سال 2017کے پہلے مہینے کے آخری دِ اجل کے ہاتھ میں
جو پروانہ تھا اس میں ممتاز ماہر تعلیم ،نامور سائنس دان،انسانی حقوق کے
علم بردار اور عظیم انسان پروفیسر فیض محمد خان کا نام بھی رقم تھا۔ علم و
ادب کا وہ آفتاب جو سال 1939میں مہر شیر محمد خان کے گھر میں جھنگ کے ایک
گاؤں خاکی لکھی سے طلوع ہوا وہ اکتیس جنوری کی شام جھنگ میں غروب ہو گیا۔
پروفیسرفیض محمد خان نے پاکستان بنتے دیکھااو ر قومی تاریخ کے نشیب و فراز
پر نظر رکھی۔جب آزادی کی صبحِ درخشاں طلوع ہوئی اس وقت فیض محمد خان کی عمر
آٹھ سال تھی۔ اُن کی جنم بھومی ضلع جھنگ کی تحصیل شورکوٹ کا تاریخی علاقہ
خاکی لکھی ہے۔ اس علاقے میں کئی تابعی بھی تبلیغ ِ اسلام کے سلسلے میں
پہنچے جن میں پیر عبدالرحمٰنؒ بھی شامل ہیں جن کا مزار شورکوٹ سے چند میل
دور ہے یہی وہ علاقہ ہے جہاں سال 712عیسوی میں طائف سے تعلق رکھنے والے جری
سالار محمد بن قاسم(695-715) کی عرب سپاہ نے قدم رکھے ۔ برصغیر میں عر ب
مسلمانوں کی آ مد سے پہلے اس وسیع علاقے پرہندو ٹھاکروں ،بر ہمنوں اور بنیو
ں کا تسلط تھا۔ محمد بن قاسم کی قیادت میں مسلمانوں کے فوجی دستے جب ملتان
سے شورکوٹ کی طرف بڑھے تو یہاں کے مہاراجہ نے شورکوٹ کے قلعہ میں چھپ کر
مسلمان سپاہیوں پر تیر انداز ی شروع کر دی ۔اس یک طرفہ حملے کے باوجود
مسلمانوں نے مذاکرات کی کوشش کی اور جارحیت کا ارتکاب کرنے والے ہندہ
مہاراجہ کو جارحیت سے باز رہنے اورہتھیار ڈالنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔
جب مذاکرات کی کوئی صورت پیدا نہ ہو ئی تو مسلمان فوجی دستے نے منجنیق سے
گولہ باری کر کے شورکوٹ کے مضبوط قلعے کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ اس کہنہ قلعے
کے کھنڈرات اب بھی اس شہر کے نواح میں موجود ہیں ۔ان کھنڈرات کو دیکھ کر
لوگ عبرت حاصل کرتے ہیں کہ سیلِ زماں کے تھپیڑوں میں تخت و کلاہ و تاج کے
سب سلسلے خس و خاشاک کے مانند بہتے چلے جاتے ہیں۔اس علاقے کے قدیم کھنڈرات
سے کھدائی کے دوران میں جو فوسلز بر آمد ہوئے ہیں ان کو دیکھ کر ماہرین
آثار قدیمہ نے یہ انکشاف کیا ہے کہ یہاں چاہر ہزار سال قبل مسیح میں بھی
تہذیب و تمدن کی وہی اعلا کیفیت تھی جو ٹیکسلا میں تھی۔ خاکی لکھی کا مردم
خیزعلاقہ زرعی پیداوار بالخصوص اجناس خوردنی کے لیے مشہور ہے ۔ پروفیسر فیض
محمد خان کے آبا و اجداد نسل در نسل اس علاقے کے عوام کی خدمت کے کاموں میں
بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ہیں۔تصوف اور معرفت کی اقلیم کے ممتاز روحانی
پیشوا اور صوفی شاعر حضرت سلطان باہوؒ(پیدائش:17۔جنوری1630،وفات:یکم
مارچ1691)نے اس علاقے میں تبلیغ اسلام کے سلسلے میں گراں قدر خدمات انجام
دیں ۔شورکوٹ شہر میں حضرت سلطان باہوؒ کے آباو اجداد کی آخری آرام گاہ ہے
جب کہ شورکوٹ کے نواحی قصبے گڑھ مہاراجہ میں حضرت سلطان باہوؒکی آخری آرام
گاہ آج بھی مرجع خلائق ہے۔
فیض محمد خان سیال خاندان چشم و چراغ تھے۔اس خاندان نے تحریک پاکستان میں
بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔فیض محمد خان نے تئیس مارچ1940کو لاہور کے اس تاریخی
جلسے میں اپنے خاندان کے بزرگوں کے ہمراہ شرکت کی جس میں قراردادِ پاکستان
منظور کی گئی۔ فیض محمد خان کے آ با و اجداد زراعت کے شعبے سے وابستہ تھے
اور ان کا شمار اپنے علاقے کے صاحبِ ثروت اور مخیر کسانوں میں ہوتا تھا۔نو
آبادیاتی دور میں ان کے خاندان نے علی گڑھ تحریک کا بھر پور ساتھ دیا اور
سر سید احمد خان اور ان کے جن ممتاز رفقائے کار سے معتبر ربط بر قرار رکھا
ان میں الطاف حسین حالیؔ، محسن الملک ،وقار الملک اورشبلی نعمانی شامل ہیں۔
بر صغیر میں برطانوی سامراج کے غاصبانہ تسلط کے بعدعلی گڑھ مسلم یو نیورسٹی
کے قیام اور بر صغیر کے مسلمانوں کی تعلیم اور آزادی کے لیے ان کے خاندان
نے علی گڑھ تحریک کے لیے ہمیشہ فراخ دلی سے چندہ دیا۔ تحریک پاکستان میں ان
کے خاندان نے مسلم قائدین کا بھر پور ساتھ دیا۔ مسلم لیگ کے جن ممتاز
رہنماؤ ں نے پنجاب میں مسلم لیگ کو مستحکم کرنے کے سلسلے میں مہر شیر محمد
خان سے معتبر ربط رکھا ان میں سردار عبدالرب نشتر،مولوی فضل الحق ،ملک
فیروز خان نون ،راجہ غضنفر علی،ناصر احمد ملہی اور آغا خان کے نا م قابل
ذکر ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ان کے خاندان نے عملی سیاست کو خیر باد کہہ
دیا اور زراعت،تعلیم اور عوامی فلاح و بہبود کے کاموں پر پر توجہ مرکوز کر
دی۔ مہر شیر محمد خان نے علی گڑھ تحریک کے زیر اثر اپنے آبائی علاقے میں
طلبا و طالبات کی تعلیم پر بھر پورتوجہ دی ۔اُن کی کوششوں سے اس علاقے میں
ایک سو سال پہلے ایک وسطانی سکول کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس زمانے میں
اس دور افتادہ علاقے میں میلو ں تک کوئی تعلیمی ادارہ نہ تھا ۔اس سکول کی
عمارت اور کھیل کے میدانوں کے لیے زمین مہر شیر محمد خان نے عطیہ دی۔ یہ
قدیم سکول اب ترقی کے مدارج طے کر کے ثانوی سکول بن گیا ہے ۔ مہر شیر محمد
خان نے روشنی کے جس عظیم الشان سفر کا آ غاز کیا اس کے معجز نما اثر سے
ہزاروں طلبا و طالبات نے یہاں سے اکتساب ِ فیض کیا اور اذہان کی تطہیر و
تنویر کا یہ سلسلہ رہتی دنیا تک جار ی رہے گا۔اِس دُور افتادہ علاقے کے
طلبا و طالبات کی گردن اس عظیم انسان کے بارِ احسان سے ہمیشہ خم رہے گی۔
فیض محمدخان نے گورنمنٹ کالج، جھنگ سے انٹر میڈیٹ (سائنس)تک تعلیم حاصل کی
۔اس کے بعد وہ ایمرسن کالج ،ملتان پہنچے اور وہاں سے سائنس کے مضامین کے
ساتھ گریجویشن کرنے کے بعد جامعہ پنجاب،لاہور سے طبیعات میں ایم ایس سی کی
ڈگری حاصل کی۔ پروفیسر فیض محمد خان کا شمار اپنی جماعت کے فطین طلبا میں
ہوتا تھا ۔ اپنی تعلیمی زندگی میں انھوں نے ہر امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل
کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ شعبہ تدریس سے وابستہ ہو گئے اور پنجاب کے
مختلف کالجز اور جا معات میں فزکس کی تدریس پر مامور رہے ۔ترقی کے مدارج طے
کرتے ہوئے گورنمنٹ کالج ٹوبہ ٹیک سنگھ کے پرنسپل کے منصب پر فائز ہوئے اور
یہیں سے ریٹائر ہوئے۔اپنے عرصہ ٔ ملازمت میں انھوں نے اپنی جنم بھومی کی
ترقی کے لیے ہر ممکن کوشش کی اور اس پس ماندہ علاقے کے عوام کو بجلی،صحت
،تعلیم اور مواصلات کی سہولت فراہم کرنے کے سلسلے میں متعلقہ شعبوں سے پیہم
رابطہ رکھا۔ان کی مساعی ثمر بار ہوئیں اور اب یہ علاقہ قومی تعمیر و ترقی
کے دھارے میں شامل ہو چکا ہے ۔ان کی فقید المثال کامرانیوں اور لائق تحسین
خدمات کا ایک عالم معتر ف تھا۔اس کے باوجود وہ عجز و انکسار کا پیکر بن گئے
اور کبھی اپنی کامیابیوں پر فخر نہ کیا بل کہ نوجوان طلبا و طالبات کو یہ
باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ بے پناہ صلاحیتوں سے متمتع ہیں اور ستاروں پر
کمند ڈال سکتے ہیں ۔
پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب کے ساتھ پروفیسر فیض محمدخان کے دیرینہ
مراسم تھے ۔ رجائیت دونوں کے مزاج کا حصہ تھی جب وہ پریشاں حال لوگوں کی
طرف دست شفقت بڑھاتے تو دلوں کو ایک ولولہ ٔ تازہ نصیب ہوتا ۔ان کی دِل آ
ویز گفتگو قلب و روح کی گہرائیوں میں اتر کر پتھروں کو بھی موم کر دیتی تھی
۔قحط الرجال کے موجودہ دور میں بڑھتی ہوئی تنگ نظری نے گمبھیر صورت اختیار
کر لی ہے۔چھوٹے اذہان کو بڑے معاملات سے آ گاہ کرنے اور ان کو وسعتِ نظر سے
متمتع کرنے کے لیے جو فراخ دلی اوروسعت نظر درکار ہے وہ اہلِ نظر سے پوشیدہ
نہیں۔اﷲ کریم نے ان دوستوں کو جس بصیرت، عالی ظرفی اور فراخ دلی سے نوازا
تھا ،اس کے اعجاز سے ان کی شخصیت کو قابلِ رشک استحکام نصیب ہوا۔ دونوں
دانش وروں نے عالمی کلاسیک کا وسیع مطالعہ کیا تھا ۔ رومانی داستانوں ،لوک
داستانوں اور قدیم قصے کہانیوں میں وہ گہری دلچسپی لیتے تھے۔ایران ،عرب
ممالک،ایشیا ،افریقہ کے مختلف علاقائی قصے ، کہانیوں ،داستانوں اور یورپی
ممالک کی تہذیبی و ثقافتی اقدار کی مظہر اساطیری تخلیقات پر ان کی گہری نظر
تھی۔ان کا خیال تھا کہ ان داستانوں میں ما بعد الطبیعات کا غلبہ ہے اور
واقعات کے بجائے کردار قاری کے فکر و خیال پر دوررس اثرات مرتب کرتے
ہیں۔مطا لعۂ ادب کے دوران میں یہ بات کُھل کر سامنے آتی ہے کہ کلاسیکی ادب
میں مروّج و مقبول متعدد علامات ، تراکیب ،محاورات ،تلمیحات ، تشبیہات اور
استعارات کے سوتے ان مافوق الفطرت داستانوں کے کرداروں کی فعالیت سے
پُھوٹتے ہیں۔ گزشتہ صدی کے ساٹھ کے عشرے میں دیوان احمد الیاس نصیب کی قیام
گاہ پر ایک ہفتہ وار ادبی نشست’’داستان طراز‘‘ کا اہتمام کیا جاتا تھا۔
ادبی نشست ’’داستان طراز ‘‘میں جو داستان گو شامل ہوتے تھے وہ اپنے مخصوص
انداز میں ماضی کی رومانی داستانیں سنا کر سماں باندھ دیتے تھے۔ غلام علی
خان چین کی روایت ہے کہ ممتاز ادیب بلال زبیری نے دیوان احمد الیاس نصیب
اورفیض محمد خان کی تحریک پراپنی معرکہ آرا کتاب ’’جھنگ کی لوک کہانیاں
‘‘لکھی ۔ بلال زبیری کی تصنیف ’’تذکرہ اولیائے جھنگ ‘‘بھی اسی یادگار عہد
سے تعلق رکھتی ہے ۔کتاب ’’جھنگ کی لو ک کہانیاں ‘‘میں اس قدیم علاقے کی
متعدد اہم لوک کہانیوں کا تجزیاتی مطالعہ اور تاریخی پس منظر شامل ہے ۔اس
زمانے کے جو ممتاز داستان گو ان نشستوں کی رونق بڑھاتے ان میں دیوان احمد
الیاس نصیب،فیض محمد خان، ملک احمد یار، حاجی احمد بخش ، رفیع ،شمشاد،
جیون،ارسلان خان ،محمد شریف خان،محمد شفیع، غلام علی خان چین، امیر اختر
بھٹی، خلیل اﷲ خان،بشارت خان ، خادم مگھیانوی ،رام ریاض ،معین تابش ،عبدا
لغنی بھانڈیاں والا، سو ہارا،پھتلا،اﷲ دتہ سٹینو،حکیم احمد بخش،اﷲ دتہ
حجام،محمد وریام، مرزا مین ساحر،کرموں موچی ،میاں نتھا ،میاں گھماں، بابا
طیب،نورا موہانہ ، گامن سچیار،جھلا جھکیاراور تُلا کمہار کے نام قابلِ ذکر
ہیں۔ پرِ زمانہ کی برق رفتاریاں تو پرواز ِ نور سے بھی کہیں بڑھ کر تیز ہیں
۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ادبی نشستیں ،داستان گو اور داستانیں تاریخ کے
طوماروں میں دب گئیں۔سال 2004کے اختتام پر میری ملاقات اس زمانے کے معمر
اور انتہائی پر اسرار داستان گو مو لا بخش مالی سے ہوئی جو چراغ سحری تھا
۔اس داستان گو نے پُرنم آ نکھوں سے اپنے دلِ شکستہ کا حال اور ایام گزشتہ
کی روداد سنائی۔ نصف صدی پرانے واقعات کی یاد تازہ کرتے ہوئے داستان گو
مولا بخش مالی کو حسن و رومان کی جن داستانوں کے تجزیاتی مطالعہ کا احوال
یاد رہا اس کی تفصیل درج ذیل ہے :
شہزادہ سلیم اور انار کلی، سسی اور پنوں ، شاہ جہان اور ممتاز محل ،شیریں
اور فرہاد، لیلیٰ اورمجنوں ،سوہنی اور مہینوال،رومیوا ور جولیٹ (Romeo and
Juliet) ، قلو پطرہ اور مارک انٹونی( Cleopatra and Mark Antony) ،لینکلوٹ
اور گینوری(Lancelot and Guinevere)، ٹرسٹن اور اسلوڈ ( Tristan and
Isolde)، پیرس اور ہیلینا (Paris and Helena)، آرفیوس اور یوریڈس (Orpheus
and Eurydice)، نپولین اور جوزفائین(Napoleon and Josephine)، اوڈیسی اور
پینی لوپ(Odysseus and Penelope)،پالو اور فرانسسکا( Paolo and Francesca)،
سکارلٹ اور بٹلر ( Scarlett O’Hara and Rhett Butler)، جین آئر اور
روچسٹر(Jane Eyre and Rochester)، ایلائس اور ابلارڈ( Eloise and Abelard)،
پائرامس اور تھائسب (Pyramus and Thisbe)، الزبتھ اور ڈارسی (Elizabeth
Bennett and Darcy)،پو کا نٹس اور سمتھ(Pocahontas and John Smith)، میری
اور پیری کوری( Marie and Pierre Curie)، وکٹوریہ اور البرٹ (Queen
Victoria and Prince Albert)راول اور جگنی ،شانتی اور نابو ،مرزا اور
صاحباں۔
لوک ادب بالخصوص لوک داستانوں پر پروفیسر فیض محمد خان کی رائے کو ہمیشہ
استنادکا درجہ حاصل رہا ۔ ایران اور وسطی ایشیا میں تیرہویں صدی میں نمو
پانے والی قدیم رزمیہ رومانی داستانوں کے تجزیاتی مطالعات کے دوران میں جن
فکر پرورتاثرات ، چشم کشا صداقتوں اور رجحان ساز خیالات کا اظہار کیا جاتا
وہ عصری آ گہی پروان چڑھانے کا اہم وسیلہ ثابت ہوتا تھا ۔ وہ لو ک کہانیوں
کو مقامی تہذیب و ثقافت کی ایسی دیدہ زیب تاریخ سے تعبیر کرتے تھے جسے
داستان گو اپنے حسنِ بیان سے اس قدر پُر لطف اور دِل کش بنا دیتا ہے کہ اس
کا کرشمہ دامنِ دِل کھینچتا ہے ۔ان یادگار نشستوں میں پروفیسر فیض محمد خان
کا سائنسی اندازِ فکر قارئین کے فکر و نظر کو مہمیز کرنے کا وسیلہ ثابت
ہوتا تھا۔ ان کا موقف نہایت واضح ہوتا تھا وہ زور دے کر کہتے کہ سائنس اور
ٹیکنالوجی کا حصول ہی قوم کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریاکر
سکتا ہے ۔ اگرچہ و ہ توہم پرستی اور فرسودہ رسوم و رواج کے شدید مخالف تھے
مگرایک بات پر وہ زور دیتے تھے کہ ماضی کی لوک داستانوں کے متعدد رومانی
کردارآج بھی ہمارے ادب کے معتبر حوالے ہیں جن کا ذکر کلام کی تاثیرکو چار
چاند لگا دیتا ہے۔ ایک محب وطن پاکستانی حیثیت سے ان کا خیال تھا کہ وہم و
