آج نو محرم تھی۔ فوزیہ ہر سال نو اور دس محرم کا روزہ
رکھتی تھی۔ یہ شکرانے کے روزے تھے جو موسیؑ اور ان کی قوم ،فرعون سے نجات
کے شکرانے میں رکھتی تھی۔ حضرت محمد ﷺ کی سنت کے مطابق مسلمان بھی یہ روزہ
رکھتے ہیں۔
میں نے کبھی بھی نو اور دس محرم کے روزے نہیں رکھے مگر اس سال رکھ لئے۔
ظاہر ہے …… فوزیہ اگر کھانا نہیں کھا رہی تو میں بھی نہیں کھا رہا…… محبت
میں یہی تو ہوتا ہے۔ عاشق چاہتا ہے کہ اپنے آپ کو اپنے محبوب کے رنگ میں
رنگ لے……
میں اپنا ہر کام ویسے ہی کرتا جیسا فوزیہ کو پسند ہوتا۔
جوں ہی تھوڑا کام سے توجہ ہٹتی تو اسی کا خیال آ جاتا……یہ سچ ہی تھا کہ وہ
تنہائی میں بھی میرے ساتھ ہوتی…… بلکہ جب ہم ساتھ ہوتے تو یوں لگتا کہ دور
ہیں…… کیونکہ کھل کر مل نہیں سکتے تھے…… جیسے کہ خوابوں خیالوں میں تصور
کرتے تھے۔ شرم اور لحاظ اور ادب کی وجہ سے بہت کچھ جو میں اسے کہنا چاہتا
تھا وہ بھی نہیں کہہ پاتا تھا۔ کیونکہ فطرتاََ ہم دونوں ہی سوبر قسم کے لوگ
تھے۔
اس شام ہم نے افطار ساتھ کرنے کا پلان بنایا تھا۔ زوروں کی بھوک لگی ہوئی
تھی……میں جلدی کر کے آفس سے نکل گیا۔ گھر جا کے تیار ہوا اور سیدھا رنگولی
نام کے ایک معروف ریسٹورینٹ پہنچ گیا ۔
پندرہ منٹ کے انتظار کے بعد وہ بھی آ گئی۔ وہ ہلکے پیلے رنگ کا سادہ سا سوٹ
تھا۔ اس کی گوری رنگت پہ یہ لباس بہت جچ رہا تھا۔ اس نے ہلکا سا میک اپ کیا
ہوا تھا۔ ہلکے لال رنگ کی لپ اسٹک سے اس کے ہونٹ کسی گلاب کی پنکھڑی کی
مانند لگ رہے تھے۔
نازکی اس کے لب کی کیا کہئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
ہم دونوں نے خوشی خوشی ایک دوسرے کو دیکھا۔ کتنا سرور کتنا سکون ملتا تھا
اسے دیکھنے سے…… اس سے ملاقا ت میں جانے کیا بات تھی۔ زندگی میں پہلی بار
میں نے محبت کا ذائقہ چکھا تھا ۔ کتنا شیریں، کتنا میٹھا ،کتنا پر فریب
ہوتا ہے یہ احساس…… مجھے اب پتا چلا……
ہم نے افطار کے لئے آڈر دے دیا۔
’’ سر ڈرنکس کونسی لاؤں؟؟؟‘‘ ویٹر نے پوچھا۔
’’ ام م م…… کون سی پینی ہے؟؟؟‘‘ ۔ میں نے فوزیہ سے کہا۔
’’ پیپسی……‘‘ فوزیہ نے ایک لفظ میں جواب دے دیا۔
’’ او کے دو پیپسی کر دیں‘‘۔ ویٹر اچھا کہہ کے واپس پلٹا۔
’’ رکیں…… ! ایسا کریں میرے لئے سیون اپ لے آئی……‘‘ ۔ فوزیہ بولی۔ میں فوراََ
چونک گیا۔
’’اچھا! میرے لئے بھی سیون اپ لے آئیں‘‘۔ میں نے اپنے نچلے ہونٹ اپنے
دانتوں میں دبا لئے۔ میں مسکرا گیا۔ فوزیہ بھی مسکرا گئی۔
میں ہوش میں ہوں ، تو تیرا ہوں،دیوانہ ہوں ، تو تیرا ہوں
ہوں راز اگر تو تیرا ہوں، افسانہ ہوں تو تیرا ہوں
برباد کیا، برباد ہوا، آباد کیا، آباد ہوا
