’’دنیا بھر میں کوئی ایسی عورت نہ ہوگی جو مجھ جیسے بد
صورت مرد سے شادی پر تیار ہو ‘‘ ۔درد میں ڈوبے ہوئے یہ الفاظ نیویارک کے
کروڑ پتی بزنس ٹائکون ڈائمنڈ جم بریڈی کے ہیں جو کہ ایک چھوٹے سے خستہ حال
چوبارے میں پیدا ہوا تھا ہمیں مختلف آرٹیکلز اور کتابوں سے جو معلومات ملتی
ہیں اس کے مطابق اس کا باپ ایک شراب خانہ چلاتا تھا کہا جاتا ہے کہ اس نے
ابھی بولنا نہیں سیکھا تھا کہ اسے شراب کی بوتل سے کارک نکالنا آگیا تھا اس
کی باوجود اس نے کبھی زندگی میں شراب کو منہ نہ لگایا یہاں تک کہ چائے اور
کافی سے بھی اسے نفرت تھی۔ بریڈی میں ظاہراً کوئی بری عادت نہیں تھی تاہم
اس کی تین عادات ایسی تھیں جو کہ اس کی شہرت کا باعث بنیں۔عوام الناس کے
ساتھ فراخ دلی ، بہت زیادہ اور مختلف انواع و اقسام کے کھانے ایک ہی وقت
میں میز پر سجا کر کھانا ، بہت زیادہ کھانا اوردیدہ زیب قیمتی زیورات پہننا
۔اس کی یہ دریا دلی کی وجہ سے اس کا شمار نیویارک کی عظیم ترین اور با اثر
شخصیات میں ہوتا تھا بظاہر یہ تینوں باتیں معمولی لگتی ہیں مگر حقیقتاً یہ
حیران کن ہے کہ بریڈی اپنی زندگی میں اتنی عظیم الشان دعوتیں دیا کرتا تھا
کہ سلاطین کو پیچھے چھوڑ دیا کرتا تھااکثر اوقات ایک ہی وقت میں وہ پانچ
مختلف جگہوں پر بھی دعوتیں دیا کرتا تھا اور وقت رخصت مہمانوں کو طلائی
گھڑیاں حتہ کہ جواہرات تحفے میں دیا کرتا تھا جن میں سے بعض طلائی گھڑیوں
کی قیمت 200 پاؤنڈ تک ہوتی تھی ۔اس کے علاوہ وہ اپنے دوستوں کو مٹھائیاں
اوربعض دوسرے تحائف بھی بھیجتارہتا تھا جن کی مالیت کا اندازہ مشکل ہے ۔
بریڈی کا وزن پونے تین سو پونڈ تھا کھانے کا اسے بے حد شوق تھا اس کی میز
پر 15 سے زیادہ انواع و اقسام کے کھانے موجود ہوتے تھے جو کہ وہ تما
تراکیلا کھا جاتا تھا کھانے کے بعد ایک پونڈ چاکلیٹ کھا تا تھا اور اس کے
بعد تھیٹر جاتے وقت اپنے ساتھ پیپر منٹ کا ڈبہ لے جاتا تھا اس کے علاوہ بھی
وہ تمام دن کچھ نہ کچھ کھاتا ہی رہتا تھا مالٹے کا جوس جو کہ اس کا پسندیدہ
مشروب تھا ہر کھانے سے پہلے 4 سے 6 گلاس پی لیتا تھا اس پر حیرانگی کی
بالکل ضرورت ہے کیونکہ جب وہ ایک دفعہ بیمار ہوا تو ڈاکٹروں نے بیماری کے
سبب جب اس کا آپریشن کیا تو اس کا معدہ عام معدے سے چھ گناہ بڑا تھا ۔جہاں
وہ کھانے کا دلدادہ تھا وہاں اس کا پہناوا بھی قابل رشک تھا ۔وہ ہر وقت
ہیرے اور جواہرات سے لیس رہتا تھا اور ہر روز جواہرات کا سیٹ تبدیل کرتا
تھا یہاں تک کہ دن میں چھ سات مرتبہ اپنی قمیض کے بٹن جو کہ بے انتہا قیمتی
ہوتے تھے اور گھڑی کی چین بھی بدلتا تھا فراک کوٹ اور ریشمی ہیٹ کے بغیر
اسے کبھی کہیں بھی کسی نے نہیں دیکھا تھا اس کے ہاتھ کی چھڑی گراں قیمت
ہیروں سے جڑی ہوتی تھی جسے وہ روزانہ تبدیل کرتا تھا ۔وہ ہر سال کے اختتا م
پر اپنا پرانا فرنیچر دوستوں میں تقسیم کر دیتا تھا اور خود نیاخرید لیتا
تھا مہمانوں کے لیے وہ مہمانوں اور عام استعمال کے لیے بھی سونے اور چاندی
کے برتن استعمال کرتا تھا یعنی وہم و گمان کی حد تک فراخ دل تھالوگ اس سے
ادھار مانگتے اور وہ کبھی انکار نہ کرتا حالانکہ اسے کبھی ادھار واپس نہیں
کیا جاتا تھا ۔اپنی موت سے پہلے اس نے اپنی تمام دولت خیرات کر دی اور جو
روپے بچے انھیں جلادیا یہ کہتے ہوئے کہ ’’میں مرنے کے بعد اپنے پیچھے کوئی
درد سر نہیں رکھنا چاہتا ‘‘۔آپ سوچ رہے ہونگے کہ بریڈی کی کہانی کتنی عجیب
اور ادھوری ہے کیونکہ کسی بھی عورت کا ذکر نہیں آیا ۔۔جی ۔۔ڈائمنڈ جم بریڈی
جو لوگوں کے دلوں پر راج کرتا تھا بے شک اپنی سخاوت کی وجہ سے کرتا تھا مگر
سبھی اس سے محبت کرتے تھے لیکن اس نے ساری عمر تنہا گزاری وہ جب تیار ہوکر
نکلتا یا کہیں اپنے لمحات گزارتا تو اس کو دیکھنے یا اس کی خود کلامی سننے
کے لیے اس کا کتا بس اس کے ساتھ ہوتا ۔ایسا نہیں کہ اسے عورتوں سے رغبت
نہیں تھی بلکہ ہواکچھ یوں کہ نیویارک کی شہرت یافتہ گائیکہ اور اداکارہ
للئین رسل نیویارک آئی اور جب اس کے حسن اور گانے کے چرچے نیو یارک میں
پھیل گئے اگر ایک طرف بریڈی اپنی فراخدلی کی وجہ سے ہر زبان پر تھا تو
دوسری طرف للئین رسل اپنی خوبصورتی اور فن میں لا ثانی تھی ملاقات تو بنتی
تھی یہی وجہ ہے کہ پارٹیوں کی یہ ملاقات یہاں تک پہنچی کہ بریڈی ہی رسل کے
لیے تقریبات منعقد کرنے لگا حسن اور ہیرے ستارہ نما روشنیوں میں چمنگاہوں
کو خیرہ کرنے لگے اور للئین رسل عام عوام میں مقبول ہو نے لگی اس میں کوئی
دو رائے نہیں کہ یہ سب محبت کی وجہ سے تھا جو کہ بریڈی رسل سے کر چکا تھا
مگر رسل شاید جذبات سے دور تھی کیونکہ وہ اس محبت کو کاروبار کی نظر سے
دیکھ رہی تھی یہی وجہ ہے کہ لکھنے والوں نے تو یہ بھی لکھا کہ ڈائمنڈ بریڈی
نے رسل کی جھولی میں 200,000 پونڈ ڈال کر شادی کی در خواست کی مگر اس نے
انکار کر دیا تھا اور اس کے بعد اس نے یہ سمجھ لیا کہ وہ ایک بد صورت انسان
ہے جسے دنیا میں کوئی عورت اسے اپنا نہیں بنا سکتی اس سے بڑا بد نصیب کون
ہوگا ! یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں کہ ڈائمنڈ جم بریڈی جو غریب آدمی لا