گمان اور بے یقینی قومی تعمیر و ترقی کی راہ میں سد سکندری بن کر حائل ہو
جاتی ہے ۔ وہ یہ بات بر ملا کہتے کہ اگر پاکستانی عوام نے سائنسی انداز فکر
نہ اپنایا اور قوم تعلیم و ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہوئی تو یہاں کے عوام
اقوامِ عالم کی صف میں تماشا بن جائیں گے ۔وہ مثالیں دے کر واضح کرتے کہ
کلاسیکی ادب ہو یا جدید دور کا ادب ہر جگہ ان قدیم رومانی و اساطیری
داستانوں کے اہم کرداروں کے تذکرے ملتے ہیں جو ہر عہد میں سو چ کے نئے در
وا کرتے رہیں گے۔مثال کے طور پر :
کوہ کن کیا پہاڑ توڑے گا
عشق نے زور آزمائی کی
قیس سا پھر نہ اُٹھا کوئی بنی عامر میں
فخر ہوتا ہے گھرانے کا سدا ایک ہی شخص
بے محنت ِ پیہم کوئی جو ہر نہیں کھلتا
روشن شررِ تیشہ سے ہے خانۂ فرہاد
آواز دے رہے ہیں درِ دِل پہ وسوسے
ہر گام ایک کوہِ نِدا ہے ہمارے ساتھ
آج کی رات نہ سونا یارو
آج ہم ساتواں در کھولیں گے
مادیت اور ہوس نے جدید دور کی زندگی کو غیر یقینی حالات اور لامعنویت کے
سرابوں کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔ پروفیسرفیض محمد خان کو اس بات کا قلق تھا
کہ نشانِ راہ سے بے خبر اور سراغِ َ منزل کے بغیر اس عالم ِآ ب و گِل کے آ
بلہ پا مسافر یاس و ہراس کے عالم میں حالات کے رحم و کرم پر ہیں اور بھری
دنیا میں کوئی ان کا پُرسانِ حال نہیں۔قحط الرجال کے موجودہ دور میں بعض
لوگوں کی بے بصری اور کو ر چشمی کے باعث زندگی کی رعنائیاں گہنا گئی ہیں
اور اس زندگی کی معنویت پرسوالیہ نشان لگ رہے ہیں۔ان لر زہ خیز اور اعصاب
شکن حالات میں اقتضائے وقت کے مطابق زندگی کی حقیقی معنویت کی تفہیم پر زور
دے کر انھوں نے اپنی دانش اور فہم و فراست کے جھنڈے گاڑ دئیے۔ انھوں نے ایک
ماہر علمِ بشریات، فطین سائنس دان اور حساس تخلیق کار کی حیثیت سے حالات کا
تجزیہ کیا اور زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے اور مسائل ِ زیست کی
ترجمانی کی مقدور بھر کوشش کی۔ان کا خیال تھا کہ زندگی اپنی نو عیت کے
اعتبار سے جوئے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہی تو ہے جسے زندہ دِ ل انسان پیہم
نکھارتے اور سنوارتے رہتے ہیں اور اپنی دنیا آپ پیدا کرنے اور دردمندوں کی
دست گیری کے سلسلے میں انہماک کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ نئی نسل کو سعی ٔ پیہم
اور ستیز پر مائل کرنے کی خا طر و ہ اس بات پر زور دیتے کہ زندگی کو رنگ
،خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعاروں کا مخزن بنانے کے لیے خون پسینہ
ایک کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ معاشرتی زندگی
میں سماجی مسائل نے اس قدر گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے کہ آبادیاں پیچیدہ
مسائل کی آماجگاہ بنتی چلی جا رہی ہیں۔سمے کے سم کے ثمر دیکھ کر بھی
اولولعزمانِ دانش مندکٹھن حالات میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کینہ
پرور حاسدوں اور بے کمال حرف گیروں کی بے رحمانہ مشقِ ستم اور شقاوت آمیز
نا انصافیوں کی تیر سہتے ہوئے بھی بتیس دانتوں میں زبان کے مانند وقت گزار
کر جرأت و استقامت کا ثبوت دیتے ہیں۔وہ ثابت کر دیتے ہیں کہ مصائب و آلام
کی تمازت ہی زندگی کی حقیقی معنویت کے احساس سے متمتع کرتی ہے ۔پروفیسر فیض
محمد خان کی گل افشانی ٔ گفتار سے محفل کشت ِزعفران بن جاتی ۔وہ بات کرتے
تو ان کے منھ سے پھول جھڑتے تھے۔ عملی زندگی میں ان کی سوچ رکھی ہمیشہ
تعمیر ی رہی۔ اگرچہ انھیں طنز و مزاح سے گہری دلچسپی تھی مگر کسی کی تخریب
،تضحیک یا تمسخر سے انھیں کوئی غرض نہ تھی۔کئی بار ایسا بھی ہوتا کہ وہ
ہنسی ہنسی میں بڑے کام کی اصلاحی باتیں کہہ جاتے جنھیں سُن کر کوئی دِل
بُرا نہ کرتا۔مولا بخش بڑے دِل کا ایک معمر مالی تھا ایک بار وہ کسی چھوٹے
سے افسر کے زیرِ عتاب آ گیا تو فیض محمد خان نے اس سمجھاتے ہوئے کہا کہ
معاشرتی زندگی میں مسخروں کی کمی نہیں۔ایک مسخرے کی تلاش میں نکلو تو راہ
میں ایک سو ایک مہا مسخرے دندناتے ملیں گے۔ان سے بدکنے یا بہکنے کے بجائے
ان کے قریب سرکنے کی کوشش کرتے رہو۔یہ بھی ممکن ہے کہ سادیت پسندی کے
خطرناک روگ میں مبتلا یہ مہا مسخرے کُوڑ ے کے کسی عفونت زدہ ڈھیر سے جا ہ و
منصب کے استخواں اُٹھا کر نوچنے اور بھنبھوڑنے لگیں اور ساتھ ہی یہ کینہ
پرور اپنے مخالفین کو جھنجھوڑنے لگیں۔وقت کے ایسے سانحات دیکھنے کے لیے خو
دکو ذہنی طور پر ہمیشہ تیار رکھاکرو۔جس الم نصیب معاشرے میں جاہل کو اس کی
جہالت کا انعام ملنے لگے وہاں وقت کے ایسے حادثات کو کسی نام سے تعبیر کرنا
ممکن ہی نہیں۔
ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا اورعالمی ادبیات سے ان کی دلچسپی کا ایک عالم
معترف تھا۔پروفیسر فیض محمد خان کے ذاتی کتب خانے میں عالمی کلاسیک کی کتب
بڑی تعداد میں موجود تھیں۔ترجمہ نگاری کو وہ دو تہذیبوں کے سنگم سے تعبیر
کرتے تھے۔ان کی تحریک پر گدا حسین افضل ، رانا ارشد علی خان ،عاشق حسین
فائق،عمر حیات بالی،غلام علی خان چین،امیر اختر بھٹی،اﷲ دتہ سٹینو،محمد
وریام،سلطان محمود ،شیر محمد ،منیر حسین ، محمد کبیر اور پاکستانی زبانوں
کے ادب سے دلچسپی رکھنے والے متعدد ذہین تخلیق کاروں نے ترجمہ نگاری پر
توجہ دی ۔اس عرصے میں عالمی ادب کے جن مشاہیر کی نمائندہ تخلیقات کو
پاکستانی زبانوں کے قالب میں ڈھالا گیا ان میں ناظم حکمت، نجیب محفوظ، جوزف
میکارتھی،فیڈریکو کارسیا لورکا،پا بلو نرودا،اوکتاویو پاز، ایرن کریمر
اورگریگوری کورسوکے نام قابلِ ذکر ہیں۔ شہر میں منعقد ہونے والی ادبی
نشستوں میں ان تراجم کو بہت سراہا گیا۔ ان کے شاگرد اور مداح رانا عزیز
احمد ناظر کی خواہش تھی کہ ان تراجم کے مسودات کو یک جا کر کے انھیں کتابی
صورت میں شائع کرنا ضروری ہے مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔پنجابی زبان کے
صوفی شعرا کے کلام کے وہ گرویدہ تھے ۔ان کی خواہش تھی کہ پنجابی زبان کے
ممتاز شعرا کے منتخب کلام کا انگریزی زبان مین ترجمہ کرنا وقت کا اہم ترین
تقاضا ہے ۔ ان کے خیالات سے متاثر ہو کر عبد ا لغنی نے شاہ حسین کی کافیوں
کو انگریزی زبان کے قالب میں ڈھالنے کا ارادہ کیا۔وہ بلھے شاہؒ ،شاہ
حسینؒ،سلطان باہوؒ،میاں محمد بخشؒاور وارث شاہ کی پنجابی شاعری کو بہت پسند
کرتے تھے۔ بلھے شاہؒ کی شاعری کو وہ زندگی کی حقیقی معنویت کی مظہر قرار
دیتے تھے ۔بلھے شاہؒ (سید عبداﷲ شاہ قادری ،پیدائش: سال 1680،وفات : سال
