سیدنا صدیق اکبررضی اﷲ عنہ نے مردوں میں سب سے پہلے اسلام
قبول کیا،اورزندگی بھر دکھ اور خوشی میں رسول اکرم ﷺ کے ساتھ رہے ۔ خلیفہ
اوّل سیّدناحضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ وہ خوش قسمت ترین انسان ہیں کہ جن
کے بارے میں حضوراکرم ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ مجھے نبوت عطا ہوئی توسب نے مجھے
جھٹلایا مگرابوبکرصدیق ؓ نے مانااور دوسروں سے منوایا،میرے پاس کچھ نہیں
رہاتوابوبکرؓ کامال راہ خدامیں کام آیا اور جب ابوبکرؓ نے مجھے تکلیف میں
دیکھا توسب لوگوں سے زیادہ میری غم خواری کی ۔۔۔آپؓ کانام مبارک عبداﷲ کنیت
ابوبکر،والد کانام عثمان،کنیت ابوقحافہ ،والدہ کانام سلمیٰ بنت سخر،کنیت ام
الخیرہے۔آپ ﷺ نے آپ ؓ کو دولقب صدیق اور عتیق عطا فرمائے ۔آپ کانسب عبداﷲ
بن عثمان بن عامربن عمروبن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ آٹھویں پشت میں رسول
اﷲ ﷺ سے جاملتاہے ۔آپ ؓ کی ولادت رسول اﷲ ﷺ کی ولادت باسعادت کے دوبرس چند
ماہ بعد ہوئی وہیں دوبرس چند ماہ بعد آپ ؓ کی وفات ہوئی۔سیّدنا صدیق اکبرؓ
آپ ﷺ کی رفاقت میں سب سے سابق وفائق تھے حیات میں آپ ﷺ کے وزیررہے اور آپ ﷺ
کے بعدآپ ﷺ کے جانشین ہوئے دوبرس تین ماہ نودن تخت خلافت پرمتمکن رہے آپؓ
کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ آپ کی چارپشتوں کوصحابی ہونے کاشرف حاصل ہے
یعنی آپ،آپ کے والد،آپ کی اولاد اور آپ کے پوتے اس طرح یہ فضیلت بھی
دیگرکئی فضائل کی طرح خاندان صدیقی ہی کوحاصل ہے ۔قبل از اسلام آپ اشراف
قریش میں سے تھے بڑی عزت و چاہت رکھتے تھے سب لوگ آپ ؓ سے محبت کرتے تھے
اور لوگوں کے بہت سے کام آپ ؓ سے نکلتے تھے اہل عرب کے نسب کاعلم سب سے
زیادہ رکھتے تھے ،زمانہ جاہلیت میں بھی کبھی آپ ؓ بت پرستی نہیں کرتے تھے
آپ ؓ کوبچپن ہی سے حضوراکرم ﷺ سے محبت و پیار تھا حضرت خدیجہ کانکاح رسول
اﷲ ﷺ کے ساتھ ہوا تواس میں آپ ؓ کی کوشش بھی شامل تھی،رسول اﷲ ﷺ کی بعثت کے
بعدسب سے پہلے آپ ؓ نے ہی اسلام قبول کیا آپ ؓ ہی کے متعلق حضوراکرم ﷺ نے
فرمایا کہ ’’میں نے جب بھی کسی کواسلام کی دعوت دی تواس نے مجھ سے کچھ نہ
کچھ طلب کیا ماسوائے ابوبکرصدیق ؓ کے جومجھ سے کوئی بھی ثبوت طلب کیے
بغیراسلام لے آئے‘‘۔آپ ؓ کے اسلام قبول کرنے کے بعد اورلوگ بھی اسلام کی
طرف راغب ہوئے اور آپ ؓ نے اسلام کی تبلیغ کاکام شروع کردیا قبل ہجرت نہایت
پرخطروقت تھا اس وقت خود اپنے اسلام کااظہار مشکل تھا کلمہ اسلام کازبان
پرلانااژدہے کے منہ میں ہاتھ ڈالناتھا ایسے نازک وقت میں دوسروں کومسلمان
بنانے کی کوشش کرنا انہی کاکارنامہ تھا قریش کی ایک باوقار جماعت حضرت صدیق
