جب سے امت مسلمہ نے قرآن کریم کواپنے گھروں اوردفتروں میں
بلندطاقوں میں صرف برکت کیلئے سجاکررکھ چھوڑاہے اورقرآن کے مطالبے ''افلاتدبرون''سے
منہ موڑلیاہے، دہشت گردی جیسے بھیانک الزامات،رسوائی اورجگ ہنسائی ہمارا
مقدربن گئی ہے۔قرآن نے بڑی وضاحت وصراحت کے ساتھ بتایاہے ''الکفرملت واحدہ''
ہیں جس کے جواب میں تمام امت مسلہ کو ایک جسم سے تشبیہ دیکرسمجھایاگیا ہے
کہ کسی ایک حصے کی تکلیف سارے بدن کوبے چین کردیتی ہے۔ قرآن کریم میں
ارشادات الٰہی پرتدبرکرنے کو کہا گیاہے اور دہشتگردی کے حوالے سے اگرآپ صرف
اس ارشادربانی پرتدبرکریں کہ حق کے خلاف باطل قوتیں متحدہیں توبہت سے عقدے
کھلتے نظرآئیں گے۔ماضی قریب میں ہنودویہودگٹھ جوڑبڑھا اورہنداسرائیل بندھن
مضبوط ترہواہے۔''اردوسٹارنیوزٹوڈے''کے مطابق۲۰۱۴ء کے بعد سے بھارت
اوراسرائیل کے باہمی تعلقات غیرمعمولی تیزرفتاری سے آگے بڑھے ہیں۔بھارت
سرکارظلم کی حمائت اورظالم کی مدد کرنے میں پیش پیش ہے ۔۲۰۱۴ ء میں غزہ
پرہونے والی اسرائیلی بمباری کے دوران بھارتی پارلیمنٹ میں اسرائیل کے خلاف
قراردادمذمت پیش کرنے کامطالبہ کیاگیاتھا جس کاوزیر خارجہ سشماسوراج نے
انکارکرتے ہوئے یہ کہاتھاکہ بھارت فلسطین کا حامی ہے لیکن اسرائیل کے ساتھ
بھی اس کے اچھے تعلقات ہیں،اس طرح کاکوئی بھی اقدام ہماری دوستی
پراثراندازہوگا۔
گزشتہ سال اوڑی حملہ کے بعدپاکستان کے خلاف کئے گئے سرجیکل اسٹرائیک
کاموازنہ اسرائیلی فوج سے کرکے مودی نے واضح طورپردنیاکے سامنے اعتراف
کیاکہ ان کی حکومت فلسطینیوں پراسرائیلی دہشتگردی اوربربریت کونہ صرف
جائزٹھہراتی ہے بلکہ وہ اسے بہادری سمجھتی ہے اور اسی بربریت نما بہادری کی
وہ بھارتی فوج کوٹریننگ دے رہے ہیں جوبے گناہوں کاخون بہاتی ہے،معصوم بچوں
اورعورتوں کوقتل کرتی اور دہشتگردی میں کھلے عام اضافہ کررہی ہے۔
ہنودویہود(ہندوازم اورصہیونیت)کے مابین پائے جانے والے تعلقات کااثراب
بھارت اوراسرائیل کے سفارتی تعلقات میں واضح طورپردیکھا جاسکتا ہے۔مومنانہ
تدبرسے کام لیں تویہ حقیقت روزِ روشن کی طرح سامنے آجائے گی کہ دن بدن ان
دونوں شیاطین ریاستوں کے تعلقات اورقربتیں آپس میں بڑھ رہی ہیں ۔گزشتہ دنوں
اسرائیلی صدر آروین کے ساتھ بھارت میں ۲۵سالہ سفارتی تعلقات کاجشن بھی
منایا گیا۔پاکستان میں دہشتگردی کی منصوبہ بندی ''را''تنہانہیں کرتی بلکہ
اس مذموم سازشوں میں موسادکی بھرپورعملی و نظری حمائت شامل ہوتی ہے۔
تاریخ پرنظردوڑائیں توپتہ چلے گاکہ ۱۹۴۸ء میں جب فلسطین کی زمین پر قبضہ