1757 (کایہ پنجابی کلام سن کر ان کی آ نکھیں بھیگ بھیگ جاتیں ۔
گھڑیالی دیوو نکال نی
میرا پِیا گھر آیا
گھڑی گھڑی گھڑیال وجاوے
رین وصل دی پَیا گھٹاوے
میرے من دی بات نہ پاوے
چا سٹو گھڑیا ل نی
اُن کا خیا ل تھا کہ بلھے شاہؒ کے مندرجہ بالا کلام کا پنجابی ترجمہ جو
کرتار سنگھ دگل(پیدائش:راول پنڈی، یکم مارچ،1917،وفات:امرتسر چھبیس جنوری(
2012 نے کیا ہے، ترجمے کو تخلیق کے قریب تر کر دیتا ہے ۔بلھے شاہ ؒنے اقلیم
معرفت کے اسرار و رموز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے جن جذبات و احساسات کو
پیرایۂ اظہار عطا کیا ہے وہ قاری کے لیے منفرد تجربے کی حیثیت رکھتے
ہیں۔ذیل میں بلھے شاہؒ کے مندرجہ بالا پنجابی کلام کا یہ انگریزی ترجمہ
انھیں بہت پسند تھا ۔
Sack the gong man
My love has come home today
He strikes the gong time again and again
And shortens my night of dance and song
If he were to listen to me
He would throw away the gong
ادب اور فنون لطیفہ سے کی تنقید میں انھوں نے گہری دلچسپی لی۔کلاسیکی مو
سیقی ،تھیٹر اور ڈرامے کو وہ اس علاقے کی تہذیبی و ثقافتی اقدار کاترجمان
سمجھتے تھے۔قوالی کو بھی وہ نہایت توجہ سے سنتے تھے ۔چراغ حسن
حسرت(1904-1955) کے کلام کو وہ بہت پسند کرتے تھے ۔وہ چراغ حسن حسرت اور
مولانا ظفر علی خان(1873-1956) سے زمانہ طالب علمی میں لاہور میں مِل چکے
تھے ۔ مولانا ظفر علی خان کے اخبار ’’زمیندار‘‘ کاوہ نہایت توجہ سے مطالعہ
کرتے تھے۔ ایک سال کالج ڈرامیٹک کلب کے سالانہ ڈرامہ فیسٹیول میں ڈرامہ ’’
اوتھیلو ‘‘کے ایک مختصر وقفے میں شعبہ سائنس کے نو جوان طالب علم عزیز
احمدنے جب چراغ حسن حسرت کے یہ اردو ماہیے اپنی پُر سو ز آواز میں ترنم سے
سنائے تو ڈرامہ دیکھنے والے سب حاضرین وجد میں آ گئے اور طالب علم سے کئی
بار یہ ماہیے سُنے گئے ۔ پروفیسر سید عبدالباقی (عثمانیہ ) ،پروفیسر تقی
الدین انجم (علیگ) اورڈاکٹر سید نذیر احمد نے اس ہو نہار نو جوان طالب علم
کی محنت ،لگن اور ریاض کی بہت تعریف کی۔اس جوہر قابل کی تلاش میں پروفیسر
فیض محمد خان اور پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب نے بہت محنت کی ۔ زمانہ ٔ
حال کی اپنی راحتوں اورآ سائشوں کو نئی نسل کے مستقبل کو سنوارنے اور ان کی
شخصیت کو نکھارنے کاخاطر قربان کرنا ان کو نصب العین رہا۔ان کی زندگی ایک
شمع فروزاں کے مانند تھی جو شب تاریک کی سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے کی خاطر
شب بھر جلتی رہتی ہے اور اپنی ضوفشانیوں سے طلوع ِ سحر کی شادمانیوں کو
یقینی بنا دیتی ہے ۔نئی نسل کو ادب ،سائنس اور فنون لطیفہ کی طرف مائل کرنے
میں انھوں نے ہمیشہ گہری دلچسپی لی۔ اس طالب علم کو کلاسیکی موسیقی سکھانے
کے لیے گوالیار سے تعلق رکھنے والے بہاول خان کلانونت کی خدمات حاصل کی
گئیں۔ بہاول خان کلانونت کا تعلق نعمت خان کلانونت سے تھا جو تان سین کی
اولاد تھا اور ’’ محضر کدال موسیقی ‘‘کے نام سے اس نے گندے پانی کے جوہڑ کے
کنارے شوقیہ گلو کاروں کی ایک تربیتی اکیڈمی بنا رکھی تھی۔ بعد میں اس طالب
علم نے وطنِ عزیز کے متعدد بڑے شہروں میں سٹیج،ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر اپنی
عمدہ کا رکر دگی سے ناظرین سے خوب داد سمیٹی ۔ عزیزاحمد نے استاد بڑے غلام
علی کے انداز میں چراغ حسن حسرت ؔ کے یہ ماہیے پڑھ کر محفل لُوٹ لی۔
باغوں میں پڑے جُھولے
تم بُھول گئے ہم کو ہم تم کو نہیں بُھولے
یہ رقص ستاروں کا
سُن لو کبھی افسانہ تقدیر کے ماروں کا
ساون کا مہینا ہے
ساجن سے جُدا رہ کر جینا کوئی جینا ہے
راوی کا کنارہ ہو
ہر موج کے ہونٹوں پر افسانہ ہمارا ہو
دِل میں ہیں تمنائیں
ڈر ہے کہ کہیں ہم تم بد نام نہ ہو جائیں
اب اور نہ تڑ پاؤ
یا ہم کو بُلا بھیجو یا آ پ چلے آؤ
مولا بخش مالی جھنگ شہر کا ایک ضعیف محنت کش تھاوہ پروفیسر فیض محمد خان کی
وسعت نظر اور انسانی ہمدردی کو بہت بڑا مداح جس کے دِل میں اپنے محسن کی
کئی یادیں محفوظ تھیں۔ اس نے بتایا کہ فیض محمد خان کی اقامت گاہ کے دروازے
احباب کے لیے ہمہ وقت کھلے رہتے تھے ۔وہ ہر ملاقاتی کے لیے دیدہ و دِل فرشِ
راہ کردیتے اور ان کی خاطر تواضع میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھتے۔ ان کی مثال
صنوبر کے سر بہ فلک شجر ِسایہ دار کی سی تھی جو خود آلامِ روزگار کی تمازت
بر داشت کرتا ہے مگر اپنے سایہ نشینوں کو مسموم ماحول کی شدت اور کڑی دُھوپ
کی حدت سے محفوظ رکھتا ہے۔ایسے کو ہ پیکر بُور لدے چھتنار کا وجود اﷲ کریم
کی نعمت سمجھا جاتا ہے ۔ دریائے جہلم اوردریائے چناب کے سنگم کے نزدیک دو آ
بے کے علاقے میں ایک گاؤں بدھوانہ واقع ہے۔اس علاقے کا ایک ماہی گیر بدھو
موہانہ اکثر دیوان احمدالیاس نصیب کے ہاں چلاآ تا ۔سب لوگ اس کی لاف زنی
اور یاوہ گوئی سے عاجز آ چکے تھے۔ایک نشست میں داستان گو بُدھو موہانہ نے
بتایا کہ بر طانوی سامراج کے غلبے کے دوران میں بھریڑی کے تپتے صحرا ئی
علاقے میں سقہ ،اروڑا اور چھابڑا ذات کے انتہائی مغرورو متمول ہندو ٹھاکروں
کا تسلط تھا۔ یہ مہاجن اپنے مکر کی چالوں اور سُودی ہتھکنڈوں سے زراعت پیشہ
مسلمانوں سے اجناس خوردنی اونے پونے داموں ہتھیا لیتے اور مسلما ن دہقانوں
کی زمین گروی رکھ کر انھیں معاشی طور اپنا اسیر بنا لیتے تھے۔اُسی زمانے
میں ایک بُو ڑھے بر ہمن نے کچھ عرصہ سیال کوٹ میں پورن بھگت کے کنویں کے
پاس بیٹھ کر تپسیا کی ۔ اس کے بعدوہ گیان حاصل کرنے کا داعی بن بیٹھا
اورعیسائی مذہب قبول کیا اور تارک الدنیا پادری بن کربھریڑی کے بے آ ب و
گیاہ ریگستان میں ڈیرے ڈال دئیے ۔لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ پر اسرار پادری
پیر ا سائیکالوجی اور ما بعد الطبیعات کی اقلیم کا باسی تھااس لیے باسی کڑی
میں اُبال آ گیا اور لوگوں پروبال آ گیا۔ ہر شام اس پینترے باز اور بگلا
بھگت پادری کے ڈیرے پرعقیدت مند مردوں اورعورتوں کا ہجوم ہوتا اور سب مست
بندِ قبا سے بے نیاز ہو کر دادِ عیش دیتے ۔اس عیسائی سادھو کے بارے میں کہا
جاتا تھا :
ہم شام پرستوں کی یہ رِیت پُرانی ہے
یا کوہِ سِتم ڈھانا یا سبز قدم رکھنا
تارک الدنیاگیانی پادری کی کٹیا کا ماحول بے حد پُر اسرار تھا۔ چلتے پھرتے
ہوئے مُردے ،سر کٹے دیو ،بھوت ،پریت ،چڑیلوں اور ڈائنو ں کا یہاں مستقل
بسیرا تھا۔ جو بھی اس کی جھو نپڑی کی طرف بڑھتا دفعتاً ناقوس بجنے لگتے اور
