اَدب اور کنونشن پہ تفصیلاٌبات کرنے سے پہلے نامور
ادیبہ وناول نگار بانو قدسیہ جو اَب ہمارے بیچ نہیں رہیں یہ اَدبی دنیا کا
ناقابل ِ تلافی نقصان ہے تمام قارین سے اُن کے لیے دعاِ مغفرت کی اپیل اﷲ
اُن کو غریق ِ رحمت فرمائے آمین ثم آمین۔! دعاِ مغفرت کے بعد مَیں اپنے قلم
کا رُخ اصل مدعا کی جانب موڑتا ہوں گذشتہ ایک سال سے شعر و اَدب سے واسطہ
لیکن شغف تو بہت درینہ ہے شعر و اَدب کے چسکے کی وجہ سے مَیں اَدبی محافل
کی تاک میں ہوتا ہوں اور نہیں توکہیں کسی ڈھابے پہ دوستوں کے ساتھ علم و
اَدب کی محفل جما لی یا کسی سکول کالج کے فنکشن میں گھس گیالیکن کسی
باَضابطہ محفل میں جانے کا اتفاق نہ ہوااس کی اصل وجہ خانیوال علمی و اَدبی
رُجھان کا فقدان تھا اور ہے بھی سہی خانیوال میں بہت خواہش و جستجو کے بعد
بچوں کے نامور لکھاری و ادیب طارق سُمرا سے ملاقات کا موقع مِلاوہ بھی اُن
کی دوکان سے خوشبو خریدنے کی غرض سے گیا تو انہوں نے باتوں باتوں میں اَدب
کی خوشبو بھی بکھیردی پھر وہی خوشبو مجھے اُن کے پاس جانے پہ مجبور کرتی
اور گاہے بگاہے اُن سے ملاقات بھی ہوتی رہی پھر ایک دن اُن سے خانیوال میں
اَدبی تقاریبات کے نہ ہونے کا شکوہ کیا تو ساتھ ہی انہوں نے مجھے رائٹر ز
ویلفیئرفاؤنڈیشن اینڈ ہیومن رائٹس پاکستان( روفاہر ) کے پہلے یک روزہ رائٹر
ز کنونشن میں شرکت کی دعوت دے دی جو اگلے ٹی ایم اے ہال میں منعقد ہوئی جس
میں ناچیز راقم کو بھی اظہار ِ خیال کا موقع دیا گیا اور ساتھ لکھاریوں سے
ملاقات کی سعادت بھی نصیب ہو گئی جن میں روفاہر کے مرکزی صدر اور کنونشن کے
روح ِ رواں جناب آفاق احمد خان ، خانیوال رائٹرز فورم کے بانی شاعر و ادیب
عبدالرؤف سُمرا، بہت اچھے دوست کالم نگار شہزاد اسلم راجہ ،علم و اَدب کی
عاشق محترمہ پروفیسر رضیہ رحمان صاحبہ، ڈاکٹر عبدالعزیز چشتی ،ہفت روزہ
باوقار کے چیف ایڈیٹر میاں اجمل عباس ، صداقت حسین ساجد ؔ، جناب نامورصحافی
عبداﷲ نظامیؔ ،عبدالطیف انور ، عبدالوحید عمرانہ اور دوسرے ادیب حضرات شامل
تھے خانیوال کی میری پہلی اَدبی تقریب میرے لیے بہت سود مند ثابت ہوئی پھر
چند دن بعد شورکوٹ میاں صداقت حسین ساجد ؔ کی کتاب پنسل باکس کی تقریب
رونمائی میں شرکت کا موقع ملا اور اِس کے بعدتو پھر ادبی تقاریبات میں شرکت
معمول بن گیا کبھی الحمرا آرٹس کونسل لاہور تو کبھی یو ایم ٹی میں لاہوری
ناشتہ اور اَدبی بیٹھک اسی سلسلہ کی ایک تقریب جو گذشتہ اتوار ۲۹ جنوری
روفاہر کا دوسرا رائٹرز کنونشن جس میں مضمون نویسی مقابلہ میں حصہ لینے
والے لکھاریوں میں تقسیم انعامات کے سلسلے میں میرے شہر خانیوال جناح
لائبریری میں منعقد ہوئی جس میں مرَد و زَن کثیر تعداد میں شامل تھے تقریب
مقررہ وقت پہ شروع ہوئی نظامت کی ذمہ داری وسیم یوسف کے سپردتھی تقریب کا
آغاز تلاوت ِ قرآن پاک سے کیا گیا جس کی سعادت حاصل کی قاری عظمت الہی نے
اور نعت ِ رسول ِ مقبول ﷺ کا حدیہ گورنمنٹ کالج برائے خواتین خانیوال کی
طلبہ نعیم النساء نے پیش جو ڈویثرن لیول تک نعت مقابلہ جات میں اپنا لوہا
منوا چکی ہیں نعت رسول مقبو ل ْﷺ کے بعد نظامت کے فرائض سونپنے کے لیے وسیم
یوسف نے کالم نگار شہزاد اسلم راجہ کو دعوت دی اور انہوں نے اپنی نظامت کا
آغاز اِن اشعار سے کیا:
ہم ہیں سورج ہمارے ساتھ چلو ہم جہاں ہوں گے شب نہیں ہو گی
پہلی نشست تربیتی ورکشاپس پر مشتمل تھی جس میں پہلا لیکچر محترمہ پروفیسر
رضیہ رحمان نے " موجودہ دور میں لکھاری کی ذمہ داریاں اور ہماری نصیحتیں بے
اثر کیوں " کے موضوع پر ایک جامع لیکچر ڈیلیور کیا محترمہ رضیہ رحمان کے
جاندار لیکچر کے بعد شہزاد اسلم راجہ نے عبداﷲ نظامیؔ ( سینئر صحافی ادیب ،
چیف ایڈیٹر تعمیر اَدب لیہ ) کو "اُردو اَدب میں بچوں کے اَدب کے مقام " کے
ٹاپک پہ اظہارِ خیال کرنے کے لیے مد عو کیا تو انہوں نے حکومت سے بچوں کے
اَدب کے فروغ کے لیے احسن اقدامات کا مطالبہ کیا اور بچوں کے ادیبوں کو
قومی ایوارڈز سے نوازا جائے اور اُن کی حوصلہ افزائی کی جائے عبداﷲ نظامیؔ
کے قابل ِتحسین خیالات کے بعد ایک ننھی منی گڑیاعروہ اشرف نے افکارِ اقبال
پہ قابل تعریف تقریر کر کے شرقاء کے دل جیت لیے راقم کی طرف سے عروہ اشرف
کی عظیم یونیورسٹی عروہ کی ماں پروفیسرگل ناز لاشاری کو سلام جو اپنے باغ
کی آبیاری اِس قدر جذبے اور خلوصِ دل سے کر رہی ہے ایک دن ضرور وہ پھول
پورے معاشرے کو علم و ادب سے معطر کر دیں گے انشاء اﷲ۔ تقریر کے بعدخانیوال
کے صحافی عبدالوحید عمرانہ نے موجودہ سیاسی صورت ِحال پر اظہار ِخیال کرتے
ہوئے وزیرا عظم سمیت تمام کرپشن زدہ سیاستدانوں کے احتساب کا مطالبہ کیا
اورحرمت ِقلم پہ ایک جوشیلے انداز میں لیکچر دیا ناظم ِ محفل شہزاد اسلم
راجہ نے کالم نگاری پہ روشنی ڈالنے کے لیے امتیاز علی تاج کو زحمت دی انہوں
نے "کالم نگاری کیسے کی جاتی ہے" کے موضوع پہ بات کرتے ہوئے کہا کہ "
اداریہ کا صفحہ کسی بھی اخبار کی جان ہوتے ہیں جس اخبار کا کالم اچھا ہو گا
اُس اخبار کے پڑھنے والے بھی ذیادہ ہوں گے اچھے کالم کے الفاظ سادہ اور
اصلاح کا عنصر لازم ہوتا ہے " پہلی نشست کا اختتام خان گڑھ کے شاعر نذر
حسین ساجدؔکے ادب دوستی کے موضوع پہ دیئے گے لیکچر پہ ہوا اور پہلی نشست کے
اختتام کے بعد مہمانان ِگرامی کے لیے پُر تکلف ظہرانے کا احتمام کیا گیا
تھا جس میں راقم نے مہمانوں کو اپنے ہاتھوں سے کھانا پیش کر کے میزبانی کے
فرائض انجام دئیے ظہرانے کے بعد دوسری نشست کا آغازقرآن پاک کی تلاوت سے
ہوا جس کی سعادت حاصل کی حافظ فواد وسیم نے دوسری نشست کے چیف گیسٹس میں پی
ایف سی کے مرکزی صدر ملک سلمان ،پی ایف سی کے آرگنائزر و پی ٹی وی اینکر
پرسن اعجاز مہاروی ، محترمہ شازیہ منظور اور خان گڑھ کے تشریف لانے والے
شاعر جناب نذر حسین شامل تھے دوسری نشست میں مقابلہ مضمون نویسی ( تعلیم ِ
