میں آفس سے آیا تھا، کھانے کے بعد باہر جاکر پان کی دکان
سے اپنے لیے پان اور گٹکا خریدا، گھر واپس آرہا تھا کہ آپی کا فون آیا،
انکی آواز سے پریشانی ظاہر ہو رہی تھی۔ میں نے پوچھا آپی کیا ہوا وہ بولیں
"تم اس وقت گھر آسکتے ہو؟ میں نے کہا ہاں بلکل، سب ٹھیک تو ہے نا؟ آپی نے
کہا ہاں! فی الحال تو ٹھیک ہے تم آجاؤ تو بات کرنی ہے، میں بائک لے کر آپی
کے فلیٹ پر پہنچ گیا۔ بیل بجائی تو آپی نے دروازہ کھولا، میں نے سلام کیا
ہم لاؤنج میں آگئے،ارسل بھائی آۓ نہیں؟ ،نہیں وہ تو میٹنگ کے لیے لاہور گئے
ہیں، کل تک آئیں گے، تم بتاؤ کھانا نکالوں؟ ،نہیں کھانا ابھی کھایا ہے میں
نے، آپ بتائیں کیا ہوا کوئی مسئلہ ہوا ہے اور یہ علی کہاں ہے؟ میں نے ادھر
ُادھر نظریں دوڑاتے ہوۓ پوچھا، اندر ہے، اپنے کمرے میں اسی کے بارے میں بات
کرنی ہیں سخت ناراض ہے مجھ سے وجہ بھی نہیں بتا رہا، تم اسکے کمرے میں جاؤ
میں چاۓ لے کر آتی ہوں۔ ُاس کے سامنے بات کریں گی؟ ہاں! تم چلو، ذرا دیکھو
وہ کیا کہتا ہے، میں نے کہا اچھا۔ میں ُاٹھا اور علی کے کمرے کی طرف
بڑھا،یوں تو علی 16 سال کا تھا مگر ہم ماموں بھانجے کم دوست زیادہ لگتے
ہیں، میں جاب کی وجہ سے مصروف تھا کافی دنوں سے اس سے ملاقات نہیں ہوئی
تھی،میں نے اس کے کمرے پر پہنچ کر ہلکی سی دستک دہ جواب نہیں آیا پھر بھی
میں دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا، علی اپنے بیڈ پر آنکھیں بند کیے لیٹا
تھا، اس کا کمرہ عجیب منظر پیش کر رہا تھا،بک شیلف کمرے کے ُاس کونے میں
پڑا تھا جہاں نسبتا کم روشنی تھی، صوفہ بلکل دروازے کے پاس، اس کا کمپیوٹر،
ٹیبل کے بجاۓ نیچے کارپٹ پر پڑا تھا، میں نے زور سے سلام کیا، میری آواز سن
کر اس نے فورا آنکھوں سے ہاتھ ہٹایا اور تیزی سے بیڈ سے ُاترکرآیا اور میرے
گلے لگ گیا، یہ اس کا خاص انداز تھا۔ میں نے بھی اسکو لپٹالیا۔ میرے سلام
کا جواب دے کر ناراضگی سے بولا، اتنے دنوں بعد آئے ہیں آپ، میں کتنا یاد کر
رہا تھا آپ کو، میں نے ہنستے ہوئے کہا، وہ تو ٹھیک ہے مگر ماموں کی ایسی
بھی کیا محبت کہ تم خود بھی مجنوں بن گئے اور کمرے کی بھی یہ حالت کی ہوئی
ہے سچ بتاؤ یہ میری محبت ہے یا کوئی اور چکر وکر ہے؟ میری بات سن کر اسکے
ہونٹوں پر ایک پھیکی سے مسکراہٹ پھیل گئی، کہنے لگا، آپ بیٹھیں بتاتا ہوں
اتنے میں آپی بھی چاۓ لے کر کمرے میں آگئیں۔ مجھے چاۓ دے کر وہ صوفے پر
بیٹھ گئیں اور علی سے مخاطب ہو کر کہنے لگی اب بتاؤ کیا مسئلہ ہے؟ مجھے تو
نہیں بتایا ماموں کو بتا دو۔ علی نے ناراضگی سے نیچے دیکھ ریا تھا، پھرمیری
طرف دیکھ کر کہنے لگا، ماموں آپ ہی بتائیں، کیا آپکو اچھا لگے گا کی کوئی
ایرا اغیرا آکر آپ کے کمرے کی ترتیب بدل دے؟ میں نے کہایقینا نہیں! علی نے
کہا،امی کی کہنے پر ہمارۓ پڑوس کی آنٹی نے آکر میرے کمرے کی یہ حالت بنا دی
ہے، بھلا کوئی کسی اور کی ملکیت میں کیسے دخل اندازی کر سکتا ہے؟ اور تو
اور اگر کوئی اچھی سیٹنگ کرتیں تو بات بھی تھی، آپ ذراغور کریں انہوں نے
میرے اچھے خاصے کمرے کو نمونہ بنا دیا ہے نہ صرف سیٹنگ تبدیل کی بلکہ میری
چیزوں کو نقصان بھی پہنچایا، یہ میرا ہیڈ فون کا تار خراب کر دیا، میری دو
سی ڈیزتوڑ دیں، ُاس پر امی کہتی ہیں کوئی بات نہیں۔ مجھے اپنےکانوں پر یقین
نہیں آرہا تھا، آپی ایک ذمہ دار اور سجھ دار عورت ہیں، یقینا علی کو کوئی
غلط فہمی ہوئی ہو گی، میں نے کہا،" علی ایسے نہیں ہو سکتا، آپی ایسا نہیں
کر سکتیں اچانک آپی بولیں، سرمد! ہاں میں نے ایسے ہی کیا ہے۔ یہ الفاظ نہیں
تھے بم کاگولہ تھے، آپی اس طرح کی ناسمجھی کی حرکت کس طرح کر سکتی ہیں؟ میں
شدید حیران ہوا، مگر کیوں آپی، ایسا کیوں کیا آپ نے؟ آپی نے ٹھنڈی آہ بھر
کی کہا " کیوں کہ علی بھی کسی اور کی ملکیت میں اپنی ٹانگ اڑاتا ہے، جب یہ
دوسروں کی مداخلت برداشت نہیں کرسکتا تو خود وہی کام کیوں کر تا ہے؟ اس بار
حیران ہونے کی باری میری تھی، جہاں تک میں علی کو جانتا ہوں وہ ایک
فرمانبردار اور سلیقہ مند لڑکا ہے جو صرف اپنے کام سے کام رکھتا ہے، آپی!
علی ایسا نہیں کرسکتا۔ علی جو ماں کے الزامات سن کر ہکا بکا تھا میری حمایت
پاکر اسکی ہمت بندھی اس نے کہا، اماں میں نے کب کسی کی چیزوں میں دخل
اندازی کی ہے؟ کبھی نہیں یہ جواب سن کر آپی کے چہرے کا رنگ بدل گیا اس نے
نہایت غصے سے کہا، علی تم کو اپنے کمرے کی حالت بری لگی تو تم اتنا ناراض
ہوگۓ تو کیا وہ اللہ ناراض نہیں ہوگا جب تم اس کی عطا کی ہوئی زندگی کو یہ
سب کھا کر برباد کروگے؟ نہ کہہ کر آپی نے ہاتھ کھولا تو اس میں گٹکے کا
پیکٹ تھا۔
تھوڑی دیر کے لیئے مجھے اور علی کو سانپ سونگھ گیا۔ مجھے چپ دیکھ کر آپی نے
کہا، سرمد تمہارا لاڈلا گٹکا کھانے لگا ہےاور علی کتنا برا لگتا ہے نا جب
کوئی آپ کی چیز کو تباہ کرے، تمہارا جسم تمھارے پاس اللہ کی امانت ہے اورتم
سب جانتے ہو کہ یہ گٹکا، پان ، چھالیہ اور سگریٹ کسی طرح بھی صحت کے لیے
اچھا نہیں باوجود اس کے تم نے یہ عادت اپنا لی،صحت کا تباہ ہونا ایک طرف تم
تو اللہ کی امانت میں دیدہ دلیری سے خیانت کرنے لگے ہو۔ 98٪ منہ کا کینسر
انہی چیزوں کے سبب ہوتا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کینسر کا مطلب موت ہے۔ اور
اس طرح کا کینسر جو آپ کی اپنی غلط عادات کی وجہ سے ہو تو تقدیر نہیں بلکہ
خودکشی ہے۔ اور میں اپنی آنکھوں کے سامنے تمہیں مرتا نہیں دیکھنا چاہتی
ہے۔۔ آپی کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اسکی آواز درد کی شدت سے تھرا رہی
