سلمان نے ستار صاحب سے آنکھیں نہیں ملائے --- چائے کا کپ
ویسے کا ویسا ہی ٹیبل پر بھرا پڑا تھا ---- ماحول میں اس وقت سکوت تھا ---
سب کچھ پل میں اجنبی سا ہو گیا تھا--- فین آن تھا جس کی آواز کمرے میں رہ
گئی تھی--- وقت جیسے رک سا گیا تھا --- سلمان کمزور ہونے سے پہلے ہی اپنی
طاقت سمیٹ چکا تھا --- وہ وقت کے حقیقت کو پڑنا شروع ہو گیا تھا--- وقت جو
سبق آہستہ آہستہ پڑھا تا ہے سلمان پر بڑی تیزی سے اس نے حملا کر دیا تھا
--- کچھ میں بھی زیر دست اوپر سے طوفان بھی زبردست ---- اس کے دل نے اپنی
ہم عمر لوگوں کی طرح سوچنا چھوڑ دیا تھا---- دل نے صاف صاف کہہ دیا تھا ---
تم جانو تمہارا کام جانے --- سلمان نے دیوار پر لکھی تحریر کو پڑھ لیا
تھا--- کیونکہ اس کے اندر کی بینائی بلکل ٹھیک کام کر رہی تھی --- میں نے
آنکھوں کو مانا کر رکھا ہے-- کوئی بھی خواب دیکھنے سے---- لوگوں سمجھتے ہیں
میں بے خوابی کا شکار ہوں ---
بیٹا ایک بات کہتا ہوں ---
ستار صاحب کو شاید کوئی پچھلی بات یا اس کی بھائی کا کیا ہوا کوئی احسان
یاد آ گیا تھا---
انسان کو سہارے کی ضرورت نہ بھی ہوں تو بھی بے سہارا رہنا آسان نہیں
ہوتا----
سلمان نے ایک لمبی سانس لی اور زبردستی مسکرایا----
انکل بے فکر رہئے میں بے سہارا نہیں ہوں --- ہوں بھی تو کسی اپنے سے سہارا
نہیں مانگوں گا --- اور ہاں --- میں آپ کو بھی اپنا سمجھتا ہوں ----
اسے پتا ہی نہیں چلا ک کب اس نے دروازہ ان لاک کیا اور کمرے کی قید اور
ماضی کی دنیا سے نکل آیا --- وہ سوچ رہا تھا دونوں ایک ایک بوجھ سے آزاد ہو
گئے -- وہ میرے بھائی کے بوجھ سے---- جانے کیوں لوگ مرنے والے کی باتوں کا
اتنا خیال رکھتے ہے--- ان کی یادیں ، کپڑے، جوتے، تصویرے، اور ٹوپی وغیرہ
سنبھال سنبھال کر رکھتے ہیں ---- اور جو لوگ ان کے ساتھ ساتھ جی رہے ہوتے
ہیں ---- ان کی کوئی فکر نہیں بلکہ ان سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں اور جو
لوگ جائے تو ان کی چیزیں چھین لیتے ہیں --- --
سلمان اب بس گھر سے نکلنے والا تھا----- اس کا کڑا وقت اب ختم ہونے والا
تھا ---- آخری دروازہ کھول کے جو یوں ہی باہر نکلا ----
سلمان---
اپنا نام پکارے جانے پر اس کے قدم زمین پر جم سے گئے---- جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|