کان پڑی آوازسنائی نہ دیتی۔آنے والے کے قدم تھم جاتے وہ سہم کر کورنش بجا
لاتا اور زندگی بھر کے لیے اس گیانی کا مطیع و فرماں بردار بن جاتا۔اس
سادھو کی شخصیت طلسمِ ہوش رُبابنتی چلی گئی ۔چند برس گزرنے کے بعداس گیانی
سادھو نے کالی کٹ جانے کا فیصلہ کیا۔یہ سنتے ہی اس کے عقیدت مندوں میں
پریشانی کی لہر دوڑ گئی۔اس کے ایک چیلے نے آہ بھر کر کہا:
’’جانے والوں کو بھلا کون روک سکتا ہے ؟اس کے بغیر ہمارے دِن تو کٹ جائیں
گے مگر اس کی جدائی کے بعد مسلسل فاقوں سے ہم کرچیوں میں بٹ جائیں گے۔‘‘
دوسرا چیلا افریق نسل کا سیاہ فام نیگر تھا وہ بہت البیلا اور بڑ بولا تھا
۔وہ بسورتے ہوئے یوں ہر زہ سرا ہوا ’’ میں بھی کالی دیوی کے چرنوں میں وقت
گزار چکا ہوں ۔یہ سچ ہے کہ ہم نے اپنے گُرو کے ساتھ جیون بھر ساتھ نبھانے
کی سوگند اُٹھائی ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ اس گروکے بغیر ہم کسی کام کے نہیں
ہمیں تنہا چھوڑ کر وہ کہیں نہیں جا سکتا۔ یہ بات تم اچھی طرح جانتے ہو کہ
میر ا صرف رنگ ہی کالا نہیں بل کہ میری زبان بھی کالی ہے ۔اگر اس گرونے
کالی کٹ جانے کا ارادہ ترک نہ کیا تو کالی دیوی اس کی گردن کاٹ دے گی۔‘‘
اگلی صبح سادھو کی خون میں لت پت لاش کٹیاکے باہر پڑی تھی ۔لاش کے پاس خون
میں لتھڑی ہوئی تلوار ،نیمچہ اور ترشولا دیکھ کر سب کو یقین ہو گیا کہ یہ
سب کچھ کالی دیوی کا کیا دھر ا ہے ۔دریا کے کنارے واقع شمشان گھاٹ میں اس
پر اسرار سادھو کے سب چیلے اکٹھے تھے جنھوں نے اپنے گُروکی لاش کو سپردِ
آتش کر دیا اور اس کی راکھ کو دریا برد کرتے وقت اس کی یاد میں ٹسوے بہائے
اور مرگِ نا گہانی کا شکار ہونے والے سادھو کی راکھ کو مگر مچھ کے آنسوؤں
کا نذرانہ پیش کیا۔
بُز اخفش بُدھو مو ہانہ کہنے لگا ’’ سادھو کی پر اسرار حالات میں ہلاکت کے
بعد ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے تک سادھو کے چیلے اس شمشان گھاٹ پر بیٹھ کر
لوگوں کے چاک ِ دامن کو رفو کرتے رہے ۔ شمشان گھاٹ کے گرد و نواح کے علاقے
میں بڑی تعداد میں گدھ ،زاغ و زغن اور بُوم و شِپر ہر وقت منڈلاتے رہتے
تھے۔ شمشان گھاٹ کی زمین پر کئی حشرات امڈ آئے ان میں عقرب ،سانپ
،اژدہا،مکوڑے ،خار پشت ،کن کھجورے ،سانڈے اور بجو شامل ہیں۔اہل ِ درد کی
متفقہ رائے ہے کہ یہ پیرا سائیکالوجی اور مابعد الطبیعات کا معاملہ
ہے۔لکشمی دیوی کی کرپا اور سادھو کی بد روح کے عمل سے اس کے چیلوں کی
پانچوں گھی میں تھیں۔‘‘
پروفیسرفیض محمد خان کا معمول تھا کہ وہ جہلا کی باتیں سُن کر لبِ اظہارپر
تالے لگالینے ہی کو مصلحت سمجھتے تھے۔کئی بار ایسا بھی ہوا کہ وہ کسی شاعر
کامحض ایک شعر پڑھ کر اپنے تاثرات کا اظہار کر دیتے تھے ۔ اس بار انھوں نے
بُدھو موہانہ کی بے سر وپا باتیں سن کر یہ شعر پڑھا :
ہو گئے لوگ کیا سے کیابُدھو
تُو وہی کا وہی رہا بُدھو
یہ شعر سُن کر سب حاضرین اس بر محل تبصرے پر اش اش کر اُٹھے اور بُدھو
موہانہ اپنا سا منھ لے کر رہ گیا۔
زندگی بھرر جائیت کو زادِ راہ بنانے والے اس سائنس دان نے انسانیت کے وقار
اور سر بلندی کو ہمیشہ اوّلیت دی۔رجائیت پسندی کو وہ فتح و نصرت کا اولین
زینہ قرار دیتے تھے ۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ ہوائے جورو ستم کے تُند و
تیز مہیب بگولوں میں جب وادی ٔ خیال پر ہر طرف یاس و ہراس کے مسموم بادل
چھا جائیں تو خزاں کے ہزارہا مناظر دیکھ کرطلوعِ صبح ِ بہاراں کی توقع ہی
اُٹھ جاتی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ حوصلے اور اُمید کا دامن تھا م کر انسان
ستاروں پر کمند ڈال سکتاہے ۔اس کے بر عکس یاس و ہراس کا شکار رہنے والے
گوسفندانِ قدیم ہر آزمائش کو ناقابل برداشت اور ہر امتحان کو لا ینحل اور
بھاری پتھر سمجھتے ہوئے چُوم کر رکھ دیتے ہیں۔فیض محمد خان اپنے معتمد
ساتھیوں ،دیرینہ رفقائے کار اور قریبی احباب کو اپنے افرادِ خانہ کے مانند
عزیز رکھتے تھے اور ان سے مشاورت کو بہت اہمیت دیتے تھے۔احباب کے انتخاب
میں وہ ایک وضع احتیاط کے قائل تھے مگر جب احباب کا انتخاب کر لیتے تو ان
کے ساتھ تعلق کو نبا ہنے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔اپنے قریبی احباب کے
ساتھ اخلاق اور اخلاص سے لبریز سلوک کرنا سدا ان کا شیوہ رہا ۔ان کا کہنا
تھا کہ انسانی روّیے میں تغیر و تبدل کا سلسلہ پیہم جاری رہتا ہے۔یہ امر
قابلِ غور ہے کہ افراد کے باہمی تعلقات میں بعض تبدیلیاں اس قدر اچانک ،غیر
متوقع اور نا گزیر ہوتی ہیں کہ جنھیں دیکھ کر لوگ حیرت و استعجاب میں ڈوب
جاتے ہیں۔ ان تغیرات کو دیکھ کراہلِ درد انگشت بہ دنداں رہ جاتے ہیں اور یہ
سوچنے لگتے ہیں کہ یہ سب کچھ محض حادثاتی ہے یا اِس کے پسِ پردہ کوئی مافوق
الفطرت قوت یا غیر مانوس اجنبی ذہانت کار فرما ہے ۔ جہاں اختیار بشر پہ
پہرے بٹھا دئیے جاتے ہیں اسی کو وہ مابعد الطبیعات سے تعبیر کرتے تھے۔
اپنے ملنے والوں،قریبی احباب اوررفقا ئے کارکے وہ حقیقی بہی خواہ تھے ۔شادی
و غم اس جہاں میں تو ام ہیں اس لیے وہ سب کے دکھ درد اور خوشیوں میں شامل
ہوتے تھے ۔اپنے رفتگاں کو یاد رکھنااور اپنے دِل کو ان کی عطر بیزیادوں سے
آباد رکھنازندگی بھر ان کا معمول رہا۔ وہ ایک زندہ ٔ جاوید اور باغ و بہار
شخصیت کے مالک تھے ان کے فکر پرور خیالات کی باز گشت لمحات تک محدود نہیں
بل کہ صدیوں تک ان کی بازگشت سنائی دیتی رہے گی۔ انھیں ایک ایسے دائرۃ
المعارف کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا جس نے تدریس سائنس و ادبیات کو نئے
تصورات اور جدید رجحانات سے متعارف کرانے کی مقدور بھر کوشش کی ۔ اپنی بزمِ
وفا سے رخصت ہونے والوں کو وہ مرحومین کے بجائے اپنے متقدمین کہہ کرپکارتے
تھے جو ہم سے پہلے راہِ رفتگاں پر چلتے ہوئے ہم سے بہت دُور شہر خموشاں میں
اپنی الگ بستی بسا چکے ہیں۔اب ہم سب کمر باندھے ہوئے ان کے نقشِ قدم پر
چلتے ہوئے ان سے جا ملنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔راہِ فنا میں یہ دنیا کسی
کے ساتھ بھی وفا نہیں کرتی یہاں کا سب ٹھاٹ یہیں پڑا رہ جاتا ہے اور ہر
بنجارہ دامن جھاڑ کریہاں سے رخصت ہو جاتا ہے ۔ شہر میں مقیم ممتاز ادیبوں
کی رحلت پرتعزیتی کلمات ادا کرنے کے لیے انھیں کہا جاتا تو اس خلوص اور
دردمندی کے ساتھ گلو گیر لہجے میں اپنے جذباتِ حزیں کو پیرایۂ اظہار عطا
کرتے کہ سامعین کی آ نکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگتیں۔ ان کا کہنا