ویرانہ ہوں تو تیرا ہوں، کاشانہ ہوں تو تیرا ہوں
(ذہین)
۔۔۔۔۔۔۔
’’فادر ! میں کچھ دن چرچ میں سروس دینا چاہتا ہوں‘‘۔ مجدی نے فادر سے مل کر
کہا۔
چرچ میں فادر نے ابھی ابھی اپنا درس ختم کیا تھا اور دعائیں کی تھیں۔ تمام
لوگ اپنی اپنی کرسیوں سے اٹھ کر اپنے سینوں پر ہاتھ کے اشارے سے کراس بناتے
ہوئے باہر کو نکل رہے تھے۔ کچھ لوگ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ہاتھو ں کی
انگلیاں ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر پرے کر رہے تھے۔
’’ اچھا! بہت خوب بیٹا بہت خوب!‘‘ فادر نے خوش ہو کر جواب دیا۔ مجدی بھی
مسکرا دیا۔
’’کتنے دن سروس دینا چاہتے ہوں……؟؟؟‘‘۔ فادر نے پوچھا۔
’’ام م م…… تین دن……‘‘۔ مجدی نے دبی سی آواز میں جواب دیا کہ کہیں یہ تعداد
کم نہ ہو۔
’’گاڈ بلس یو بیٹا …… گاڈ بلس یو!‘‘۔ ان کی عادت تھی ایک ہی بات کو دہرانے
کی۔
’’آ جاؤ آپ …… جب بھی آنا چاہو‘‘۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ مجدی کو کب سے
سروس شروع کرنی ہے۔
’’ام م م…… ٹھیک ہے میں آج گھر میں بتا کر…… کچھ تیاری وغیرہ کر کے کل سے آ
جاؤں گا‘‘۔ مجدی نے کہا۔
’’ روجر! روجر!‘‘ ۔ فادر ایک اور شخص کو بلانے لگے۔ وہ بھی چرچ میں سروس کر
رہا تھا۔
’’روجر! آپ ان کے لئے کپڑے وغیرہ اور دوسری ضروری باتیں بتا دیں۔ یہ کل سے
چرچ میں سروس دینا چاہتے ہیں…… فار تھری ڈیز……‘‘۔ فادر نے روجر کو آگاہ
کیا۔
مجدی نے منت مانی تھی کہ تین دن تک چرچ میں ہی رہے گا…… اور یہاں خدمت سر
انجام دے گا…… امید تھی کہ اس کے بعد خدا اس کی دعا قبول کر لے گا اور اسے
جاب مل جائے گی۔
یہ پہلی بار ایسا کر رہا تھا۔ ورنہ عموعاََ تو بس اتوار کے روز چرچ کا چکر
لگا لیتاتھا۔ جیسے کئی مسلمان جمعے کو مسجد کا چکر لگا لیتے ہیں…… وہ بھی
جب کہیں اور مصروفیت نہ ہو۔ پر مشکل میں تو سب کو اﷲ یاد آ ہی جاتا ہے نا۔
۔۔۔۔۔۔۔
میں اور فوزیہ ساحلِ سمندر پر بیٹھے تھے۔ بہت پیارا موسم تھا۔ کراچی کے
ساحل کی کیا بات ہے…… ٹھنڈی ٹھنڈی دلفریب ہوائیں …… سامنے ٹھاٹھے مارتا
سمندر …… اور اوپر نیلا آسمان جس کی کوئی حد نظر نہیں آرہی تھی۔ ہم دونوں
دور اس مقام کو دیکھنے لگے جہاں آسمان اور زمین آپس میں ملتے ہوئے نظر آتے
ہیں۔
’’کتنا اچھا نظارہ ہے نا!‘‘ میں نے فوزیہ سے کہا۔ وہ بھی اس دلفریب نظارے
میں کھوئی ہوئی تھی۔
’’سچ! کتنا پر سکون محسوس ہو رہا ہے……‘‘ فوزیہ کے چہرے پر ایک پر سکون
مسکراہٹ آ گئی۔
’’ تم ساتھ ہو اس لئے سب کچھ اچھا لگ رہا ہے……‘‘ ۔ میں بولا۔ ’’ ورنہ شاید
میں یہاں نہ آتا……‘‘ ۔ ’’تمہارے بغیر آتا تو سب کچھ نا مکمل سا لگتا……‘‘ ۔
