ایسے سبھی کنبہ جات کیلئے منصفانہ وجامع پالیسی اختیار
کرنے کی ضرورت
جموں وکشمیر ریاست میں ہرسال موسم گرما کے دوران بڑی تعداد میں لوگ اپنے
مال مویشیوں ، بھیڑبکریوںکے ساتھ میدانی علاقہ جات سے پہاڑوں پر جاتے ہیں ،
جہاں پر وہ چھ سال گذارتے ہیں، اپنے مال مویشیوں، بھیڑبکریوں کو پالتے ہیں
پھر موسم سرماشروع ہوتے ہی واپسی کی راہ لیتے ہیں۔ صرف میدانی علاقہ جات سے
ہی نہیں بلکہ پہاڑی علاقہ جات سے بھی بڑی تعداد میں لوگ اپنے آبائی گھروں
کو چھوڑ کر بالائی علاقوں/اونچے پہاڑوں پرجاتے ہیں تاکہ مال مویشیوں ،
بھیڑبکریوں کے لئے چارہ کا انتظام کرسکیں۔صوبہ جموں میں راجوری پونچھ، ڈوڈہ،
کشتواڑ، رام بن، ریاسی جبکہ وادی کشمیر میں شوپیاں، کپواڑہ، بڈگام، بارمولہ،
اننت ناگ ودیگر اضلاع میں پہاڑوں جہاں پر ہرے بھرے میدان، سبزہ اور گھاس
چرائی ہے، وہاں بھیڑبکریاں ومال مویشی لے جانے والوں میں سبھی طبقہ کے لوگ
شامل ہوتے ہیں ۔ اس میں پہاڑی زبان بولنے والے ، خانہ بدوش گوجر بکروال،
گوجربکروال، دودھی گوجر، کشمیری ودیگر ذاتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی
شامل ہوتے ہیں لیکن حکومتی ، انتظامی وسیاسی سطح پر صرف یہ تاثر قائم ہے کہ
مال مویشیوں وبھیڑبکریوں کے ساتھ پہاڑوں وبالائی علاقوں میں جانے والے صرف
گوجربکروال طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی شامل ہوتے ہیں۔راجوری ، پونچھ
اضلاع میں اکثریت نان ایس ٹی طبقہ کی ہے جوکہ پہاڑوں پر مال مویشیوں کے
ساتھ جاتے ہیں، جن کے نام پر وہاں چراگاہوں کی الاٹمنٹ ہے، وہ آج سے نہیں
بلکہ دہائیوں سے موسم گرمام میں وہاں جاتے ہیں۔ ریاستی سرکار نے گرمائی
ایام کے دوران پہاڑوں پر اپنے مال مویشیوں کے ہمراہ نقل مکانی کرنے والے
افراد کے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراہستہ کرنے کے مقصد سے موبائل سکولوں
کاقیام عمل میں لایا ہے، موبائل ڈسپنسریاں قائم کی گئی ہیں۔ مال مویشیوں
اور بھیڑ بکریوں کے لئے ویٹرنری کیمپوں کا ابھی انعقاد ہوتا ہے لیکن یہ سب
سہولیات ومراعات سرکارکی طرف سے خالص خانہ بدوش گوجر بکروال اور درج فہرست
قبائل(ST)کے نام سے شروع کی جاتی ہیں اور انہیں سے منسوب بھی جاتی ہیں۔
دوران نقل مکانی مختلف مقامات پر میڈیکل کیمپ لگائے جاتے ہیں لیکن بدقسمتی
سے یہ سب مراعات مخصوص طبقہ تک ہی محدود ہیں۔اگر سرکار کسی غیر جانبدار
ایجنسی سے سروے کرائے تو یہ حقیقت صاف عیاں ہوجائے گی کہ اضلاع پونچھ
وراجوری کے پہاڑوں پر گرمائی ایام کے دوران اپنے مال مویشیوں ، بھیڑبکروں
کے ساتھ جانے والے زیادہ لوگ(Non-ST) یاپہاڑی زبان بولنے والے طبقہ سے ہیں۔
صوبہ جموں کے دیگر اضلاع اور وادی کشمیر میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ جب
نقل مکانی کرنے والوں کے لئے موبائل سکولوں میں اساتذہ کی تعیناتی کا مسئلہ
آتا ہے کہ یہ کہاجاتا ہے کہ صرف ایس ٹی طبقہ سے تعلق رکھنے والے تعلیم
یافتہ نوجوانوں کو ہی موبائل سکولوں میں بطور ٹیچر تعینات کیاجائے گا۔ا