نسواں اور ہماری ذمہ داریاں ) کے ونرز میں ایوارڈ اور باقی لکھاریوں کو
اعزازی ایوارڈز دیئے گئے جن میں بندہ ِ ناچیز راقم بھی شامل تھا تقسیم ِ
ایوارڈسے پہلے لیکھاریوں کی حوصلہ افزائی کے لیے یادگاری ایوارڈز دیے گئے
جن میں اسلامک اسکالر و کالم نگار عبدلخالق سکھانی ( بچوں کا اَدب و کالم
نگاری ) ،راقم الحروف انجینئرمظہر خان ( شاعری و کالم نگاری ) ، صداقت حسین
ساجدؔ(بچوں کا اَدب) ، سجاد انور(بچوں کا اَدب) ، رفعت مضطرؔ( شاعرہ وبچوں
کا اَدب) فردین علی ساگر(بچوں کا اَدب) اور بچوں کے اَدب میں چوہدری صابر
سلیم شامل تھے ایوارڈز کے ساتھ ساتھ سینئر لکھاری لیکچر بھی ڈیلیور کرتے
رہے وہاڑی سے تشریف لائے ضلعی صدر پی ایف سی وہاڑی احسان باری نے اپنے
لیکچر میں ادب کے فروغ کے لیے ہر قسم کے تعاون کا کہا اور رئٹرز کی تصنیف
کی پبلشنگ سپورٹ اور تقریبات کے منعقد کروانے میں علان بھی کیا۔
اس کے بعد مقابلہ مضمون نویسی ( تعلیم ِنسواں اور ہماری ذمہ داریاں )کے
نتائج اور تقسیم ِ انعامات کا سلسلہ شروع ہوا جس کا سب کو بے صبری سے
انتظار تھا مقابلہ مضمون نویسی کی چیف جج کالم نگار رقیہ غزل تھیں اور اُن
کو اَسسٹ کر رہے تھے جناب شہزاد اسلم راجہ،ؔ رقیہ غزل ذاتی مصروفیت کی وجہ
سے تشریف نہ لا سکیں تو اُن کے تقسیم ِ انعامات کے ا ناؤسمنٹ کے کام کو
شہزاد اسلم راجہؔ نے نمٹانے کا ذمہ لیا احسن طریقے سے نمٹایابھی مقابلہ
مضمون نویسی خواتین میں پہلی پوزیشن گورنمنٹ کالج برائے خواتین خانیوال کی
سٹوڈنٹ امرین ریاض نے حاصل کی جبکہ دوسری شہانہ جمال نے حاصل کی جن کا تعلق
کراچی سے ہے تیسری پوزیشن سناواں مظفر گڑھ سے طلبہ بنت ِاُم ِسَلمہ نے حاصل
کی مظفر گڑھ سے آئی یہ بہن جو صبح سات بجے ہال میں موجودتھی جب چار بجے کے
قریب ایوارڈ لینے کی باری آئی تو اُس نے خود نمائی اور سوشل میڈیاکے دُور
میں رہتے ہوئے اپنی تصویر تک نہ لینے کی معذرت کرلی تو خدا گواہ ہے میرے
آنکھیں اشکبار ہو گئیں اور صدور سمیت تمام شرقاء داد دینے پہ مجبور ہو گئے
بنت ِاُم ِسَلمہ کے ساتھ تیسری پوزیشن لینے والی طلبہ قدرت نواز جن کا تعلق
گورنمنٹ کالج برائے خواتین خانیوال سے ہے خصوصی پوزیشنز میں پہلی خصوصی
پوزیشن لاہور سے عائشہ جمشید اور پیر محل سے ستارہ امین کومل شامل تھیں اور
دوسری خصوصی پوزیشن کالم نگار و شاعرہ مسز فوزیہ سمیع کے حصے میں آئی ۔مضمون
نویسی کے اِس مقابلے میں پورے پاکستان سے کل اکیس خواتین کے مضمون شامل
ہوئے جن میں سے گیارہ خواتین کا تعلق گورنمنٹ کالج برائے خواتین خانیوال سے
تھا جو ہمارے لیے ایک اعزاز کی بات ہے اور مبارکباد کی مستحق ہے پروفیسر
رضیہ رحمن جنہوں نے اپنی کاوشوں سے گورنمنٹ کالج برائے خواتین خانیوال میں
علم و اَدب کو فروغ دیا۔
خواتین کے بعداَب باری تھی مردوں کی کے نتائج اور تقسیم ِ انعامات کی تو
اُن میں سے پہلی پوزیشن کے ونر تھے لاہور سے کالم نگار حافظ محمد زاہد اور