یہی سچ تھا ۔ فوزیہ کے زندگی میں آنے سے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی کمی
پوری ہو گئی ہو۔ کچھ نا مکمل سا ہو میرے اندر…… جو فوزیہ نے پورا کر دیا
ہو۔ کوئی گم شدہ حصہ ہو میری ذات کا جو پورا ہو گیا ہو۔
ہاں۔ حقیقت بھی یہی ہے مرد اور عورت تو ایک ہی جان تھی یعنی آدم ؑ ایک ہی
انسان تھے۔ پھر اﷲ تعالی نے اپنی مشیعت سے آدم ؑ ہی کے جسم کے ایک حصے سے
بی بی حوا کو نکال پیدا کیا۔ اسی لئے ایک پرسرار کشش خود با خود مرد و زن
میں آ نموجود ہوئی۔ دونوں پھر ایک ہو کر اپنے آپ کو مکمل کرنا چاہتے ہیں۔
’’یہ لو !‘‘ فوزیہ نے اپنے بیگ سے کچھ امپورٹڈ قسم کی چاکلیٹس نکال کر میرے
ہاتھ میں رکھیں۔
’’ارے! یہ کہاں سے لے آئیں؟؟؟‘‘ ۔ میں نے ایک چاکلیٹ کا ریپر کھولتے ہوئے
پوچھا۔
’’میرے چچا کی فیملی آئی ہوئی ہے آج کل کراچی…… امریکہ میں رہتے ہیں وہ
لوگ…… سب لوگ وہیں کے نیشنل ہیں‘‘۔ فوزیہ نے بتایا۔
’’اوہ! اچھا……‘‘ ۔ میں نے سرسری طور پر اس کی بات سن لی اور چاکلیٹ کا ریپر
نیچے پھینک دیا۔ پھر میں نے فوراََ ہی ریپر اٹھایا اور اسے اچھی طرح فولڈ
کر کے اپنے والٹ میں رکھ لیا۔ فوزیہ میری یہ حرکت دیکھ کر مسکرا دی۔
’’تمہاری نشانی ہے……‘‘ میں بھی مسکرا دیا۔
’’……اور ہاں…… تین دن بعد میں حیدرآباد جا رہی ہوں‘‘۔
’’میری کزن کی شادی ہے‘‘۔ فوزیہ کو جیسے اچانک کچھ یاد آ گیا۔
’’اچھا!‘‘ میں نے ایک لفظ میں جواب دے دیا۔
’’دس پندرہ دن بعد آؤ ں گی واپس……‘‘ دس پندرہ دن کے الفاظ سن کر تو جیسے
میری جان ہی نکل گئی۔
’’کیا!!! تم پندرہ دن بعد واپس آؤ گی؟؟؟‘‘۔ میرا دل ڈوب سا گیا۔
’’ہم م م……‘‘ فوزیہ نے بھی اداس سی شکل بنا کر کہا۔
’’چلّو جی……‘‘ ساری ملاقات پھیکی پڑ گئی۔ مجھ پر تو عشق کا بھوت سوار تھا۔
بس چلتا تو پل بھر کے لئے بھی فوزیہ کو اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیتا……
اور یہاں یہ پندرہ دن کے لئے دوسرے شہر جا رہی تھی۔
’’تمہیں میرا کوئی خیال، کوئی احساس نہیں……‘‘ میں نے تڑپ کر کہا۔
’’تمہیں میرا کوئی احساس نہیں ……‘‘ میں پھر وہی بولا۔’’ اتنے دن تم میرے
بغیر رہ لوں گی؟؟؟‘‘ ۔ میں اپنی اور اس کی محبت کو تولنے لگا۔
فوزیہ نے اداس سی شکل بنا کر خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔
’’بولو!‘‘ ۔میں نے اس کی چہرے کو غور سے دیکھا۔
’’میں کتنا بے تاب رہتا ہوں تمہارے بغیر……‘‘ ۔ میں کچھ دیر چپ ہو گیا۔
’’کسی شادی وادی میں جانے کی ضرورت نہیں……‘‘ ۔ میں نے جیسے حکم دیا۔ فوزیہ
کا چہرہ لال ہو گیا تھا۔
