حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ
بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی والدہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم
رضی اللہ عنہا فوت ہو گئیں اور رسول اللہ ان کی لحد کھودنے سے فارغ ہو گئے
تو آپ ان کی لحد میں لیٹ گئے اور یہ دعا کی: اللہ ہی جلاتا ہے اور وہی
مارتا ہے، اور وہی زندہ ہے جسے موت نہیں آئے گی۔ اے اللہ! اپنے نبی اور مجھ
سے پہلے انبیا کے وسیلہ سے میری ماں کی مغفرت فرما ان کی قبر کو وسیع کر،
بلاشبہ تو سب سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے۔ پھر آپ نے ان کی نمازِ جنازہ
پڑھی اور آپ نے، حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان کو قبر میں اتارا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم کے وسیلہ سے دعا کرنا نہ صرف حضرت آدم
علیہ السلام کی بلکہ خود نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی بھی سنت ہے۔
حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص نبی اکرم
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا، اس نے عرض کیا: آپ اللہ سے
دعا کیجئے کہ اللہ میری آنکھیں ٹھیک کر دے، آپ نے فرمایا: اگر تم چاہو تو
میں اس کام کو موخر کردوں اور یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر چاہو تو ابھی
دعا کردوں، اس نے کہا: آپ دعا کر دیجئے، آپ نے فرمایا: تم اچھی طرح وضو کرو،
دو رکعت نماز پڑھو اور اس کے بعد یہ دعا کرو: اے اللہ! میں تجھ سے سوال
کرتا ہوں اور محمد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا
ہوں، اے محمد (صلی اللہ علیک وسلم)! میں آپ کے وسیلہ سے اس حاجت میں اپنے
رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تاکہ میری یہ حاجت پوری ہو، اے اللہ! نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کو میرے لئے شفاعت کرنے والا بنا دے۔
حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا با خدا! ہم اس مجلس میں ابھی اٹھے
بھی نہیں تھے کہ وہ نابینا شخص اس حال میں داخل ہوا جیسے اس کی آنکھ میں
کوئی تکلیف نہیں تھی۔(سنن ابن ماجہ)
اس حدیث کو امام ترمذی، امام احمد، امام حاکم اور ابن عساکر کے علاوہ اور
بھی کئی محدثین نے روایت کیا ہے۔
حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث جس کو بکثرت محدثین نے اپنی
اپنی تصانیف میں صحت سند کی روایت کے ساتھ روایت کیا ہے اس مطلوب پر قوی
دلیل ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرنا اور آپ سے
دعا کی درخواست کرنا جائز و مستحسن ہے اور چونکہ آپ کی ہدایات قیامت تک کے
مسلمانوں کیلئے حجت ہیں اس لئے آپ کے وصال کے بعد بھی آپ کے وسیلہ سے دعا
کرنا جائز ہے۔ اور بالخصوص آپ کے وصال کے بعد آپ کے وسیلہ سے دعا کرنے پر
یہ حدیث دلیل ہے کہ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی
اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ایک شخص کے اس کے قضا حاجت کیلئے یہ دعا تعلیم
فرمائی۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایک شخص اپنے کسی کام سے حضرت عثمان بی عفان کے
پاس جانا چاہتا تھا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس کے طرف متوجہ نہیں ہوتے
تھے۔ ایک دن اس شخص کی عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی اس نے آپ
سے اس بات کی شکایت کی، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ تم جا کر
وضو کرو، پھر مسجد میں جاؤ اور وہاں دو رکعت نماز پڑھو، پھر یہ کہو: اے
اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ
سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں۔ اے محمد! میں آپ کے واسطے سے آپ کے رب کی طرف
متوجہ ہوتا ہوں تاکہ وہ میری حاجت روائی کرے اور پھر اپنی حاجت کر ذکر کرنا
پھر میرے پاس آنا حتیٰ کہ میں تمہارے ساتھ جاؤں۔ وہ شخص گیا اور اس نے ایسا
