ویسے تو پاکستان میں مختلف شعبہ جات محرومی کا شکار ہے ۔
آج میں ایک خاص طبقہ کی حالت زار پہ رقم طراز ہوں ۔ جو بے قدری معاشرے نے
اور حکومتوں نے اساتذہ کو دی ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی ۔ دنیا
میں سب سے زیادہ عزت جس عہدہ کو حاصل ہے۔ وہ کسی وزیر یا سرکاری عہدہ دار
کو نہیں استاد کو حاصل ہے ۔ کہیں اٹلی میں اشفاق احمد کو عدالت میں کرسی
پیش کی جاتی ہے اور جج سمیت پولیس اور عملہ ایک استاد سے باوجود جرم کے
معافی مانگتا ہے ۔ اور دروازے تک انتہائی عزت سےرخصت کرتا ہے اسلام میں
استاد کا رتبہ ماں باپ سے بھی بلند ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ کر کے شاعر مشرق
علامہ اقبال نے دنیا کوحیران کردیا ۔ڈاکٹر علامہ اقبال کو جب شمس العلما ء
کا لقب دیا جا رہا تھا تو علامہ اقبال نے وہ لقب لینے سے انکار کر دیا ۔ جب
ان سے انکار کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے کہا پہلے میرے استاد میر حسن کو بھی
شمس العلما کا لقب دیا جائے اور وہ مجھ سے پہلے اس کے حق دار ہیں۔انھوں نے
کہا میرحسن کی کوئی تصنیف نہیں ہے ۔ تو علامہ اقبال نے کہا میر حسن کی
تصنیف میں خود ہوں ۔آج میں جو کچھ ہوں اپنے استاد کی وجہ سے ہوں ۔ آخر کار
ڈاکٹر علامہ اقبال کے اصرار پر ان کے استاد محترم کو اس لقب سے نوازدیا گیا
۔ کچھ لوگ کہتے ہیں ۔ آج کل وہ استاد نہیں رہے ۔میں کہتا ہوں لاؤ علامہ
اقبال کو میر حسن میں لے کے آتا ہوں ۔ لاؤ افلاطون کو ارسطو میں دیکھاتا
ہوں ۔سرسید کو علی گڑھ یونیورسٹی کی بنیاد کیوں رکھنا پڑی ۔ بہر حال معاشرہ
اور حکومت کا فرض ہے اساتذہ کو ان کا اصل مقام دیں ۔اسلامی معاشرے نے تو
استاد کو روحانی باپ قرار دیا ہے اور استاد کی اہمیت پر بہت زور دیا ہے
کیونکہ یہ پیشہ پیغمبری پیشہ ہے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
معلم انسانیت تھے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے جس نے مجھے ایک سبق بھی پڑھایا وہ
میرا استاد ہے۔ یعنی حضرت علیؓ جیسا عالی مرتبہ انسان جو خلیفہ وقت ہونے کے
ساتھ ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے داماد بھی تھے آپؓ نے استاد
کی اہمیت کے متعلق فرما کر استاد کی اہمیت کو امر کردیا۔ماہرانِ خصوصی یعنی
ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر اور سیاستدان تو بنائے جا رہے ہیں لیکن ان تعلیمی
اداروںمیں انسان کی اصل تعمیر نہیں ہو پارہی ہے۔ روح کے سکون کا ایک ذریعہ
تعلیم بھی ہے ، اور اگر صحیح معنوں میں یہ تعلیم ایک طالب علم کو نہ ملے تو
انسان جانوروں سے بدتر صورت اختیار کر سکتا ہے، جس کا عملی نمونہ آج ہم خود
بنے بیٹھے ہیں۔ ایک جگہ ایڈیسن لکھتا ہے کہ: ”سنگ مر مر کے ٹکڑے کے لیے جس
طرح سنگ تراشی ہے ویسے ہی انسانی روح کے لیے تعلیم ہے“۔
ایک اور جگہ پر فروبل لکھتا ہے کہ: ”تعلیم کا مقصد کھری، پُر خلوص، بے عیب
اور پاک وصاف زندگی بسر کرنے کے قابل بنانا ہے“۔ |