کرکے اسرائیل کاناپاک وجودقائم کیاگیاتو اس وقت بھارت نے کھلے لفظوں سے اس
کی حمائت نہیں کی تھی بلکہ اس کی ظاہری ہمدردی فلسطین کے ساتھ تھی۔ موہن
چندکرم داس(گاندھی)کانظریہ یہ تھاکہ یہودیوں کایہ دعویٰ اور اسرائیلی ریاست
کاقیام جوازرکھتاہے لیکن مذہبی بنیادپراس کی تقسیم غلط ہے۔ ۱۹۴۸ء میں بھارت
نے تقسیم فلسطین منصوبے کی مخالفت میں ووٹ دیاتھا۔ اسی طرح ۱۹۴۹ء میں بھارت
نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کو شامل کیے جانے کے خلاف ووٹ دیاتھا ۔ بھارت
کے اس مؤقف کی یہاں کے ہندوشدت پسندوں نے شدیدمخالفت کی اوراسرائیل کے قیام
کی کھل کرحمائت کی۔راشٹریہ سیوک سنگھ(آرایس ایس)کے اس وقت کے سربراہ
مادھواسداشیگوالکرنے بھی اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف ووٹ دینے کی
شدیدمذمت کرتے ہوئے اسرائیل کی حمائت کی اوریہ نظریہ پیش کیاکہ فلسطین
یہودیوں کی جائے پیدائش اوران کا اصل وطن ہے،وہی اس کے حقدارہیں۔
۱۷ستمبر۱۹۵۰ء کوبھارت نے غاصب اسرائیل کودنیاکے خطے پرایک ملک تسلیم کیا،اس
وقت کے وزیراعظم پنڈت جواہرلعل نہرونے سرکاری بیان جاری کرتے ہوئے کہا:روئے
زمین پراسرائیل ایک حقیقت ہے جسے تسلیم کئے بغیر کوئی چارۂ کارنہیں اورہم
نے بہت پہلے اعتراف کرلیاتھا لیکن عرب ممالک کی دوستی اوران کے جذبات
کوٹھیس نہ پہنچانے کی خاطرہم اس کااظہارنہیں کررہے تھے۔ اسی سال ممبئی میں
اسرائیل کا قونصل خانہ کھولنے کی اجازت دے دی گئی ۔ نہروحکومت دہلی میں
سفارتخانہ بھی قائم کرانے کی خواہاں تھی لیکن عرب ممالک کی دوستی اور
مسلمانوں کے جذبات کوٹھیس پہنچانے سے اجتناب کرتے ہوئے انہوں نے
بظاہرایسانہیں کیا۔ایک طرف انہوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا، دوسری طرف
فلسطین سے بھی ہمدردی ظاہرکی جس کانتیجہ یہ ہواکہ فلسطین سے ہمدردی کم ہوتی
گئی اور اسرائیل سے تعلقات مضبوط سے مظبوط ترین ہوتے چلے گئے۔
۱۹۵۰ء سے ۱۹۹۰ء تک بھارت اوراسرائیل کے درمیان برائے نام تعلقات تھے،خلیجی
ممالک سے گہری دوستی،ان سے ملنے والے تعاون اوربھارتی مسلمانوں کی دلجوئی
کی خاطر اس درمیان آنے والی ہرحکومت اسرائیل سے اپنے تعلقات چاہنے کے
باوجودبھی فروغ نہیں دے سکی تاہم عرب ممالک سے پاکستان کو ملنے والی حمائت
کے بعدبھارت نے بھی اپنی پالیسی تبدیل کردی اورعربوں کی دوستی کی پرواہ کئے
بغیراسرائیل سے رشتہ قائم کرنے کے منصوبوں پرعملدر آمدشروع کردیا اورجنوری
۱۹۹۲ء میں دونوں ممالک کے درمیان باضابطہ سفارتی تعلقات قائم ہو گئے ۔
