آج اس وقت جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں مورخہ 16
مارچ ہے جوریاست جموں کشمیر ولداخ کی تاریخ میں انتہائی اہمیت کا حامل دن
ہے کیونکہ یہی وہ دن ہے جس پر سال 1846میں معاہدہ امرتسر کے ذریعے جدید
ریاست جموں و کشمیر کی بنیاد رکھی گئی اور حالیہ متنازعہ ریاست کی تاریخ کا
آغاذ بھی اسی دن سے ہوتا ہے۔ انیسویں صدی کے آغاذ تک وسیع و عریض پنجاب
سکھوں کی متعدد مسلوں(خاندانی علاقائی گروہ) کے ماتحت چھوٹے راجواڑوں میں
تقسیم تھا جسے متحد کرتے ہوئے گوجرانوالہ کی سکرچکیہ مسل کے رنجیت سنگھ نے
پنجاب میں متحدہ سکھ خالصہ سلطنت کو قائم کیا، لاہور کو اپنا مرکز(دربار)
اور محض21سال کی عمر میں ہی مہاراجہ کہلایا۔ دوسری جانب انگریز ایسٹ انڈیا
کمپنی بھی اپنی سلطنت کو وسعت دے رہی تھی۔ 1809میں سکھ اور انگریزکمپنی راج
کے درمیان دوستانہ تعلقات کو قائم رکھنے کیلئے امن معاہدہ اور دریا ستلج کو
سرحد تسلیم کر لیا گیاتھا اور رنجیت سنگھ نے اپنی سلطنت کی توسیع پورے
مغربی پنجاب سے افغانیہ (موجودہ اٹک اور پختونخواہ کے خطے)تک قائم کر لی۔
پنجاب ہی سے ملحقہ متحدہ جموں کا دیوشاہی راج1780 میں راجہ رنجیت دیو کی
وفات کے بعد خاندانی رسہ کشی میں کمزور پڑ چکا تھا اور ایک بار پھر
راجواڑوں میں تقسیم ہوتا گیا اور اس آپسی کشمکش میں ان علاقوں پر پنجاب کی
طرف سے خاصی مداخلت ہوتی رہی۔ 1808 میں سکھ خالصہ فوج نے حکم سنگھ کی قیادت
میں جموں پر باقاعدہ حملہ کیا تونوجوان گلاب سنگھ کے گروہ سمیت مقامی
ڈوگروں نے بلاتفریق جمو ں کا دفاع کیا اور سکھ فوج کو بظاہر ناکامی ہوئی
تاہم امن کی بحالی کیلئے طاقتور خالصہ سکھ راج کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کر
لیا گیا تھا جس کے بعد 1809میں گلاب سنگھ نے خالصہ فوج میں ملازمت اختیار
کر لی اور بعدازاں اپنے والد کشور سنگھ، بھائیوں دھیان سنگھ اور سوچیت سنگھ
کو بھی خالصہ دربار کی ملازمت میں شامل کر لیا جہاں انہوں نے جلد ہی اپنی
ذہانت اور عسکری قابلیت کے بل بوتے اہم مقام حاصل کر لیا اور بعدازاں
پونچھ،چبھال، رام نگر، جموں اور دیگر جاگیریں اور پنجاب میں اجارے حاصل کئے۔
1812میں رنجیت سنگھ کا بیٹا کھڑک سنگھ بحیثیت جاگیردار جموں کا گورنربنایا
گیا۔1816تک خالصہ راج نے جموں و گرد ونواح کو باقاعدہ اپنا حصہ بنا لیا تھا
اور جموں کے راجہ جیت سنگھ کی حیثیت محض علامتی ہو کر رہ گئی۔ محض بارہ
سالہ وقفہ کے بعد 1820میں جموں کا راج ایک بار پھر اسی مقامی حکمران خاندان
کی ہی شاخ سے گلاب سنگھ کے باپ میاں کشور سنگھ کے ہاتھ میں واپس آیا جسکی
وفات کے بعد 1822میں راجہ گلاب سنگھ کو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے خود اپنے
ہاتھوں سے راج تلک لگاتے ہوئے جموں کا راجہ (حکمران) مقرر کیا اور بعدازاں
راجہ جیت سنگھ نے بھی جموں کے علامتی راجہ کی حیثیت سے بذریعہ سند موروثی