تھی۔ میں تو خود گٹکا کھاتا تھا میں اسے کیا کہتا، علی اور میں ندامت میں
ڈوبے نیچے دیکھے جا رہے تھے۔ آپی نے آنسو پونچھے اور خود کلامی کی سی کیفیت
میں کہنے لگی، اللہ جو ہم سے 70 ماوؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے، کہتا ہے میرے
بندے تجھے کانٹا بھی چبھ جاۓ تو میں تجھے نیکی دوں گا اور ہم کتنے ظالم ہیں
کہ ہم جان کر اسکے جسم کو اذیت دے رہے ہیں۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر آپی اپنی جگہ سے
اٹھی اور ایک لفافہ لاکر ہم دونوں کے سامنے رکھ دیا،اور کہا "اگر آج بھی اس
موذی چیز سے جان چھڑانے کا ارادہ نہیں ہے تو یہ دیکھ لینا تم لوگوں کا ایک
اذیت ناک مستقبل۔ لفافہ دے کر آپی کمرے سے چلی گئیں۔ میں نے علی کی طرف
دیکھا جس کی آنکھوں میں آنسو جھلملا رہے تھے۔ میری دلی کیفیت بھی کچھ ایسی
تھی۔ مٰیں نے لرزتے ہاتھوں سے لفافہ کھولا اس میں منہ کے کینسر کی تصاویر
تھیں، تصاویر بھی ایسی جنکو دیکھ کر جی متلانے لگا۔ وہ منہ جس سے ہم ذائقوں
کے مزے اڑاتے تھے، وہی منہ چھالوں سے بھرا ہے،
کسی زخم سے خون رس رہا ہے
کسی میں پیپ ٹپک رہا ہے۔
۔کسی میں سرے سے گوشت ہی غائب ہے۔
اف کس قدر خوفناک مناظر تھے جسم پر جھجھری طاری ہو گئی، رونگھٹے کھڑے
ہوگئے۔۔۔ ان تصاویر کہ آخر میں ایک اور صحتمند زبان کیتصویر تھی جس کے نیچے
آپی کی لکھائی میں کچھ لکھا تھا،
صحت کوغنیمت جانو بیماری سے پہلے۔۔۔آگے سورۃ رحمن کی آیت لکھی تھی
تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا جھٹلاؤ گے
بس۔۔۔یہ پڑھنا تھا میرے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے۔۔۔میں اس پرچے کو آنکھوں سے
لگا کر اتنا رویا۔۔اتنا رویا کہ میری ہچکیاں بندھ گئی۔۔ علی!۔۔کتنے نافرمان
ہیں ہم۔۔ ہم چند لمحوں کی لذت کے لیے اللہ کو کتنا ناراض کررہے ہیں۔۔ اور
نہ صرف خود اذیت اٹھاتے ہیں بلکہ اپنے پیاروں کو بھی رلاتے ہیں۔۔۔ میری بات
سن کر علی ُاٹھا اور بولا ماموں! ابھی دیر نہیں ہوئی، آئیں اللہ کے حضور
معافی مانگتے ہیں۔۔ہم اب اسکی امانت میں خیانت نہیں کریں گے۔۔جس طرح ہم روز
ے میں اپنے آپ پر قابو رکھتے ہیں اس طرح عام دنوں میں بھی احتیاط کریں گے۔۔
میں بھی اپنی جگہ سے اٹھا اور جیب سے پان اور گٹکا نکال کر ڈسٹ بن میں ڈال
دیا۔۔علی نے بھی یہی کیا۔۔اتنے میں عشاء کی اذان کی آواز کانوں سے ٹکرائی
۔۔ایسا لگا اللہ کہہ رہا ہے ۔۔آجا میرے بندے! آجا۔۔بھلائی کی طرف۔۔۔۔۔
واقعی۔۔۔ ابھی دیر نہی ہوئی۔۔ میں اور علی نئے عزم سے مسجد کے لیے روانہ
ہوگئے۔۔
نیکی کی بات آگے پہنچانا بھی صدقہ ہے۔اللہ ہم سب کو اللہ کو راضی کرنے اور
اسکی امانت کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ |