میں دفتر سے گھر پہنچا تو روز سے زیادہ خوش تھا ۔کیونکہ
آج مجھے تنخواہ ملی تھی ۔اپنے اکلوتے بیٹے کو پیار کیا ۔آج مجھے وہ کچھ
زیادہ ہی پیارا لگ رہا تھا اسی لاڈپیار میں اچانک بازار جا کے بیٹے کیلیے
نئے کپڑے لینے کا پروگرام بنا ۔ مجھے یاد نہیں کہ اس سال بیٹے کیلیے
کتنےجوڑے کپڑے لے چکا تھا لیکن اتنا یادہے کہ اسکی ضرورت سے کہیں زیادہ تھے
۔ بازار میں قیمتی جوڑا کپڑوں کا خریدنے کے بعد فیملی کے ساتھ اک ریسٹورنٹ
میں کھانا کھایا۔کھانے کا بل ادا کرنے اور کافی مقدار میں کھانا اپنے آگے
چھوڑ کر میں با ہر آکر کھڑا ہوا تو ساتھ ہی اک کوڑے کاڈرم تھا جس میں ہوٹل
میں ضائع ہونے والا کھانا پھینک دیا جاتا تھا ۔اس میں ایک سات آٹھ سال کا
بچہ کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔میں نے اس طرح کے بچے اور یہ نظارہ بہت دفعہ پہلے
دیکھاتھا۔ لیکن ہمیشہ اک معمول کا واقعہ سمجھ کر کبھی اتنی توجہ نہ دی ۔
لیکن آج اس بچے کے چہرے پہ کچھ خاص تھاجس نے مجھے متوجہ کر دیا ۔ سرخ
وسفیداور میرے بیٹے سے کہیں زیادہ خوبصورت بچے کو اس طرح کوڑے کے ڈھیر پہ
دیکھ کر میرے اندر تجسس پیدا ہوا کہ دیکھوں کہ یہ کہا کر رہا ہے۔اسلیےجب وہ
کوڑے سے اک شاپر لے کر باہر نکلا تو میں بھی اسکے پیچھے چل پڑا ۔کچھ فاصلے
پر دو اور بچے بوسیدہ اور پھٹے ہوئے لباس میں غالباً اس بچے کا انتظار کر
رہے تھے وہ بچے بھی پہلے بچے کی طرح انتہائی جوبصورت تھے لیکن انکے لباس
اور ظاہری ہییت کی وجہ سے انکی حالت انتہائی خراب تھی۔ انکی عمریں چار اور
چھ سال کے درمیان لگ رہی تھیں۔ جب پہلے والا بچہ ان کے پاس پہنچا تو ان کی
آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی ۔اب اس بچے نے اپنا شاپر کھولا تو اس کو دیکھ کر
میرے حواس ہی جواب دے گئے کہ اس میں وہ بچا ہوا کھانا تھا جو ہوٹل سے باہر
پھینک دیا جاتا تھا۔ جس کو بچے نے چن کر جمع کر لیاتھا اور جب بچے نے شاپر
کھولا تو انتظار میں بیٹھے بچے پاگلوں کی طرح اس پر ٹوٹ پڑے۔ ایسا لگ رہا
تھا جیسے وہ کئی دنوں سے بھوکے ہوں یہ منظر دیکھ کرمیری آنکھوں میں آنسو
خود بخود بہنا شروع ہوگئے اور اپنے بچے کا کچھ دیر پہلے لیا گیاکئی ہزار کا
سوٹ بھی دماغ میں گردش کر رہا تھا اور ہوٹل میں ہمارے آگے ضائع ہونے والا
کھانا بھی میرے ضمیر کو زخمی کر رہا تھا ۔اور میں سوچ رہا تھا کہ ہم اپنی
دھن میں اپنے اردگرد سے کتنے بے خبر ہیں۔ |