تھا کہ کسی ہمدم دیرینہ کی دائمی مفارقت اپنی نوعیت کے اعتبار سے اجل کے
ہاتھوں پس ماندگان کے جسم کے کسی عضو کے کٹ کر الگ ہو جانے کے مترادف ہے
۔اس قسم کی تعزیتی نشستو ں میں ان کے اظہار خیال کو نہایت توجہ سے سنا جاتا
تھا ۔ ان کے تاثرات ان کے دلی جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتے تھے ۔واقفِ
حال جانتے ہیں کہ انھوں نے محمد شیرافضل جعفری،سید جعفر طاہر ،ڈاکٹر محمد
کبیر خان،رام ریاض ،امیر اختر بھٹی،شفیع بلوچ،شفیع ہمدم، شریف خان ،ادریس
بخاری ، عبدالستار چاولہ ،سجاد بخاری،خادم مگھیانوی،مظفر علی ظفر،گدا حسین
افضل، کبیر انور جعفری،حاجی حافظ محمد حیات ، بشارت خان، سمیع اﷲ قریشی،
مہر محمدبخش گھمنانہ ،محمد بخش کوکب ، قلب عباس خان،نورا حمد ثاقب،مر تضیٰ
شاکر ترک،عمر حیات بالی، عبدالحلیم ،عباس ہادی ،نواز خان،معین تابش، نعیم
مسعود صادق ،رانا ارشد علی خان ،عزیزاحمد ناظر،سلطان محمود ،خیر الدین
انصاری، دیوان احمد الیاس نصیب ،احمد تنویر،حکمت ادیب ، عاشق حسین فائق ،
منیر حسین ،سید عامر حسن گیلانی اور مظہر اختر کی وفات پر اشک بار آ نکھوں
اورگلو گیر لہجے میں دائمی مفارقت دینے والے ان یادگارِ زمانہ لوگوں کوجس
خلوص کے ساتھ یادکیاوہ ان کی شخصیت کا اہم وصف تھا۔
ان کا خیا ل تھا کہ عملی زندگی میں دیانت داری،رازداری،خلوص اور دردمندی کی
اساس پر استوار ہونے والا باہمی اعتماد کا تعلق ابدآ شنا ثابت ہوتا ہے
۔ایسے مستحکم تعلقات کو اندیشہ ٔ زوال نہیں ہوتا اور قریہ ٔ جان میں دائمی
مسرت و شادمانی کے سوتے اسی قسم کے تعلقات سے پھوٹتے ہیں ۔ وہ دُکھی
انسانیت کی فلاح و بہبود کے کاموں میں وہ ہمیشہ بڑ ھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ۔
تعلیم نسواں کے فروغ کے لیے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔طالبات کو
اسلامی اقدار اور مشرقی اقدار و روایات کا پابند کرنے کے سلسلے میں انھوں
نے بہت محنت کی ۔ گزشتہ صدی کے ساٹھ کے عشرے میں شہر میں جب بزرگ سماجی
کارکن اﷲ دتہ سٹینو نے مفلس خاندانوں سے تعلق رکھنے والی یتیم اوربے سہارا
بچیوں کی شادی کے لیے ایک فلاحی تنظیم قائم کی تو پروفیسر فیض محمد خان نے
اس فلاحی تنظیم کی دِل کھول کر مدد کی ۔کالج میں کئی سوسائٹیاں قائم ہیں جن
کا مقصد دردمندوں اور ضعیفوں کی دست گیری کرنا ہے ۔ان میں عطیہ ٔ خون کی
سوسائٹی بہت اہم ہے ۔وہ ہر سال خود بھی خون کا عطیہ دیتے اور اس طرح نو
جوان طلبا کو بھی خون کا عطیہ دینے کی تحریک ملتی تھی۔سال 1926سے قائم
ترجمہ سوسائٹی کے تحت انھوں نے سائنس کے مضامین کی کئی اہم کتابوں کو اُردو
زبان کے قالب میں ڈھالا۔ ان کی تحریک پر عالمی کلاسیک کے اردو اور پنجابی
زبان میں تراجم پر توجہ دی گئی۔حاجی حافظ محمد حیات نے تصوف، ما بعد
الطبیعات اور پیرا سائیکالوجی جیسے اہم موضوعات پر کئی تجزیاتی مضامین ادبی
نشستوں میں پیش کیے جنھیں سامعین نے بے حد سر اہا ۔ فیض محمد خان ان ادبی
نشستوں کی روح رواں تھے۔ اپنے معتمد ساتھیوں غلام مر تضیٰ شاکر ترک ،اسحا ق
مظہر ،شریف خان اور گدا حسین افضل کے ساتھ مِل کر انھوں نے ا نجمن بہبودی ٔ
طلبا کو فعال بنایا اور مستحق طلبا کو کالج فنڈ سے معقول مالی امداد دلانے
کی کوشش کی۔ دریائے چناب میں سال 1973میں جو قیامت خیز سیلاب آ یا اس نے
شہر کے مضافات میں واقع کچی آبادیوں کو کھنڈرات میں بدل دیا ۔آزمائش کی اس
گھڑی میں پروفیسر فیض محمد خان اور ان کے معتمد ساتھیوں نے اپنی جان پر
کھیل کر دس فٹ اونچے سیلابی پانی کے ریلے میں گھرے سیکڑوں لوگوں کی جان
بچائی ۔انسانیت کی بے لوث خدمت کی ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں ۔ دُور دراز
علاقوں میں مقیم اپنے احباب کے ساتھ مکتوبات کے ذریعے وہ معتبر ربط رکھتے
تھے۔وہ مکتوب نگاری کو ابد آ شنا اوردائمی نوعیت کی ایک سدا بہار ذہنی
فعالیت سے تعبیر کرتے تھے جو مکتوب الیہ کے ساتھ جسمانی فاصلے اور دُوری کے
باوجود ذہنی اور قلبی تعلق کو استواررکھتے ہوئے وصال کی راحت و مسرت سے آ
شنا کرنے کا مؤثر ترین وسیلہ ہے ۔
پاکستانی زبانوں کے ادب کا انھوں نے وسیع مطالعہ کیا تھا۔اردو فکشن میں وہ
احمد ندیم قاسمی ، قدرت اﷲ شہاب ،عبد اﷲ حسین،انتظار حسین،بانو قدسیہ
،ممتاز مفتی ،قرۃ العین حیدراور اشفاق احمد کی تحریروں کو پسند کرتے تھے ۔
ان کا خیال تھا کہ قدرت اﷲ شہاب کے اسلوب میں قلب اور روح کی گہرائیوں میں
اُتر جانے والی اثر آفرینی قاری کو ایک جہان ِ تازہ میں پہنچادیتی ہے ۔اپنی
وقیع تصنیف ’’شہاب نامہ‘‘ میں قدرت اﷲ شہاب نے جھنگ کے مرکزی بازار شہید
روڈ پر گزشتہ صدی کے ساٹھ کے عشرے میں زمین پر بیٹھ کر پھٹے پرانے جوتے
گانٹھنے والے جس پر اسرار موچی کاذکر کیا ہے اس کا تعلق بھی روحانیت سے
تھا۔حیران کن بات یہ تھی کہ فیض محمد خان نے بھی اس پر اسرار موچی کے کشف و
کرامات کے بارے میں سن رکھا تھا اور اس موچی کو محنت مزدوری کے کام میں
مصروف دیکھا بھی تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اقلیم معرفت سے تعلق رکھنے والے
ایسے لوگ یادگارِ زمانہ ہوتے ہیں۔ جدید اردو شاعری میں وہ وزیر آ غا،
سیدعبدا لحمید عدم،منیر نیازی،جو ن ایلیا،احمد فراز،فیض احمد فیض ،صوفی
غلام مصطفی تبسم،مجید امجد ،رام ریاض اور حبیب جالب کے کلام کو قدر کی نگاہ
سے دیکھتے تھے۔اردو ادب میں طنز و مزاح کے وہ شیدائی تھے۔ خاص طور پر پطرس
بخاری،شفیق الرحمٰن ، مشفق خواجہ ،صدیق سالک ،سید ضمیر جعفری،نذیراحمد
شیخ،کرنل محمد خان،ابن انشااوردلاور فگار نے معاشرتی زندگی کی نا ہمواریوں
،بے اعتدالیوں ،تضادات اور کجیوں کے بارے میں جس فن کارانہ انداز میں
ہمدردانہ شعور کو مہمیز کرنے کی سعی کی ہے اسے وہ قارئین ِادب میں عصر ی آ
گہی پروان چڑھانے کے سلسلے میں ایک نیک شگون سے تعبیرکرتے تھے۔ اُردو ادب
میں ما بعد الطبیعات ،پیرا سائیکالوجی اور پر اسراریت کو وہ نہایت توجہ سے
دیکھتے تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ تخلیقِ ادب میں فکر و خیال اور اذہان میں
نمو پانے والی تخلیقی فعالیت کے محرکات کا مطالعہ مروج و مسلمہ انداز سے
یکسر مختلف نوعیت کا حامل سمجھا جاتا ہے ۔اکثر ادیبوں نے تعلق ذہنی،پیش
بینی،نجوم ،فلکیات،غیب دانی،قیاس آرائی،قیافہ شناسی ،نفسی تحریکات ،مرگِ نا
گہانی کے خدشات،تناسخ اور مافوق ا لفطرت قوتوں کے بارے میں جو انداز فکر
اپنا یا ہے وہ سب کچھ پیرا سائیکالوجی کے زمرے میں آتا ہے ۔تخلیق ادب کے
