بعدازخرابی ٔبسیاربالآخر فوجی عدالتوں میں دو سال کی
توسیع کے لیے تمام سیاسی جماعتوں میں مکمل اتفاق ہو گیا۔ توسیع کا بل پیر
کو پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد منگل کو سینٹ سے منظور کروایا جائے گا۔ حکومت
نے پیپلزپارٹی کے نو میں سے چار مطالبات مان لیے جبکہ پانچ مطالبات سے
پیپلزپارٹی پیچھے ہٹ گئی۔ یہ طے ہوا کہ فوجی عدالتوں اور سکیورٹی معاملات
پر نگرانی کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ جس میں سینٹ اور قومی
اسمبلی کے ارکان شامل ہوں گے۔ فوجی عدالتوں میں ٹرائل پر قانون شہادت کا
مکمل اطلاق ہوگا‘ ملزم کی گرفتاری کی وجہ بھی بتائی جائے گی اور ملزم کو
چوبیس گھنٹوں کے اندر عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
ہمارے سیاسی راہنما شاید فراموش کر بیٹھے تھے کہ نائن الیون سے اب تک
پاکستان حالتِ جنگ میں ہے۔ اسی لیے لیت ولعل سے کام لیا جا رہا تھا۔ کچھ
عرصہ پہلے تک تو اِسے اندھی اور بے چہرہ جنگ کہا جاتا رہا لیکن اب تو دشمن
کا مکروہ چہرہ صاف نظر آ رہا ہے ۔ جنرل راحیل شریف نے 2016ء کو دہشت گردی
کے خاتمے کا سال قرار دیا تھا لیکن ایسا ہو نہ سکا جس کی واحد وجہ ہمارا
پڑوسی بھارت ہے جس کا مخبوط الحواس وزیرِ اعظم نریندر مودی آج بھی ’’اکھنڈ
بھارت‘‘ کا احمقانہ خواب سجائے بیٹھا ہے۔ اُس کے خیال میں ایٹمی پاکستان
اُس کے خواب کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ اِسی لیے بھارت پاکستان میں اندرونی
طور پر افراتفری کا ماحول پیدا کرنے کی بھرپور کوششیں کرتا رہتا ہے ۔
بدقسمتی سے ہمارا دوسرا پڑوسی افغانستان بھی بھارت کا دست و بازو بنا بیٹھا
ہے اور بھارت افغانستان کے راستے تخریب کاری کی کوششوں میں مصروف ہے ۔ صرف
پاکستانی طالبان نامی دہشت گرد کسی بھی صورت میں اتنی طویل جنگ کے متحمل
نہیں ہو سکتے تھے ۔ یہ تو بھارت ، افغانستان گٹھ جوڑ کا شاخسانہ ہے جو دہشت
گرد ابھی تک تخریبی کارروائیاں کر رہے ہیں اورکہیں نہ کہیں دھماکہ کرنے میں
کامیاب ہو جاتے ہیں۔ انہیں اسلحہ‘ ٹریننگ اور پیسہ بھارتی خفیہ ایجنسی
’’را‘‘ کی طرف سے ملتاہے اور پناہ کے لیے افغانستان حاضر۔ یہ سمجھنا بہت
بڑی غلطی ہے کہ ہم صرف طالبان سے برسرپیکار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستا ن
بیک وقت بھارت‘ افغانستان اور طالبان سے برسرپیکار ہے۔ یہ جنگ کتنی طوالت
اختیار کرے گی؟ اِس کا اندازہ لگانا فی الحال ممکن نظر نہیں آتا۔
جب کوئی ملک حالتِ جنگ میں ہو تو کچھ ہنگامی اقدام کرنے پڑتے ہیں ۔ پاکستان
میں فوجی عدالتوں کا قیام بھی انہی ہنگامی اقدامات میں سے ایک ہے جس پر کسی
کے ماتھے پر بل نہیں پڑنے چاہئیں اور نہ ہی یہ سیاسی مو شگافیوں کا مقام ہے
کیونکہ یہ معاملہ ملکی سلامتی کا ہے ۔ ویسے بھی پاکستانی فوج کسی دشمن ملک
سے نہیں آئی ، یہ اپنے ہی بھائی بیٹے ہیں جو قربانیوں کی لازوال داستانیں
رقم کر رہے ہیں ۔ ہر روز کسی نہ کسی کڑیل جوان کے ماتھے پر شہادت کا جھومر
سجتا ہے اور کسی نہ کسی دَر پر صفِ ماتم بچھتی ہے ۔ ہمارے وہ رہنماء جو