موبائل ڈسپنسریوں میں صرف خانہ بدوش گوجر بکروال طبقہ کے لوگوں کو ہی طبی
سہولیات میسر ہونگیں،جب نان ایس ٹی لوگ پہاڑوں سے چھ ماہ بعد واپس مال
مویشیوں کے ساتھ آتے ہیں تو انہیں چھ ماہ کا راشن بھی نہیں ملتا۔ بڑی تعداد
میں ایسے لوگ آدھار کارڈ بھی نہ بنواسکے۔کچھ جگہوں پر پہاڑوں پر جانے والے
لوگوں کے لئے خصوصی طور آدھار رجسٹریشن کیمپ لگائے گئے لیکن اس وقت نان ایس
ٹی افراد کے آدھار کارڈ نہیں بنے کیونکہ سرکار اور انتظامیہ یہ تسلیم کرنے
کو ہی راضی نہیں کہ یہ لوگ بھی ششم ماہی نقل مکانی کرتے ہیں۔ایسے کئی
معاملات عدالتوں میں بھی زیر سماعت ہیں، جہاں اگر کسی موبائل سکول میں نان
ایس ٹی ٹیچر کی تعیناتی ہوئی تو اس پر کورٹ سے سٹے لیاگیا۔ ریاستی محکمہ
برائے خوراک، شہری رسدات اور امور صارفین نے خانہ بدوش آبادی (گوجر بکروال
)میں غذائی اجناس/کھانڈ/مٹی کا تیل کی سپلائی کے لئے ایک پالیسی مرتب کی ۔
اس کے لئے ایک حکم نامہ زیر نمبر47-FCS&CA/2017بتاریخ8مارچ2017کو جاری
کیاگیا جس کے تحت 8مارچ سے اس پالیسی کو ریاست جموں کشمیر میں لاگو کیا گیا
ہے۔ اس آرڈر کے تحت ان تمام گوجر و بکروال لوگوں کو ان مقامات پر راشن ملے
گا جہاں وہ سردیوں یا گرمیوں کے دوران ہجرت کرتے ہیں ۔ آرڈر کے تحت انہیں
نیشنل فوڈ سکیورٹی ایکٹ اور مفتی محمد سعید فوڈ انٹائٹل منٹ اسکیم کے تحت
ہی راشن ملے گا اور ان ہی قیمتوں پر ملے گا جبکہ تہواروں پر انہیں باقی
لوگوں کیساتھ ساتھ اضافی راشن یا کھانڈ بھی ملے گا۔ ان خانہ بدوش طبقوں کو
نہ صرف چاول آٹا یا کھانڈ دستیاب کیا جائے گا بلکہ ان کےلئے تیل خاکی کا
اپنا کوٹہ بھی دستیاب رکھا جائے گا۔ اس پالیسی کے تحت گوجر و بکروال طبقہ
کے لوگوں کو اپنا نام ضلع کے اسسٹنٹ دائیریکٹر کے پاس درج کرانا ہوگا جس کے
بعد اسسٹنٹ ڈائیریکٹر ان کےلئے راشن کا انتظام کرے گا۔ ضلع کے ضلع ترقیاتی
کمشنر کو اس پالیسی کے تحت نگراں بنایا گیا ہے جو گوجر و بکروال طبقہ کے
لوگوں کو راشن پہنچانے کو یقینی بنائیں گے۔ یہ پالیسی 2021مردم شماری تک
لاگو رہے گی یا پھر تب تک لاگو رہی گی جب تک کہ نئی پالیسی مرتب نہیں
ہوتی۔پالیسی میں یہ بتایاگیاہے کہ گوجر و بکروال طبقہ کی طرف سے یہ شکایات
موصول ہورہی تھی کہ خانہ بدوش طبقہ کے لوگوں کو جائے ہجرت پر راشن دستیاب
نہیں کیا جاتا تھا جس پر کارروائی کرتے ہوئے یہ پالیسی مرتب کی گئی ۔ سرکار
کا یہ فیصلہ خوش آئند ہے جوکہ وقت کی ضرورت بھی تھی لیکن اس کو ایک مخصوص
طبقہ تک محدود کر کے نان ایس ٹی کے ساتھ نا انصافی کی گئی ہے ۔ ہزاروں کی
تعداد میں Non-STکنبہ جات بھی چھ ماہ کے لئے مال مویشیوں /بھیڑبکریوںکے
ساتھ پہاڑوں پر جاتے ہیں، جنہیں اس پالیسی کے زمرہ میں نہ لایاگیاہے۔
پہاڑوں پر جانے والے ان نان ایس ٹی کنبہ جات کو بھی جینے کے لئے خوراک
چاہئے، طبی سہولیات چاہئے، بچوں کے لئے تعلیم کا انتظام چاہئے ۔ ریاستی
وزارت برائے خوراک، شہری ترقی ورسدات نے یہ پالیسی مرتب کر کے وہی طریقہ
اختیار کیا ہے جوکہ مرکزی سرکار نے 90کی دہائی میں دوبھائیوں جن کی سماجی،