ہی کیا پھر وہ حضرت عثمان بن عفان کے پاس گیا۔ دربان نے اس کیلئے دروازہ
کھولا اور اس کو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس لے گیا۔ حضرت
عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو اپنے پاس بٹھایا اور پوچھا: تمہارا کیا کام ہے؟
اس نے اپنا کام ذکر کیا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کا کام کر دیا اور
فرمایا: تم نے اس سے پہلے اب تک اپنے کام کا ذکر کیوں نہیں کیا جب بھی
تمہیں کوئی کام ہو تم ہمارے پاس آ جانا۔ جب اس کی ملاقات عثمان بن حنیف رضی
اللہ عنہ سے ہوئی اور کہا: اللہ آپ کو جزائے خیر دے کہ آپ نے میری سفارش
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دربار میں کر دی۔ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ
عنہ نے کہا: باخدا! میں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کوئی بات
نہیں کی لیکن ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر
تھا آپ کے پاس ایک شخص آیا اور اپنی بینائی کی شکایت کی تو رسول اللہ صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کو وہ دعا تلقین کی جو میں نے تمہیں کی تھی۔
یہ حدیث صحیح ہے۔
مالک الدار جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وزیرِ خوراک تھے وہ بیان کرتے ہیں
کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں (ایک بار) لوگوں میں قحط آ گیا، ایک
شخص (حضرت بلال بن حارث مزنی) رسول اللہ کی قبر مبارک پر گیا اور عرض کیا:
یا رسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)! اپنی امت کیلئے بارش کی دعا کیجئے
کیونکہ وہ (قحط سے) ہلاک ہو رہی ہے۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اس شخص
کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا: عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور ان کو
سلام دو، اور ان کو خبر دو کہ یقیناً تم پر بارش ہوگی اور ان سے کہو: تجھ
پر سوجھ بوجھ لازم ہے، تجھ پر سوجھ بوجھ لازم ہے، پھر وہ حضرت عمر رضی اللہ
عنہ کے پاس گئے اور ان کو یہ خبر دی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور
کہا: اے اللہ! میں صرف اسی چیز کو ترک کرتا ہوں جس میں میں عاجز ہوں۔
ابن کثیر نے امام بہیقی کی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور اس روایت میں
تصریح یہ ہے کہ جب حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم کی
قبر انور پر جا کر دعا کی درخواست کی اور سارا واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ
کو سنایا جس پر حضرت عمر نے ان کو کام پر مقرر رکھا اور اس پر انکار نہیں
کیا، اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک بھی وصال کے بعد
صاحب قبر سے دعا کی درخواست کرنا جائز ہے۔
رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے تمام احکام مسلمانوں کیلئے قیامت تک
کیلئے حجت ہیں اور آپ کے افعال مسلمانوں کیلئے نمونہ ہیں۔ اگر آپ کو کوئی
حکم صرف آپ کی حیاتِ مبارکہ کے ساتھ مخصوص ہو اور بعد کے کرنے والوں کیلئے
ناجائز ہو تو آپ پر یہ لازم ہے کہ آپ فرما دیں کہ یہ حکم میرے زندگی کے
ساتھ خاص ہے اور بعد کے لوگوں کیلئے اس کا کرنا جائز نہیں ہے جیسا کہ آپ نے
حضرت ابوبردہ بن نیاز رضی اللہ عنہ کو ایک شش ماہی بکرے کی قربانی کرنے کا
حکم دیا اور فرما دیا: تمہارے بعد کسی کیلئے یہ عمل جائز نہیں۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں: کاش میری عقل ان لوگوں کے پاس ہوتی جو
لوگ اولیا اللہ سے استمداد اور ان کی امداد کا انکار کرتے ہیں یہ اس کا کیا
مطلب سمجتے ہیں؟ جو کچھ ہم سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ دعا کرنے والا اللہ کا
محتاج ہے اور اللہ تعالٰی سے دعا کرتا ہے اور اس سے اپنی حاجت کو طلب کرتا
ہے اور یہ عرض کرتا ہے کہ اے اللہ! تو نے اپنے اس بندہ مکرم پر جو رحمت
