ شیڈنگ خصوصاً امتحانی پرچوں کے ٹائم ٹیبل کے اوقات میں بجلی کی بندش
ایک المیہ سے کم نہ ہے ۔کسی امتحانی کمرے یا ہال میں بیٹھے پرچہ حل کرتے
وقت اندھیراہو جائے تو امتحان دینے والے طلباء کا کیا بنتا ہو گا یہ امتحان
دینے والے طلباء ہی بتا سکتے ہیں۔ گیس کی بندش کی وجہ سے کئی دن صبح کا
ناشتہ کیے بغیر ہی خصوصی طور پر طلباء کو سکول اور ملازمین کو دفاتر میں
وقت پر پہنچنا ہو تا ہے سکول میں کیسے پڑھائی کریں گے یا ملازم دفتری
معاملات میں توجہ دے سکیں گے کہ ناشتہ کیے بغیر ہی کیسے ایسی ڈیوٹی انجام
دی جا سکتی ہے ۔کبھی کوئی غیر جانبدار شخص صبح سکول جاتے بچوں کو خصوصی طور
پر دیکھے تو ان کے گال پچکے ہوئے ،آنکھیں اندرکو دھنسی ہوئی ہوں گی پتلی
باریک ٹانگیں بگلا کی طرح کمزور محسوس ہو ں گی ۔طلبا ء کا ناشتہ کے بغیر
اور جعلی دو نمبر ملاوٹ شدہ غذائیں کھا کر،جسم کی کمزوریوں سے ان کا دماغ
بھی متاثر ہوتا ہے تو وہ پروفیسرز اساتذہ سے لیکچر کیا سمجھیں گے اور کیسے
اس کو دماغ میں محفوظ کر سکیں گے۔غرضیکہ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کو
معمولی امر سمجھ کر ہم نظر انداز نہیں کرسکتے۔گرمیوں کا دور پہنچ چکا رات
کو مچھروں اور دن کو کرپٹ انتظامیہ و حکمرانوں کا راج ہوتا ہے دن کو لوگ
لٹتے اور رات کو وہی افراد بجلی کے پنکھے بند ہونے پر مچھروں کے ڈنگ سہتے
ہیں۔اندھیر نگری چوپٹ راج میں عوام حکمرانوں کو صلواتیں سناتے ہیں بجلی و
گیس کی بندش سے ہمارے بڑے صنعتی شہروں کراچی سیالکوٹ لاہور فیصل آباد رحیم
یار خان راولپنڈی و غیرہ کے کاروباری حضرات کا ناک میں دم آچکا ہے ۔ملیں ہی
نہیں چلیں گی تو مزدوروں کو معاوضہ کہاں سے ملے گا مزدور رزق روزی کی تلاش
میں صبح گیس کی بندش کی وجہ سے بھوکے پیاسے آتے ہیں مگر ادھر بھی ان دو
ضروری اشیاء کی بندش اور لوڈ شیڈنگ سے ملیں چل ہی نہیں سکتیں مزدور کیا
محنت کریں گے اور کیا معاوضہ پا سکیں گے جس سے گھر گھرہستی کا نظام چل سکے
۔انہوں نے کسی میٹروبس یا اورنج ٹرین کو کیا چاٹنا ہے؟ دھیلا نہیں پلے تے
کردی میلہ ہی میلہ کی طرح مزدوری ہی نہ ملے گی تو خوراکوں کی کمی کی وجہ سے
پریشان حال مزدور کہاں سے کھائے گا۔گنجی کیا نہائے گی اور کیا نچوڑے گی کی
طرح کا مسئلہ در پیش ہے مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی کہ ان
کے ایوان صد ر ،وزیر اعظم ،گورنر ،وزراء ہاؤ سز کی کبھی گیس و بجلی بند ہو
تو انھیں اس سے پیدا ہونے والے مسائل اور تکلیفوں کا پتا چلے جس تن لاگے اس
تن جانے کی طرح اونچے محلات کے رہا ئشیوں کو کیا پتا ہے کہ غریب بستیوں کچی
بدبو دار گلیوں تنگ و تاریک مکانوں کے رہائشی کن کن مشکلات کا شکار ہیں ان
دونوں" بلاؤں" کی بندش سے ان کی زندگیوں کی بھی لوڈ شیڈنگ ہی سمجھیں کہ وہ
بیچارے کئی قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر جلد وفات پاجائیں گے گھروں کے
چولہے ٹھنڈے اور مکان تاریک رہیں گے تو بھوکوں مرتے افراد کے دماغ میں مشقت
نہ کرسکنے کی وجہ سے کام چوری کی عادت بد پیدا ہوگی جس سے ہماری ترقی متاثر
ہو گی کاش" حکمران و کماؤ پتر"بیورو کریسی اپنے اللے تللے کاموں کو چھوڑ کر
گیس و بجلی کی بندش پر خصوصی رقوم خرچ کرسکیں ۔ناشتے کے وقت تین گھنٹے اور
شام چار تا دس بجے رات بجلی اور گیس کی بندش نے عوام کو پاگل پن کی حدوں تک
پہنچا ڈالا ہے گرمیوں میں تو گھریلو پانی کی کمی گھریلو و باپردہ خواتین
بچے بچیوں کو گلی محلہ کے دستی نلکوں سے پانی لانے پر مجبور کردیتی ہے اور
گھڑے اٹھائے جلوس حکمرانوں کے لیے مغلظات کی سوغات پیش کرتے نظر آتے ہیں
حکمرانوں کے تابوت بردار جنازہ نماجلوسوں کی بہتات ہو جاتی ہے غرضیکہ گھر
گھر بجلی گیس کی کمی کا سیاپہ حکمرانوں کا منہ چڑا رہا ہے۔ہسپتالوں میں پڑے
مریض پریشان اور آپریشن تھیٹر میں موجود مریض کا توآپریشن کے دوران بجلی
بند ہو نے پر موت ہی کا خدشہ ہوتا ہے سخت نگداہشت والے وارڈوں میں خصوصاً
دل،دماغ اور گردوں کے مریضوں کے علاج کے لیے مختلف مشینیں بجلی سے چل رہی
ہوتی ہیں ان کے بند ہو جانے سے فوراً موت لاحق ہو سکتی ہے ۔ بعض لوگوں کا
خیال ہے کہ بجلی کی کمپنیوں کو ادائیگی جان بوجھ کر نہیں کی جاتی تاکہ لوڈ
شیڈنگ جاری رہے اور لوگ اپنے گھریلو مسائل میں الجھے رہیں اور ان کے خلاف
کوئی تحریک خواہ اﷲ اکبر اﷲ اکبر کے نعرے لگاتی ہی ہو وہ منظم نہ ہوسکے اور
حکمران اقتداری گھوم چکریوں میں گم رہیں ،حکمرانوں کا تاج انہی کے سر پر
سجا رہے خزانے کی لوٹ کھسوٹ ،مختلف بلا ضرورت سکیموں سے مال پانی بن کر وکی
لیکس پانامہ و بہا لیکس میں ان کی آخری زندگی کے لیے جمع ہوتا رہے۔ادھر تیل
کی قیمتوں میں ہر پندرہ دن کی بڑھوتری نے گھمبیر صورتحال پیدا کردی ہے جس
سے بسوں ریلوں کے کرائے ،اشیائے خوردنی و دیگر لوازمات زندگی کی قیمتیں
آسمانوں سے باتیں کرنے لگی ہیں مہنگائی کا جن دیو بن کر الف ننگا ناچ ناچنے
لگا ہے ایسی مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے افراد بال بچوں سمیت خود
سوزیاں و خود کشیاں کرنے پر مجبور ہیں کیا ایسے افراد کی اموات پر کرپٹ
حکمرانوں و بیورو کریٹوں پر مقدمہ قتل درج کیا جانا ضروری نہ ہے ؟ ایسے
ملزمان کو چوکوں پر عملاًسزائیں دی جائیں تو لازمی امر ہو گا کہ ملک گیس و
بجلی کی لوڈ شیڈنگ و تیل کی قیمتوں کی بڑھوتری کا شکار نہ ہو سکے گا کہ اس
کے ذمہ داران اپنے اللے تللے کاموں اور فضول سکیموں سے توبہ تائب ہو کر
سرمایوں کا رخ ضروری مسائل بجلی تیل گیس کی طرف موڑ دیں گے وما علینا
الاالبلاغ! |