پھر میں نے بھی چپ سادھ لی اور اس نے بھی……
۔۔۔۔۔۔۔
’’کیا میں اتوار تک تمہارے گھر شفٹ ہو جاؤں؟‘‘ ۔
میرے موبائیل پر دلاور کا میسج آیا۔ میں نے اپنے ہونٹوں کو ایک جانب کر کے
منہ بنا لیا۔
’’پتا نہیں اس کو کیا مصیبت آ گئی ہے‘‘۔ مگر میں سمجھ گیا تھا کہ کچھ گڑ بڑ
ضرور ہے۔ ورنہ دلاور دوبارہ مجھ سے یہ بات نہ پوچھتا۔
’’تم گھر پہ ہو‘‘ ۔ میں نے بھی ایک میسج جواباََ ارسال کیا۔
’’ہاں‘‘۔ جواب آیا۔
’’باہر آؤ‘‘۔ میں نے اسے گھر کے باہر سڑک پر بلایا۔
’’کیا…… مسئلہ کیا ہے؟؟؟‘‘ میں نے سلام دعا کئے بغیر ہی دلاور سے تفتیش
شروع کر دی۔ ہم دونوں اپنے اپنے گھروں سے نکل آئے تھے۔
’’ بس یار اب اس گھر میں نہیں رہ سکتا‘‘۔ اس نے قدرے بے زاری سے کہا۔
’’کیوں ۔ کیا ہوا؟‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔
’’پچھلے ایک سال سے گھر میں لڑائی جھگڑے چل رہے ہیں۔ سب بھائیوں کی فیملیز
اب بڑی ہو گئیں ہیں۔ اخراجات وغیرہ ذیادہ ہو گئے ہیں۔ اب کسی سے مل کر نہیں
رہا جاتا…… جھوٹے جھوٹے معاملات میں بھائی بھابیاں آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔
کسی کا بچہ مہنگے اسکول میں داخل ہو گیا تو جھگڑا…… کسی کی بیماری پہ پیسہ
خرچ ہو گیا تو جھگڑا ……کوئی کہیں گھومنے چلا گیا تو جھگڑا…… ہر کوئی ایک
دوسے کی ٹوہ میں لگا رہتا ہے تا کہ موقع پاتے ہی ایک دوسرے پر طنز و طعنوں
کی بارش کرسکے……‘‘ دلاور پریشان سا ہو کر سب بتا رہا تھا۔ میرے لئے یہ ساری
کہانی انوکھی تھی۔ میں بڑا حیران ہوا کہ دلاور کے گھر یہ سب ہو رہا ہے۔
’’میرا تو تمہیں پتا ہی ہے…… نہ شادی ہوئی ہے نہ کوئی ارادہ ہے فی
الحال……‘‘۔
’’ ابو کی ڈیتھ کے بعد سے ساری پراپرٹی وغیرہ بھائی لوگ ہی سمبھالتے
ہیں……میں تو ان جھگڑوں میں کچھ بولتا نہیں تھا…… مگر اب بات بہت بڑھ گئی
ہے…… سب بھائیوں نے آپس میں بٹوارہ کرنے کا ارادہ کر لیا ہے…… کہتے ہیں
مجھے تیرہ دکانوں میں سے صرف ایک دکان ملے گی…… کیونکہ بٹوارہ اس وقت کے
حساب سے ہو گا جب ابو کا انتقال ہوا تھا……‘‘۔ یہ کہہ کر دلاور کچھ دیر
خاموش ہو گیا۔ اس کے چہرے پر نمودار ہوتا غصہ میں نے محسوس کر لیا تھا۔
’’ایسا کیسے ہو گا…… کوئی مذاق ہے کیا؟؟؟‘‘ میں منہ بسور کر ہلکا سا ہنسا۔
میری ہنسی میں دلاور کے بھائیوں پر ایک طنز تھا۔
’’وہ کہتے ہیں کہ تم نے کبھی کاروبار سمبھالنے میں کوئی مدد نہیں کی…… ’’جو
کچھ اب ہمارے پاس ہے…… صرف ہم چار بھائیوں کی محنت کا نتیجہ ہے ۔ اس لئے
تمھیں اسی حساب سے حصہ ملے گا جس وقت ابو فوت ہوئے تھے۔ ‘‘ دلاور نے جیسے
ان کے الفاظ مجھے حرف بہ حرف مجھے سنا دئیے۔
