ہم وی آئی پی (VIP) کلچر کے حامی نہیں بلکہ ہم نے تو کسی
وی آئی پی کو قریب سے دیکھا بھی نہیں۔ ایک عام آدمی ہوں اور ایک عام آدمی
صرف سڑکوں پر یا کسی جلسے میں وی آئی پی پروٹوکول دیکھ سکتا ہے۔ وی آئی پی
سڑکوں پر کس ٹھاٹھ سے فرفر کرتے گاڑیاں ڈوڑاتے چلے جاتے ہیں یا پھر کسی
جلسہ گاہ میں جب سارے لوگ دھوپ میں جھلس رہے ہوں تو وی آئی پی اے سی لگے
کنٹینرمیں یا شامیانے کے نیچے ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کے مزے لے رہے ہوتے ہیں۔
ہماری طرح ہرعام آدمی کے دل میں بھی خیال آتاہوگا کہ کاش ہم بھی وی آئی پی
ہوتے۔ خیر اللہ کا شکر ہے کہ ہم عام آدمی ہیں اور اللہ نے ہمیں ایمان کی
دولت سے بھی نوازاہے۔
آج ہم وی آئی پی نہیں ہیں۔ لیکن پیارے نبی ﷺ کے فرمانِ عالیشان کے مطابق ہم
اپنے ایمان‘ اخلاق اور اعمالِ صالح کے ذریعےمندرجہ ذیل کسی بھی ایک کٹیگری
میں شامل ہو کر قیامت کے دن اللہ کے وی آئی پی اور مہمان خصوصی بن سکتے ہیں
اور وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ عرشِ الٰہی کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں میں مزے
لے سکتے ہیں ۔قیامت کا دن دنیا کی پچاس ہزار سالوں کے برابر ہوگا ‘ جس دن
سورج بہت نزدیک ہو گا جس کی ہولناک اور تباہ کن گرمی سےلوگوں کے دماغ پکنے
لگیں گے اور لوگ اپنے اپنے گناہوں کے حساب سے کوئی گھٹنے تک‘ کوئی کمر تک
اور کوئی کندھے تک اپنے ہی پسینے میں ڈوبے ہونگے ۔۔ ۔۔لہذا دنیا کے وی آئی
پی بننے کے بجائے ہم عام لوگوں قیامت کے دن وی آئی پی بننے کی سعی کرنی
چاہئے۔
رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا:
سات ( کٹیگری کے) آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے (عرش کے) سائے
میں جگہ دیں گے‘ جس دن کہ عرش ِ الٰہی کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا
(یعنی قیامت کے دن) اور وہ سات آدمی یہ ہیں:
1۔۔۔ عادل حکمراں‘
2۔۔۔ وہ نوجوان جو اپنے رب کی عبادت میں جوانی کی امنگ سے مصروف رہا‘
3۔۔۔وہ شخص جو مسجد سے نکلے تو اس کا دل مسجد میں اٹکا رہے‘یہاں تک کہ
دوبارہ مسجد میں چلا جائے‘
4۔۔۔ وہ دو آدمی جنہوں نے محض اللہ تعالیٰ کی خاطر آپس میں دوستی کی‘ اس کے
لئے جمع ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے‘
5۔۔۔ وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا تو اس کی آنکھیں بہہ
پڑیں‘
6۔۔۔ وہ شخص جسے کسی باعزت اور حسین عورت نے ( برے ارادہ سے ) بلایا لیکن
اس نے کہہ دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں،
7۔۔۔ اوروہ شخص جس نے صدقہ کیا تو اس کو ایسا چھپا یا کہ اس کے بائیں ہاتھ
کو بھی پتا نہ چلا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا؟“۔ (ترمذی‘ ج:۲‘
ص:۶۲)
بے شک ہم سب دنیا اور آخرت دونوں میں اللہ کا سایہ کے طلب گار ہیں۔ قیامت
کا دن بڑا سخت اور مشکل ہوگا۔ اس دن کوئی سایہ نہیں ہوگا‘ سوائے عرشِ الٰہی
کے سائے کے۔ عرشِ الٰہی کے سائے میں ہونے کا مطلب ہے قیامت کی ہولناکیوں
سے‘ ہر سختیوں سے محفوظ و مامون ہونا۔ تو کیا ہم ان سات خصوصی اقسام کے وی
آئی پی میں سے کسی ایک میں شامل ہوکر عرشِ الٰہی کے سائے میں جگہ پا سکتے
ہیں؟
آئیے دیکھتے ہیں ان سات اقسام کے وی آئی پی کے کیا خصوصیات ہیں اور ہم اپنے
اندر اِن خصوصیات کو کیسے پیدا کر سکتے ہیں:
1۔۔۔عادل حکمران :
ضروری نہیں کہ کسی کو ملک کی حکمرانی ملے یا کوئی منصف کے عہدے پر فائز ہو
بلکہ حدیث میں ہے کہ
’’ مسلمانو! تم میں سے ہر ایک حکمراں ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کی نسبت
سوال کیا جائے گا‘‘ (مشکوٰة،ص:۳۲۰)
