آج23مارچ ہے ہرسال کی طرح اس سال بھی یوم پاکستان ہم اسی
’’روایتی‘‘ جوش و جذبہ سے منارہے ہیں جیسا کہ ہم گذشتہ 76برس سے مناتے آرہے
ہیں۔ 23مارچ 1940کے دن کوہماری ملی تحریک وتاریخ میں جواہمیت حاصل ہے وہ
محتاج بیان نہیں ہے،آج سے76سال قبل اس عظیم دن اقبال پارک لاہورمیں قرارداد
لاہور منظور ہوئی جسے قرارداد پاکستان بھی کہاجاتاہے ،جب بھی ہر سال 23مارچ
کی سپیدہ سحرنمودارہوتی ہے تواسکی کرنیں قوم کو ایک واضع پیغام دیتی ہیں کہ
غلامی کے ماحول کو پس منظر دھکیلنے کیلئے جرات و ہمت ،پختہ ارادہ اور اپنے
موقف اور اصولوں پر ڈٹے رہناچاہیے اس دن مسلمانوں کے سمندربے کراں نے ایک
آزاد مسلم وطن حاصل کرنے کاعزم مصمم کیا اور پھر اسکوحاصل کرنے کیلئے
قربانیاں دینے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی ،انگریز کی منافقت اور ہندوکی عداوت
کے باوجود عزم و ہمت کے عوض اپنے دیرینہ خواب کوشرمندہ تعبیرکرنے میں
کامیاب ہوئے ۔ لیکن کیا ہم 23مارچ کواس انداز اور طریقے سے مناتے ہیں جیسا
کہ اس کے منانے کاحق ہے ؟تومیرے خیال میں بالکل نہیں ۔اگرچہ ہم اس دن کو
مناتورہے ہیں لیکن اس دن کے پس منظر کوسامنے رکھے بغیر۔جب 23مارچ قریب
آتاہے تو حکومت سرکاری تعطیل کااعلان کردیتی ہے اور پھر اسکے مناسبت سے ملک
بھر میں مختلف پروگرامات کاانعقاد کیاجاتاہے جبکہ عوامی سطح پرہماری
لاپرواہی کاعالم یہ ہے کہ ہم اس انتہائی اہم دن کو ’’نعمت غیر مترقبہ‘‘تصور
کرکے یاتوسارادن آرام کرتے رہتے ہیں یاپھر سیروتفریح کی نیت سے سیاحتی
مقامات کارخ کرلیتے ہیں ،حالانکہ اگرہم تھوڑ اساغور کریں تو23مارچ کایہ دن
چیخ چیخ کرہم سے ایک مطالبہ کررہا ہے یہ دن ہمیں اس مشن کی یاد دلاتاہے
جوہمارے بزرگوں نے شروع کیاتھا اور جسے پایہ تکمیل تک پہنچاناہم پر واجب ہے
یہ دن ہمیں وہ وعدے بھی یاددلاتاہے جوہمارے اکابرین نے مسلمانان ہند سے کیے
تھے وہ مشن اور وعدے کیاہیں ؟یہ جمعرات22مارچ 1940کی بات ہے جب آل انڈیا
مسلم لیگ کاستائیسواں اجلاس اقبال پارک (منٹوپارک ) لاہور میں شروع ہوا
جمعتہ المبارک 23مارچ کومولوی ابوالقاسم فضل الحق’’شیربنگال‘‘نے وہ تاریخی
قراردادپیش کی جو آج ’’قرارداد پاکستان‘‘کے نام سے جاناجاتاہے اس
قراردادمیں وہ کونسی خاص بات تھی جس پر چل کر مسلمانان ہند نہ صرف سات سال
کے قلیل عرصے میں ایک آزاد اسلامی مملکت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے؟یہ
قائدین کے دلوں مسلمانوں کی فلاح وبہبود کیلئے فکر اور اسلام سے محبت
کاجذبہ تھا ،جس پر چل کروہ اپنے مشن میں کامیاب رہے۔اس بات کااندازہ ہم
قراردادپاکستان کے اجلاس میں قائدین کے خطابات سے بخوبی لگاسکتے ہیں
۔بابائے قوم قائد اعظم نے 22مارچ کے اپنے صدارتی خطاب میں دوٹوک الفاظ میں
فرمایا کہ ہندو اور مسلمان صرف دو مختلف قومیں ہی نہیں بلکہ دو الگ الگ
تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں ،ہندو اور مسلمانوں کے مذاہب الگ ،انکے طرز
معاشرت ،رسم و رواج الگ،انکے آداب الگ ،نہ تو یہ دونوں اکٹھے کھانا کھاسکتے
ہیں اور نہ ہی آپس میں شادیاں کرسکتے ہیں ۔بلکہ خیالات و تصورات سے لیکر
زندگی کے ہر پہلواور ہرزاویے سے ہندو اور مسلمان آپس میں ایک نہیں ہوسکتے
۔ان دونوں اقوام میں کسی ایک کاہیرو دوسرے کادشمن اور کسی ایک کی فتح دوسرے
کی شکست ہوتی ہے،لہذا مسلمانوں کیلئے ایک ایسے وطن کوحاصل کرنااب ناگزیر
ہوچکاہے جس میں وہ اسلامی اقدارکے مطابق زندگی گزارسکے۔قاضی محمدعیسی جوکہ
قائد کے ایک بااعتماد ساتھی تھے ،انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ جب مسلمان
آزادی حاصل کر لیں گے تو ان صوبوں کے مسلمانوں کوجواقلیت میں ہیں ،کبھی
فراموش نہیں کریں گے بلکہ انکے قبضہ قدرت میں جوکچھ بھی ہوگا اس سے ان انکی
ضرورکرینگے،سید عبدالرؤف شاہ جو قائد اعظم کے خاص ساتھیوں میں شمارہوتے
تھے،انہوں نے اپنے خطاب میں کہاکہ میراتعلق ایک ایسے صوبے سے ہے جہاں
مسلمان چند فیصد ہیں ،جن پر آزادی کے بعدکانگریس ظلم کے پہاڑ ضرورتوڑینگے
لیکن ان تمام مصائب پر صبر کرکے ہم صرف اس لیے پاکستان کی حمایت کررہے ہیں
کہ ہمارے بھائی تو آزادی کے نعمت سے بہر ورہوں گے اور پاکستان میں دین
اسلام کابول بالاہوگا،سرعبداﷲ ہارون جوکہ تحریک پاکستان کے ایک اہم رہنما
تھے انہون نے اپنے خطاب میں کہا کہ اگر ہندو صوبوں میں مسلمانوں کے ساتھ
غیر منصفانہ سلوک کیاگیا تو مسلم صوبوں کے مسلمان اس پر خاموش نہیں رہیں گے
بلکہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کاپوراپوراساتھ دیں گے ۔اپنے بزرگوں کے بیانات
میں سے چند آپ نے ملاحظہ فرمالئے ہیں کہ وہ کیوں اور کس مقصد کیلئے ایک
آزاد مسلم مملکت حاصل کرناچاہتے تھے انکامقصد صرف اور صرف یہی تھا کہ آزاد
پاکستان میں مسلمان نہ صرف اﷲ تعالی کے احکام اور نبی مہربان حضرت محمد ﷺ
کے طریقے پرزندگی بسرکرینگے ،ہمارے قائدین نے جوبھی وعدے کیے وہ انہوں نے
پورے کردکھائے ،لیکن نہایت ہی افسوس کے ساتھ لکھناپڑرہاہے کہ بزرگان ملت کے
جانے کے بعد ہم نے انکے سب خواب چکناچور کردیے، ہم نے اپنے بزرگوں کے وہ
تمام اقوال ردی کی ٹوکری میں ڈال دیے جن پر چل کر ہم اقوام عالم کی رہنمائی
کرسکتے تھے ،ہم بھارتی و کشمیری مسلمانوں کی کیامدد کریں گے؟ہم نے تو اپنی
ناعاقبت اندیشیوں سے اپناآدھے سے زیادہ ملک گنوادیا نہ صرف آدھے سے زیادہ
ملک گنوایا بلکہ جوبچ گیاوہ بھی امریکی احکامات کی روشنی میں چلانے لگے جس
کے نتیجے میں آج پورے ملک میں ہر طرف افراتفری کاعالم ہے ،گوادرسے
کشمورتک،پشاورسے کراچی تک اور گلگت سے مظفرآباد تک نہ کسی کی جان ومال
محفوظ ہے اور نہ ہی عزت و آبرو۔اسکاسبب حکمرانوں کی ضمیر فروشی کے ساتھ
ساتھ ہمارے اعمال بھی ہیں ،کیونکہ ہم ایک تاریخی پس منظر رکھنے والی
نظریاتی قوم ہیں اور جب تک ہم اپنے نظریئے سے وفاداری نہیں کریں گے اسلام
سے محبت ،لگاؤ نہیں رکھیں گے تب تک مسائل کے دلدل سے نکلنا ہمارے لیے ممکن
نہیں ،لہذااگرہم چاہتے ہیں کہ ہم مسائل کے دلدل سے نکل کردنیا میں ایک
باوقار مقام حاصل کریں تو پھر23مارچ سے ہمیں یہ عہد کرناہوگا کہ ماضی میں
ہم سے جوغلطیاں ہوچکی ہیں ہم اسے دہرانے کی بجائے ان غلطیوں کاازالہ کریں
گے ،اگرہم ایساکرلیں تو بہت جلد نہ صرف ہم اپنے مسائل پر قابو پالیں گے
بلکہ دنیا میں ایک باعزت قوم بھی کہلائیں گے۔(ان شاء اﷲ ) |