حفاظتی حصار کے بغیر ایک قدم اٹھاتے ہوئے بھی لرزہ براندام ہو جاتے ہیں‘
کیا اُنہیں ادراک ہے کہ میرے وطن کے سجیلے جوان اپنے سینوں پر گولیاں کھا
کر ناموسِ وطن کی حُرمت پر قُربان ہو نے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔ ایسے میں
اگر صرف دہشت گردی کے مقدمات کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی جاتی ہیں تو ’’بی
بی جمہوریت‘‘ کے شیدائیوں کے پیٹ میں مروڑ کیوں اُٹھنے لگتے ہیں ؟ جمہوریت
کے اِن شیدائیوں سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ اُن کے اقوال و افعال میں
جمہوریت ہے کہاں جو وہ جا و بے جا جمہوریت کی رَٹ لگا کر ٹسوے بہانے لگتے
ہیں ۔ ہمارے ہاں تو جمہور کی پکار ہمیشہ صدا بصحرا ہی رہی ۔ جمہوریت پسندوں
کو تو جمہور کی یاد صرف اُس وقت آتی ہے جب وہ ووٹوں کی بھیک مانگنے دَر
بدَر ہوتے ہیں۔ جونہی یہ مرحلہ طے ہوتا ہے‘ رہبر اپنے عالیشان محلوں میں
اور مجبور و مقہور فُٹ پاتھوں پر جنہیں دیکھ لبوں پر بے اختیارآ جاتا ہے کہ
فرشتوں نے جسے سجدہ کیا تھا
وہ کل فُٹ پاتھ پر مُردہ پڑا تھا
انتخابات جیت کر یہ حلف تو دھرتی ماں کی وفاداری کا اُٹھاتے ہیں لیکن یاد
اِنہیں صرف اپنی ’’توندیں‘‘ رہتی ہیں جو بھرنے کا نام ہی نہیں لیتیں ۔
پارلیمنٹ قانون سازی کی بجائے صرف طنز و تعریض اور گالی گلوچ کے لیے رہ گئی
ہے اور اب تو ایک قدم آگے بڑھ کر جوتم پیزار کے ’’دِل خوش کُن‘‘ مناظر بھی
نظر آنے لگے ہیں ۔ ایسے میں اِنہیں جمہوریت کی رَٹ لگاتے ہوئے شرم بھی نہیں
آتی ۔ ہم یہ تو ہر گز نہیں کہتے کہ فوجی حکومت یا آمریت بہتر ہے نہ ہی
خدانخواستہ ہم مارشل لاء کے حامی ہیں لیکن اگر با امرِمجبوری فوجی عدالتوں
جیسے اقدام اُٹھائے جاتے ہیں تو اِس میں کوئی حرج بھی نہیں کیونکہ یہ
عدالتیں عام انسانوں کے لیے نہیں بلکہ اُن دہشت گردوں کے لیے قائم کی جاتی
ہیں جو لازمۂ انسانیت سے تہی ہیں اور اپنی وحشت و بَربریت میں خونی درندوں
سے کہیں بڑھ کر۔
اگر فوجی عدالتیں شجرِ ممنوعہ ہی ٹھہریں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم ہر
مشکل میں فوجی بھائیوں کو ہی کیوں پکارتے ہیں ؟۔ اُنہیں صرف سرحدوں کی
حفاظت کے لیے ہی کیوں نہیں رہنے دیتے ۔ سیلاب آئیں تو سب سے پہلے ریسکیو کے
لیے فوج پہنچتی ہے ، زلزلے آئیں تو فوجیوں کی ضرورت ، کوئی بڑا سانحہ ہو
جائے تو فوج ہی اولین ترجیح ، قدرتی آفات پہ قابوپانا فوج کے بغیرممکن
نہیں‘ گولی کھانی ہو تو فوجیوں کا سینہ حاضر اور مردم شماری فوجیوں کے بغیر
ممکن نہیں لیکن جب مکروہ دہشت گردوں کو منطقی انجام تک پہنچانا ہو تو فوجی
عدالتوں کی بجائے سول کورٹ کا ڈھنڈورا پیٹا جانے لگتا ہے ۔ آخر یہ دو عملی
کیوں ؟۔ اگر فوج سے صرف ملک کی جغرافیائی سرحدوں کا کام ہی لینا ہے تو بسم
اﷲ پھر اُنہیں اپنا کام کرنے دیں ۔ ہم نے اُنہیں بہت سے اضافی کام سونپ
دیئے ہیں جنہیں وہ بخوشی قبول کر رہے ہیں حالانکہ یہ اُن کی بنیادی ذمہ
داری ہر گز نہیں اِس لیے قوم کو اُن کا ممنونِ احسان ہونا چاہیے۔ |