میرا منہ حیرانی سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔
سمجھ تو میں سارا معاملہ گیا تھا۔ آئے دن ایسی کہانیاں سننے کو ملتی رہتی
ہیں۔مگر دلاور کے بھائیوں کی بات میں سچائی بھی تھی۔ یہی سچ تھا۔ ہم نے تو
ہمیشہ ہی دلاور کو کسی لا ابالی نوجوان کی طرح بے فکرا ، فارغ اور عیاشیوں
میں مگن ہی دیکھا تھا۔ اس سے کوئی کام کی بات کرنا تو بھینس کے آگے بین
بجانے کے مترادف ہوتا۔اب کیا دلیل دے سکتا تھا وہ اپنے بھائیوں کو…… واقعی
اس نے کبھی ان کے کاروبار میں کوئی ہاتھ نہیں بٹایا تھا۔ وہ تو بس ببے فکری
سے کچھ دکانوں کا کرایہ کھا جاتا اور اگر پیسے کم پڑ جاتے کبھی تو وہ
بھائیوں سے اور مانگ لیتا……
اب مجھے دلاور کے مجھ سے پیسے مانگنے کی وجہ بھی سمجھ آ گئی۔ شاید تمام
بھائیوں کی ناراضگی کئی ماہ سے چل رہی تھی لہذا دلاور نے ان سے تھائی لینڈ
جانے کے لئے پیسے نہیں مانگے……
’’او ۔کے۔ میں تم سے پھر بات کرتا ہوں……‘‘ دلاور بھی سمجھ گیا کہ یہ سارا
معاملہ میرے لئے ایک شوک تھا۔ لہذا وہ بھی کوئی اور بات کئے بغیر اپنے گھر
چلا گیا۔
میں نے ساری روداد سن تو لی تھی۔مگر میں اسے اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتا
تھا۔ ہماری چھت پر جو ایک کمرہ بنا ہوا تھا بے شک وہ کسی بیچلر کے لئے بہت
مناسب تھا مگر میں اسے اپنے گھر میں نہیں گھسانا چاہتا تھا۔ اس کے کیریکٹر
کا مجھے پتا ہی تھا۔ میرے گھر میں بھی ماں بہنیں تھیں۔ مجھے دلاور کی نظر
پر زرہ برابر بھروسہ نہ تھا۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ اسے اپنے گھر میں روم
تو میں نہیں دینے والا……
میں نے سوچا میں خود اس کے لئے کوئی اور روم ڈھونڈ لوں گا اور اسے خود وہ
جگہ دکھا دوں گا۔ کہہ دو ں گا کے گھر والے چھت والا روم کسی کو کرائے پہ
نہیں دینا چاہتے۔
۔۔۔۔۔۔۔
دلاور اور سبین کراچی میں ایک خفیہ جگہ پر بنے بئیر بار میں بیٹھے تھے۔
اکثر یہ لوگ ایسی ہی کسی جگہ ملاقات کرتے۔ کبھی کسی شیشہ بار میں کبھی کسی
ریسٹورینٹ میں…… یا کبھی فلم دیکھنے کا ارادہ ہوتا تو سینما چلے جاتے یا
پھر کبھی اس بیئر بار میں……
’’ کیا بات ہے آج کل بڑے چپ چپ سے…… کھوئے کھوئے سے نظر آ رہے ہو؟‘‘ سبین
نے بار ٹینڈر کو تھینکس کہہ کر ایک ڈرنک دلاورکو تھمائی اور دوسری سے خود
ایک گھونٹ پیا۔
’’ا م م م…… نہیں…… ایسی کوئی بات نہیں……‘‘۔ دلاور نے بھی اپنے ہونٹوں سے
جام چھوا۔ وہ پیتا ہی اس لئے تھا تا کہ بد مست ہو سکے۔ جو جنت اس نے بنا
رکھی تھی اس کا مزہ لے سکے…… اُس کی حور سے دل لگی کر سکے…… جنت میں
پریشانیوں ، مشکلوں اور الجھنوں کا کیا کام!!!
ویسے بھی گرل فرینڈز سے تو بس دل لبھانے کی ہی باتیں کی جاتی ہیں…… فریبِ
نظر کا ذکر ہوتا ہے…… بٹوارے کی باتیں تھوڑی ہوتیں ہیں۔
تھوڑی دیر میں میوزک چینج ہو گیا۔ جب گیارہ بج جاتے تھے تو یہاں کا آر۔ جے
رومانٹک میوزک پلے کر دیتا تھا۔
دلاور اور سبین ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اپنے اپنے اسٹولز سے اٹھے اور اس
رومانٹک دھن پر جھومنے لگے۔
رات کے دو بجے دلاور نے ایک اچھے ہوٹل کی پارکنگ میں کار پارک کی۔ ہوٹل میں
روم اس نے پہلے ہی بُک کر رکھا تھا۔ وہ سبین کو لے کر روم میں چلا گیا اور
دروازہ بند کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
وہ مجدی کا چرچ میں سروس کا پہلا دن تھا۔تین دن کے لئے اسے خاص طرح کے کپڑے
دے دئے گئے تھے اور ایک کالی رنگ کی بڑی سی تسبیح بھی……
’’لارڈز پرئیر روز صبح اور شام سو سو بار ضرور پڑھنا اور چیرٹی بھی روز
کرنا……‘‘
’’……اور کوئی دنیاوی خیال دل میں نہ لانا…… سب کچھ چرچ سے باہر چھوڑ دو‘‘۔
مجدی نے سوچا کہ میری تو اس ساری عبادت کا مقصد ہی دنیا حاصل کرنا ہے……
یعنی کہ جاب مل جائے……
’’گاڈ تمہاری ساری مشکلیں حل کر دے گا……‘‘۔ ’’گاڈ بلس یو مائی سن!‘‘ فادر
روجر نے مجدی کو اچھی طرح سب کچھ سمجھا دیا تھا۔
مجدی کو ایک بہت چھوٹا سا کمرہ رہنے کو دیا گیا تھا۔ اس کمرے میں صرف ایک
چارپائی اور ایک چھوٹی سی الماری تھی۔ دونوں چیزیں کوئی بیس تیس سال پرانی
لگ رہیں تھی۔
جس راہداری میں کمرہ تھا وہیں ایک واش روم چار پانچ کمروں کے لئے بنایا گیا
تھا۔ مجدی کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا جس نے اس طرح کی منت مانی ہو۔
بہرحال مجدی نے لاڈز پریئر پڑھنی شرع کر دی۔
’’اے ہمارے باپ! تو جو آسمان پر ہے……تیرا نام پاک مانا جائے……
تیری بادشاہی آئے……
تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے ویسے ہی زمین پر بھی ہو……
ہماری روز کی روٹی آج بھی ہمیں دے دے اور جس طرح ہم اپنے قصورواروں کو بخش
دیتے ہیں تو بھی ہمیں بخش دے……
……اور ہمیں آزمائش میں نہ پڑنے دے۔ بلکہ ہمیں برائی سے بچا لے۔ آمین‘‘۔
مجدی نے سو بار خداوند سے یہ دعا مانگی۔
۔۔۔۔۔۔۔
منت کے دوسرے روز بھی مجدی نے صبح کے وقت جلدی اٹھ کر اپنی تسبیح پڑھی اور
پھر کچن کی طرف بڑھا۔ اس دن اس نے خیرات کے طور پر خود کھانا پکا کر غریب
مسکینوں کو کھلانے کی نیت کی تھی۔
مجدی نے کھانے کی پتیلی چڑھائی اور اس میں تیل ڈال دیا۔ بریانی مصالحہ کا
پیکٹ اور گوشت وغیرہ اس نے منگوا ہی لیا تھا۔ بڑا دل لگا کر اس نے گوشت صاف
کیا ، سبزیاں دھوئیں اور انہیں کاٹنے لگا۔ بہت سکون مل رہا تھا اسے…… خدمتِ
خلق میں سکون تو ہوتا ہی ہے۔