رسم ورواج کیمطابق اپنے زیر حکمرانی تمام جموں کا حق حکمرانی اپنے خاندان
کے ہی گلاب سنگھ اور اسکے بھائیوں کو سونپ دیا اورخود جاگیر اخروٹہ میں
سدھار گیا۔ 1819میں خالصہ سلطنت نے کشمیر پر بھی قبضہ کر کے اپنا صوبہ بنا
لیا تھا اور دوسری جانب گلاب سنگھ نے یکے بعد دیگرے جموں کے اردگرد بیس سے
زائد راجواڑوں کو متحدہ جموں مرکز کا حصہ بنایا اور 1834 میں ڈوگرہ فوج نے
زورآور سنگھ کی قیادت میں لداخ پر چڑھائی کی اور 1840تک مختلف مہم جوئیوں
میں بھاری نقصانات کے باوجود بلتستان اور تبت کے کچھ حصوں تک کا علاقہ جموں
راج کے زیرنگین کر لیا اور اسی مہم جوئی کے دوران دسمبر1841میں زورآور سنگھ
جنگ طویو(تبت) کے محاذ پر مارا گیا تھا (بعد ازاں ڈوگرہ فوج نے لحاسا تبت
پر قبضہ کیا اور ۱۸۴۲ میں چوشل معاہدہ میں تبت پر تاوان جنگ ، جموں۔تبت
سرحد کا تعین اور امن و تجارت کے امور طے کر لئے گئے) ۔1839میں مہاراجہ
رنجیت سنگھ کی موت کے بعد پنجاب دربار میں بھی اقتدار کی رسہ کشی میں
سازشوں اور صف بندیوں کا ہنگامہ خیز دور شروع ہوا جس میں رنجیت سنگھ کے
وارثوں سمیت ڈوگرہ خاندان سے گلاب سنگھ کے بھائی دھیان سنگھ، سوچیت سنگھ،
دھیان سنگھ کا بیٹا ہیرا سنگھ اور گلاب سنگھ کا بیٹا ادھم سنگھ بھی مارے
گئے۔اس ساری صورت حال کو ستلج پار ایسٹ انڈیا کمپنی بڑی بے چینی سے دیکھ
رہی تھی اور درپردہ پنجاب دربار کے اہم افراد سے رابطے میں بھی تھی۔ سکھ
فوج بھی گروہوں میں تقسیم تھی اور پنجاب دربار شدید مالی بحران سے گزر رہا
تھا۔ اسی اثناء میں فروری 1846میں سکھ فوج امن معاہدہ (1809)کی خلاف ورزی
کرتے ہوئے دوسری دفعہ ستلج پارانگریز کمپنی بہادر کے علاقوں میں داخل ہوئی
اور اس جنگ میں شکست کھائی( اس جنگ کے حوالے سے مختلف سازشوں کا قیاس کیا
جاتا ہے جس میں لال سنگھ، رانی جنداں، خالصہ فوجی افسران اور گلاب سنگھ کا
بھی نام لیا جاتا ہے)۔ گلاب سنگھ جنگ کے دوران غیر جانبدار رہا اور لاہور
دربار کی طرف سے بلائے جانے کے باوجود پہلی جنگ کے وقت جموں ہی میں مقیم
رہا تھا۔ گلاب سنگھ کے منع کرنے کے باوجود دوسری جنگ چھیڑی گئی اور آخرکار
شکست کے بعد لاھوردربار نے گلاب سنگھ کو بحثیت وزیر اعظم اپنا نمائندہ بنا
کر کمپنی بہادر کے ساتھ مذاکرات کیلئے روانہ کیا اور اس نے دربار سے دینا
ناتھ، دیوان دیوی سہائے، فقیر نورالدین، سردار گلاب سنگھ اٹاری والا کو
ہمراہ لیکر انگریزوں سے مذاکرات کئے اور طے پایا کہ لاہور دربار تاوان جنگ
میں ملک دوآبہ اور ڈیڑھ کڑوڑ روپیہ نانک شاہی ادا کریگالیکن دربار لاہور
میں وزیرلال سنگھ اور رانی جنداں نے اس معاہدہ کو منسوخ کیا اور ملک دو آبہ
کیساتھ ڈیڑھ کڑوڑ کی بجائے ایک کڑوڑ تاوان جنگ طے کرنے کے بعد مالی مشکلات
کے عذر کیساتھ رقم کے بدلے ہزارہ کشمیر و کوہستان اور ملحقہ علاقوں بشمول
کانگڑہ چمبہ کا اختیار انگریز کمپنی بہادر کو سونپ دینے پر آمادگی کر لی