کوئٹہ سے نیاز اﷲ رانگو ، دوسری پوزیشن سیالکوٹ سے اُسامہ منورنے حاصل کی
اور تیسری ساہیوال سے محسن طاب کے حصہ میں آئی جبکہ مردوں کی خصوصی پوزیشن
میں پہلی پوزیشن خانیوال سے پیارے دوست کالم نگار ،شاعرو ادیب عبدلرؤف
سُمرا اور دوسری پوزیشن ٹوبہ ٹیک سنگھ سے محمد نواز نے حاصل کی تقسیم ِ
انعامات کے ساتھ ساتھ لیکچرز کا سلسلہ بھی جاری رہا پی ٹی اینکر پرسن اعجاز
مہاروی صاحب نے اَدب کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے کہا "شاعر و ادیب معاشرے
کی نبض ہوتے ہیں اُن کی فلاح و بہبود کے لیے ہمیں کام کرنا چاہیے " انہوں
نے خانیوال میں اتنے اچھے پروگرام منعقد کروانے پہ آفاق احمد خان اور رو
فاہر کی ٹیم کو داد دی روفاہر کی جانب سے سال ۲۰۱۶ کے بہترین لکھاریوں کو
ایورڈز سے نوازا گیا جن میں گورنمنٹ کالج برائے خواتین خانیوال سے محترمہ
پروفیسر رضیہ رحمن (بہترین لکھاری) ، محترمہ پروفیسر گل ناز لاشاری (بہترین
لکھاری) ، میاں محمد یونس (بہترین لکھاری) ، عبدالصمد مظفر(بچوں کا اَدب) ،
سید اسلم جاوید ہاشمی( بہترین لکھاری) ، محمد ندیم اختر(بچوں کا اَدب) اور
محمد ریاض پرنس بہترین لکھاریوں میں شامل تھے ۔
پی ایف سی کے مرکزی صدر ملک سلمان صاحب نے پی ایف سی کے اغراض و مقاصد سے
روشناس کروایا اور لکھاریوں کی ہر ممکن مدد کرنے کا وعدہ کیا اوراُن کے
لیکچر کے بعد روفاہر کی جانب سینئرلکھاریوں کو صحافتی وادبی خدمات
پرپاکستان اَدبی ایوارڈ۲۰۱۷ بھی دیا گیاجس کی تفصیل کچھ اِس طرح ہے :
معروف شاعرہ رقیہ غزل ، ڈاکٹر محمد عبداﷲ تبسم ، محترمہ ثمرینہ رمضان ،
حاجی لطیف کھوکھر، معروف شاعر شہزاد عاطر، سینئر صحافی عبداﷲ نظامی،
سینئرکالم نگاراختر سردار چوہدری، پی ایف سی کے مرکزی صدر ملک سلمان، ڈاکٹر
محمد یوسف صدیقی ،روفاہر کے مرکزی ممبر وکالم نگار شہزاد اسلم راجہؔ، ڈاکٹر
سعید احمدسعیدی ؔ، کالم نگار امتیاز علی تاجؔ، جناب سلیم نازؔ(نوائے
وقت)اور عبدالوحید عمرانہ شامل تھے تقریب میں ایک ننھے منے بچے ابتشام نے
"کیا میں دنیا بدل سکتا ہوں" کے موضوع پہ عمدہ تقریر کر کے خوب داد وصول کی
اور اور تقریب کو چار چاند لگا دیئے اختتامی مراحل میں حاضرین کے چہروں پہ
مسکراہٹیں بکھیرنے کے لیے لاہور سے آئے اسلم جاوید ہاشمی نے "تیرے پھیکے
بدن کی خوشبوسے" مہدی حسن ، پٹھانے خان اور عطا اﷲ عیسیٰ خیلوی کے مزاحیہ ا
ندازمیں پیش کیا تو حاضرین داد دینے پہ مجبور ہو گئے آخر میں نظامت کے
فرائض انجام دیتے ہوئے شہزاد اسلم راجہؔ نے سرائیکی شاعر مختار مَستؔکے
اشعار سے تقریب کا اختتام کیا۔۔۔
جیویں اج رَلے رَل بیٹھے ہیں ، ایویں رَلے رَل آپاں کل بہسوں۔۔۔۔ جہڑا
سڑا دا ہے بے شک سڑے پیارکھ گل تے گلا آپاں کل بہسوں
کم کار سبھے سٹ چھوڑ آویں، کریں کئی اٹکل آپاں کل بہسوں۔۔۔۔ ونجیں مستؔ نہ
بھل کل یاد رکھیں ، ہیں جاہ تے ولا آپاں کل بہسوں |