بیٹا تھا وہ اتنا امیر کیسے ہوا اور دوسرا یہ کہ وہ خود کو بد نصیب کیوں
سمجھتا تھا ؟ حالانکہ بریڈی اپنے زمانے کا ایک خوش قسمت ترین شخص تھا
کیونکہ اسے اپنی زندگی میں ترقی کرنے کا موقع مل گیا تھا وہ ایک عام سا
سیلز مین تھا لیکن اس زمانے میں امریکی گاڑیوں کے ڈبے لکڑی کے بنے ہوتے تھے
ایسے میں اس نے لوہے کے ڈبے فروخت کرنے شروع کر دئیے اس وقت ملک ترقی کی
راہ پر برق رفتاری سے چل رہا تھا ہر سمت دور دراز تک ریل کی پٹریوں کا جال
پھیلایا جا رہا تھا جب اس نے لوہے کے ڈبے فروخت کرنے شروع کر دئیے تو اسے
بہت بڑا ٹھیکہ مل گیا ۔فروخت ہونے والے ہر ڈبے پر اسے ۳۳ فیصد کمیشن ملنے
لگا تھوڑے ہی عرصے میں امریکہ کی ہر ریلوے کمپنی لوہے کے ڈبوں کا مطالبہ
کرنے لگی اور ان سب کو ڈائمنڈ جم بریڈی کے پاس آنا پڑتا تھا اس وقت اس کے
مد مقابل بھی کوئی نہ تھا یوں لوہے کے ڈبے فروخت کر کے اس نے مقدر کو شکست
دے دی اور دنیا کا نامور بزنس ٹائکون کہلایا مگر ایسی حکمت عملی اس نے ذاتی
زندگی میں استعمال نہیں کی اور حوصلہ اور ہمت ایک عورت کے انکار پر چھوڑ
دیا اور اپنی زندگی کو تنہائیوں کی نذر کر دیا جبکہ اس سے شادی کی خواہشمند
لاکھوں ہونگی مگر اس نے ایک خود غرض اور مطلبی عورت کے لیے اپنی ہمت اور
محنت پر بھی اعتبار نہیں کیا اور قسمت پر شکوہ کرتے اور تنہائیوں سے لڑتے
دنیا سے چلا گیاہم میں سے بیشتر لوگ ایسے ہیں جو لاحاصل کی جستجو میں اپنے
قائم کردہ دائرے میں گھومتے ہوئے ناکام و نا مراد دنیا سے چلے جاتے ہیں اس
میں کسی کوتو کوئی نقصان یا فائدہ نہیں ہوتا البتہ ایسے لوگ زندگی کے
خوبصورت لمحات کو گنوا کر تہی دست ہو جاتے ہیں جبکہ زندگی بار بار نہیں
ملتی اور عدیم ہاشمی نے شاید اسی لیے کہا تھا کہ
آسمان پر کوئی تھوڑے سے ستارے تو نہیں
ایک چمکے کم اگر ،چن لو ستارہ دوسرا
ڈائمنڈ جم بریڈی بد نصیب نہیں تھا وہ ایک با ہمت اور خوش قسمت شخص تھا مگر
ایک غلط تعلق نے اسے کمزور اور قسمت سے مایوس کر دیااسے یہ سمجھ نہ آئی کہ
محبت وہ نہیں ہوتی جو گرا دے بلکہ محبت تو گرتوں کو تھام لیتی ہے اس لیے بے
فیض اورمطلبی لوگوں کے لیے زندگی مت گنوائیں کہ جو لمحات گزر جائیں وہ کبھی
واپس نہیں آتے اور یاد رکھیں کہ سبھی کو مکمل جہاں نہیں ملتا اس لیے ہر کسی
سے متاثر ہوکر اپنا سکون بر باد کرنا بھی سوائے بیوقوفی کے کچھ بھی نہیں ہے
۔ہمیشہ شکرگزار بنو چاہے کسی بھی حال میں ہو کہ کوئی بھی حال ہمیشہ نہیں
رہتا ۔ |