ایک پیاری سی رنگ ٹون اس کے موبائیل پر بجی۔ مجھے تو اس نے بتایا ہی نہیں
تھا کہ وہ منت مان کر چرچ میں گھسا بیٹھا ہے…… وہ بھی تین دن کے لئے…… لہذا
میں نے اسے کال ملائی۔
موبائیل رنگ ہوتا رہا اور مجدی شش و پنج میں پڑ گیا۔
’’او ہو …… اسے تو میں بتانا ہی بھول گیا‘‘۔ مجدی نے یہ نیت بھی کر رکھی
تھی کہ کسی سے بلا وجہ کوئی بات چیت نہیں کرے گا۔ اگر بہت ہی ضروری بات ہو
تو بس اشاروں سے بات کرے گا۔ اب فون کیسے اٹھاتا؟؟؟
اس نے یک دم کال کاٹی اورجلدی سے مجھے میسج لکھ دیا کہ’’ویٹ‘‘، یعنی انتظار
کرو……
تھوڑی ہی دیر میں میرے پاس اسکا دوسرا میسج آ گیا جس میں مجدی نے اپنے چرچ
میں دن گزارنے کے بارے میں بتایا۔
بریانی پک چکی تھی۔
مجدی بریانی کا دیگچا لے کر چرچ کے باہر آیا۔ کچھ غریب بستی والوں کو پہلے
سے ہی اطلاع کر دی گئی تھی کہ دوپہر کو چرچ کے باہر بریانی بٹے گی۔
لوگوں کو دیکھتے ہی مجدی تذبذب کا شکار ہو گیا۔ شاید لوگ ذیادہ تھے اور
بریانی کم……
مجدی کو شرمندگی سی ہونے لگی۔
اس نے سب سے پہلے تو ایک لائن بنوا لی۔ پھر باری باری سب کو کنجوسی سے
بریانی نکال نکال کر دینے لگا۔ ہر کوئی بریانی لیتا اور وہیں ایک طرف کو
دیوار کے پاس نیچے بیٹھ کر کھانے لگتا۔
پھر ایک بوڑھی عورت کی باری تھی ۔ وہ قدرے جھکی ہوئی تھی۔ کوئی ستر سال کی
ہو گی وہ …… لان کے پرانے سے براؤن رنگ کے کپڑے زیبِ تن کئے …… چہرے پر بہت
سی جھریاں تھیں …… آنکھیں بھی دبی ہوئی بند بند سی لگ رہیں تھیں……
اس نے بریانی لینے کے لئے ہاتھ آگے کر دیا۔ مگر بریانی تو ختم ہو چکی تھی۔
’’اماں! بریانی ختم ہو گئی ہے……‘‘ مجدی نے لڑکھڑاتے الفاظ کے ساتھ جملہ
کہا۔
’’بیٹا! مجھے بھی دے دے!‘‘ اماں نے آگے بڑھ کر کہا۔
’’اماں……! ‘‘ ۔مجدی اگلی بات کہنے سے پہلے رکا۔’’ کھانا ختم ہو گیا ہے
اماں!‘‘۔ یہ کہہ کر مجدی پیچھے کو ہٹا۔ وہ اماں بھی ایک قدم آگے بڑھ کر پھر
بولیں ، ’’ مجھے بھی دے دے بیٹا!‘‘
’’کھانا نہیں ہے اماں……‘‘ مجدی نے ان کے قریب ہو کر کہا۔ اس کا دل عجیب
شرمندگی اور افسوس کی ملی جلی کیفیت کا شکار تھا۔
’’نہیں ہے!!!!‘‘۔ ان کی آس ٹوٹ گئی۔ وہ پیچھے کو مڑیں اور آہستہ آہستہ سے
چلتے اس لائن میں جا بیٹھیں جہاں باقی تمام لوگ بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے۔
مجدی بریانی کا خالی دیگچا لے کر وہیں موجود سیڑھیوں پر بیٹھ گیا۔ ایک طرف
لوگ بریانی کھا رہے تھے اور وہیں ایک بے چاری بڑھیا خاموشی سے بھوکی بیٹھی
تھی……
عجیب منظر تھا…… دل رْلا دینے والا……
’’ایک یہ بھی ہے…… اور ایک میں بھی……‘‘
’’خدا وند نے اس کو کھانا کیوں نہیں کھلایا!!!‘‘۔ مجدی نے خود سے سوال کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
|