لہذا اس حدیث کے مطابق ہر عورت مرد حکمراں ہے اور کسی طرفداری یا تعصب کے
بغیر عدل و انصاف سے اپنے ماتحتوں سے معاملات کرنا اور خاص کر نفرت و دشمنی
دکھانے والوں کے ساتھ انصاف کا سلوک ایک عام انسان کو بھی عادل حکمراں یعنی
اللہ کے وی آئی پی کے فہرست میں شامل کر دیتا ہے ۔
2۔۔۔ وہ نوجوان جو اپنے رب کی عبادت میں جوانی کی امنگ سے مصروف رہا:
جوانی اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے ۔ اللہ تعالیٰ جوانی کی عبادت کو بہت
پسند کرتا ہے اور عبادت گزار نوجوان سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے ۔ لیکن زیادہ
تر لوگوں کو جوانی میں عبادت کا خیال ہی نہیں آتا اور پڑھاپے میں جبکہ قویٰ
کمزور اور دنیا کی رنگینیاں معدوم ہونے لگتی ہے تو عبادت میں لگتے ہیں۔
جبکہ قیامت کے دن ہم سے پوچھا جائے گا: ’’ اپنی جوانی کیسے گزاری؟‘‘
جوانی میں انسان کو دنیا کی رنگینیاں اپنی طرف کھینچتی ہیں اور ایسے میں جو
نوجوان دنیا کی رنگینیاں چھوڑ کر اللہ کی عبادت میں مگن ہو اور گناہ او ر
نافرمانی سے دور رہے‘ اسے اللہ تعالیٰ اپنی رحمتِ خاص سے قیامت کی کٹھن
حالات اور سخت گرمی میں اپنی عرش کے سائے جگہ دے کر وی آئی پی پروٹوکول دے
گا۔ لیکن افسوس کہ آج نوجوانوں کی اکثریت اغیار کی سوچ کے یلغار سے مرعوب
ہو کر’’ جوانی انجوائے کرنے‘‘ کے نام پہ اللہ کی نافرمانیوں میں گزار رہے
ہیں۔
3۔۔۔وہ شخص جو مسجد سے نکلے تو اس کا دل مسجد میں اٹکا رہے‘ یہاں تک کہ
دوبارہ مسجد میں چلا جائے:
یعنی ایسا شخص جو مسجد میں نماز و دیگر عبادات بجا لا کر اپنی دنیاوی
ضروریات کیلئے نکلے لیکن دنیا میں اس کا دل نہ لگے اور اللہ کی محبت میں ہر
وقت مسجد جانے کیلئے بے چین رہے۔ عام طور پر لوگوں کےقلوب ملازمتوں،
کاروباروں یا گھر وں میں اٹکے رہتے ہیں۔ مسجد میں جانا یا مسجد سے دل لگانا
لوگوں کی ترجیحات میں شامل نہیں ہوتی۔ ایسے میں جن کے قلوب اللہ کی محبت
میں اللہ کے گھروں سے منسلک ہوں‘ جو اللہ کی محبت میں اللہ کے گھروں میں
اللہ کی عبادت کرنے کو محبوب رکھتے ہوں اور زیادہ سے زیادہ اللہ کے گھروں
میں اللہ کے مہمان بن کر رہنا پسند کرتے ہوں‘ وہ قیامت کے دن اللہ کی خاص
نعمت یعنی عرشِ عظیم کے سایے میں ہوں گے یعنی اللہ کے وی آئی پی ہوں گے ۔
4۔۔۔ وہ دو آدمی جنہوں نے محض اللہ تعالیٰ کی خاطر آپس میں دوستی کی‘ اس کے
لئے جمع ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے:
دوستی تو سب ہی کرتے ہیں اور اپنی دوستی خوش اسلوبی سے نباہتے بھی ہیں۔
تاہم دنیاوی اغراض سے پاک تقوی اور نیکی کی بنا پر اللہ کے لیے دوستی، ایک
بہت ہی بابرکت دوستی ہے۔ اس مبارک دوستی کے تحت جب دو یا دو سے زیادہ لوگ
آپس میں ملتے ہیں تو اپنے لئے اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کیلئے خیر و برکت
سمیٹتے ہیں۔اللہ تعالیٰ انہیں اس دنیا میں بھی بھلائی سے نوازتا ہے‘ ان کے
جدا ہونے سے پہلے ہی ان کی مغفرت کر دیتا ہےاور قیامت کے دن انہیں اپنی خاص
رحمت سے وی آئی پی پروٹوکول یعنی عرشِ عظیم کے سائے میں جگہ دے گا ۔
5۔۔۔ وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا تو اس کی آنکھیں بہہ
پڑیں:
تنہائی میں اللہ کو یاد کرنا جب اللہ کے علاوہ کوئی اور دیکھنے والا نہ ہو‘
ایسا زیادہ تر تہجد کے وقت ممکن ہے ۔ رات کے اندھرے میں نرم گرم بستر اور
آرام و راحت بھری نید کو ترک کرکے عبادتِ الٰہی میں مشغول ہونا بغیر اخلاص‘
محبت اور خوف وخشیتِ الٰہی کے ممکن نہیں۔ اور واضح ہو کہ اِس اخلاص‘ محبتِ
‘ خوف وخشیتِ الٰہی جو دل میں پیدا ہوتے ہیں اگر ان سب کے ساتھ آنکھوں کی