فرمائی ہے اور اس پر جو لطف و کرم کیا ہے اس کے وسیلہ سے میری حاجت کو پوری
فرما، کہ تو دینے والا کریم ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ اس اللہ کے ولی کو
ندا کرتا ہے اور اس کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ اے بندہ خدا! میری سفارش
کریں اور اللہ تعالٰی سے یہ دعا کریں کہ وہ میرا سوال اور میرا مطلوب مجھے
عطا کرے اور میری حاجت بر لائے، سو مطلوب کے دینے والا اور حاجت کو پورا
کرنے والا صرف اللہ تعالٰی ہے اور یہ بندہ درمیان میں وسیلہ ہے اور قادر،
فاعل اور اشیا میں تصرف کرنے والا صرف اللہ تعالٰی ہے اور اولیا اللہ، اللہ
تعالٰی کے فعل، سطوت، قدرت اور غلبہ میں فانی اور ہالک ہیں اور ان کو اب
قبر میں افعال پر قدرت اور تصرف حاصل ہے اور نہ اس وقت قدرت اور تصرف حاصل
تھا، جب وہ زندہ تھے۔
ابواالجوزا حضرت اوس بن عبد اللہ فرماتے ہیں ایک دفعہ مدینہ طیبہ میں سحت
قحط پڑا، اہل مدینہ نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا
سے شکایت کی، آپ نے فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار مبارک کو
دیکھو اور آسمان کی طرف اس کا روشن دان کھول دو تاکہ اس کے اور آسمان کے
درمیان چھت حائل نہ رہے انہوں نے ایسا ہی کیا تو اتنی بارش ہوئی کہ سبزہ
اگا، اونٹ موٹے ہو گئے اور چربی کی زیادتی کی وجہ سے ان کے جسم پھٹ گئے،
چنانچہ اس سال کا نام ہی شام الفتق رکھ دیا گیا۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا پاؤں مبارک سو گیا۔ ایک شخص نے
انہیں کہا: اس ہستی کو یاد کرو جو تمہیں تمام انسانوں سے زیادہ محبوب ہو،
انہوں نے کہا: یا محمد صلی اللہ علیک وسلم! ان کا پاؤں اسی وقت صحیح ہو
گیا۔
امام بخاری علیہ الرحمہ راوی ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت
میں جب لوگ قحط میں مبتلا ہوئے تو حضرت عمر حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے
وسیلے سے بارش کی دعا کرتے اور عرض کرتے: یا الٰہی! ہم تیری بارگاہ میں
تیرے نبی کے محترم چچا کا وسیلہ پیش کرتے ہیں، تو ہمیں سیراب فرما۔
یوں دعا مانگتے ہی انہیں بارش عطا کر دی گئی۔ ابن تیمیہ اور ان کے مقلدین
کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
کے بجائے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا وسیلہ پیش کیا، اس سے معلوم ہوا کہ
رسول اللہ کے وصال کے بعد آپ سے توسل جائز نہیں یہ کھلا ہوا مغالطہ ہے۔
لہٰذا اس حدیث سے ثابت ہو گیا کہ اعمال کے علاوہ ذوات صالحین کا وسیلہ پیش
کرنا جائز ہے اور اس پر صحابہ کا اجماع ہے کیونکہ یہ دعا صحابہ کے اجتماع
میں مانگی گئی اور کسی نے بھی اس پر اعتراض نہ کیا۔ دوسرا اگرچہ حضرت عباس
وہ برگزیدہ ہستی ہیں کہ ان کا وسیلہ بھی پیش کیا جا سکا تھا لیکن حضرت عمر
فاروق رضی اللہ عنہ نے یوں عرض کیا یا اللہ! ہم تیرے نبی کے چچا کا وسیلہ
پیش کرتے ہیں تو دراصل یہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہی کا وسیلہ ہے۔
علامہ بدر الدین عینہ کے نقل کردہ روایت میں ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ
نے ان الفاظ سے دعا کی: اے اللہ! بلا گناہوں کے سبب ہی نازل ہوتی ہے اور
توبہ ہی سے دور ہوتی ہے یہ لوگ میرے وسیلے سے تیری طرف متوجہ ہوئے ہیں
کیونکہ میرا تعلق تیرے نبی سے ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صرف حضرت عباس رضی اللہ
عنہ ہی کا وسیلہ کیوں پیش کیا حالانکہ اس وقت اور بھی بہت صحابہ موجود تھے؟
معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ بتانا چاہتے تھے کہ لوگوں! حضور نبی
کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا مقام تو اپنی جگہ اللہ ان کے امتیوں کے
وسیلہ سے بھی دعا قبول فرماتا ہے۔
لہٰذا ثابت ہوا کہ بارگاہ خداوندی میں حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
کا وسیلہ پیش کرنا تو مسلم تھی ہی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی
اللہ عنہ کا وسیلہ پیش کرکے بتلا دیا کہ توسل حضور نبی کریم کے ساتھ ہی
حاصل نہیں ہے بلکہ آپ کے قرابت دار اور اہل صلاح امتیوں کا وسیلہ بھی پیش
کیا جا سکتا ہے تاکہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ رہے کہ حضور نبی کریم کو
وسیلہ بنایا جا سکتا ہے امتی کو وسیلہ نہیں بنا سکتے۔
حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ عرض کرتے ہیں جس کا ترجمہ یوں ہے:
“اے میرےمالک! آپ میری حاجت میں شفیع ہوں، میں تمام مخلوق میں آپ کا غنا کا
فقیر ہوں۔“
“اے جن و انس سے زیادہ کریم! اے مخلوق کے خزانے! مجھ پر احسان فرمائیں اور
اپنی رضا سے مجھے راضی فرما دیں“۔
“میں آپ کی بخشش کا امیدوار ہوں، اور آپ کے سوا مخلوق میں ابوحنیفہ کا کوئی
نہیں“۔
حضرت امام مالک رحمہ اللہ علیہ مسجد نبوی میں تشریف فرما ہیں، منصور (نبو
عباس کے خلیفہ ثانی) نے حضور اکرم کے مزار انور کی زیارت کیلئے حاضری دی،
تو حضرت امام مالک سے پوچھا: اے ابو عبد اللہ! میں قبلہ رخ ہو کر دعا کروں
یا رسول اللہ کی طرف رخ کروں؟ امام مالک نے فرمایا: تم اپنا چہرہ حضور نبی
اکرم سے کیوں پھیرتے ہو؟ حالانکہ آپ اللہ تعالٰٰی کی بارگاہ میں تیرا اور
تیرے جد امجد سیدنا آدم علیہ السلام کا وسیلہ ہیں، بلکہ آپ کی طرف رخ کر،
آپ سے شفاعت کی درخواست کر، اللہ تعالٰی تیرے بارے میں آپ کی شفاعت قبول
فرمائے گا“۔
حضرت امام شافعی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: آل نبی میرا زریعہ ہے اور وہ
اللہ تعالٰی کی طرف میرا وسیلہ ہے، مجھے امید ہے کہ ان کے وسیلے سے مجھے
قیامت کے دن نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ نے امام شافعی کے وسیلہ سے دعا مانگی تو
ان کے صاحبزادے حضرت عبد اللہ کو تعجب ہوا، امام نے فرمایا: امام شافعی کی
مثال ایسی ہے جیسے لوگوں کیلئے سورج اور بدن کیلئے صحت۔
امام غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: سفر کی دوسری قسم میں انبیا کرام علیہم
السلام، صحابہ، تابعین اور دیگر اولیا کرام کے مزارات کی زیارت بھی داخل
ہے، زندگی میں جس کی زیارت سے برکت حاصل کی جا سکتی ہے وفات کے بعد بھی اس
کی زیارت سے برکت حاصل کی جا سکتی ہے۔
ملا علی قاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: کہا گیا ہے کہ جب تم مختلف امور میں
حیران ہو جاؤ تو اہلِ قبور کے وسیلے سے دعا کرو، اللہ تعالٰی مرادیں بر
لائے گا۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ تقریباً ہر طبقے میں احترام کی
نظر سے دیکھے جاتے ہیں، وہ فرماتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ
پر اسرار ظاہر فرمائے اور مجھے خود ان چیزوں کی پہچان کرائی اور میری بہت
بڑی اجمالی امداد فرمائی اور مجھے بتایا کہ میں اپنی حاجتوں میں آپ سے کس
طرح مانگوں۔
قاضی شوکانی غیر مقلد لکھتے ہیں: حضور اکرم سے توسل آپ کی حیات میں بھی ہے
اور وصال کے بعد بھی، آپ کی بارگاہ میں بھی ہے اور آپ کی بارگاہ سے دور
بھی، حضور اکرم کی حیات مبارکہ میں آپ سے توسل ثابت ہے آپ کے وصال کے بعد
دوسروں سے توسل باجماع صحابہ ثابت ہے۔
نواب صدیق حسن خان بھوپالی غیر مقلد بارگاہ رسالت میں عرض کرتے ہیں: اے
میرے آقا: اے میرے سہارے، میرے وسیلے، سختی اور نرمی میں میرے کام آنے
والے۔ میں آپ کے دروازے پر اس حال میں حاضر ہوں کہ میں ذلیل ہوں، گڑگڑا رہا
ہوں اور میرے سانس پھولی ہوئی ہے۔۔۔ آپ کے سوا میرا کوئی نہیں ہے جس سے مدد
مانگی جائے۔ اے رحمہ للعالمین! میرے آہ و پکار پر رحم فرمائیے۔
نواب وحید الزمان غیر مقلد لکھتے ہیں: جب کتاب و سنت سے اللہ کی بارگاہ میں
اعمال صالحہ کا وسیلہ پیش کرنا جائز ہے تو اس پر اولیا کرام کے توسل کو
قیاس کیا جائے گا۔ علما فرماتے ہیں کہ دعا کا ایک ادب یہ ہے کہ اللہ کی
بارگاہ میں انبیا و اولیا کا وسیلہ پیش کیا جائے۔
مولوی اشرف علی تھانوی بارگاہ رسالت میں عرض کرتے ہیں: اے اللہ کے محبوب!
میرے دستگیری فرمائیں، میرے عجز کا آپ کے سوا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ آپ میری
لغزش پر رحم فرمائیں اور اے مخلوق کی شفاعت کرنے والے اللہ تعالٰی کی
بارگاہ میں شفاعت فرمائیں۔۔۔ آقا! آپ کے دربار کے علاوہ میرا کوئی سہارا
نہیں۔
ضیاء مدینہ حضرت مولانا ضیاءالدین مدنی خلیفہ امام احمد رضا بریلوی قدس
سرہما سے ایک نجدی قاضی نے مسئلہ توسل بر بحث کی اور سوال کیا کہ جواز توسل
پر آپ کے پاس کوئی دلیل ہے تو پیش کیجئے۔ آپ نے جواز توسل کی یہ قرآنی آیت
پیش کی:
یایھا الذین امنو اتقو اللہ وابتغو الیہ الوسیلہ (اے ایمان والو اللہ سے
ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو)۔
نجدی قاضی نے کہا: اس میں اعمال صالحہ مراد ہیں۔ حضرت مدنی نے برجستہ سوال
فرمایا: ہمارے اعمال مقبول ہیں یا مردود؟ یہ سوال سن کر وہ مبہوت ہو گیا
اور کہنے لگا کہ اعمال مقبول بھی ہو سکتے ہیں اور مردود بھی اس لئے یقین کے
ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ حضرت مدنی نے پھر سوال فرمایا: اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہ خداوندی میں مقبول ہیں یا نہیں؟ اس نجدی قاضی نے
جواب دیا: یقینا وہ بارگاہ الٰہی میں مقبول ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا: اعمال
صالح جن کی مقبولیت مشکوک ہے ان کو وسیلہ اس آیت کی روشنی میں جائز ہے تو
پر سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ کیوں جائز نہیں؟ جا بارگاہِ الٰہی
میں یقینا قطعا مقبول ہیں؟
اللہ تعالٰی کے مقبول اور محبوب بندوں کو وسیلہ بنانے اور ان سے استعانت کا
یہ وہ عقیدہ ہے جو حضور نبی کریم کے زمانہ سے آج تک جمہور امت اور ائمہ
اسلام کے نزدیک مقبول اور معمول چلا آ رہا ہے۔ الحمد للہ! یہی عقیدہ
اعلٰحضرت، امام اہلسنت، مجدد دین ملت الشاہ امام احمد رضا بریلوی رحمہ اللہ
علیہ کا ہے، جنہوں نے اپنی تصانیف میں دنیائے اسلام کے مسلم اور مستند علما
کے ارشادات اور قرآن و حدیث کے حوالے سے اپنے معتقدات کو پیش کیا ہے۔
مخالفین یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ عقیدہ بریلویوں کو خصوصی
عقائد میں سے ہے اور اسی آڑ میں وہ اپنے فتوے جاری کر دیتے ہیں۔ اوپر دیے
گئے حوالہ جات سے قارئین ہی انصاف کریں گے کہ سلف صالحین کا تسلسل حق پر ہے
یا یہ مخصوص فرقہ؟ اگر پھر بھی کوئی ان مسلمہ عقائد پر کفر و شرک کے فتوے
لگاتا ہے تو اس کیلئے صرف اتنا ہی کہوں گا۔۔۔
دشمنِ احمد پی شدت کیجئے
ملحدوں کی کیا مروت کیجئے
ذکر ان کا چھیڑیے ہر بات میں
چھیڑنا شیطاں کا عادت کیجئے
غیظ میں جل جائیں بے دینوں کے دین
یا رسول اللہ کی کثرت کیجئے
شرک ٹھہرے جس میں تعظیمِ حبیب
اس برے مذہب پہ لعنت کیجئے
بیٹھتے اٹھتے حضور پاک سے
التجا و استعانت کیجئے
غوثِ اعظم آپ سے فریاد ہے
زندہ پھر یہ پاک ملت کیجئے
یا خدا تجھ تک ہے سب کا منتہٰی
اولیا کو حکمِ نصرت کیجئے
میرے آقا حضرتِ اچھے میاں
ہو رضا اچھا وہ صورت کیجئے |