فقیر حسین زندگی کی75بہاریں دیکھ چکا ہے بھکر کی تحصیل
کلور کوٹ کے گاؤں 57۔ڈی بی کا رہائیشی ہے تقریبا40سال قبل پیپلز پارٹی کے
بانی ذوالفقار علی بھٹونے نے اپنے دور اقتدار میں غریب اور بے زمین کسانوں
کو ساڑھے باری ایکڑ زمین الاٹ کی تھی اور فقیر حسین کو بھی اسی گاؤں میں
غیر آباد اور بنجر زمین الاٹ کردی گئی مزدور اور محنت کش فقیر حسین نے سخت
محنت کے بعد دو ایکڑ زمین آباد کرکے فصل بیج دی اور خود گھر کے اخراجات
پورے کرنے کے لیے کراچی میں محنت مزدوری کرنے چل پڑا شہر میں ابھی پہلا ہی
روز تھا کہ کسی ہمدرد نے کھانے کے لیے کوئی چیز دی جسے کھاتے ہی فقیر حسین
بے ہوش ہوگیا جب ہوش آیا تو خود کو ایک پہاڑی علاقے میں پایا جہاں پر اس
جیسے اور بھی بہت سے افراد موجود تھے جنہیں صبح پتھر توڑنے کے کام پر
لگادیا جاتا اور شام کو پاؤں میں زنجیریں ڈال کر جانوروں کی طرح باندھ دیا
جاتامسلسل 9سال تک پتھر توڑتے توڑتے ایک رات فقیر حسین کو بھاگنے کا موقعہ
مل گیا اور وہ مسلسل 17روز پیدل چلتا رہاپیسے نہ ہونے کے باعث بغیر کچھ
کھائے مسلسل چھ دن گذرنے کے بعد ساتویں دن کسی نیک دل خاتون نے ترس کھاتے
ہوئے ایک روٹی دی اور پھر کراچی پہنچ گیا کسی سے کرایہ کے پیسے لیکر واپس
اپنے گاؤں پہنچا تو وہاں کی دنیاہی بدل چکی تھی دو بیٹے پیسے نہ ہونے کی
وجہ سے مناسب علاج نہ ہونے پر انتقال کرچکے تھے والدین بیٹے کے انتظار میں
دنیا سے کوچ کرگئے جبکہ گاؤں والے اور رشتہ دار اسے مردہ قرار دے کر ختم
وغیرہ دلا چکے تھے مشکلات تھی کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی اسی
علاقے کے ایک قبضہ گروپ نے اسکی زمین پر قبضہ کرلیا تھااور پھر شوہر کے
ہوتے ہوئے بیگم بھی مزید صدمے برداشت نہ کرسکی اور دنیا فانی سے کوچ کرگئی
فقیر حسین نے اپنی زندگی کی آخری امید اپنی زمین کو قبضہ گروپوں سے چھڑوانے
کے لیے عدالت میں کیس دائر کردیا اور اپنی زندگی کی محرومیوں کو ختم کرنے
کے لیے شادی کرلی جس سے ایک بیٹی پیدا ہوئی اور وہ بھی اب 30 سال کی ہوچکی
ہے بچی کی پیدائش سے قبل ہی فقیر حسین اپنی زمین قبضہ گرویوں سے چھڑوانے کے
لیے پہلے بھکر اور بعد میں لاہور میں مارا مارا پھرتا رہا دربار داتا صاحب
سے لنگر کھا کر پیٹ بھر لیتا کسی نہ کسی جگہ مزدوری کرکے رات بھی دربار کے
احاطہ میں سو جاتا مگر قبضہ گروپ بااثر ہونے کی وجہ سے تاریخ پر تاریخ پڑتی
رہی اور بم دھماکوں نے لاہور سمیت پورے ملک کے حالات خراب کردیے پولیس نے
دربار داتا صاحب کے احاطہ میں سونے والوں کو تنگ کرنا شروع کردیا کسی کو
پکڑ کر کسی نامعلوم مقدمہ میں جیل بھجوا دیا اور کسی کو ویسے بھگا دیااس
سختی کے بعد فقیر حسین کے پاس بھی کوئی رہنے کا ٹھکانہ نہ رہا تو وہ واپس
اپنے گاؤں چلا گیا 35سال ہوگئے کیس لڑتے ہوئے ہر ماہ پیشی بھگتنے وہ بھکر
سے لاہور پہنچتا ہے یہاں تک آنے کا صرف کرایہ ہوتا ہے وہ بھی کسی نہ کسی سے
ادھار کی شکل میں ملتا ہے اور واپس پھر جانے کے لیے فقیر حسین کو کم از کم
چار یا پانچ دن لاہور میں رکنا پڑتا ہے بڑی مشکل سے واپسی کا کرایہ اکٹھا
ہوتا ہے تو پھر واپس اپنے گاؤں چلا جاتا ہے میری فقیر حسین سے ملاقات بدھ
کے روز کلب چوک میں واقع وزیراعلی کے دفاتر کے باہر مین گیٹ کے قریب ہوئی
جہاں پر وہ انصاف کے حصول کے لیے لکھی ہوئی درخواست ہاتھ میں پکڑے اندر
جانے کے لیے بے قرار تھا میں نے وہاں پر لائن میں ایک سو سے زائد افراد کو
دیکھ کر ان میں سے چند افراد کے ساتھ بات کی کہ آپ لوگ یہاں پر کیوں اور کب
سے کھڑے ہیں اور کس سے ملنا ہے ان میں سے اکثریت کو یہ تو معلوم ہی نہیں
تھا کہ انہوں نے کس سے ملنا ہے مگر اتنا سب کو معلوم تھا کہ یہاں پر
وزیراعلی پنجاب نے عوام کی مشکلات کے حل کے لیے شکایت سیل بنا رکھا ہے
جنہیں وہ اپنی مشکلات کے حل کے لیے درخواست دینگے اور انکے مسائل فوری حل
ہوجائیں گے مگر یہ نادان اور ناسمجھ لوگ نہیں جانتے کہ انکے اپنے ووٹ کے
زریعے برسراقتدار حکمران انہیں تکلیف میں رکھ کر خود مزے اور سکون سے زندگی
کے مزے لوٹ رہے ہیں اور جو انہیں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچاتے ہیں وہ اپنی
پوری زندگی ایک چھوٹے سے مسئلہ کو حل کروانے کے لیے کبھی لمبی لائنوں میں
لگ کر شکایت سیل پہنچتے ہیں تو کبھی پولیس کے دھکے اور گالی گلوچ برداشت
کرکے زندگی کی تلخیوں کو پیتے ہیں وزیراعلی کے دفاتر آنے والے سینکڑوں
افراد کا تعلق پنجاب کے دور دراز کے علاقوں سے ہوتا ہے اور مسلسل 8اور 10
گھنٹے سفر کے بعد جب یہ مظلوم اور حالات کے پسے ہوئے افراد کلب چوک مین گیٹ
پر پہنچتے ہیں تو یہاں پر حکمرانوں کی سیکیورٹی کے نام پر انہیں خوب ذلیل
وخوار کیا جاتا ہے دو یا تین گھنٹے کی کھجل خواری کے بعد جب یہ کسی کے پا س
اپنی شکایت لیکر پہنچتے ہیں تو وہ بھی اپنے روایتی انداز میں درخواست انہیں
افراد کو مارک کردیتے ہیں جن کے خلاف انکی شکایت ہوتی ہے فقیر حسین بھی
انہی فریادیوں میں سے ایک تھا جس پر میری نظر ٹہر گئی میں نے فقیر حسین
سمیت وہاں پر متعدد بزرگ افراد سے بات کی تو تقریبا سب کے مسائل ایک جیسے
ہی تھے میں نے ان مظلوم افراد کی بے بسی اور حکمرانوں کی بے حسی پر سٹوری
تیار کی اور اخبار میں دیدی اگلے دن اسی خبر پر5۔کلب روڈ پر موجود ایک دفتر
میں میٹنگ ہورہی تھی اور قدرتی طور پر میں بھی وہاں موجود تھا وہاں پر
وزیراعلی شکایت سیل کے تین ارکان اور ایک ڈی ایس پی بیٹھے ہوئے تھے جو اپنے
اندر کاغصہ خبر لگانے والے پر اتار کردلی سکون محسوس کررہے تھے بلکہ ایسی
خبریں لگانے والے تمام صحافیوں کے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کرنا شروع
کردیے جنہیں میں اگر لکھ دوں تو ایک نئی جنگ شروع ہوجائیگی مجھ سے کسی کی
بھی شناسائی نہ ہونے کی وجہ سے وہ خبر اور خبر لگانے والے کے متعلق بے ہودہ
گفتگو کرتے رہے مگر عوام کے مسائل کے حوالہ سے کوئی اقدام نہیں کیا وزیر
اعلی کے ان دفاتر میں وزیراعلی میاں شہباز شریف صاحب تو آج تک نہیں آئے مگر
ان دفاتر میں ایسے ایسے افراد کو وزیراعلی کے نام پر مراعات دے رکھی ہیں جو
آج تک حکومت یا عوام کی فلاح بہبود کے لیے کوئی کام نہیں کرسکے مگر دفتر ،سٹاف
،گاڑی،پیٹرول سمیت اور بہت سی مراعات سے لطف اندوز ہورہے ہیں غریب عوام کے
خون پسینے سے اکٹھا ہونے والا ٹیکسوں کا پیسہ ایسے افراد پر خرچ ہورہا ہے
جنکا عوام کو فائدہ ہے نہ ہی حکومت کو بلکہ جس وزیراعلی کے وہ مشیر بنے
ہوئے ہیں اس وزیراعلی کو ایک بھی مشورہ نہیں دیا اور نہ ہی ان میں سے اکثر
مشیروں کی وزیراعلی سے آج تک ملاقات ہوئی ہے مگر بیوروکریسی اپنی اپنی لابی
کے افراد کو نوازنے کے لیے غریب عوام کے ساتھ ظلم اور زیادتی کررہی ہے ایسے
سفارشی افراد نہ تو خود کسی کام کے ہیں اور نہ ہی یہ کسی کے کام آسکتے ہیں
الٹا یہ حکومت کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں کیونکہ راجن پور ،ڈیرہ غازی
خان ،رحیم یار خان،بہاولپور ،بھکر اور لیہ سمیت پورے پنجاب سے آنے والے
سائلین جن کے ووٹ سے شہباز شریف وزیراعلی بنے وہ انہی کے دروازوں پر ذلیل
وخوار ہورہے ہیں اور مفاد پرست پوری مراعات کے ساتھ عوام کی خواری کا تماشا
دیکھ رہے ہیں ۔ |