ہم نے متعدد بار معاشرتی مسائل پر اپنی تحریروں میں توجہ
دلائی ہے اور ان کے اسباب و حلول پیش کرنے کی سعی بھی کی ہے ۔اسی طرح آج کا
ہمارا موضوع بھی معاشرے میں تیزی سے فروغ پاتے ایک اہم مسئلہ کی جانب ہے کہ
تعلیم یافتہ افراد تیزی کے ساتھ شدت پسندی ،انتہاپسندی و منافرت و انتشارو
فساد کی سرگرمیوں میں مشغول ہورہے ہیں باوجود کہ ان کا خاندانی پس منظر
مبنی بر اعتدال گھرانہ سے ہوتاہے اور اہلخانہ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت
کیلئے مال و متاع کو دونوں ہاتھوں سے لوٹاتے ہیں ۔مگر جب ان میں ہی
تندمزاجی و شدت روی کو ملاحظہ کریں تو دکھ ہوتاہے۔۔۔۔اس کی تفصیل میں جائے
بغیر ہم یہ کہتے ہیں کہ مدارس دینی ہوں یا عصری تعلیمی ادارے سبھی کا تعمیر
معاشرہ اور ان کی نظریاتی و فکری تربیت میں اہم کردار ہے۔انہیں اساسی و
بنیادی سبق حاصل کرایا جانے والے سبق تاحیات انسان کی سوچ و فکر اور عمل کا
پیش خیمہ بن جاتاہے۔اسی لئے ضروری ہے کہ یہ مدارس طلبہ و طالبات میں
رواداری و اعتدال پر مبنی سوچ و فکر اور اسلام کی حقیقی تفہیم راسخ کرنے
میں اہم کرسکتے ہیں۔
صغر سنی میں جب بچہ مدرسہ میں داخل ہوتاہے تو وہ بالکل صاف و شفا ف سفید
ورق کی طرح ہوتاہے کہ اس کا ذہن ہمہ جہتی اعتبار سے خالی ہوتاہے اور اس میں
قبول کرنے کی مکمل صلاحیت ہوتی ہے۔گھر کے بعد جہاں پر فکر و نظر کی تیاری
ہوتی ہے وہ مدرسہ ہی ہے اسی لئے استاد و استانی جوبھی بات اور تصورات بچہ
کو ذہن نشین کرائیں گے وہ اس معصوم کے قلب پر ہمیشہ کیلئے منقش ہوجاتاہے جو
کبھی بھی مٹ نہیں سکتا ۔اسی لئے اساتذہ پر واجب ہے کہ وہ طلبہ کی تعلیم و
تربیت اور ثقافت میں چند اہم امور کا خیال رکھیں۔اولاً:ضروی ہے کہ بچہ کو
یہ بتلایا جائے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ مستقیم تعلق استوار کرے جو کہ ہر
طرح کے شرک و بداعتقادی کے نتائج بد سے پاک ہو اور اس کا عقیدہ مضبوط و قوی
ہونا چاہئے ۔اس کے ساتھ وہ بچہ جان لے کہ اﷲ کے ساتھ حقیقی تعلق کیسے قائم
ہوسکتا ہے اور اس کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی عبادت و حقوق اﷲ کیا ہیں اور ان کو
کیسے اداکرسکتاہے ۔عبادت کی نیت خالص اﷲ کی رضا کا حصول ہو۔اﷲ نے جن امور
کو انجام دینے کا حکم دیا ہے ان کو پوری طرح بغیر کمی پیشی اداکرے اور جن
سے منع کردیا گیا ہے بلا چوں چرا سر تسلیم خم کرے۔
ثانیاً: دوسری بات جس کی تاکید کی بہت زیادہ ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اسلام
حقوق اﷲ اور حقوق العباد کا مجموعہ ہے ۔حقوق اﷲ کا ذکر اوپر ہوچکا اسی طرح
اسلامی معاشرہ دوسروں کے ساتھ اچھا معاملہ کرنے کی تلقین کرتاہے اسی لئے
نبی کریمؐ نے فرمایا ہے کہ ’’دین معاملہ‘‘ کا نام ہے۔جو لوگ خود کو دین
متین کی طرف منسوب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے عقائد سب سے زیادہ بہتر
مضبوط ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ حسن معاملہ کریں ۔بعض لوگ اس
غلط فہمی کا شکار ہیں کہ عبادت و عقیدہ میں پختہ ہونا تو ضروری ہے مگر
معاملات کے سلسلہ میں اسلامی احکامات کو اختیار کرنے کی چنداں حاجت نہیں ہے
یہ سوچ و فہم باطل ہے ۔اسی کا نتیجہ ہے کہ بہت سے مذہبی لوگوں کو دیکھا
جاتاہے کہ وہ معاملات میں احتیاط نہیں کرتے ،قطع رحمی، و پڑوسیوں کو اذیت
پہنچانا،لین دین میں گڑبڑ، لڑائی جھگڑے و غیرہ باطل اشیاء کا ارتکاب کرتے
ہیں جن کو اسلامی تعلیمات میں مذموم سمجھا جاتاہے۔اس کے ساتھ تکبر و غرور
کی ایک یہ علامت بھی ان میں زندہ ہوجاتی ہے کہ وہ دین کے چند اصولوں کو جان
کر باقی تمام مخلوق سے افضل ہوگئے ہیں۔جبکہ نبی اکرمؐ کی حدیث میں مسلمان
کی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ اسے کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ
رہے ۔اساتذہ پر لازمی ہے کہ وہ بچوں کے ذہنوں میں یہ بات ثبت کردیں کہ
مسلمان کو دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے خواہ وہ کھیل کا میدان ہو یا
تعلیم و تعلم کا کہ کھیلنے تو جماعت بن کر اور تعلیم حاصل کریں تو گروپ
سٹڈی کو فروغ دیں اور اس کی تحریک پیدا کرنے کیلئے انہیں تاریخ پاکستان کے
مختلف موضوعات میں سے ایک ایک موضوع ایک ایک طالب علم کے ذمہ لگایا جائے کہ
وہ اپنے وطن کے ہیرو اور تاریخ کے اہم واقعہ کو اپنے دوستوں کے سامنے بیان
کرے اسی طرح تمام طلبہ باہمی مشق کریں ،تاکہ بچوں میں باہمی تعاون و دوستی
کا مادہ پروان چڑھے نہ کہ ایک دوسرے سے نفرت و دوری کا درس ملے۔اسی کے ساتھ
ضروری ہے کہ تمام طلبہ کو اس آیت کریمہ کی درست تفہیم بھی کرائی جائے کہ’’
تعاون کرو نیکی کا کام میں اور نہ تعاون کروبرائی و سرکشی میں‘‘اس کے ساتھ
طلبہ میں سے جو ایک دوسرے سے نفرت یا حسد کرتے ہیں کے درمیان صلح کرائی
جانی چاہئے اس کے ساتھ طلبہ کو اس بات کی بھی تلقین کی جائے کہ وہ اپنے
اساتذہ سے بھی محبت و عقیدت اور احترام کا رشتہ استوار رکھیں۔
ثالثاً: تیسری بات جس کے اہتمام کی ضرورت حوصلہ افزائی اور صلاحیتوں کی
جستجو کہ دیکھا جائے کہ کونساطالب علم کس میدان میں زیادہ دلچسپی رکھتاہے
یا اس میں بہتر ہے تو اس طالب علم کی اس صلاحیت کو مزید بہتربنانے کیلئے
طالب علم کی غلطی پر اصلاح و رہنما اور اچھی و نمایاں کارکردگی پر داد
تحسین دی جانی چاہئے مثلاً اگر کوئی طالب علم کھیل کے میدان،یا ریاضی و
سائنس یا نقشہ نویسی وغیرہ میں دلچسپی یا امتیازی حیثیت رکھتاہے تو اس کی
حوصلہ افزائی و سرپرستی اصحاب مدارس کو کرنی چاہئے۔طلبہ کی پوشیدہ صلاحیتوں
کو آشکار کرنے سے طلبہ میں خود اعتمادی پیدا ہو گی اور ان کا وقت بھی ضائع
نہیں ہوگا اور اس کے ساتھ انہیں اپنے ہاتھوں سے کام کرنے کی عادت بھی پڑ
جائے گی اور یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اول کوئی بھی کسی دوسرے پر اعتماد
کرنے و مددلینے کی بجائے اپنے کام خود سے انجام دے اور دوسر ایہ کہ وہ
مشغول ہونے کی وجہ سے شیطان کے غلبہ سے محفوظ بھی ہوجائے گا۔اپنے ہاتھ سے
کام کرنے کی اہمیت اس لئے ہے کہ نبی محترمؐ کام کرنے والے ہاتھوں کو محبوب
رکھتے تھے اور اﷲ تعالیٰ بھی محبوب رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ خود حضورؐ
نے اپنے امور متعدد بار گھر میں اور صحابہ کرامؓ کے ساتھ خود بھی اپنے
ہاتھوں سے انجام دئیے اور یہی وجہ ہے کہ عرب کے بدو جو کل تک نا واقف و غیر
متعلم تھے مگر آپؐ کی تربیت و صحبت کی وجہ سے وہ دنیا میں مثالی تہذیب و
ثقافت قائم کرنے میں نہ صرف کامیاب ہوئے بلکہ انہوں نے اپنے زمانے کی طاقت
ور ترین دوسپر پاور طاقتوں کے بخرے اڑا دئیے ۔
رابعاً: چوتھی بات یہ ہے کہ مذہبی و گروہی رواداری کی تلقین ۔یہ اہم ترین
امر ہے جس کی طرف طلبہ کو متوجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اعقائد کے باب میں کسی
قسم کی کمی بیشی قابل قبول نہیں مگر یہ کہ اختلاف مذاہب و مکتب فکر یہ
معاشرہ کا حسن ہے اور یہ اجتہاد و زمان و مکان کی حیثیت سے تبدیل ہوتے
رہتاہے جو بری بات نہیں ہے۔کسی بھی ملک و ملت کی حقیقی ترقی و بلندی اور
ناموری کیلئے لازمی چیز یہ ہے کہ وہ تعلیم و تربیت کے میدان میں کامیابی و
نیک نامی حاصل کرلیں اور اپنی توجہ اس پرترجیحی بنیادوں پر مرکوز کریں۔جو
لوگ چاہتے ہیں کہ معاشرے میں سے انتہاپسندی و تندمزاجی کا خاتمہ ہو تو ان
کو ابھی سے عمل کرنا ہوگا تعلیم و تربیت کو بہتر بنانا ہوگا۔شدت پسندی
معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کردیتی ہے اور اس کے ساتھ دین و دنیا دوں ضائع
ہوجاتے ہیں اسی لئے علم و عمل اور تربیت کو بنیادی اہمیت دیتے ہوئے سماج
میں چہار سو پھیلادیاجائے۔ |