2013 میں سندھ پبلک سروس کمیشن کی جانب سے مقابلے کے
امتحان CCE کے ذریعے بھرتی کئے جانے والی اسامیوں کا اشتہار دیا گیا ۔دسمبر
2016 میں اسکریننگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا ۔ جس میں 27000 امیدوار شریک
ہوئے ،اور 2813 امیدوار کامیاب قرار پائے ۔ اپریل 2015میں کامیاب امیدواروں
سے تحریری امتحان لیاگیا اور اس میں664 امیدوار کامیاب قرار دئے گئے۔اس کے
بعد آخری مرحلے یعنی انٹرویو میں صرف 227 امیدواران کو مختلف عہدوں کےلیے
موزوں قرار دئے گئے اور نتائج کا اعلان 19 اگست 2016 کو کیا گیا ۔
کامیاب امیدواروں کو حکومت سندھ کی جانب سے آفر آرڈرز تک جاری کر دئے گئے
طبی معائنے اور پولیس تصديق کے مراحل سے گزر کر امیدوار ملازمت جوائن کرنے
ہی والے تھے کہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے چئرمین و ممبران سندھ پبلک سروس
کمیشن کی نااہلی کے حوالے سے ازخودنوٹس کی سماعت کے دوران کمیشن کی جانب سے
کی گئی سفارشات پہ عمل درآمد سے حکومت سندھ کو روک دیا گیا ۔
کیس کی سماعت کے دوران ہی کمیشن کے چئرمین اور ممبران اپنے عہدوں سے مستعفی
ہو گئے ،صرف دو ممبران سائینداد سولنگی اور غلام شبیر شیخ کو اپنے عہدوں پہ
برقرار رکھا گیا ۔ممبران کی اہلیت کے معاملات سے نمٹنے کے بعد فاضل عدلیہ
اس نتیجے پر پہنچی کہ چئرمین اور ممبران جو کہ خود نا اہل تھے ان کے لئے
گئے انٹرویوز اس ان کی جانب سے مقرر کئے گئے افراد کس طرح سے اہل قرار دئے
جا سکتے ہیں ۔ اس صورتحال میں ا اپنے دفاع کے لیے کامیاب امیدواروں نے 4
وکلا کی خدمات حاصل کیں جن میں عاصمہ جہانگیر ، ابراہیم ستی،خاور شاہ اور
ذولفقار ملوکا شامل ہیں ۔ اعلیٰ عدلیہ نے تجویز پیش کی کہ انانٹرویوز
دوبارہ کرائے جائیں مگر یہ بات حکومت سندھ اور امیدوار دونوں کے لیے قابل
قبول نہیں تھی ۔کامیاب امیدواروں کے وکلاء کا یہ موقف تھا کہ چئیرمین اور
ممبران کی نااہلی سے ان کے موکلوں کا کوئی تعلق نہیں ،لہٰذا انکو اسکی سزا
نہ دی جائے ۔فاضل عدالت نہیں اپنی تجویز واپس لیتے ہوئے سندھ پبلک سروس
کمیشن سے CCE 2013 کا تمام رکارڈ طلب کر لیا ۔16 فروری کی سماعت کے دوران
عدالت عظمیٰ نے وہی پرانی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ انٹرویوز دوبارہ کرائے
جائیں یا تتحریری امتحانات کی کاپیاں فیڈرل پبلک سروس کمیشن سے چیک کرائی
جائیں ۔ امیدواروں کے وکلاء نے دونوں تجاویز رد کرتے ہوئے مقدمے کو میرٹ پہ
چلانے کی استدعا کی ۔
آخری سماعت 2 فروری کو ہوئی جس صبح 9:30 سے دوپہر 2 بجے تک جاری رہی اس
سماعت میں ججز نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اعتراض صرف انٹرویوز والے مرحلے
ہےجو چئرمین اور ممبران کی نااہلی کی وجہ سے متنازع بن چکا ہے ، تحریری
امتحان چونکہ سیکرٹری اور کنٹرولر سندھ پبلک سروس کمیشن کے زیر نگرانی
منعقد ہوئے اور امتحانی پرچے پروفیسرز نے بنائے اور چیک کئے اسی لئے ان کے
نتائج قابل قبول ہیں ۔ اس حوالے سے دلیل دیتے ہوئے امیدواروں کے وکیل
ابراہیم ستی نے کہا کہ اگر CCE 2013 کے انٹرویوز کالعدم قرار دئے گئے تو اس
کمیشن کے تحت لئے گئے دیگر تمام عہدوں کے لیے لئے گئے تمام انٹرویوز کالعدم
