پولیٹیکل سائنس کے طالبعلم کی حیثیت سے آج کے دن کی
مناسبت سے جہاں ہم تاریخی اوراق کا مطالعہ کریں گے وہیں ، اس دن کی مناسبت
سے تجدید کا عہد بھی کریں گے ۔ اس دن کی مناسبت سے ہم زمان وٹو ، سرفراز
ورک جیسے آفیسر کو بھی سلام پیش کریں گے کہ جنہوں نے تمام تر نامصاعد حالات
کے باوجود ملک اور عوامی مفاد کے آگے کبھی کمپرومائز نہیں کیا۔ قارئین آج
کا دن وطن عزیز پاکستان کی تاریخ میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے، 23 مارچ
1940 ء کو لاہور میں واقع ’’منٹو پارک‘‘ موجودہ ’’اقبال پارک‘‘ میں قرار
داد پاکستان منظور ہوئی اور 23 مارچ ہی کے دن 1956 ء میں پاکستان کا پہلا
آئین منظور ہوا، 23 مارچ کی تاریخی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر سال 23
مارچ کو یوم پاکستان منانے کا اعلان سرکاری طور پر کیا گیا، اس تاریخی دن
کو منانے کیلئے پورے پاکستان میں سرکاری و غیر سرکاری سطح پر تقریبات کا
انعقاد کیا جاتا ہے، 23 مارچ 1940 ء کو قائد اعظمؒ کی زیر صدارت منظور کی
گئی قرارداد پاکستان نے تحریک پاکستان میں نئی روح پھونک دی تھی جس سے
برصغیر کے مسلمانوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوا، یہاں یہ امر قابل
ذکر ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے پیش کی گئی قرار داد کو اس وقت
’’قرار داد لاہور‘‘ کا نام دیا گیا تھا جس کو دشمنان اسلام و پاکستان نے
طنزیہ طور پر ’’قرار داد پاکستان‘‘ کے نام سے پکارنا شروع کر دیا تھا اسی
دن سے قرار داد لاہور، قرار داد پاکستان کے نام سے مشہور ہو گئی،اور
مسلمانوں نے اس نئے نام یعنی ’’قرار داد پاکستان‘‘ کو بخوشی قبول کر لیا۔
اقوام عالم کی زندگیوں میں کچھ دن اور واقعات ایسے ہوتے ہیں جو انتہائی
اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جن کو کسی صورت فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ 23مارچ
1940 ء کی قرار داد لاہور اس لحاظ سے تاریخی اہمیت کی حامل ہے کہ تحریک
پاکستان کے دوران بھارت کے مسلمانوں نے پہلی بار اس قرار داد کے ذریعے ایک
الگ وطن کا مطالبہ کیا۔یہ پہلی قرارداد تھی جس میں بھارت کے مسلمانوں کی
منزل کا تعین کیا گیا تھا۔ یہ قرارداد تاریخی شہر لاہور میں آل انڈیا مسلم
لیگ کے جنرل باڈی کے اجلاس میں قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں پرجوش
انداز میں منظور کی گئی تھی۔
برصغیر میں فروری 1937 ء کے انتخابات اور اس کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی
صورتحال میں وقت گزرنے کیساتھ ساتھ ہندو بنیوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے
گرد معاشی، سیاسی، سماجی و معاشرتی گھیرامزید تنگ کرنا شروع کر دیا تھا،ذات
پات، اونچ نیچ اور فرقوں میں بٹے ہوئے ہندو بنیوں نے نہ صرف مسلمانوں پر
زندگی تنگ کردی تھی بلکہ دیگر اقلیتوں جن میں عیسائی وغیرہ بھی شامل تھے ان
کا جینا بھی دو بھر ہو گیا تھا، ایسے حالات میں مسلمانوں کو اپنی سماجی،
ثقافتی، سیاسی، معاشرتی، مذہبی اور معاشی روایات کو پروان چڑھانے میں شدید
مشکلات کا سامنا تھا اور یہ دو قومی نظریے کی انتہا تھی، مزید یہ کہ اقتدار
کے نشے میں مست کانگریسی حکومت نے ہندو اکثریت کو رام کرنے کے لیے
انتہاپسند فیصلے کیے۔ بندے ماترم جیسے مسلم مخالف ترانے کا انتخاب انہی میں