تعلیمی ومالی حالت یکساں تھی، میں سے ایک کو مراعات(ایس ٹی)دی اور دوسرے کو
نظر انداز کیاگیا۔ پہاڑوں پر بھیڑبکریاں اور مال مویشی چرانے والوں میں
خانہ بدوش گوجر بکروال بھی ہیں اور نان ایس ٹی (پہاڑی، کشمیری وغیرہ)بھی
ہیں۔موبائل سکولوں میں نان ایس ٹی بچوں کو پڑھانے سے بھی کئی جگہوں پر ٹیچر
منع کر رہے ہیں۔ سدبھاؤنہ آپریشن کے تحت فلاحی اقدام کا رخ بھی گوجربکروال
طبقہ تک ہی محدود رہتا ہے۔ یہاں کسی کی برائی ، کسی کی مخالفت، کسی کی
تنقید یا کسی سے جلن مقصود نہیں بلکہ اس نا انصافی ، امتیازی سلوک اور حق
تلفی کو اجاگر کرنا ہے جوکہ ایک Welfare State(ویلفیئرسٹیٹ)اور ایک جمہوری
نظامِ حکومت کے اندر ہورہی ہے۔ ریاستی سرکا ر کو چاہئے کہ بلالحاذ، ذات پات،
رنگ ونسل ، طبقہ ریاست جموں وکشمیر میں تمام ان کنبہ جات جوچھ ماہ کے دوران
اپنے مال مویشیوں، بھیڑبکریوں کے ہمراہ پہاڑوں پر بسیرا کرتے ہیں اور
سرمائی ایام کے دوران میدانی علاقہ جات یا اپنے آبائی گھروں کو لوٹتے ہیں،
ان کی متعلقہ ضلع ترقیاتی کمشنرز(ڈپٹی کمشنرز)یا تحصیلدار کے پاس باقاعدہ
رجسٹریشن ہو،جہاں سے ان کو ایک شناختی کارڈ بطور وجہ ثبوت جاری کیاجائے
جواس بات کی تصدیق کرے کہ ہاں یہ واقعی پہاڑوں پر گئے تھے، اس سے ایک طور
سروے/مردم شماری ،آدھار رجسٹریشن یا سرکار کی کسی دوسری سکیم کاان افراد تک
فائیدہ پہنچانے میں مدد ملے گی، بلکہ اگر گرمائی ایام کے دوران چناؤ ہوتے
ہیں، تو بھی ان افراد کی ووٹنگ کا کوئی بندوبست ہوگا، ساتھ ہی ان سبھی
لوگوں تک پہاڑوں پر یاجہاں انہوں نے چھ ماہ کے دوران مال مویشیوں/بھیڑبکریوں
کے ساتھ بسیرا کیاہوگا ، تک سرکاری مراعات پہنچائی جائیں گیں۔ ایسے سبھی
کنبہ جات(Families) کاجو ڈپٹی کمشنر/تحصیلدار کے پاس اندراج موجود ہو، اس
کی بنا پر ان طبقہ جات تک راشن کی تقسیم کاری، تعلیمی وطبی سہولیات کی
فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے یکساں طور جامع پالیسی مرتب کی
جائے۔’ویلفیئرسٹیٹ‘میں حکومت ہر شہری کے آگے جوابدہ اور اس کی ذمہ دار ہے۔
یہ کہاں کا انصاف ہے کہ دور دراز پہاڑوں پر اپنے مال مویشیوں، بھیڑبکریوں
کے ساتھ جانے والے افراد جہاں انہیں صرف قدرت کا ہی سہارا رہتا ہے، وہاں پر
سرکار ایک مخصوص طبقہ کی سہولیات کو یقینی بنانے کے لئے اقدام اٹھائے اور
بقیہ آبادی کو نظر انداز کر دے۔سرکار اس حقیقت کہ چھ ماہ مال مویشیوں ،
بھیڑبکریوں کے ساتھ نقل مکانی کرنے والی آبادی میں گوجربکروالوں کے ساتھ
ساتھ پہاڑی ودیگر طبقہ جات کے لوگ بھی ہیں، کو نظر انداز کر کے ’ٹرائبل فوڈ
پالیسی‘کی کوئی Justificationنہیں دے سکتی۔ اپریل ماہ کے دوسرے ہفتہ میں
میدانی علاقہ جات سے پہاڑوں کی طرف ان لوگوں کی مال مویشیوں کے ہمراہ نقل
مکانی کا سلسلہ شروع ہوجائے گا، موجودہ مخلوط حکومت کو چاہئے کہ پہاڑوں پر
جانے والے سبھی طبقہ جات سے وابستہ Familiesتک خوراک، تعلیم، طبی سہولیات
ودیگرضروریات زندگی بہم پہنچانے کے لئے ’یکساں ‘پالیسی بنائی جائے۔ |