تاکہ جموں کے گرد گھیرہ تنگ کرتے ہوئے گلاب سنگھ کو بھی جموں سے محروم کر
دیا جائے (گلاب سنگھ کیلئے یہ واقعی پریشانی بنی اور اس نے جموں راج کو
قائم رکھنے کیلئے انگریز سرکار سے استدعا بھی کی تھی) لیکن انگریزوں نے
شائد اپنی حکمت عملی میں ان علاقوں تک وسعت کو مناسب نہیں جانا اور گلاب
سنگھ کے نمائندہ دیوان جوالا سہائے اور ہنری لارنس کے درمیان ہوئے مذاکرات
میں طے پایا کہ جنگ میں اگر گلاب سنگھ انگریزوں کا ساتھ دیتے تو یہ علاقے
انہیں مفت ملتے مگر اب ایک کڑوڑ روپیہ تاوان جنگ کی ادائیگی پر جموں راج
میں ان خطوں کوبھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ انگریز کمپنی بہادر کی اس پیشکش پر
گلاب سنگھ نے آمادگی ظاہر کی تاہم رقم ناکافی ہونے پردریائے راوی کا ملحقہ
علاقہ بعوض پچیس لاکھ چھوڑ دیا گیا۔ اس نئی صورت حال پر لاہور دربار نے
ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے نظرثانی کا بھی کہا تاہم انگریز سرکار نے لاہور
دربار کی مزید شرائط سے معذرت کرلی اور یوں 9مارچ 1846کو انگریز کمپنی
بہادراور لاہور دربار میں ہونے والے معاہدہ لاہور (شق4) میں مذکورہ علاقوں
پر اختیار ا کمپنی بہادر کو حاصل ہو گیا اور (شق12) جموں سمیت گلاب سنگھ کے
زیر قبضہ علاقوں پر اسکی مقتدر و مختارحکمرانی کو بھی تسلیم کر لیا گیا اور
تاوان جنگ کے بدلے حاصل شدہ خطوں کو بھی ایک نئے معاہدہ میں گلاب سنگھ کے
حوالے کرنے کا عندیہ دے دیا گیا۔ اس کے بعد حسب عہد 16 مارچ 1846کو انگریز
کمپنی بہادر اور مہاراجہ گلاب سنگھ کے درمیان معاہدہ امرتسر طے پایا جس میں
(شق1,3) دریائے سندھ کے مشرقی اور دریائے راوی کے مغربی علاقے بشمول چمبہ
کشمیر ہزارہ و کوہستانی خطے پچھتر لاکھ تاوان جنگ کی ادائیگی کے بدلے
مہاراجہ گلاب سنگھ اور اسکی اولاد نرینہ کے دائم و ہمیش مکمل اختیار میں دے
دئے گئے ، بوقت ضرورت ایک دوسرے سے فوجی تعاون(شق6,9) اور کمپنی بہادر کی
حاکمیت اعلیٰ کو بھی تسلیم کیا گیا(شق10)۔ یہیں سے شروع ہوتا ہے ڈوگرہ شاہی
میں ایک نئی سلطنت جموں و کشمیر و اقصائے تبت ہاء کے نام سے تشکیل پاتے
وجود کا قانونی سفر جس میں یہ تمام کثیر المذہبی و ثقافتی خطے پہلی بار ایک
مرکزی سیاسی وحدت میں جڑتے ہیں (مئی1847کے معاہدہ میں ہزارہ و کہوٹہ کا
تبادلہ میرپور سے ملحقہ کھڑی و مناور علاقہ سے کیا گیا)، جس میں بعدازاں
لداخ بلتستان سے بھی آگے وسعت دیتے ہوئے گلگت، استور، چیلاس،ہنزہ، نگر ،
چترال وغیرہ تک کو بھی شامل کیا جاتا ہے ۔ اسی سلطنت کو جموں کشمیر و لداخ
یا ریاست جموں و کشمیر بھی کہا جاتا ہے۔ ڈوگرہ شاہی کے تقریباٌ ایک صدی پر
محیط دور میں یہ ریاستی وحدت اکتوبر 1947تک قائم رہی ہے۔ جس میں نظام حکومت
باقی ہندوستانی ریاستوں کی طرح مطلق العنان ہی تھا جس میں بے شمار نقائص
موجود رہے ہیں۔
تاہم بیسویں صدی کے آغاذ ہی سے برصغیر میں ہونے والی سیاسی سرگرمیوں کے
اثرات کو باقی ماندہ ریاستوں کیساتھ جموں و کشمیر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے
کہ جس میں سیاسی حقوق کیلئے شعوری بیداری کا دور سامنے آتا ہے اور پھرمختلف
سیاسی و سماجی تنظیموں کا قیام ہوا جس نے اس شاہی سیاسی نظام کو چیلنج بھی
کیا ہے اور یہی سیاسی بیداری بعدازاں مطلق العنان حکمرانوں کو بھی اصلاحات
پر مجبور کرتی ہے (سیاسی تحریکوں کی اپنی لمبی تاریخ ہے جس پر الگ تفصیل
بنتی ہے)۔ دو قومی نظریہ کی بنیاد پراگست 1947میں تقسیم ہند اور پاک و
بھارت کے قیام کے وقت انڈین نیشنل کانگرس اور مسلم لیگ کے اس ریاستی
سیاست(نیشنل کانفرنس، مسلم کانفرنس) میں گہرے اثر و رسوخ کے باوجود مہاراجہ
ہری سنگھ اس کثیر المذہبی و ثقافتی ریاست کو ایک تیسرے خودمختار ملک کے طور
پر قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے مگر ناکام رہتا ہے ۔ ریاست میں سیاسی انتشار،
مذہبی جانبداری اور ان دونوں نئی ڈومینینز (پاک و بھارت) کی مداخلت ،
قبائلی حملہ اور جنگ کی وجہ سے مہاراجہ ریاست کے تحفظ میں فوجی امدادکیلئے
بھارت سے معاہدہ الحاق کرتا ہے جس کے بعد بھارت یکم جنوری 1948 کو یہ
تنازعہ اقوام متحدہ میں لے جاتا اور وہاں سے ہمارے موجودہ مسلہ جموں کشمیر
یا تنازعہ کشمیرکی پیدائش ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کی مداخلت سے جنگ بندی
کیساتھ جنگ بندی لکیر بھی کھینچ دی جاتی ہے جو دراصل آج تک تقسیم ریاست کا
قانونی جواز بن چکی ہے۔ تنازعہ جموں کشمیرکے تصفیے کیلئے اقوام متحدہ نے
متعدد بار لائحہ عمل اور سفارشات دی ہیں لیکن دونوں فریق ممالک( پاک و
بھارت) اس ریاست پر اپنے حق ملکیت کی ضد پر اڑے ہیں اور ریاستی عوام گزشتہ
ستر سال سے محرومی اورغیر یقینی صورت حال جبکہ ان دونوں ایٹمی ممالک کے
عوام ایک دائمی جنگ کے سائے میں معاشی ابتری کا شکار ہیں۔
آج16مارچ اسی متنازعہ و منقسم ریاست جموں و کشمیر کا 171واں یوم پیدائش،
یوم تاسیس یا یوم تشکیل ریاست ہے جو ایک صدی تک اپنی وحدت قائم رکھنے کے
بعد مصنوعی تنازعہ اور تقسیم کا شکار تو ہو گئی تاہم اس ریاست کی تخلیق،
تشکیل و قیام کی بنیاد یعنی معاہدہ امرتسر اس قدر مضبوط ہے کہ اپنے سینے پر
لگ بھگ ستر سال سے کھینچی گئی خط تقسیم کے باجود یہ ریاست اپنا قانونی وجود
اور جغرافیائی وحدت اقوام متحدہ کی قراردادوں میں برقراررکھے ہوئے ہے۔ اب
تقریباٌ ستر سال اسی ضد میں گزر جانے کے بعد،کیا پاکستان ، بھارت اور
ریاستی عوام کیلئے یہ بہتر نہیں ہے کہ بین الاقوامی قوانین اور دستاویزات
میں قائم اس ریاستی وحدت کو عملی شکل دے دی جائے تاکہ جنوبی ایشیاء ایک
محفوظ ترین پرامن خطہ بنے ،معاشی ترقی کے ذریعے خوشحالی کی منازل طے کرے
اور اربوں کی آبادی پر مشتمل اس خطے کے بے قصور عوام اس خوف، غیر یقینی اور
ہیجانی کیفیت سے چھٹکارہ حاصل کر سکیں ۔۔۔ ؟؟؟
|