۱۹۹۹ء میں بی جے پی کی حکومت قائم ہونے کے بعددونوں ملکوں کے تعلقات خفیہ
رہنے کی بجائے کھل کرسامنے آئے۔بی جے پی نے اسرائیل سے سفارتی رشتے کومضبوط
بناناشرو ع کیا،سب سے پہلے ۲۰۰۰ء میں جسونت سنگھ نے بطوروزیرخارجہ اسرائیل
کاسرکاری دورۂ کیا۔۲۰۰۳ء میں اسرائیل کے وزیر اعظم ایریل شیرون نے پہلی
مرتبہ بھارت کادورۂ کیا،حکمران جماعت بی جے پی کی جانب سے ایریل شیرون
کودورے کو خصوصی اہمیت دیتے ہوئے اسے مزید مستحکم کرنے کاعندیہ دیا۔نئی
دہلی میں انڈیاگیٹ پر بھارت اور اسرائیل کے پرچم لہرائے گئے،دوسری طرف
بھارتی مسلمانوں نے شدیداحتجاج کیا جس پر قریباًایک سوسے زائدمسلمانوں
کوگرفتارکرلیا۔علی گڑھ مسلمان یونیورسٹی کے طلباء نے بھی اسرائیلی وزیراعظم
کی آمدپرشدیداحتجاج ریکارڈ کروایا۔۲۰۰۶ء میں کانگرس کے دورِ حکومت میں
شردپوار،کپل سیل اورکمل ناتھ کے ساتھ اس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ نریندرمودی
نے بھی اسرائیل کادورۂ کیا۔ متعدد مسلم رہنماؤں اوراردوصحافیوں کاوفدبھی
اسرائیل کے دورے پربھیجاگیا اور اسرائیلی بربریت پرخاموشی اختیار کرنے
اورفلسطینیوں کی داستان مذمت نہ لکھنے کی ذہن سازی کی گئی۔
مئی ۲۰۱۴ء میں بی جے پی کی حکومت بننے کے بعددونوں ممالک کے تعلقات نے ایک
نیارخ اختیارکیاہے۔ نریندر مودی کے وزیراعظم بنتے ہی اسرائیل کے وزیراعظم
نیتن یاہونے فون کرکے انہیں مبارکبادپیش کی ۔۲۰۱۴ء میں دورۂ امریکاکے
دوران نریندر مودی نے اسرائیلی وزیر اعظم سے خصوصی طور پرعلیحدہ ملاقات کی
اوراس کے بعداب تک ڈھائی سالہ مدت میں تقریباًایک درجن وزاراء چارمرتبہ
اسرائیل کادورۂ کرچکے ہیں جن میں صدرپرناب مکھر جی،وزیر داخلہ راج ناتھ
سنگھ اوروزیرخارجہ سشماسوراج بھی شامل ہیں۔بھارتی صدرپرناب مکھرجی نے
اکتوبر۲۰۱۵ء میں اسرائیل کادورۂ کیاتھااوریہ کسی بھارتی صدرکا پہلادورۂ
تھا۔اسرائیل میں انہیں خصوصی اعزازدیاگیااوروہاں کی پارلیمان سے انہوں نے
خصوصی خطاب بھی کیا۔ سشما سوراج کادورۂ بھی اہمیت کاحامل رہا۔ انہوں نے
اسرائیل کے صدر،وزیراعظم اورتمام ارکان پارلیمان سے ملاقات کے ساتھ یروشلم
میں واقع یہودیوں کے کئی مذہبی مقامات کا بھی معائنہ کیا۔
گزشتہ ۱۴تا۲۲نومبر۲۰۱۶ء سے اسرائیل کے دسویں صدرارون ایک تجارتی وفد کے
ساتھ دونوں ممالک کے درمیان۲۵سالہ سفارتی تعلقات کی مدت مکمل ہونے پربھارت
کے سرکاری دورے پرتھے۔وہ آگرہ میں منعقدہونے والے ٹیکنالوجی اینڈبزنس میلہ
کے مہمان خصوصی تھے۔ اس دوران انہوں نے مختلف مقامات کا بھی دورۂ کیااور
