عالمی ’’یومِ خوشی‘‘ ہر سال بیس مارچ کو منایا جاتا
ہے۔ اگرچہ ہمارے چینلز وغیرہ ایسے دن منانا کم ہی بھولتے ہیں، اخبارات بھی
اس سلسلے میں عوام کو یاد دہانی کرواتے رہتے ہیں، مگر جس طرح اس اہم دن کے
بارے میں آگاہی ہونی چاہیے، ویسے بالکل نہیں تھی۔ اپنے ہاں بہت سے عالمی دن
ایسے ہیں جن کے بارے میں ہر کسی کو خبر ہوتی ہے، ماں کا عالمی دن ہے تو
پوری قوم اس روز باقی کام چھوڑ کر ماں کو سلام کرتی ہے، باقی دنوں میں شاید
یہ خدمت فرض ہی نہیں ہوئی، سلام ٹیچر کے لئے بھی سال بھر میں ایک ہی دن
مقررہے، گزشتہ دنوں خواتین کا عالمی دن منایا گیا، اب مرد بھی مطالبہ کرتے
پائے گئے ہیں کہ ان بیچاروں کے لئے بھی کوئی ایک دن تو ہو، جسے عالمی سطح
پر منایا جائے۔ بہرحال ’خوشی‘ کا عالمی دن گزر گیا، شاید ہمیں اس روز فرصت
نہیں ہوئی کہ ٹی وی وغیرہ دیکھتے اور خوش ہوتے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر ہم
بھی خوش ہو لیتے ، مگر ’نہ تھی ہماری قسمت‘ کے مصداق اگر قسمت میں خوشی
ہوتی تو یہ دن منانے سے ہمیں کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ خیر اب اگلے سال
دیکھا جائے گا، پریشانی البتہ یہ ہے کہ اگلے برس اس دن سے قبل ہمیں یاد کون
کروائے گا؟ اپنی بھول جانے کی عادت کی بناپر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ
اگلے برس پھر ہم بھول جائیں گے، یہاں کمال میڈیا کا ہے کہ وہ کس طرح اس دن
کی اہمیت کے پیش نظر مہم چلا کر بھولنے والوں کو بھی یاد دلائیں گے، اور
غمگین لوگوں کو خوشیوں کی طرف لائیں گے۔
ایک طرف سروے اخبارات میں شائع ہوا، ٹی چینلز نے رپورٹ جاری کی، بتایا گیا
کہ دنیا کے 155ممالک میں کونسا ملک خوش باش اقوام میں سرِ فہرست ہے، کونسا
فہرست کے آخری نمبر پر ہے، اور دیگر نمبروں پر کون کونسے ملک ہیں؟ دوسری
طرف دبئی کے ایک ہوٹل کی پیشکش بھی اخبارات کی زینت بنی ہے کہ جس فرد کے
نام کے معانی میں ’’خوشی‘‘ کا عنصر پایا جاتا ہے، اسے ہوٹل مذکور میں ایک
رات کا قیام مفت فراہم کیا جائے گا۔ اس میں راحت، فرحت ، فرح وغیرہ جیسے
نام شامل ہیں۔ خوش باش ممالک کے لئے لوگوں سے سروے کیا جاتا ہے، تقریباً
ڈیڑھ سو ممالک کے ایک ہزار افراد سے نفسیاتی قسم کے سوال پوچھے جاتے ہیں،
جن سے ان کی خوشی کی سطح کا اندازہ کیا جاتا ہے۔ ناروے کو خوش وخرم ممالک
کی فہرست میں اول آنے کا شرف حاصل ہوا ہے، گزشتہ برس یہی پوزیشن ڈنمارک کی
تھی۔ امریکہ ایک درجہ نیچے چلا گیا ہے، کیا جانئے کہ نئے صدر کے چار سال
پورے کرتے کرتے امریکہ مزید نیچے کھسک جائے، اس کا خلا پر کرنے کے لئے
یقینا نیچے والے ممالک اوپر آجائیں گے، یوں پاکستان کہ جس کا اِس سال 80واں
نمبر ہے، اگلے برس (امریکہ کے نیچے جانے سے) 79ویں نمبر پر آجائے اور اسی
طرح سال بہ سال اوپر سے اوپر۔ اس فہرست میں امریکہ چودھویں اور برطانیہ
انیسویں نمبر پر ہے۔ مغربی یورپ اور شمالی امریکی ممالک آگے اور افریقی
ممالک پیچھے ہیں۔ اگر پاکستانی لوگ اس عالمی دن کے موقع پر ہی خوش ہو لیتے
تو بھی ممکن تھا کہ خوش و خرم ممالک میں اپنی پوزیشن اور بہتر ہوتی۔
دبئی کے ہوٹل کی انتظامیہ کو بھی شاید اسی قسم کا خیال آیا ہے، کہ قوم کو
خوش کیا جائے، مگر یہاں خوشی بھی عجیب طرز کی ہے، یہ خوشی صر ف انہیں لوگوں
کو دی جائے گی، جن کے نام میں خوشی جھلکتی ہو، وہ خود چاہے کتنے ہی سڑیل
مزاج ہوں۔ اگرچہ بہت سے لوگ اسمِ بامسمٰی ہوتے ہیں، ان کی عادتیں اپنے نام
سے بہت ملتی جلتی ہوتی ہیں، (خوشی یا بدمزاجی، دونوں صورتوں میں)۔ یقینا وہ
ہوٹل کافی معیاری ہوگا، کہ جس میں مفت رات گزارنے کی آفر کو قبول کر کے لوگ
مزید خوشی محسوس کریں گے، ان لوگوں کی خوشی یقینا دوبالا ہو جائے گی۔ خبر
سے یہ اندازہ نہیں ہو سکا کہ خوشی کے معانی رکھنے والے لوگوں کو ہی کیوں
مزید خوشی دی جارہی ہے، ممکن ہے، کسی نے ایسا نسخہ بتایا ہو، کہ ایسا کرنے
سے ہوٹل انتظامیہ کو مزید خوشی نصیب ہونے کے امکانات ہو سکتے ہیں،یہ بھی
ممکن ہے کہ ہوٹل والے کسی بڑے کے نام میں بھی خوشی کا عنصر موجود ہو، وہ
اپنے ہم نام لوگوں کو خوش کرنا چاہتے ہوں۔ بہرحال وہ غم کے معانی دینے والے
ناموں کے حامل افراد کو بھی موقع دیں، اور کچھ نہ ہوا تو غمگین افراد کو تو
خوشی نصیب ہو جائے گی۔ |