آنسو بھی شامل ہو جائے تویہ ایک ایسی عظیم سعادت ہے جس کے ذریعے سے بندہ
اللہ کے وی آئی پی میں شامل ہو کر قیامت کے دن وی آئی پی پروٹوکول یعنی
عرشِ عظم کے سائے میں قیام کرے گا۔
6۔۔۔ وہ شخص جسے کسی باعزت اور حسین عورت نے ( برے ارادہ سے ) بلایا لیکن
اس نے کہہ دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں:
یہاں نبی کریم ﷺ نے ایک اعلیٰ کردار کی مثال دی ہے اور یہ مثال مرد اور
عورت دونوں کیلئے ہے۔
چاہے کوئی اعلیٰ حسب ونسبکی حسین و جمیل عورت کسی مرد کو ناجائز تعلقات کا
لالچ دے اور اعلیٰ کردار کا حامل مرد کہہ دے کہ ’’ میں اللہ سے ڈرتا ہوں‘‘
یا کوئی اثر و رسوخ والا امیر خوبصورت مرد کسی عورت سے ناجائزقربت چاہے اور
وہ عورت کہہ دے ’’ مجھے اللہ کا ڈر ہے‘‘۔
نہایت ہی اعلیٰ اخلاق و کردار کے بغیر اس طرح کی فتنے کا انکار ممکن نہیں
جبکہ برائی کی طرف بلانے والی یا بلانے والا اپنی پرکشش حسب ونسب‘ دولت و
ثروت اور خوبصورتی سےقائل کرنے اور لبھانے والی یا والا بھی ہو۔ ایسے اعلیٰ
کردار کے حامل افراد ضرور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حفاظت میں ہونگے اور
انہیں قیامت کے دن وی آئی پی پروٹوکول یعنی عرشِ عظیم کا سایہ نصیب ہو گا۔
7۔۔۔ اوروہ شخص جس نے صدقہ کیا تو اس کو ایسا چھپا یا کہ اس کے بائیں ہاتھ
کو بھی پتا نہ چلا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا؟:
یہ صدقہ کی اعلی ترین قسم ہے کہ ایک ہاتھ سے دے تو دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ
چلے۔ اس صدقے کا مقصد نمود و نمائش اور ریاکاری نہیں اور نہ ہی صدقہ دے کر
احسان جتانا ہے بلکہ صرف رضائے الٰہی مطلوب و مقصود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا
فرمان ہے:
الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ثُمَّ لَا
يُتْبِعُونَ مَا أَنفَقُوا مَنًّا وَلَا أَذًى ۙ لَّهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ
رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
" وہ لوگ جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور خرچ کرکے پھر احسان
نہیں جتاتے ،نہ دکھ دیتے ہیں، ان کا اجر ان کےرب کے پاس ہے۔ اور (قیامت کے
روز) نہ ان کو کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔" ﴿٢٦٢﴾ سورة البقرة
لہذا ایسے لوگ ہر خوف و خطر سے بے نیاز قیامت کے روز اللہ کے مہمانِ خصوصی
ہونگے اور انہیں عرشِ عظیم کے تھنڈے سائے میں وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ
رکھا جائے گا۔
اصل میں یہ سات کے سات اعلیٰ اخلاقی اور روحانی کردار ہیں ‘ جو بندہ ٔ مومن
ان میں سے ایک کردار کا بھی مظہر ہو گا وہ اللہ کے وی آئی پی میں شامل ہو
کر قیامت کے دن عرش عظیم کے سائے کا حق دار ہوگا۔
سوچئے‘ سمجھئے اور غور کیجئے ! ہمارا رب کتنا عظیم ہے؛ اپنے بندوں کو مشکل
میں ڈالنا نہیں چاہتا‘ آسانیاں پیدا کرنا چاہتا ہے۔۔۔ اس دنیا میں بھی‘
قیامت کے دن بھی اور آخرت کی ہمیشہ کی زندگی میں بھی۔
اور ہمارے پیارے نبی ﷺ جو کہ رحمۃ للعالمین اور روؤف رحیم ہیں‘ خیر و شر
کی ہر بات بتا کر امت کیلئے کیسی کیسی آسانیاں پیدا کر گئے ہیں۔
کیا اب ہم ایسے بھی نہیں کہ آپ ﷺ کے بتائے ہوئے ان سات کرداروں میں سے کسی
بھی ایک کردار کا نمونہ بن کر عرش عظیم کے سائے کا حقدار ہوں؟
آئیے دعا کرتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی رحمت سے ہمیں اِن اعلٰی
اخلاق اور روکردار کا حامل بنا کر اس دنیا میں اپنی رحمتوں کے سایے میں اور
آخرت میں اپنی عرشِ عظیم کے سایے میں جگہ دے کر قیامت کی ہولناکیوں سے
ہماری حفاظت فرمائیں ۔ آمین
|