چکوال ریلوے اراضی پر قبضہ مافیا متحرک
(Javed Iqbal Anjum, Chakwal)
محترم قارئین! اﷲ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم
ہے کہ آج تک ہمیشہ اپنے قلم کے ذریعے عوامی مسائل کو ارباب اختیار تک
پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ آج ایک بار پھر چکوال ریلوے اراضی پر قبضہ مافیا کو
بے نقاب کرنے کے حوالے سے ارباب اختیار کو جگانے کی کوشش کریں گے۔ میں نے
چکوال ریلوے اراضی کے حوالے سے اس سے قبل بھی متعدد بار اپنے کالمز میں اس
کا ذکر کر چکا ہوں، یہ الگ بات ہے کہ یہ ایک ایسا تلخ موضوع ہے جو کچھ
لوگوں کو قطعی پسند نہیں آتا۔ مجھے اس بات کا بھی بخوبی اندازہ ہے کہ اب
پھر ایک ہفتہ مسلسل میرا فون مصروف رہے گا۔ ہماری عوام کو بھولنے کی بڑی
عادت ہے۔ عوام بہت جلد بھول جاتے ہیں۔ جنرل عبد المجید ملک (مرحوم) کی
زندگی میں بھی اُن پر الزامات لگتے رہے کہ چکوال ریلوے ٹریک اُن کی صوابدید
پر ختم کیا گیا مگر وہ اس الزام کے ساتھ ہی دُنیا سے رُخصت ہو گئے۔ اس کے
علاوہ جب قاف لیگ کی حکومت تھی تو سردار غلام عباس جو کہ ضلعی ناظم تھے تو
گورنمنٹ ڈگری کالج میں تاریخی جلسہ ہوا تھا جس میں اُس وقت کے وفاقی وزیر
ریلوے شیخ رشید احمد نے شرکت کی تھی، اُس وقت ضلعی ناظم سردار غلام عباس
خود اپنی گاڑی چلاتے ہوئے شیخ رشید احمد کو بہت عزت دی تھی اور اُن کو
ریلوے اسٹیشن دکھانے لے گئے اور پھر اُن کو جلسہ گاہ بھی لائے مگر اُس وقت
بھی شیخ رشید احمد نے غیر سنجیدہ گفتگو کی تھی اور کہا تھا کہ سردار غلام
عباس مجھے بڑے طریقے سے وہاں لے گئے تھے۔ اب میں ریلوے ٹریک کی بحالی کا
اعلان کروں یا نہ کروں، میرے پاس ہاں کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں۔
مگر تاریخ اور وقت نے ثابت کیا کہ وہ کام آگے نہ بڑھ سکا۔ ابھی کچھ عرصہ
قبل چکوال کی دھرتی کے ایک اور ریٹائرڈ جنرل ملک عبد القیوم نے سینیٹر بننے
کے بعد جو وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو خط لکھا تو اُس میں
بطورِ خاص ریلوے ٹریک بحالی کی درخواست کی، مگر شاید اُنہوں نے بھی ایک خط
لکھ کر سمجھا کہ حق ادا کر دیا ہے۔ اُس کے بعد سینیٹر ملک عبد القیوم بھی
اس پر کوئی کام نہ کر سکے اور اُن کو زیادہ تر ٹی وی کے ٹاک شو میں ہی
دیکھا جا سکتا تھا۔ چکوال کی دھرتی فاتحہ خوانی کے حوالے سے بڑی مشہور ہے۔
اس سے پہلے فاتحہ خوانی کا قلمدان چوہدری لیاقت علی خان کے پاس تھا، اب
چونکہ وہ علیل ہیں تو اب یہ ذمہ داری لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبد القیوم ملک نے
سنبھال لی ہے، شاید اُن کو گورنمنٹ لاکھوں روپے اسی کام کے لئے ہی دیتی ہے،
یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ اب کچھ دن قبل پھر ریلوے ٹریک پر قبضہ
مافیا متحرک ہو گیا ہے۔ ڈھڈیال میں ایک ہاؤسنگ سوسائٹی بنائی جا رہی ہے اس
کو روکنے کے لئے ڈھڈیال کی عوام سراپا احتجاج بن گئے خصوصاً چکوال کی دھرتی
کے اہم سپوت اور ہمارے قلمکار ساتھی ملک فدا الرحمن نے سپریم کورٹ میں جانے
کا اعلان کیا، یقینا یہ ایک اچھی کاوش ثابت ہو سکتی ہے۔ ابھی اگر غور کریں
تو بھون سے ڈھڈیال تک ریلوے اراضی پر ہر جگہ قبضہ مافیا متحرک ہو چکا ہے
اور اگر میں غلط نہیں تو اس میں ریلوے کے اہلکار بھی برابر کے شریک ہیں
ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے اور ریلوے اہلکاروں اور ریلوے چھاؤنی ہوتے ہوئے
بھی کسی کی جرأت ہو کہ وہ قبضہ کرے۔ اب تو ریلوے اراضی پر دکانیں، پلازے
اور گڈز ٹرانسپورٹ اڈے بن چکے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن کی کھڑکیاں اور دروازے تک
اُتار لئے گئے ہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد
رفیق جو کہ اپنی وزارت کے حوالے سے انتہائی متحرک اور فعال کردار ادا کر
رہے ہیں اور حقیقت میں انہوں نے ایک بے جان ریلوے میں جان ڈال دی ہے۔ آج
ریلوے ایک منافع بخش ادارہ بن چکا ہے، آج تمام ٹرینیں اپنے وقت پر آنا شروع
ہو چکی ہیں۔ ریلوے اسٹیشن کی حالت بہتر ہو چکی ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ
اربوں روپے کی اراضی پر نہ صرف چکوال بلکہ پاکستان بھر میں قبضہ مافیا
متحرک ہو چکا ہے۔ کیا وفاقی وزیر ریلوے کو اس حوالے سے ایکشن نہیں لینا
چاہئے۔ آخر میں چکوال کی عوام کی اور میری دلی درخواست بھی ہے اور خواہش
بھی کہ کاش ریلوے ٹریک بحال ہو سکتا۔ اس کا نجانے کتنا فائدہ ہو گا۔ اگر اس
ریلوے ٹریک کو سیمنٹ فیکٹریوں تک بچھا دیا جاتا تو ایک تو چکوال سے
راولپنڈی تک سڑکوں کو تباہ ہونے سے بچایا جا سکتا تھا اس کے علاوہ مال
بردار گاڑیاں زیادہ سامان اور سیمنٹ دُوسرے شہروں تک لے جانے میں معاون و
مددگار ثابت ہوتیں اس سے تجارت میں بھی کئی گنا اضافہ ہوتا اور ناجائز
تجاوزات مافیا اپنی موت آپ مر جاتا۔ اس حوالے سے اگر سنجیدگی سے کام کیا
جائے تو سیمنٹ فیکٹری مالکان نیا ٹریک بچھانے کے لئے مالی معاونت بھی کر
سکتے ہیں۔ چونکہ اس وقت روزانہ کی بنیاد پر اربوں روپے کا سیمنٹ چکوال سے
دُوسرے شہروں میں بھیجا جا رہا ہے۔ اگر یہی سیمنٹ ریلوے مال بردار گاڑی کے
ذریعے بھیجا جائے تو اس سے سیمنٹ فیکٹری مالکان کو کرائے کی مد میں کروڑوں
روپے کی بچت ہو سکتی ہے۔ اگر آپ ترقی یافتہ ممالک کی تاریخ دیکھیں تو وہاں
پر اُن ممالک کی آزادی کے وقت جو لمبائی ریلوے ٹریک کی تھی اُس میں بہت
زیادہ اضافہ کیا گیا، لیکن اگر پاکستان کی تاریخ پر نگاہ دوڑائیں تو یہاں
پر آزادی کے وقت جتنا ریلوے ٹریک تھا آج اتنا نہیں ہے اُس میں بہت کمی واقع
ہوئی ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ بجائے ریلوے ٹریک میں اضافہ کیا جاتا اس
میں کمی کیوں کر دی گئی۔ اس کے علاوہ ریلوے ٹریک کو جدید انداز میں بنانے
کی ضرورت ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ چکوال ریلوے ٹریک کے حوالے سے کیا فیصلہ ہوتا
ہے۔ اس حوالے سے حکومت پاکستان کو اور وزارت ریلوے کو سخت اقدامات کرنا ہوں
گے ورنہ وہ دن دُور نہیں جب یہ کہا جائے گا کہ اب چکوال ریلوے ٹریک کسی
صورت بحال نہیں ہو سکتا۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ چیزوں کو بنانا بہت آسان
ہوتا ہے۔ جب بنی ہوئی چیزوں کو اپنے ہاتھوں سے تباہ و برباد کر دیا جائے
پھر اُن کو دوبارہ بنانا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ زندہ قومیں ہمیشہ اپنے
قومی اثاثوں کی قدر کرتی ہیں اور قومی اثاثوں میں اضافہ کرتی ہیں۔ باشعور
لوگ قومی اثاثوں کی حفاظت اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ اس وقت ضرورت اس امر
کی ہے کہ چکوال ریلوے ٹریک اور ریلوے اراضی قومی اثاثہ ہے اس کی حفاظت
چکوال کے بچے بچے پر لازم ہے۔ اگر آج ہم نے اس کی حفاظت نہ کی تو پھر تاریخ
کبھی ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو ایک خوبصورت اور
بہترین ریلوے سسٹم دینا ہے۔ دُنیا زیر زمین ریلوے سسٹم متعارف کروا رہی ہے
اور ہم ہیں کہ بنے بنائے ریلوے ٹریک جو کہ ہمارے عظیم قائد محمد علی جناحؒ
کی نشانی تھی اُن کو اپنے ہی ہاتھوں سے ختم کر رہے ہیں۔ کیا ہاؤسنگ
سوسائٹی، دکانیں اور پلازے بنانے کے لئے پاکستان میں اور جگہ ختم ہو گئی
ہے؟ کیا ریلوے ٹریک کے علاوہ پاکستان میں جگہ نہیں ہے؟ یقینی طور پر یہ
ایسے تلخ سوالات ہیں جن کا جواب سپریم کورٹ میں جمع کرانا ہو گا۔ آج میرے
قلمکار ساتھیوں پر بھی یہ لازم ہے کہ وہ اپنے قلم کے ذریعے آوازِ حق بلند
کریں ورنہ تاریخ کبھی ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و
ناصر ہو۔
|
|