تعلیم اور تعلیمی ادارے

تعلیم وہ قیمتی جوہر ہے جس سے قوموں کی تقدیر کا ستارہ چمک اٹھتا ہے ،ان میں جہاں بانی اور حکمرانی کے اوصاف پیدا ہوتے ہیں، دنیا ان کی ٹھوکروں میں ہوتی ہے ،ترقی ان کے گھر کی لونڈی اور ان کی غلام ہوتی ہے ،انسانیت کا اکرام و احترام ان کی رگوں میں خون کی مانند دوڑنے لگتا ہے ،سماج و معاشرہ کی برائیاں انہیں جھنجوڑنے لگتی ہیں ،قوم و ملت کا ہر مسئلہ انہیں اپنے گھر کی کہانی معلوم ہونے لگتا ہے ،معاشرہ کے رستے زخموں پر مرہم رکھنا وہ اپنا فرض منصبی گردانتے ہیں،خیر خواہی و ہمدردی ان کے مزاج کا حصہ بن جاتی ہے ،ملک کی ترقی ووسائل اور ذرائع کی حصولیابی ،تحقیقات و انکشافات سے ملک کو بہرمند کرنا ان کی محبت اور دیوانگی ہوتی ہے ،مہذب افراد تعلیم ہی کی دین ہیں ،قوم و ملت کی ترقی کا راز تعلیم ہی میں پنہاں ہے ،تعلیم ہی ملک کی ترقی کا باعث ہے ،تعلیم ہی کائنات کے اسرار کو عیاں کرتی ہے ،زمین کی تہوں میں پوشیدہ معدنیات سے فائدہ اٹھانے کا سلیقہ عطا کرتی ہے اور دنیا کے تمام افراد کو ان کے فوائد سے محظوظ اور نقصانات سے بری ہونے کا فن عطا کرتی ہے،پوری دنیا کا جائزہ لے لیجئے احساس ہو جائے گا ،جو ممالک تعلیم سے خالی ہیں ،وہ کائنات کے منظرنامے پر کوئی حیثیت نہیں رکھتے، انہیں حاشیہ پر ڈال دیا گیا ہے ،ان کا زمانے میں کوئی مقام و وقار نہیں ہے ،ان کی کوئی حیثیت و وقعت نہیں ہے ،جو چاہتا ہے ،ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیتا ہے ،انہیں زیر نگیں کرلیتا ہے، محکومی و غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیتا ہے اور وہ اپنا دفاع کرنے پر بھی قادر نہیں ہو پاتے ،نہ ان کے پاس آلات حرب و ضرب ہوتے، نہ انہیں حاصل کرنے کا طریقہ ،نہ ان کے پاس اپنی حفاظت کی تدابیر موجود ہوتیں ،نہ عزت و ناموس کی حفاظت کا طرز عمل انہیں معلوم ہوتا ، تاریخی واقعات اس کیفیت کا اثبات کرتے ہیں ،اس کے بر خلاف امریکہ ،چین ،جاپان ،علم وسائنس سے لیس ہیں، دنیا بھر میں ان کی عظمت وقار اور حیثیت کا ڈنکا بجتا ہے ،ان کی طرف کوئی نگاہ اٹھا کر دیکھنے کی بھی جرأت نہیں کرتا ،ساری دنیا اپنے آپ کو ان ممالک کا محکوم خیال کرتی ہے ،اقوام متحدہ میں جو ان کی زبان سے نکلتا ہے ،حرف آخر گردانا جاتا ہے ،یہ سب علم ہی کا ثمرہ اور نتیجہ ہے ،ہمارا ملک آزادی کے ستر سال گذار چکا ہے ،خاطر خواہ نتائج تو برآمد نہیں ہو سکے ،مگر ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے ،پوری دنیا ہندوستان کو ترقی پذیر ملکوں میں شمار کرتی ہے ،ابھی اسے بہت سے