نقارے پر چوٹ لگی اور اعلان ہوا کہ بادشاہ سلامت تشریف لا
رہے ہیں۔
باادب، با ملاحظہ، ہوشیار کی آوازوں میں بادشاہ سلامت تشریف لائے۔ دربار سج
گیا۔ وزیر اعظم آگے بڑھے اور بادشاہ کو بتایا کہ ہمسایہ ملک کے سربراہ نے
بادشاہ کے نام ایک خط بھیجا ہے۔
خط میں کیا لکھا ہے۔ بادشاہ نے سوال کیا۔
وزیراعظم نے عرض کی کہ خط سر بمہر ہے۔ آپ کی اجازت سے ہی کھولا اور پڑھا
جائے گا۔
خط پڑھنے کے لئے وزیر تعلیم کو بھلایا جائے۔ بادشاہ نے نیا حکم جاری کیا۔
وزیراعظم نے ہاتھ باندھ کر دوبارہ عرض کی کہ حضور ہمارے وزیر تعلیم ان پڑھ
ہیں۔ خط نہیں پڑھ سکتے۔ خط پڑھنے کے لئے ہمیں کسی پڑھے لکھے اور عالم شخص
کی خدمات درکار ہوں گی۔
یہ ایک صدیوں پرانی کہانی ہے۔بادشاہ کو وہ وزیر ان پڑھ ضرور ہو گا مگر غیر
تعلیم یافتہ نہیں۔ مگر افسوس کہ صدیاں گزر جانے کے باوجودکچھ نہیں بدلا۔
وہی بادشاہ ہیں اور وہی وزیر ،گو ان پڑھ نہیں ، ان کے پاس بڑی بڑی ڈگریاں
ہیں مگر ڈگریوں نے ان وزیروں کا کچھ نہیں بگاڑا، یہ آج بھی تعلیم سے واقف
نہیں ، بیچارے غیر تعلیم یافتہ وزیر تعلیم ۔
ان پڑھ عام طور پر اس شخص کو کہا جاتا ہے جو تعلیم یافتہ نہیں ہوتا۔حالانکہ
یہ دو مختلف چیزیں ہیں۔ہر وہ شخص جو کسی نہ کسی طرح کوئی ڈگری یا سرٹیفیکیٹ
حاصل کر لیتا ہے پڑھا لکھا شمار ہوتا ہے جبکہ تعلیم ایک طرز زندگی ہے۔ اچھا
بولنا، اچھا کہنا، اچھا اٹھنا، اچھا بیٹھنا، اچھا طرز عمل، اچھا سلوک، یہ
سب تعلیم یافتہ ہونے کی نشانی ہے۔ مگر ہمارے ہائر ایجوکیشن کے وزیر ان تمام
خوبیوں سے عاری ہیں۔ ہر روز ان کے بارے کوئی نہ کوئی خبر اخبارات کی زینت
ہوتی ہے۔ یا تو وہ ابھی تک پوری طرح mature نہیں یا پھر انہیں اداکارہ میرا
کی طرح خبروں میں رہنے کا شوق ہے۔میں حیران ہوں کہ میاں شہباز شریف کہ جن
کے بارے مشہور ہے کہ وہ انتہائی مردم شناس ہیں اور اپنے وزرا ہی نہیں
افسروں کا انتخاب بھی بہت سوچ سمجھ کر کرتے ہیں، انہوں نے یہ گوہر نایاب
کہاں سے اور کیسے ڈھونڈھ لیا۔
وزیر ہائر ایجوکیشن کی عادتیں عجیب ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وزیر کی حیثیت سے
پنجاب بھر کی یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے ان کی راج دھانیاں ہیں اور یہ
ثابت کرنے کے لئے وہ وائس چانسلرز اور پرنسپلز جیسے عظیم مرتبہ لوگوں کو
بلاتے ہیں۔ آٹھ دس گھنٹے انتظار کرواتے ہیں اور اس کے بعد جب ملنے آتے ہیں
تو نہ شرمندہ ہوتے ہیں نہ معذرت کرتے ہیں۔ بلکہ ظاہر کرتے ہیں کہ بے پناہ
مصروفیت کے باوجود ان کا احسان سمجھا جائے کہ وہ ملنے کو آ گئے ہیں۔
چھٹی کے بعد جب تعلیمی اداروں کے طلبا، اساتذہ اور انتظامیہ کے لوگ گھروں
میں پہنچ چکے ہوتے ہیں توہمارے وزیر ہائر ایجوکیشن بغیر اطلاع اداروں میں
پہنچ جاتے ہیں اور پھر انتظامیہ سے پو چھ گچھ کرتے ہیں کہ انہیں وہ کشف
کیوں نہیں ہواکہ جس سے ان کی آمد کی اطلاع انہیں مل گئی ہوتی۔اب اس چیز کی
بھی انکوائری بہت ضروری ہے کہ قصور ،کشف کی طا قت عطا کرنے والے کا ہے کہ
اس انتظامیہ کا ہیکہ جنہیں کشف حاصل نہیں ہوا ۔ ویسے پنجاب پولیس جناب
شہباز شریف کے ایک اشارے پر کسی بھی انکوائری کا حسب ضرورت نتیجہ فقط دو دن
میں دے سکتی ہے اور ۔۔۔قیامت تک ملتوی بھی کر سکتی ہے۔
تعلیمی اداروں کے سربراہان کی ایک جگہ میٹنگ تھی۔ وزیر موصوف بھی تشریف
لائے۔ جس کمرے میں میٹنگ ہو رہی تھی اس کے دروازے پر دو چاک و چابند ،لمبے
اونچے، خوبرو نوجوان سیکورٹی پر معمور تھے۔ میٹنگ ختم ہوئی تو وزیر موصوف
نے ارشاد فرمایا ، مجھے یہ دو نوجوان سیکورٹی گارڈ پسند آ گئے ہیں۔ میں
انہیں ساتھ لے جا رہا ہوں۔ سب مسکرا کر ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے۔پتہ
نہیں وزیر صاحب کا تعلق کس مکتبہ فکر سے ہے۔ کوئی اور صوبہ ہوتا تو شاید
بات قابل برداشت ہوتی مگر پنجاب میں۔۔۔۔
مجھ وزیر صاحب کا ایک میٹنگ سے خطاب سننے کا اتفاق ہوا۔ میں سمجھتا ہوں
انہیں ہائر ایجوکیشن کے حوالے سے ابھی بہت تجربے اور ٹریننگ کی ضرورت ہے۔
ابھی معاملات کو سمجھنا اور اور اچھے انداز میں سلجھانا شاید ان کے بس کی
بات نہیں ۔ ان کے طرز گفتگو، طرز تخاطب اور لوگوں سے میل جول کے انداز میں
وہ اعجاز نہیں آیا جو اس عہدے کا تقاضہ ہے۔ چند دن پہلے ایک شاعرہ کی غزل
سن رہا تھا ایک شعر میں وہ دولت کہہ رہی تھیں مجھے لگا وزارت کہہ رہی ہیں
شعر تھا،
جو خاندان رئیس ہیں ، رکھتے ہیں نرم لہجہ
تمھاری گفتگو بتا رہی ہے یہ وزارت نئی نئی ہے۔ |