سے ایک فیصلہ تھا کہ سبھاش چندر بوس، کانجی دوارکاداس اور خود رابندرناتھ
ٹیگور روکتے ہی رہ گئے۔ سبھاش کے بھائی سرت چندربوس کے ہارورڈ یونیورسٹی سے
وابستہ پوتے سوگاتا بوس نے حال ہی میں اپنے چچا کی سوانح میں ٹیگور کے
گاندھی کے نام خطوط بھی چھاپے ہیں جس میں بندے ماترم کو مسلمان مخالف گیت
قرار دیتے ہوئے ٹیگور نے اسے اپنانے سے منع کیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ مشہور
تاریخ دان کے کے عزیز نے تو کانگریسی وزارتوں کی قراردادوں اور فیصلوں پر
مشتمل دو جلدوں میں مستند کتاب بھی لکھی ہے جو ایسے ہی ناعاقبت اندیش
فیصلوں سے بھری پڑی ہے۔ تو یہ وہ سیاست تھی جو 23 مارچ 1940 کا جواز مہیا
کرتی ہے۔
23مارچ 1940 ء کی قرارداد کی تیاری میں اس امر کو خاص طور پر توجہ کا مرکز
بنایا گیا تھا کہ قرار داد میں کہیں بھی کوئی کمی یا خامی نہ رہ جائے جس کا
فائدہ دشمن عناصر اٹھائیں اس مقصد کیلئے بہت سے عبقری، دانشور اور قانونی
ماہرین کو قرار داد کے متن کی تاری میں شامل کیا گیا تھالیکن ہندوؤں کی
کینہ پرور لیڈر شپ ایک جامع اور مکمل قرار داد پر تنقید کرنے سے باز نہ رہ
سکی، قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی سیاسی بصیرت کی وجہ سے قرار داد کی
تیاری سے لیکر تمام معاملات بخیر و عافیت طے پا گئے، آل انڈیا مسلم لیگ کی
مجلس عاملہ نے 22,23,24 مارچ 1940 ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس
عام منعقد کرنے کا فیصلہ کیا جس میں تاریخی اہمیت کی حامل یہ قرار داد
لاہور پیش کرنا تھی جو بعد میں چل کر قرار داد پاکستان کے نام سے مشہور
ہوئی، 21 مارچ 1940 ء کا قائد اعظم محمد علی جناحؒ فرنٹیئر میل کے ذریعے
لاہور ریلوے سٹیشن پر پہنچے جہاں لوگوں کا جم غفیر آپ ؒ کے شاندار استقبال
کیلئے موجود تھا اور تاریخ بتاتی ہے کہ لاہور کے ریلوے سٹیشن پر تل دھرنے
کو جگہ نہ تھی، مسلمانوں کا جوش و خروش دیدنی تھا اور گرد و نواح کے تمام
علاقے فلک شگاف نعروں سے گونج رہے تھے۔قائد اعظم محمد علی جناح ؒ اپنے
ضروری معاملات نمٹانے کے بعد جب جلسہ گاہ پہنچے تو انہوں برجستہ تقریر کرنے
کا فیصلہ کیا اور اس وقت کے میڈیا کے مطابق قائد اعظم ؒ نے تقریباََ 100
منٹ پر مشتمل شاندار تقریر کی جس کو سن حاضرین جلسہ دم بخود رہ گئے۔
23 مارچ کے دن لوگوں میں عجیب و غریب جوش اور ولولہ تھا، ایک جنون تھا جو
ان کے جسم میں خون کی طرح دوڑرہا تھا، ان کا اپنے ساتھ کھڑے لوگوں سے کوئی
خونی رشتہ نہیں تھا لیکن پھر بھی وہ سب ایک ہی احساس دل میں لیے کھڑے تھے
اور وہ احساس تھا ایک الگ مملکت کا‘ آزادی کی ہوا میں سانس لینے اور غلامی
کی زندگی سے نجات پانے کا، ان سب کے دل متحد تھے اور زبان پر ایک ہی نعرہ
’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘بلند تھا۔اس دن کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ نہ
کوئی پنجابی تھا نہ سندھی، نہ بلوچ تھا نہ پٹھان اور نہ کوئی بنگالی تھا نہ
ہی کشمیری، وہ سب ایک خدا کو ماننے والے کلمہ گو مسلمان تھے۔آل انڈیا مسلم
لیگ کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد کو اس وقت ’’قرار داد لاہور‘‘ کا نام دیا
گیا تھا جس کو اسلام مخالف ہندؤں نے طنزیہ طور پر ’’قرار داد پاکستان‘‘ کے
نام سے پکارنا شروع کر دیا تھا لیکن مسلمانوں نے اس نئے نام یعنی قرار داد
پاکستان کو بخوشی قبول کرلیا۔ قرار داد پاکستان چھ کروڑ سے زائد مسلمانوں
کی قرار داد تھی ان کی کوششیں رائیگاں کیسے جا سکتی تھیں چنانچہ ایک جہد
مسلسل کے بعد دنیا کے نقشے پر پاکستان ایک آزاد اسلامی مملکت کی حیثیت سے
ابھرا۔ آزادی کی خوشی میں مسلمان اپنے گھر، زمین، جائیداد، مال مویشی سب
چھوڑ کر اپنی جانیں داؤ پر لگا کر پاکستان آنے کیلئے ٹرینوں میں سوار ہونے
لگے لیکن ہندؤں اور سکھوں نے بے رحمی سے مسلمانوں کا قتل عام شروع کردیا۔
نہ جانے کتنی جانیں قربان ہوئی، ہزاروں بہنوں کے سہاگ اجڑے، لاکھوں ماؤں کے
جگر کے ٹکرے چھلنی چھلنی ہو ئے، نہ جانے کتنی بیٹیاں یتیم ہو ئیں، تاریخ
گواہ ہے کہ ہندؤں اور سکھوں کے بے بہا ظلم کے باوجود ہر بچے اور بوڑھے، مرد
اور عورت کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا ’’بن کے رہے گا پاکستان، لے کے رہیں
گے آزادی‘‘۔ اپنی نسلوں کی آزادی کیلئے ہمارے بزرگوں نے جو اذیتیں برادشت
کیں ان کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ انہوں نے جو قربانیاں دیں اقوام عالم کی
تاریخ میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ ہمارے بزرگوں نے پاکستان اس نظریہ کی
بنیاد پر حاصل کیا کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں جس کا طرز زندگی، ثقافت اور
دین سب سے الگ ہے۔ اس قوم کا کسی بھی دوسری قوم میں ضم ہونا قطعی طور پر
ناممکن ہے۔لیکن آج کچھ آزاد خیال ملک دشمن لکھاری نوجوان نسل کو غلط بہکانے
کیلئے پراپیگنڈہ کررہے ہیں۔ ایسے عناصر بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو
نظریہ پاکستان کا لازمی جز قرار دیتے ہیں۔ امن کی آشا کے نام پر نہتے
کشمیریوں پر کیے جانے والے بھارتی مظالم پر پردہ ڈال رہے ہیں۔ان ملک دشمن
عناصر کی طرف سے بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کا واویلا کیا جا رہا
ہے۔اور سب سے زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ انہی عناصر کے ہم خیال ایوانوں
تک پہنچ چکے ہیں۔ ان سے پوچھا جائے کہ کیا پاکستان بھارت کو اس لیے پسندیدہ
ملک قرار دے دے کہ بھارت نے قیام پاکستان سے ہماری شہ رگ کشمیر کو اپنے
پنجہ استبداد میں لے رکھا ہے اور اپنی دھرتی کو آزاد کروانے کی جدوجہد
کرنیوالے لاکھوں کشمیری نوجوانوں کو شہید کر چکا ہے بلکہ کر رہا ہے۔ ان سے
پوچھا جائے کیا بھارت کے ساتھ اس لیے دوستانہ تعلقات قائم کیے جائیں کہ وہ
ہمارے دریاؤں کا پانی بند کرنے کے در پہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے آج تک
پاکستان کو تسلیم نہیں کیا بھارت اور پاکستان کے درمیان صلح مسئلہ کشمیر
اور دریاؤں کے پانی کے مسئلہ کے حل کیساتھ مشروط ہے۔ اگر ان مسائل کا حل
نکالے بغیر کوئی ٹولہ یہ خیال کرے کہ پاکستان کے بھارت کیساتھ اچھے تعلقات
قائم ہو جائیں تو میرے خیال میں اس سے بڑا احمق دنیا میں کوئی نہیں ہو
گا۔اور اگر میری ذاتی رائے لی جائے تو اس کے بعد بھی بھارت کیساتھ تعلقات
ایک محب وطن پاکستانی اور مسلمان کو قبول نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ ہم نہیں
بھولے قیام پاکستان کے وقت اپنے بزرگوں، ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور معصوم
بچوں کی قربانیوں اور شہادتوں کو، ہم نہیں بھول سکتے کشمیر میں اپنے
بھائیوں کی شہادتوں کو اور کشمیر میں بھارتی مظالم کو، ہم نہیں بھول سکتے
بابری مسجد کی شہادت کو،چند دن قبل بھارتی ریاست اتر پردیش کے نامزد وزیر
اعلیٰ ہندو انتہا پسند یوگی آدیتیا ناتھ نے بیان دیا کہ اگر ہمیں بابری
مسجد شہید کرنے سے کوئی نہیں روک سکا تو وہاں مندر بنانے سے کون روکے
گاجبکہ یہی بیان ہندو دہشت گرد نریندر مودی نے حکومت سنبھالنے کے بعد دیا
تھا۔نظریہ پاکستان کی بنیاد کا اندازہ بانی پاکستان کی مذکورہ تقاریر سے
لگایا جا سکتا ہے جو انہوں نے 8 مارچ 1944ء کو علی گڑھ یونیورسٹی میں کی
تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’’پاکستان اس دن معرض وجود میں آگیا تھا جب
ہندوستان میں پہلا غیر مسلم مسلمان ہوا تھا‘‘ اسی طرح 17 نومبر 1945ء کو
بانی پاکستان نے ایڈورڈ کالج میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم دونوں قوموں
میں صرف مذہب کا فرق نہیں، ہمارا کلچر ایک دوسرے سے الگ ہے۔ ہمارا دین ہمیں
ایک ضابطہ حیات دیتا ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے ہم
اس ضابطہ کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ان دونوں تقاریر میں نظریہ
پاکستان کا مفہوم واضح دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن مذکورہ ملک دشمن عناصر تحریک
پاکستان کی تاریخ میں خود ساختہ رد و بدل کر کے اصل تاریخ کو مسخ کرنے کے
در پہ ہیں۔ لیکن پاکستانی قوم ان کے ناپاک عزائم کسی صورت پورے نہیں ہونے
دیں گے۔آئیں آج یوم پاکستان کے موقع پر سب پاکستانی ملکر تجدید عہد کریں کہ
پاکستان کے دشمنوں کے عزائم خاک میں ملا دیں گے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح ؒ اور علامہ
محمد اقبال ؒ کے افکار کے فروغ کی ضرورت ہے ، اداروں سے رشوت اور سفارش
کلچر کا خاتمہ ، قبضہ مافیا، لینڈ مافیا، اور دہشت گردوں کے خلاف ہمیں ایک
ہونا ہوگا۔ ملک میں ’’ زمان وٹو ‘‘ جیسے ایماندار اور عوام دوست آفیسر جبکہ
پولیس میں سرفراز خان ورک جیسے میرٹ پسند آفیسر کو تعینات کرنے کی ضرورت
ہے، ایسے آفیسر جنہوں نے عوام کو اپنے حق کے لیے بولنا سکھایا، حق بات کہنے
کی جرات عطاء کی ، ظالم کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنے رہے ، ایسے آفیسران
ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں، پوری قوم انہیں خراج تحسین پیش کرتی ہے، خصوصاً
اہلیان بھکر اپنے محسن محمد زمان وٹو کی محبتوں کے مقروض ہیں، جنہوں نے
راجن پور اور بھکر کو یو این ڈی پی حکومت پنجاب کے ترقیاتی پراجیکٹس کے لیے
منتخب کرایا، اور یہاں سے غربت کے خاتمہ ، تعلیم اور صحت کے فروغ کے لیے
عملی جدوجہد کا آغاز کیا۔ اﷲ تعالیٰ ایسے آفیسران کو اپنی حفظ و امان میں
رکھے اور ملک کی خدمت کے لیے مزید مواقع عطاء فرمائے آمین۔
من الحیث القوم ہم سب کو مل کر امن اور بھائی چارے کے فروغ کے لیے جدوجہد
کرنا ہوگی، دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے ہمیں پاکستانی بن کر سوچنا ہوگا، اسی
میں ہم سب کی بھلائی اور فلاح ہے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ پاکستان اور محب وطن
شہریوں کا حامی و ناصر ہو۔آمین! پاکستان زندہ باد۔۔۔ پاک فوج پائندہ باد
|