قرار دئے جایئں ،ابراہیم ستی نے یہ بھی کہا کہ پہلے چئرمین اور ممبران کو
باضابطہ طور پر نااہل قرار دیا جائے اور انہیں دی گئی تنخواہیں اور مراعات
واپس لی جائیں اس کے بعد اانٹرویوز کا دوبارہ انعقاد کیا جائے ۔ عاصمہ
جہانگیر نے امیدواروں کے دفاع میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس امتحان میں
کامیابی کے بعد کتنے ہی امیدواروں نے ملازمتیں چھوڑ دیں کیونکہ انہوں نے
یہاں جوائن کرنا تھا ،اس پہ جج صاحب نے فرمایا کہ ایسے امیدواروں کو
انٹرویوز کے دوبارہ انعقاد کی صورت میں سابقہ ملازمتوں پہ بحال کیا جائے گا
۔
ان میں سے متعدد امیدوار ایسے تھے جنہوں نے فیڈرل پپبلک سروس کیمشن کے
ذریعے ملازمت حاصل کی تھی ۔کامیاب اور ناکام اامیدواروں کو سننے کے بعد
فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ۔
13 مارچ کو فیصلے کا اعلان کیا گیا فیصلے میں CCE2013 کو کالعدم قرار دے
دیا گیا اورصرف ااسکریننگ ٹیسٹ کے نتائج بحال رکھے گئے ،بڑے پیمانے پہ کی
گئی بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کو اس فیصلے کی بنیاد بنایا گیا اور سب
جانتے ہیں کہ یہ تمام انتظامی بےقاعدگیاں ہیں جن سے اامیدواروں کا کوئی
تعلق نہیں ۔
آئیے ایک نظر ان بے قاعدگیوں پہ ڈالتے ہیں
1- تحریری امتحانات کے نتائج کےلیے ۱۱ مہینے کا وقت کیوں لیا گیا
2-جن امیدواروں نے امتحانات میں زیادہ نمبر لئے انہیں انٹرویو میں کم نمبر
کیوں دئے گئے
3۔انٹرویو کے کل نمبر 250 تھے ہر ممبر نے کتنے نمبر دئے یہ واضح کیوں نہیں
کیا گیا
4۔تین میں سے دو ممبر نااہل تھے
5۔امتحانات کے نتائج کے بعد کمیشن کو 250 درخواستیں موصول ہوئيں جن میں ری
چیکنگ کی درخواست کی گئی
6- تحریری امتحانات اور انٹرویو کے بعد امیدواروں نےجونمبر حاصل کئے انکو
مشتہر کیوں نہیں کیا گیا
7۔ تحریری امتحانات کےبعد انٹرویوز تک 16 مہینے کا وقت کیوں لیا گیا
کیا یہ ایسی بےقاعدگیاں ہیں جن کی بنیاد پہ پورے امتحان کو کالعدم قرار دیا
جائے ،ماہرین کے مطابق یہ تمام بے ضابطگیاں CSS کے امتحانات میں بھی نوٹس
کی جا سکتی ہیں ۔اس کے نتائج کے اعلان میں بھی 8-10 ماہ کا عرصہ لگ جاتا ہے
،نتائج کےبعد سیکڑوں درخواستیں ری چیکنگ کے حوالے سے موصول ہوتی ہیں ۔ CSS
میں بھی کئی سال تک سندھ شہری کوٹہ کی سیٹیں خالی جاتی رہی ہیں ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان باتوں پہ غور کون کرےگا ،اگر کچھ ممبران عدالت
کی نظر میں نااہل قرار پائے مگر جو ممبران اہل تھے ان کے دئے گئے نتائج پہ
بھی اسی تلوار سے حملہ کیا گیا۔واضح رہے زیر نظر کیس میں سرکاری وکیل کی
دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی لیکن اس حوالے سے حکومت کی جانب سے کیا
اقدامات کیے گئے ؟عدالت کو پختہ یقین ہے کہ نتائج میں ردوبدل کیا گیا
،تقرریوں میں کرپشن کا ثبوت ملا تو کرپشن کرنے والوں کو کیا سزا دی گئی ؟
اگر کرپشن اور بے قاعدگی ثابت نہیں ہوئی تو سب کو سزا کیوں ملی۔
امیدواروں کی یہ دلیل مضبوط ہے کہ CSS میں بھی شہری سندھ کی سیٹیں خالی رہ
جاتی ہیں تو وہاں کتنے امتحان کالعدم قرار دیے گئے ۔امیدواروں نے محنت سے
امتحان پاس کیے انکو کرپشن کی آڑ میں دربدر کرنے کا انکا مستقبل تباہ کرنے
کا ذمہ دار کون ہوگا؟ |