کیا اسلام ہمیں اس بے ہودہ حرکت کی اجازت دیتا ہے؟؟
کیا یہ ہمارے دین کا حصہ بھی ہے؟؟ جس کو ہم مسلمانوں نے اتنی اہمیت دی۔
جھوٹ جیسے عظیم جرم کو بھی ہم مذاق سمجھتے ہیں۔ اپریل فول کیا ہے؟ جس میں
ہر آدمی کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ میں سب سے زیادہ جھوٹ بولوں اور اس طریقے سے
بولوں کہ جس میں زیادہ نقصان ہو۔ پھر اس آدمی کو داد دی جاتی ہے کہ جو
زیادہ چالاکی اور ہوشیاری سے جھوٹ بولے اور اس پر فخر بھی کرے کہ ہم نے تو
بڑا تیر مارا۔
آج میں ’’اپریل فول‘‘ کی تاریخی پس منظر سے قطع نظر کر کے صرف اس کی ظاہری
نقصانات سے آپ کو آگاہ کروں گا۔ چنانچہ اس دن سب سے زیادہ جھوٹی خبریں
پھیلائی جاتی ہیں۔ شرعی نقطہ نظر سے جھوٹ کتنا بڑا گناہ ہے؟ جس کا اندازہ
اس حدیث مبارکہ سے ہوتا ہے ۔ حضرت صفوان ابن سلیم کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ سے
پوچھا گیا کہ مومن بزدل ہوسکتا ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ہاں ہوسکتا
ہے۔ پھر پوچھا گیا مومن بخیل ہوسکتا ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ہاں
ہوسکتا ہے۔ پھر پوچھا گیا کہ کیا مومن جھوٹا ہوسکتا ہے ؟ آپ علیہ السلام نے
فرمایا : مومن ہر گز جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ (مشکوٰۃ) اور ہمارا حال یہ ہے کہ
ہم اس سے لاپروائی برتتے ہیں۔ عاقل مسلمان کے لئے فقط اشارہ ہی کافی ہے۔
پھر اتنے صریح فرمان نبوی ﷺ کے باوجود ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو مذاق ہے۔ خوش طبعی کے لئے ہم ایسا کرتے ہیں۔
لیکن! مذاق کے طور پر جھوٹ بولنا یہ بھی جھوٹ کے حکم میں ہے۔ اس کے متعلق
بھی وہی وعید ہے جو جھوٹ کے متعلق ہے۔ چنانچہ حضرت عبد اﷲ رضی اﷲ عنہ
فرماتے ہیں کہ اﷲ کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ اﷲ نے مذاق اور
سنجیدگی کسی بھی صورت میں جھوٹ کو جائز قرار نہیں دیا اور بچوں سے ایسا
وعدہ بھی نہ کرے کہ جسے پھر پورا نہ کرتا ہو۔ بہر کیف! مذاق میں بھی جھوٹ
بولنے سے گریز کیا جائے۔
محترم قارئین ! بعض حضرات کمزور دل والے بھی ہوتے ہیں کہ جن کو یکایک خبر
دی جائے کہ آپ کا فلاں رشتہ دار فوت ہوگئے۔ بسا اوقات وہ بے چارہ خود اپنی
زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی نقصانات کا اندیشہ ہے ۔
کیا کسی مسلمان کو تکلیف دینا جائز ہے۔ کسی کو ایذا رسائی کتنا بڑا گناہ ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: (کامل) مسلمان
وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان کی ایذا سے مسلمان محفوظ رہیں۔ اور (پکا) مومن
وہ ہے جس سے لوگ اپنی جانوں اور مالوں کو امن میں سمجھیں۔ (ترمذی)۔
پھر بھی ہم ہوش کے ناخن نہیں لیتے اور زبان کو جھوٹ جیسے گناہوں سے آلودہ
کرتے ہیں ۔ غیروں کے طرز و طریقے ہم نے اپنا لیے ۔ نبی علیہ السلام کے اسوۃ
حسنہ سے روگردانی کرنے لگے۔ جب بھی خوشی یا غمی کا موقع ہوا اسے نبی علیہ
السلام کی تعلیمات کے مطابق گزارنا چاہیے۔ ہمارا دین کامل دین ہے۔ جس میں
ہر موقع اور مقام پر پیارے نبی علیہ السلام کی تعلیمات موجود ہیں ۔ پیدائش
سے لے کر موت تک ۔ خوشی سے لے کر غمی تک اور حضر سے لے کر سفر تک۔
اس کے باوجود نبی علیہ السلام کی سنت سے روگردانی کرنا، غیروں کے طریقے
اختیار کرنا، یہود و نصاریٰ کے رسم و رواج کو اپناناعذاب الہیٰ کو دعوت
دینے کے مترادف ہے۔ اور خاص کر اس عمل کو قرآن مجید میں منافق کی علامت
قرار دیا گیا ہے۔ زبان گوشت کا چھوٹا سا ٹکڑا ہے لیکن اس کی لگام کو
قابومیں رکھنا انتہائی مشکل کام ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی علیہ السلام نے
فرمایا : جو شخص مجھے اس بات کی ضمانت دے کہ وہ اپنی اس چیز کی حفاظت کریگا
جو اس کے دونوں کَّلُو کے درمیان ہے یعنی زبان اور جو اس کے دونوں رانوں کے
درمیان ہے یعنی شرم گاہ تو میں اس کی جنت کی ضمانت لیتا ہوں ۔ (بخاری)۔
اس سے معلوم ہوا کہ زبان جنت و جہنم میں سے کسی ایک کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
صحابہ ؓ کا تو یہ حال تھا کہ حضرت اسلم کہتے ہیں : کہ ایک دن حضرت عمر
فاروق رضی اﷲ عنہ ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو
دیکھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ اپنی زبان کو کھینچ رہے ہیں، حضرت
عمر رضی اﷲ عنہ نے یہ دیکھا کہا: ٹھہرئیے ایسا نہ کیجیے ۔ اﷲ تعالیٰ آپ کی
مغفرت فرمائے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ اس نے مجھے ہلاکت
کی جگہوں میں ڈال دیا ہے۔ جی ہاں! انبیاء کے بعد سب سے اُونچا مرتبہ حضرت
ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کا ہے۔
لہذا ہر انسان اپنی زبان کو قابو میں رکھے اور اپریل فول جیسی بے ہودہ روش
کو اپنانے سے گریز کریں ۔ صد حیف! ایسے نفوس پر جو اس قسم کی حرکات و افعال
کو دل جوئی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ |