وہ ایک شخص جس کالفظ لفظ بدل دے سوچ و فکر کی دنیا

میں نے زندگی میں اپنی فیلڈ یعنی صحافت ،ریسرچ اور دیگر وجوہات کی بنا پر پاکستان بھر کے سفر کئے ہیں ۔یہ سفر میرے لیے کسی ریسرچ سے کم نہیں ۔اس دوران مجھے چہرہ شناسی ،وقت شناسی ،موقع محل اور حالات و واقعات کے اداراک کا علم حاصل ہواجو شاید کسی یونیورسٹی سے مجھے حاصل نہ ہوتا۔

چنانچہ اس دوران مجھے انسانوں کی نفسیات پر بہت پڑھنے کا موقع ملا۔اس معاملے میں اس قدر خبطی ہوگیا کہ مجھ سے اگر کوئی سرراہ بھی ملتاتو میں اس کی گفتگو سے زیادہ اس کی ذات کے نفسیاتی پہلووں کو مطالعہ سے حاصل کردہ اصولوں پر تولنا شروع کردیتا۔جوشاید قصد اََ نہ تھا بلکہ مزاج کا حصّہ بن گیا تھا۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔اس تمہید کا مقصد یہ تھا کہ میں ہر طبقہ کے لوگوں سے اس قدر کثرت سے مل چکا تھا کہ میں اتنی آسانی سے کسی سے متأثر نہیں ہوتا۔میں ادارے میں کونٹینٹ رائٹر اور اس ادارے کے ایک سیکشن کے ہیڈ کے طور پر کام کررہاتھا۔ادارے نے مینجمنٹ ،سورس مینجمنٹ ،ٹائم مینجمنٹ ،کمیونیکیشن سکلز کے حوالے سے بہتری لانے کے لیے متحرک کوششیں شروع کردیں ۔

میں ایک دن بیٹھا تھا کہ مجھے ایک دوست نے ایک خبر دی کہ ایک صاحب ہمارے ہاں تشریف لائیں گے ۔جو نظام کی بہتری کے لیے کام کریں گے ۔اچھا لگا۔بہتر سے بہترین کی جہد ومسلسل ہمیں فطرت نے عطاکیا ہے ۔ایک دن خیر اناؤس ہواکہ ایک شخص ٹریننگ سیشن کریں گے شرکت کرناہوگی ۔میں بھی سیشن میں چلاگیا۔کچھ لمحوں کے بعد جمے ہوئے قدموں کے ساتھ ،باوقار اور اعتماد کا کوہ ہمالیہ ایک درمیانہ قد شخصیت نمودار ہوئی ۔چند لمحوں کے لیے تو من حیث القوم اپنا جو مزاج ہے کہ پتانہیں موصوف مارکر لیکر وہ رسمی باتیں کریں گے (۔ہمیں ضابطوں و اصول کے جال میں پھنساکر ہماری اجرت کے پنجرے میں ہمیں مہارت سے قید کردیں گے ۔جو ہر اعتبار سے ادارے کے لیے نفع بخش ہے ۔گذشتہ سے پیوستہ کارپوریٹ ٹریننگ اٹینڈ بھی کیں ۔آپ اسے نیگیٹو تھنکنگ کہہ لیں یا حقیقت پسندی میں دیانتاََ عرض کرتا چلوں کے مجھے اور مجھ جیسوں کو کچھ ایسا ہی لگا۔)

خیر ایک وجیہہ شخص ،سلیقے سے لباس زیب تن کئے ہوئے ۔چہرے پر ہلکی سی مسکان لیے ۔چمکتی پیشانی ،مضبوط اور قوتِ ارادی سے بھرپور ہاتھ کو لہراتے ہوئے موصوف نے سلام کیا۔اپنا تعارف پیش کیا اور ہمیں بلوانے کا مدعا پیش کیا۔تعارف کروانے کے اس دورانیہ میں آغاز ہی اس قدر سحر انگیز انداز میں ہواکہ اس کمرے میں موجود ہرشخص اچھا اچھا اور پرسکون محسوس کررہاتھا۔موصوف نے موتیوں کی طرح اپنی بات کہی اور خوب کہی ۔موٹیویشنل ٹرینر کئی دیکھے ،کئی ایسے بھی جن سے ملاقاتیں بھی ہیں اور مراسم بھی ۔

نہایت ہی معذرت کے ساتھ میں نے موٹیویشن کی دنیا میں سب ہی نہیں لیکن کسی حد تک بناوٹی دنیا کا تصور کثرت سے پایا۔جو لمحے بھر کے لیے ایک سحر تو قائم کردیتی ہے لیکن عملی زندگی سے اس کی مطابقت بہت دور کی بھی نہیں ہوتی ۔لیکن موصوف کی نفسیات پر اس قدر گرفت مضبوط پائی کہ جو دماغ کی تختی پر لمحے بھر کے لیے تحریر ثبت ہوتی موصوف گویا اسے پڑھ لیتے اور کمال مہارت سے اس کا جواب دے رہے تھے ۔نہایت ہی سلیس اردو ،بالترتیب گفتگو،سامعین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کے خیالات اور پنپنے والے سوالات کو جانچ لینااور انھیں انکی عقل و فہم کے مطابق موذوں و تشفی بخشش جواب دے دینا۔میں سمجھتاہوں کہ خدادا صلاحیت کی عمدہ نظیر تھی ۔ہشاشت و بشاشت ،سرتاپا اعتماد ،فقاہت ،ذکاوت و ذہانت کا مجسمہ دیکھائی دینے والی شخصیت قدم قدم پر سامعین کی سماعت ،ان کے فہم کا لحاظ رکھتے ہوئے مثالوں و نظائر سے بند دماغوں کے لیے ترقی کے بند کواڑ کھولنے میں میں پرانہماک کے ساتھ مصروف عمل تھی ۔میں لمحہ لمحہ ملاحظہ کررہاتھا۔خیر پھر ان سے سرراہ ان سے ملاقات بھی ہوئی ۔مجھ جیسے کئی ان سے ملتے رہے لیکن کمال شخصیت کے ہر ایک کہ ساتھ یکساں رویہ ۔جو ملا وہ انہی کا ہوکر رہ گیا۔

پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میری مرادعلم دوست شخصیت نے مشاہد ہ اور تجزیہ کے ترازو پر سٹاف کی پیمائش شروع کردی اور چند ہی دنوں میں انھوں نے قابلیت ،صلاحیت ،ادارے سے سنجیدگی ،ادارے کی ترقی کے حوالے سے اپنی تجزیاتی ریپورٹ تقریباََ ہی مکمل کرلی ۔جوکہ اتنا آسان کام نہیں تھا۔آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ اتنی طویل باتیں ۔ان باتوں میں سراسر آپ ہی کا نفع ہے ۔خیر بات کو جاری رکھتے ہیں ۔پھر ان سے میری نجی ملاقات ہوئی ۔سوچ سوچ کر ،ٹھہر ٹھہر کر ،نپے تلے انداز میں جواب دینے والے ،بات بات مسکراتے ہوئے نہایت متانت کے ساتھ جواب دینی والی یہ شخصیت خود میں ایک دنیا محسوس ہوئی ۔قائدانہ صلاحیت کی عمدہ مثال ،لوگوں کو ساتھ لیکر چلنا،انکا اعتماد بحال کرناان کے معمولات میں سے ہے ۔جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متأثر کیا۔ وہ یہ کہ یہ شخصیت مجمع میں اور انفرادی ملاقات میں بناوٹ ،دکھاوا کی کمزور فصیلوں سے یکسر آزاد دکھائی دی ۔لیڈر وہ ہوتا ہے جو متحرک کرتا ہے، جو ایسے فیصلے کرتا ہے جو اس کی جماعت پر مثبت اثرات ڈالتے ہیں اور جو کہ مختلف النوع افراد کی ایک ٹیم کو ایک مشترکہ مقصد کے لئے کام کرنے پر آمادہ کر لیتا ہے۔موصوف کی شخصیت کا ادارک کروں تو مجھے ان میں مثبت سوچ، مثبت عمل،بصیرت،اپنے آپ پر اعتماد!!!لیڈرشپ کا انداز!!!علم!!!انصاف پسندی،
راست بازی،جانچ اور پرکھ ،وفاداری،بے غرضی،ہمت و حوصلہ،بھروسہ مندی،حکمت اور معاملہ فہمی!!جیسے خواص پائے ۔اتنے خوص کا مجموعہ شخصیت میرے خیال میں فی زمانہ میسر آنا ناممکنات میں سے ہے ۔

یہ شخصیت میرے محسن بھی ہیں اور اساتذہ میں سے بھی ۔ان سے میں نے زندگی گزارنے کے کئی سلیقے اور باریکیاں سیکھیں ۔جس پر میں ان کا ممنون بھی ہوں ۔یہ شخصیت موٹیویشنل ٹریننگ کی دنیا کا بہت بڑا نام ،انگلش لینگویج کے استاد کے طور پر بھی ایک زمانہ ان سے متعارف ہے ۔میری مطلوبہ شخصیت سرفرید ہیں ۔اس تحریر کے ذریعے میں ایک قابل انسان کے تعارف اور دوسری جانب اپنے استاد سے محبت کا کفارہ بھی ادا کرنا چاہ رہاتھا۔میں نے سیاست ،مذہب ،سوسائٹی ،تربیت کے حوالے سے مختلف مضامین و کالمز لکھے ہیں ۔

علم دوست ،انسان دوست اس شخصیت نے میری عملی زندگی پر گہرے نقوش چھوڑے اور میں نے بہت سے مثبت تبدیلیاں اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کے معاملات میں بھی محسوس کیں۔یہ توجہ طلب بات یہ ہے کہ ہمارے گرد کتنے علم دوست لوگ موجود ہیں ۔جنکی ذہانت ،فطانت ،لیاقت سے ہم بھرپور فائدہ لے کر بہتر سے بہترین کے زینے طے کرسکتے ہیں ۔امید ہے کہ اس شخصی تعارفی کالم آپ کو پسند آیا ہوگا۔اپنی دعاؤں میں مجھے ضرور یاد رکھئے گا۔اپنے اساتذہ کی عزت کیجئے اور ان سے خوب خوب علم و دانش کے موتی حاصل کیجئے ۔سرفرید وہ شخصیت ہیں جن کے لفظ لفظ نے بدل دی سوچ وفکر کی دنیا اور ایک نئے انداز میں جینے کی امنگ دی ۔میں مشکور ہوں بذریعہ کالم اپنے اس محسن کا۔یاربّ میرے استاد میرے محسن کو سلامت رکھنا۔

DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 538236 views i am scholar.serve the humainbeing... View More