معرکہ سر کرنا اور بہت سے میدان فتح کرنا باقی ہیں ،تعلیمی اعتبار سے ابھی وہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے کوسوں دور ہے ،جدید علوم ،سائنس و ٹیکنالوجی میں ابھی اس کے سوتے خشک ہی محسوس ہوتے ہیں ،ہندوستان کی تعلیمی شرح ابھی 75فی صد ہی ہے ،جبکہ دنیا کا منظرنامہ دیکھا جائے اور نوشتۂ دیوار پڑھا جائے تو کچھ اور ہی صورت حال ہے ،جس سے نگاہیں خیرہ ہو جاتی ہیں اور اپنی حقیقت وحیثیت کا احساس ہو جاتا ہے ،عالمی اعتبار سے تعلیمی شرح دیکھی جائے تو تقریبا 86فی صد ہے ،جس سے ہمارا ملک کافی پیچھے ہے اور سب سے زیادہ چونکانے والی بات یہ ہے کہ ہمارا ملک دنیا کے سب سے زیادہ جہلاء کو اپنے پیٹ میں رکھتا ہے ،یہاں تقریبا 18فی صد مرد اور 35فی صد عورتیں دنیا کی سب سے قیمتی شئے سے محروم ہیں اور اکثر لڑکیوں کا حال یہ ہے کہ دسویں جماعت کے بعد وہ اسکول کا چہرہ نہیں دیکھ پاتیں ، مسلمانوں میں تو لڑکوں کا بھی یہی عالم ہے ،جبکہ ہر ذی شعور فرد اس حقیقت سے باخبر ہے ،انسان روٹی کے بغیر چندایام زندہ رہ سکتا ہے اور اس کے قویٰ چند دنوں ساتھ دے سکتے ہیں ،تاریخ میں دو دو ماہ بھوکے پیٹ رہنے والوں کی مثالیں موجود ہیں ،مگر تعلیم کے بغیر وہ چلتی پھرتی لاش اور زمین پر بوجھ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ،جو ملک کی ترقی کا ذریعہ ہو سکتا ہے ،نہ قوم کی نیک نامی کا سبب ،نہ اس سے معاشرہ فیضیاب ہوسکتا ہے ،نہ سماج کی بہی خواہی کی امید اس سے کی جاسکتی ہے ، بڑے بڑے مفکرین و ماہرین ان حقائق پر بارہا روشنی ڈال چکے اور تعلیم کی اہمیت کو ثابت کر چکے ،اس کے باجود ہمارے ملک کا عالم یہ ہے کہ اس وسیع و وعریض دھرتی اور ایک عرب اٹھائیس کروڑ افراد کا بوجھ اپنے سینہ پر برداشت کرنے والے ملک میں تقریبا صرف 440یونیورسٹیز ہیں ،جن میں بعض کا عالم یہ ہے کہ غریب مفلس و نادار تو دور کی بات درمیانی طبقہ کے افراد بھی وہاں کے اخراجات کو برداشت کرنے پر قدرت نہیں رکھتے اور بے بس لاچار مایوس اپنی آرزؤوں، تمناؤں اور خواہشوں کا بوجھ لادے نکل پڑتے ہیں، پیٹ کی آگ بجھانے ،بہت سے صلاحیت مند قابل ، ملک کی ترقی کا ذریعہ ثابت ہونے والے ،اس صورت حال سے دوچار ہوتے ہیں اور گمنامی کے ایسے دلدل میں گرجاتے ہیں جس سے وہ کبھی نہیں نکل پاتے اور اسی میں غرق ہوکے رہ جاتے ہیں ،نہ تاریخ کے اوراق انہیں سینہ پر رقم کرتے اور نہ سماج و معاشرہ ان پر ماتم کناں ہوتا ،بس چند افراد چند ایام اس قصۂ پارینہ سے لطف حاصل کرتے ہیں اور وہ تاریک ماضی کا حصہ ہوجاتا ہے اور یہ سلسلہ یوںہی جاری ہے ،ان سب کے باوجود سب سے بڑے کمال کی بات یہ ہے ،موقع پرست مطلب کے بندہ کچھ اور ہی راگ الاپتے ہیں اور اس جہالت کو تعداد کی کثرت کا لبادہ اوڑھانے کی کوشش کرتے ہیں ،ان کی نظر میں افراد کی کثرت تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بن گئی ہے ،جب کہ چین اس دعوے کو غلط ثابت کررہا ہے ،ہمارے ملک سے زیادہ افراد کا مسکن اور تعلیمی شرح 96.4فی صد عورتیں بھی کثیر تعداد میں تعلیم یافتہ جس کے اثرات کا ہم کھلی آنکھوں مشاہدہ کرسکتے ہیں ،دنیا کی کسی طاقت کا اس کے سامان چراغ نہیں جلتا، صنعت و حرفت میں وہ اپنی مثال آپ ہے، ہمارے یہاں تو رونا یہ ہے ،اتر پردیش ہندوستان کی سب سے عظیم ریاست یونیورسٹیز کی تعداد 50سے بھی کم، جبکہ کرہ ارضی کو دیکھا جائے تو کئی ملک میں اس سے کم تعداد میں افراد آپ کو نظر آئیں گے ،خود امریکہ صرف 33کروڑ افراد کا مسکن ہے اور 247مرکرزی ادارے ہیں ،جن کی مثال پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے اور پھر ان کے ذیلی ادارے انتہائی اعلیٰ معیار کے حامل اگر دیکھ لیں تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں اور وکاس نامی غبارے کی ہوا پل میں نکل آجائے ،ایک پل ٹھہر کر ان تمام باتوں پر غور کیجئے، کتنا مشکل ہے ،اعلیٰ تعلیم کا حصول اور کتنا صبر آزما ہے، اپنی خواہشوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ،کتنی تکالیف کو جھیلنے کے بعد ایک طالب علم یونیورسٹی کے دروزاے پردستک دیتا ہے، گھر بک جاتے ہیں عزتیں نیلام ہوجاتی ہیں ،کمر ٹوٹ جاتی ہے ،حوصلے ریزہ ریزہ ہوجاتے ، بہت سے تو دل مسوس کررہ جاتے ہیں مگر جو آگے بڑھتے ہیں ،انہیں محنتوں کا صلہ کیا ملتا ہے ،اداروں کی مسموم فضا ،فرقۂ خاص کی غنڈہ گردی ،فکر و احساس کی غلامی ،جمہوریت میں آمریت کی نشانیاں ،کیا اس لئے یہ قربانی پیش کی گئیں ،کیا اسی لیے گھروں کو بیچا گیا ،کیا اس لئے بوڑھا باپ رکشا کھینچ رہا ہے ،کیا اسی لیے کمزور بوڑھی ماں محلے کے برتن دھورہی ہے سلائی کررہی ہے ،کیا اس کی بوڑھی آنکھیں سوئیں کے باریک ناکے کو دیکھ سکتی ہیں ،مگر بیٹے کی ترقی کا خواب ،اس کی کامیابی کی خواہش ان بجھتے دیوں کو بھڑکنے پر مجبور کئے ہوئے ہے ،یہ کوئی افسانہ نہیں ، وہ تلخ حقیقت ہے ،جس کا مشاہدہ کرنے کے لئے میلوں کا سفر درکار نہیں ہے ،بلکہ ہر شخص اپنے قرب و جوار میں ایسی مثالیں تلاش کرسکتا ہے اور جس کی آنکھیں سماج میں ایسے افراد کو نہ دیکھ سکتی ہوں ،وہ اپنی عینک تبدیل کرلیں حقائق نظر آجائیں گے ،روہت وومیلا کا خون ،کنہیا کمار پر مظالم کی بوچھار جے این یو کی بدنامی ،نجیب کی گمشدگی ،کشمیری طلبہ کا استحصال ،کیا یہ صورت حال ملک میں تعلیم کی فضا کو عام کرے گی ،جہاں خوف و ہراس کے ہیبت ناک بادل ہیں اور انصاف تحریر سے باہر وجود پذیر ہی نہیں ہوا، ابھی یہی فیصلہ ہورہا ہے ،روہت وومیلا دلت تھا یا نہیں ،اس کے قتل کے اسباب سے آنکھیں پھیر لی گئیں ،اس کو قتل پر آمدہ کرنے والے دندناتے پھر رہے ہیں ،جن کی جانب اس نے اپنے خط میں اشارہ کیا سب مست ہیں ،کنہیا ابھی ادارے سے اخراج کی تکلیف جھیل رہا ہے اور پروپیگنڈا کرنے والے مزے میں ہیں ،نجیب کو گم ہوئے چار ماہ ہونے کو ہیں ،برائے نام بھی پولیس کے پاس کچھ نہیں ہے ،ایک روتی بلکتی دہلی کی گلیوں کی خاک چھان گئی، ہمارے سیاسی رہنماؤں کے منھ پرتالے پڑے رہے ،کشمیری طلبہ پر ظلم کرنے والوں کو کیا سزا ملی کوئی خبر نہیں ہے ؟اور اب دہلی یونیورسٹی میں اے بی وی پی کے طلبہ نے مارپیٹ کی ،کرن ریجو نے یہ تو کہہ دیا کہ اظہار راے کی آزادی ملک کی مخالفت کی اجازت نہیں دیتی ،انہیں طلبہ سے مار پیٹ کرنا ہنگامہ کرنا ملک کے خلاف نظر نہیں آیا ،مخالفت پر بلاتکار کی دھمکی دے دینا ان کی نگاہ میں روا ہے اور اس کے بعد پونے یونیورسٹی میں اس طرح کی صورت حال کی خبر سنائی پڑی ،کیا یہ تعلمی ترقی میں رکاوٹوں کے اسباب نہیں ہیں ،کیا یہ ملک کو تنزلی و انحطاط کی جانب دھکیلنے والی چیزیں نہیں ہے ،کون اتنی محنت مشقت جد و جہد کے بعد فکر خاص کا غلام ہونا پسند کرے گا ،کیا اس کی محنتوں کا صلہ یہی ہے ،کاش ہمارے ملک میں ہر چیز سیاسی پیمانے پر نہ ناپا جاتا ، تو انصاف مل چکا ہوتا روہت کو نجیب کو کنہیا اور رامجس کالج کے طلبہ کو اور تعلیمی ترقی پر مشکلات کے بادل چھٹ گئے ہوتے ۔اگریہی صورت حال برقرار رہی ،اور اداروں کی فضاء مسموم ہوگئی ، تو ملک کو مشکل ترین حالات کا سامنا کرنا پڑے گا ،ترقی کا پہیا روک جائے گا ،جہالت کا دور دورہ ہوگا اور ملک صدیوں پیچھے چلا جائے گا ،اس لیے حکومت وقت اور باثر شخصیات سنجیدگی کے ساتھ اس صورت حال کا مقابلہ کریں اور طلبہ کو سیاست مخالفت ،مد مقابل اور مخالف کا فرق سمجھائیں اور اس دوراہے پر اپنی ناک کے بجائے ملک کی ناک خیال کریں، اداروں میں پھیلتی اس وبا کو فنا کے گھاٹ اتاردیں ،ورنہ نتائج کا انتظار کریں اور اپنی تباہی کا منظر دیکھنے کے لئے آنکھیں کھلی رکھیں ۔

Rahat Ali Siddiqui
About the Author: Rahat Ali Siddiqui Read More Articles by Rahat Ali Siddiqui: 82 Articles with 75624 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.