حوالے سے وہ ایک عمرانی تصور کے حامی تھے۔وہ اِس امر کی جانب متوجہ کرتے
تھے کہ جدید دور میں انسانیت الف لیلیٰ ہزار داستان اور طلسم ہوش رُبا کی
بھول بھلیوں سے نکل کر افکارِ تازہ کی مشعل فروزاں کر کے جہانِ تازہ کی
جانب سر گرمِ سفر ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جدید دور میں ادب پر سائنس و ٹیکنالوجی
کی برق رفتاریوں کے اثرات نمایاں ہیں اور توہم پرستی، فرسودہ رسوم و
رواج،ژولیدہ خیالی اور جہالت کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کا عمل شروع ہو
چکا ہے ۔جدید دور میں تخلیق کار شاعری میں محبوب کی سراپا نگاری میں زمین آ
سمان کے قلابے ملانے کے بجائے زندگی کے تلخ حقائق کی مرقع نگاری کو ترجیح
دیتے ہیں۔پاکستانی زبانوں میں نثری ادب کے فروغ اور مقبولیت پر وہ مطمئن و
مسرور تھے۔خاص طور پر ناول،افسانہ،مضمون،سفرنامہ ،خاکہ،سوانح،انشائیہ اور
تحقیق و تنقید جیسی وقیع اصناف میں نثر نے اپنی ہمہ گیر اہمیت و افادیت کا
لو ہا منوایا ہے ۔ان حقائق کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ بات بلا خوفِ تردید
کہی جا سکتی ہے جدید دور میں تخلیق ادب میں شاعری کی نسبت نثر کو زیادہ
پذیرائی مِل رہی ہے ۔وہ باقاعدگی سے ڈائری لکھتے تھے اوراپنی خود نوشت بھی
مرتب کر رہے تھے۔ادیبوں کی شخصیت ،اسلوب اور تصانیف پر ان کے تبصرے تاثراتی
تنقید کا عمدہ نمونہ ہیں۔انھوں نے فریضہ ٔ حج کی سعادت حاصل کی اور حج کا
سفرنامہ لکھا ۔ اس کے علاوہ انھوں نے ایران،شام ،عراق،مصر ،ترکی اور اُردن
کا سفر کیا اوران تمام ممالک کے اہم مقامات کا سفرنامہ بھی لکھا ۔ پروفیسر
گدا حسین افضل نے ان کی نثری کاوشوں کے مسودات کا عمیق مطالعہ کیا اور ان
کی جلد اشاعت کا مشورہ دیا ۔
بے لوث محبت اور بے باک صداقت پروفیسر فیض محمد خان کی فطرت ثانیہ بن گئی
تھی۔وہ سمجھتے تھے کہ زندگی میں مسرت ،شادمانی ،راحت اور کامرانی کا سب سے
موثر وسیلہ یہ ہے کہ بے لوث محبت کو شعار بنایا جائے تا کہ محبوبِ خلائق بن
کر زندگی میں نکھا ر پیدا کیا جا سکے ۔اس مقصد کے لیے وہ ہمیشہ دوسروں کی
مسرتوں اور راحتوں کو مقدم سمجھتے تھے۔جدید اردو شاعری میں ہر قسم کی عصبیت
سے بالا تر رہتے ہوئے انسانیت سے محبت کے جذبے کو وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے
تھے۔ انھیں یقین تھا کہ بے لوث محبت اور بے باک صداقت کے اعجاز سے ادب میں
قلبی ،روحانی اور وجدانی کیفیات کو مہمیز کیا جا سکتا ہے ۔وہ منیر نیازی
(1928-2006)کی شاعری میں پائی جانے والی وجدانی کیفیات کو عرفانِ ذات کا
ثمر قرار دیتے تھے۔ منیر نیازی سے وہ اپنے لاہور میں قیام کے دوران میں مِل
چکے تھے۔ منیر نیازی کی شاعری میں پائی جانے والی متعدد علامات ،استعارات
،تراکیب اور تلمیحات کو وہ انتہائی پر اسرار خیال کرتے تھے۔اُن کا خیال تھا
کہ جدید اردو شاعری میں منیر نیازی نے ما بعد الطبیعات سے گہرے اثرات قبول
کیے ہیں۔حقائق کی بنیاد اور تہہ تک پہنچنے کے سلسلے میں منیر نیازی کے
اسلوب میں جو تجسس پایا جاتا ہے وہ اس کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔منیر نیازی
ان حقائق کی گرہ کشائی کرنے کی سعی کرتا ہے کہ کارِ جہاں کیا ہے اور اس
عالم ِ وجود کے مضمرات کیسے ہیں۔ اس عالم ِ آ ب و گِل میں تغیر و تبدل کا
جوغیر مختتم سلسلہ جاری ہے اس کی شناخت کیسے ممکن ہے ۔ عقیدہ ،روحانیت
،مادہ ،مواد ،فکر و خیال، میزانِ صبح و شام ، مرگِ نا گہانی ،ضرورت و
امکانات ،کائنات و آفرینش،جبریت و قدرت اور حریتِ فکر و عمل کے راز ہائے سر
بستہ کی گرہ کشائی کے لیے دِلِ بینا اوربصیرت کی احتیاج ہے ۔منیر نیازی کی
شاعری میں فکر و خیال کی قوسِ قزح دیکھ کر قاری مسحور ہو جاتا ہے ۔
پروفیسرفیض محمد خان قارئینِ ادب کے اس عمومی تاثر سے آ گاہ تھے کہ پیر ا
سائیکالوجی کو جعلی سائنس کی حیثیت حاصل ہے ۔اس کے باوجود عملی زندگی میں
افراد نے زندگی کے جو معائر منتخب کر رکھے ہیں ان کے انداز جداگانہ نوعیت
کے ہیں۔انھوں نے کہا کہ بعض نقاد منیر نیازی کے کچھ اشعار کا حوالہ دے کر
انھیں نوائے سروش سے تعبیر کرتے ہیں:
میری ساری زندگی کو بے ثمر اُس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اُس نے کیا
شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا
پھر مجھے اس شہر میں نا معتبر اُس نے کیا
حیرت میں ہوں منیرؔ میں شہرِ خیال دیکھ کر
گلیوں میں گھر نئے نئے ،اِن میں بشر نئے نئے
واپس نہ جاوہاں کہ تِرے شہر میں منیرؔ
جو جِس جگہ پہ تھاوہ وہاں پر نہیں رہا
اِک چِیل ایک ممٹی پہ بیٹھی ہے دُھوپ میں
گلیاں اُجڑ گئی ہیں مگر پاسباں تو ہے
رات اِک اُجڑے مکاں پہ جا کے اِک آواز دی
گُونج اُٹھے بام و در میری صدا کے سامنے
جنگلوں میں کوئی پیچھے سے بُلائے تو منیرؔ
مُڑ کے رستے میں کبھی اُس کی طرف مت دیکھنا
نہ جا کہ اس سے پرے دشتِ مرگ ہو شاید
پلٹنا چاہیں وہاں سے تو راستہ ہی نہ ہو
سو یا ہوا تھا شہر کسی سانپ کی طرح
میں دیکھتا ہی رہ گیااور چاند ڈھل گیا
اِک آ سیب ِ زر اِن مکانوں میں ہے
مکیں اِس جگہ کے سفر پر گئے
وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ اس چند روزہ زندگی میں عشقِ حقیقی ، معرفت الٰہی
اور عشقِ رسول ﷺ کو حاصل ِ زندگی سمجھنا چاہیے۔ مذہب نے ہمیں عزت نفس کو
ملحوظ رکھنے کا جو درس دیا ہے اس کے اعجاز سے اخلاقیات کے ارفع معیار تک
رسائی ممکن ہے جب کہ احترام ِ انسانیت کا جذبہ عادات و اطوار کے حسن و دِل
کشی کا مظہر ہے ۔حضور ختم المرسلین ﷺ کی زندگی حسن اخلاق اور احترام ِ
انسانیت کی درخشاں مثال ہے ۔ فیض محمد خان کو حمدیہ اور نعتیہ شاعری بہت
پسند تھی ۔خاص طور پر ظفر علی خان،رام ریاض ،حفیظ تائب اور منیر نیازی کی
نعتیہ شاعری پڑھتے تو ان کی آ نکھیں بھیگ بھیگ جاتیں ۔رسول کریم ﷺ کی یاد
میں لکھا گیا منیر نیازی کا یہ شعر انھیں بہت پسند تھا جسے وہ اکثر دہراتے
تھے :
میں جو اِک برباد ہوں آباد رکھتا ہے مجھے
دیر تک اِسمِ محمد ﷺ شاد رکھتا ہے مجھے
سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد فیض محمد خان نے گوشہ نشینی اختیار کر
لی اور ان کا زیادہ وقت عبادت اور دینی کتب کے مطالعہ میں گزرتا ۔ضعیفی اور
علالت کے با وجود انھوں نے تدریسی کام بھی جاری رکھا ۔تعلیمی رہنمائی اور
امدادکے مستحق طالب علموں کے لیے ان کے گھر کے دروازے ہمہ وقت کُھلے رہتے
تھے ۔جب بھی کسی طالب علم کو فزکس کے مضمون میں رہنمائی کی احتیاج ہوتی وہ
بلا تامل ان کے گھر پہنچ جاتا۔وہ بلا معاوضہ طالب علموں کی علمی معاونت
کرتے اورمختلف امتحانات کے لیے ان کی تیاری کراتے۔وہ غریب طالب علموں کی
علمی اعانت ہی پر اکتفا نہ کرتے بل کہ ان کی مالی امداد بھی کرتے تھے۔ ہر
شہر میں ٹیوشن سنٹر قائم ہیں مگر ایسا تدریسی مرکز میں نے کہیں نہیں دیکھا
جہاں مستحق طالب علم سے کوئی فیس وصول نہ کی جائے بل کہ ان کے روشن مستقبل
کے لیے ہر ممکن امداد بھی دی جاتی ہو۔غریب
طالب علموں کو فزکس تو وہ خود پڑھاتے، اسلامیات کے لیے محمد بخش گھمنانہ
،کیمسٹری کے لیے انھیں مظہر الحق کے پاس روانہ کرتے، اردو کے لیے گدا حسین
افضل ،انگریزی کے لیے محمد نواز خان ،ریاضی کے لیے قرعۂ فال کلب عباس خان
کے نام نکلتا اور بیالوجی کے لیے جاوید اختر سے استدعا کرتے۔یہ سب ماہرین
تعلیم ان کی تحریک پر ہمہ وقت غریب طلبا و طالبات کی بلا معاوضہ علمی
رہنمائی کے لیے کمر بستہ رہتے تھے۔ ایثار اور قربانی کے جذبات کو بروئے کار
لا کر ان ماہرین تعلیم نے اپنی عادات و اخلاق کو نکھار عطا کیا ۔اپنے اپنے
مضامین میں ان یگانۂ روزگار ماہرین تعلیم کا مقام افق علم پر ضوفشاں آفتاب
کے مانند تھا جن کے افکار کی ضیا پاشیوں سے علم و ادب کی دنیا منور ہو
گئی۔حیف صد حیف کہ بے لوث محبت اور خدمت کا جو زمزم نصف صدی تک تشنگان علم
کو سیراب کرتا رہا تقدیر کے ہاتھوں اس کی روانی اب ہمیشہ کے لیے تھم چکی ہے
۔ فیض محمد خان کو جب بھی ادبی نشستوں میں شرکت کی دعوت دی جاتی تو بعض
مسائل کے باعث وہ اکثر تاخیر سے پہنچتے۔اس کا انھیں شدت سے احساس تھا مگر
ایک تو پیرانہ سالی اور دوسرے سواری کا مسئلہ بھی درپیش تھا ۔ایک بار انھوں
نے اپنے دیر سے آنے پر منیر نیازی کے یہ اشعار پڑھے تو سامعین کی آ نکھیں
ساون کے بادلوں کی طرح بر سنے لگیں۔
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
بدلتے موسموں کی سیر میں دِل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو کسی کو بھول جانا ہو
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اُس کو جاکے یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
سال 2017کا آغاز ہوا میں شبانہ ڈاک خانے کے سامنے سے گزرا تو یہ دیکھ کر
حیرت ہوئی کہ اقلیم خدمت و مروّت کے بے تاج بادشاہ پروفیسر غلام قاسم خان
اپنے مشیروں کے ہمراہ مسجد نُور سے نماز عصر کی ادائیگی کے بعدفوارہ چوک کی
جانب رواں دواں تھے۔ یہ سب میرے ہم جماعت اور دیرینہ رفقائے کار تھے جنھیں
دیکھتے ہی میرے قدم بے ارادہ ان درویشوں کی جانب اُٹھے ۔ حیرت کے عالم میں
جب میں ان مخلص احباب کے قریب پہنچاتوپروفیسر غلام قاسم خان نے دھیمے لہجے
میں کہا :
’’ہماری خاک کو اکسیر بنانے والے اور غبارِ راہ سے جلوہ ہا کی تعمیر و
تشکیل کرکے ید بیضا کا معجزہ دکھانے والے نابغۂ روزگارمصلح و معلم پروفیسر
فیض محمد خان کی طبیعت نا ساز ہے ہم سب ساتھی ان کی عیادت کے لیے جا رہے
ہیں ۔گزشتہ برس اپنی اہلیہ کی وفات کے بعد وہ گوشہ نشین ہو گئے تھے اور گھر
سے کم کم نکلتے تھے۔ہمارا فرض ہے کہ ان کی خیریت معلوم کریں۔‘‘
میں بھی ان کے ساتھ چل پڑا ،پندرہ منٹ کے بعد ہم سب سمن آباد میں واقع
پروفیسر فیض محمد خان کی رہائش گاہ کے سامنے کھڑے تھے۔دروازے پر دستک دی تو
ان کا بیٹا باہر نکلا ۔ہم نے اسے پیار کیااور اس سعادت مند نوجوان کواپنی
آمد کے مقصد سے آگاہ کیا ۔وہ ہمیں مہمان خانے میں لے گیا جہاں پروفیسر فیض
محمد خان آرام کررہے تھے۔ ہمیں دیکھ کر ان کا چہرہ کِھل اُٹھا ا نھوں نے
آگے بڑھ کر پُر تپاک انداز
میں ہمارا استقبال کیا ۔وہ ہم سے باری باری بغل گیر ہو گئے اور ہمیں دعائیں
دیں۔اس یاد گار اور پُر جوش ملاقات کے بعد وہ ہمارے ساتھ صوفے پر آ بیٹھے۔
وہ قدرے کم زور دکھائی دیتے تھے مگر ان کا لہجہ حسبِ معمول دبنگ تھا اور
الفاظ کی ترنگ بھی اپنا رنگ جما رہی تھی۔ مہمان نوازی ان کا شیوہ تھا ،
انھوں نے حسب معمول ہمارے لیے پر تکلف چائے کا اہتما م کیا ۔اس دوران میں
وہ ہم سے گھل مل گئے اور سب احباب کی خیریت دریافت کی ۔انھوں نے بتایا کہ
معمولی بخار ہے معالج کا کہناہے کہ دوا ،علاج اور چند روز مکمل آرام سے
طبیعت سنبھل جائے گی۔
جب ہم رخصت ہونے لگے تو وہ ہمیں الوداع کہنے کے لیے خود ہمارے ساتھ چل پڑے
اور اپنے گھر کے سامنے والی شاہراہ پر ایک فرلانگ پیدل چلتے ہوئے پہنچے۔
ایک حقیقی درد آ شنا کے انداز میں انھوں نے پُرنم آ نکھوں سے ہمیں الوداع
کہا اور گلو گیر لہجے میں دعائیں دیں۔وہ دیر تک کھڑے ہمیں دیکھتے رہے یہاں
تک کہ ہم ان کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئے۔اس کے چند روز بعد ہی پروفیسر فیض
محمد خان کے نہ ہونے کی ہونی کی اطلاع ملی تو دِل میں اک ہوک سی اُٹھی او ر
آ نکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔اس سانحہ پر شہر میں ہر شخص سوگوار
تھااور ہر آ نکھ اشک بار تھی۔ اجل کے بے رحم ہاتھوں سے ہمیں جو گھاؤ لگتے
ہیں ان کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے سوا کوئی چارۂ کار ہی نہیں ۔وقت ایک
ایسا مرہم ہے جوہر زخم کو مندمل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر دائمی مفارقت
دینے والوں کی یادوں کے زخم سد اہرے رہتے ہیں ۔یہ وہ زخم ہیں جنھیں سوگوار
قبر میں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔اجل کی مسموم ہوا نے پروفیسر فیض محمدخان کی
بزمِ وفا کے سب چراغ دیکھ لیے تھے ۔مختصر عرصے میں سبھی چراغ ایک ایک کر کے
بجھتے چلے گئے ۔اس کے بعد شامِ الم ڈھلی اور درد کی ایسی ہوا چلی کہ جس کے
بگولوں نے ان کی زندگی کی مشعل بجھا دی۔آفتاب ِزیست لبِ بام آ پہنچااور وہ
ہم سب کو خدا حافظ کہہ کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گئے۔ان کے
جنازے میں کثیر تعداد میں مقامی لوگ اور مضافاتی شہروں سے آنے والے سیکڑوں
سوگوار شریک ہوئے جن میں ان کے شاگردوں ،سائنس دانوں ،ادیبوں اور دانش وروں
کی بہت بڑی تعداد شامل تھی ۔ان کے آ بائی گاؤں خاکی لکھی کے شہر خموشاں کی
زمین نے علم و ادب ،سائنس و ٹیکنالوجی اور انسانیت کے وقار کے اس آسمان کو
ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چھپا لیا۔اس کے ساتھ ہی اس علاقے میں فروغ علم
و ادب کا درخشاں عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔
مقدوور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تُو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے |