مطالعہ کی ضرورت و اہمیت

بے شمار کتابیں ارد گرد پڑی ہیں۔ سوچ رہا ہوں کس سے مطالعہ کی ابتداء کی جاۓ ، کون کون سی ایسی کُتب ہیں جن کے کچھ صفحات کا مطالعہ کرنے کے بعد چھوڑ دیں۔

اکثر یہی ہوتا ہے، کہ کتابیں جمع تو ہو جاتی ہیں ۔ لیکن پڑھنے کی جراءت تک نہیں ہوتی۔ ہر نئی کتاب سے چند صفحات پڑھ کر اسے الماری میں رکھ دیتے ہیں۔

مذہب، ،تاریخ ، ادب اور تازہ ترین کالم پڑھنا معمول بن چُکا ہے۔ میں اسلامیات کا طالب علم ہوں ۔ اب کالم اخبارات اور سوشل میڈیا بہت سا وقت لے لیتے ہیں۔ کیونکہ حالات حاضرہ سے باخبر رہنا ایک نوآموز لکھاری کے لیے بے حد ضروری ہوتا ہے۔ کُتب بینی سے ہی دماغ کے بند دریچے کُھلتے ہیں ، ذہن زرخیز ہوتا ہے، پریشانیاں ختم ہوجاتی ہیں ، وقت قیمتی بنتا ہے، اور سب سے بڑھ کر معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے ،کہ کتابوں کو انسان کا بہترین دوست سمجھا جاتاہے۔ مطالعہ کُتب فکر کی غذا ہے ۔ کُتب خیالات کی دنیا کو مضبوط تر بنادیتی ہیں۔معیاری کُتب جہاں فکر و نظر میں بالیدگی پیدا کرتے ہیں ،وہاں غیر معیاری کُتب پڑھنے کے بھیانک نتائج بھی ہمارے سامنے آتے ہیں، یہ عموماً تب ہوتا ہے جب انسان کسی کتاب کے مطالعہ کے ممکنہ نتائج پر غور نہ کرے، زبان و بیان پر مکمل عبور نہ رکھے اور اہل علم سے مشورہ نہ لے۔ جب خاص منصوبہ بندی سے کتابیں پڑھیں جائیں تو بے حد مفید ثابت ہوں گی۔

ہمارا طریقِ مطالعہ کچھ بے ترتیب و بے ڈھنگ سا ہے۔اس بارے میں کچھ عرض کرتاہوں۔ علامہ شبلیؒ کی کتاب ” سیرت عائشہ رضی اللہ عنہا ‘‘ کے چند صفحات پڑھنے کے بعد اسے اس طرح سے الماری کی نذر کیا کہ دوبارہ ابھی تک اسے ہاتھ لگانے کی توفیق نہ ملی ، کتابوں کی بہتات ہے۔ مطالعے کے دوران یہ سوال جو باربار ذہن میں ابھرتا ہے کہ آخر ان بے شمار کتابوں کو کس طرح پڑھا جاۓ ۔اس بارے میں مختلف دوستوں سے مشورے بھی ملتے رہے جنہیں آخر میں ذکر کروں گا۔

استاد محترم ڈاکٹر سراج الاسلام حنیف صاحب کی اکثر کتابیں اسلامی موضوعات تحقیق پر ہیں۔ دورِ حاضر میں مفتی تقی عثمانی صاحب کی بہترین کتابیں ہیں جنہیں پڑھ کر علمی تشنگی بُجھتی ہے ۔ اس کے علاوہ استاد محترم انور غازی صاحب کی بے مثال عنوانات پر لاجواب تصانیف کی اہميت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ میرا ارادہ اب منتشر خیالات کو قلمبند کرناہیں۔

اسلامی موضوعات سے ایک عرصہ ہوا تعلق کمزور ہو چکا، اللہ اسے دوبارہ بحال فرمائیں ۔ دل اس طرف بڑھتا ہے مگر دماغ کی دنیا زیادہ اب لکھنے کے قواعد و مبادیات پر اُکساتی ہے۔ تاہم پچھلے دو تین ماہ سے اُردُو ادب نے بطورِخاص اپنی طرف مُجھے کھینچ لیا ہے ۔ چند دن پہلے13مارچ کو پشاور یونی ورسٹی برادرم محمد صادق صاحب کی معیت میں سالانہ کتب میلے جانے کا اتفاق ہوا ہزاروں کتابیں دیکھ کر دل میں ایک ہوک سی اُٹھتی کہ کاش! آج میرے پاس ہزاروں روپے ہوتے جن سے فلاں فلاں موضوعات پر کتابیں خریدتا۔ لیکن پھر اساتذہ کا یہ جملہ یاد آجاتا کہ کتابیں ایک دفعہ نہیں جمع کی جاسکتیں، رفتہ رفتہ ایک ایک کتاب لے کر لائبریری بن جاتی ہیں۔