بھارت کے ساتھ مزیدمضبوط سفارتی تعلقات قائم کرنے کی خواہش کااظہاربھی کیا۔
بی جے پی حکومت قائم ہونے کے بعدیہودوہنودکے درمیان کئی مشترکہ مذہبی
کانفرنسزبھی ہوچکی ہیں۔اسرائیلی اخبار ''یروشلم پوسٹ''کے مطابق بھارت اور
اسرائیل کے درمیان بڑھتی قربت کی ایک وجہ مسئلہ کشمیرپربھارت کوملنے والی
حمائت بھی ہے اورآئندہ دنوں میں دونوں ممالک کے درمیان دوستی کے بندھن
مضبوط ترہونے کے امکانات واضح ہیں ۔ بھارت اسرائیلی ساختہ فوجی سامان
اورجنگی اسلحے کاسب سے بڑاخریدارہے اوراسرائیل روس کے بعد بھارت
کادوسرابڑادفاعی سپلائرہے۔فوجی سازوسامان اورآلات جنگ کی خریداری کے نام
پرسالانہ۹بلین ڈالرسے زائداسرائیل کواداکئے جاتے ہیں۔ایک بھارتی صحافی
کاکہناہے:ہرسال کھربوں ہندوستانی روپے اسرائیلی بینکوں کے کھاتوں میں منتقل
ہو جاتے ہیں اوراس کے بدلے میں انسانیت کش لڑاکاطیارے، جدید ترین
ٹینکس،مہلک رائفلیں،خطرناک کیمیکلز،طرح طرح کاجدیدترین انسانیت کش اسلحہ
بھارتی گوداموں میں پہنچ جاتاہے۔اس کے علاوہ ایشیامیں بھارت اسرائیل
کاتیسراسب سے بڑا تجارتی شراکت داربھی ہے۔پورے ملک میں اسرائیلی اشیاء کی
فروخت بہت بڑی تعدادمیں ہوتی ہے۔
ہنودیہودکے مستحکم گٹھ جوڑکے آئینے میں پاکستان میں دہشتگردی کی روزافزوں
ہلاکت آفرینی کامشاہدہ نہائت آسانی کے ساتھ کیاجاسکتاہے مگرزیادہ اذیت ناک
حقیقت یہ ہے کہ باطل اورطاغوت کے بندھن جوں جوں مضبوط تر ہوتے جا رہے
ہیں،دہشتگردی کیلئے ان کے سازشی منصوبوں کوبھی نئی توانائی مل رہی ہے جبکہ
دہشتگردی کے شکارمسلمان اور پاکستانی سبق حاصل کرنے کی بجائے الٹاذہنی
انتشارکاشکارہورہے ہیں۔ان کے اختلافات کے اظہار میں شرمناک رویے سامنے آرہے
ہیں۔دہشتگردی کامقابلہ کرنے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کومتحدہوناچاہئے
تھا۔حکومت اوراپوزیشن کومشترکہ کازکا بھرپوراحساس وادراک ہوناچاہئے
تھا۔زبانی کلامی طورپردعویٰ کی گردان کئے جانے کی بجائے حکمران طبقے
کوبطورخاص فوج اورسول کے ایک پیج پر ہونے کاعملی مظاہرہ کرناچاہئے ۔اگرڈان
لیکس کی تحقیقات سامنے لانے کی بھی اہلیت نہیں توایک پیج پرہونے کا
پاکستانی قوم کامؤثرپیغام کیونکر دیا جاسکے گا۔علم اوردرس ایسے انتہائی
کارگرشعبوں سے وابستہ بزرگوں کااگرواضح طورپرمیلان دہشتگردوں ہی کی طرف رہے
گا تو ہنود و یہود مشترکہ سازشوں کا مداواکیونکرممکن ہوگا ۔سیاست،مذہب
اورمعاشرت کے دائروں میں ایک دوسرے کے لتے لینے حتیٰ کہ گندے کپڑے بیچ
بازارمیں دھونے کا سلسلہ جاری رکھنے سے سازشیں ناکام کس طرح بنائی جا سکیں
گی؟ |