میرا شوق صرف کتب جمع کرنے کا ہے، مطالعہ سے جان جاتی ہے ۔ لیکن یہ حقیقت بھی منہ چڑاتی ہوئی نظر آتی ہے کہ جب تک مُطالعہ نہیں ہوگا کسی بھی عنوان پر مضمون لکھنا نا صرف یہ کہ مشکل ہے بلکہ ناممکن بھی ہے۔ دوسری طرف مجھے مضمون لکھنے کا شوق بھی جنون کی حد تک ہے۔

آساتذہ اور کئی دوستوں نے مُجھے مطالعے کی طرف راغب کیا جن کا میں تہ دل سے شکریہ ادا کرتاہوں ۔
ایک طرف مجھ ناچیز کے حالات اور دوسری طرف اپنے اسلاف کی زندگیوں میں مطالعہ کی ترتیب اور اہميت دیکھتا ہوں تو دنگ رہ جاتا ہوں ۔ سُوچتا ہوں ،خدایا ! تونے کس مٹی سے میرے اسلاف کی تخلیق فرمائی تھی کہ گھنٹوں مطالعہ میں ایسے مگن رہتے کہ دنیا کا ہوش تک نہیں رہتا تھا۔ مثال کے طور پر مشہور فلسفی ابن رشد اپنی زندگی میں صرف دو راتوں کو مطالعہ نہیں کر سکے۔

خلیفہ عباسی المتوکل کے وزیر فتح بن خاقان اپنی آستین مین کوئی نہ کوئی کتاب رکھتے۔ جب انہیں سرکاری کاموں سے ذرا فرصت ملتی، کتاب نکال کر پڑھنے لگتے۔

امام فخرالدین رازی کو اس بات کا افسوس ہوتا تھا کہ کھانے کا وقت مطالعے کے بغیر گزر جاتا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں ”اللہ کی قسم، مجھے کھانے کے وقت علمی مشاغل کے چھوٹ جانے پر افسوس ہوتا ہے کیونکہ وقت بہت ہی عزیز چیز ہے۔ امام شافعیؒ کے جلیل القدر شاگرد، امام مزنیؒ فرماتے ہیں ”میں نے اپنے استاد کی کتاب کا پچاس برس مطالعہ کیا اور ہر مرتبہ مطالعے میں مجھے نئے فوائد حاصل ہوئے“

دیوبند کے ممتاز عالم دین، مولانا اعزاز علیؒ کو کتب بینی کا اس قدر شوق تھا کہ جب بیمار ہوتے تب بھی سرہانے کتابوں کا انبار لگا رہتا۔ فرمایا کرتے تھے، میری بیماری کا علاج کتب بینی ہے۔

طلبہ کے لئے تو مطالعہ غذا جیسی اہمیت رکھتا ہے۔

بدقسمتی سے ہمارا آج کا طالب علم موبائل، انٹرنیت، سی ڈی وغیرہ پر گھنٹوں مصروف رہ کر اپنا قیمتی وقت نہایت بے دردی سے ضائع کر رہا ہے لیکن مطالعہ کتب کے لئے اس کے پاس ٹائم نہیں۔ اس صورت میں اگر علم و دانش سے عاری نسل پید اہو رہی ہے تو حیرانی کی کیا بات ہے؟

بارہا سننے میں آیاہے کہ ”زمانے کا بہترین دوست کتاب ہے“ اسی کو شورش مرحوم نے اس طرح کہا ہے: ”کتاب سا مخلص دوست کوئی نہیں“۔ اسی طرح ایک مفکر کہتا ہے: ”کتابوں کا مطالعہ انسان کی شخصیت کو ارتقاء کی بلندمنزلوں تک پہنچانے کا اہم ذریعہ، حصول علم ومعلومات کا وسیلہ اور عملی تجرباتی سرمایہ کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنے اور ذہن وفکر کو روشنی فراہم کرنے کا معروف ذریعہ ہے۔

کتابوں سے جہاں معلومات میں اضافہ اور راہ عمل کی جستجو ہوتی ہے وہیں اس کا مطالعہ ذوق میں بالیدگی، طبیعت میں نشاط، نگاہوں میں تیزی اور ذہن ودماغ کو تازگی بھی بخشتا ہے۔
 

Abdus Subhan
About the Author: Abdus Subhan Read More Articles by Abdus Subhan: 6 Articles with 6513 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.