اکبر رضی اﷲ عنہ کی کوششوں سے مشرف بہ اسلام ہوئی ،عشرہ مبشرہ میں سے حضرت
عثمان ،حضرت طلحہ،حضرت زبیر،حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبدالرحمن بن
عوف رضی اﷲ عنہم آپ ہی کی تبلیغ سے مسلمان ہوئے ۔جب حضرت صدیق اکبر ؓ اسلام
لائے تو اس وقت انکے پاس مال تجارت کے علاوہ چالیس ہزاردرہم نقدموجود تھے
وہ سب کچھ انہوں نے اسلام کی اشاعت اور حضوراکرم ﷺ کے خدمت میں نچھاور
کردیا سات نومسلم جوکہ غلام تھے اور اپنے آقاؤں کے ظلم وستم کاشکاررہتے تھے
انہیں خرید کرآزاد کیا جن میں سے حضرت بلال کاقصہ مشہور ہے۔کئی بار مکہ میں
رسول اکرم ﷺ کوکافروں کے نرغے سے بچایا ایک مرتبہ کفار قریش صحن مکہ میں
بیٹھے ہوئے رسول اﷲ ﷺ کاذکرکررہے تھے کہ وہ ہمارے معبودوں کی مذمت کیاکرتے
ہیں اتنے میں رسول اﷲ ﷺ وہاں آگئے سب نے آپ ﷺ کوگھیرلیا اور چادرآپ ﷺ کے
گلے میں لپیٹ کرکھینچناشروع کی ،کسی نے جا کرسیدناصدیق اکبر ؓ کوخبردی توآپ
بے تاب ہوکرپہنچے اور کہنے لگے تمہاری خرابی ہو!کیاتم ایسے شخص کوقتل کیے
ڈالتے ہوجوکہتاہے کہ میرارب اﷲ ہے اور وہ تمہارے پاس معجزات لے کرآیا ہے یہ
سن کر کافروں نے رسول اﷲ ﷺ کوچھوڑدیااور سیّدنا صدیق اکبر ؓ کو پیٹناشروع
کردیا تشدد کی وجہ سے آپ ؓ بے ہوش ہوگئے اور بہت دیر تک بے ہوش رہے درمیان
میں جب ہوش آتاتورسول اﷲ ﷺ کی خیریت دریافت کرتے اور پھر بے ہوش ہوجاتے جب
پوری طرح ہوش میں آئے تواٹھتے ہی کہاکہ مجھے رسول اﷲ ﷺ کے پاس لے چلو ،چنانچہ
لوگ انہیں پکڑکررسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں لائے جب آپ ؓ نے رسول اﷲ ﷺ کوصحیح
حالت میں دیکھا توبہت خوشی کااظہار کیا اس قسم کی جاں نثاری وجانبازی کے
واقعات قبل ہجرت کئی مرتبہ پیش آئے ۔جب آنحضرت ﷺ کومعراج ہوئی توسب سے پہلے
آپ ؓ نے ہی اس واقعہ کی تصدیق کی کفارمکہ نے آپ ؓ سے کہا کہ کیاتم محمد ﷺ
کی اس بات کوبھی سچ مانوگے کہ وہ بیت المقدس گئے اور وہاں سے آسمان پرتشریف
لے گئے وہاں عجائب وغرائب کی سیر کی اور پھرواپس لوٹے اور اتنارات کے ایک
قلیل حصہ میں طے ہوگیا؟انکی یہ بات سن کرسیّدناصدیق اکبر ؓ نے کیاخوبصورت
جواب دیا:فرمایا’’ہم تو اس سے زیادہ بعید ازعقل بات انکی مان چکے وہ فرماتے
ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام آسمانوں کے اوپرسے ابھی آئے اور ابھی گئے‘‘مطلب
یہ کہ جب جبرائیل علیہ السلام کی آمدورفت چشم زدن میں ہم مان چکے توآنحضرت
ﷺ کے جسم مبارک کی لطافت و نورانیت توجبرائیل علیہ السلام سے بھی فائق ہے
لہذا آپ ﷺ کی آمدورفت میں ہم کوکیاشک ہوسکتا ہے اسی تصدیق معراج کے صلے میں
آپ ؓ کوصدیق کاخطاب ملا۔سفرہجر میں سیّدناصدیق اکبر ؓ کی رفاقت کاتذکرہ
قرآن مجید میں بڑی شان کے ساتھ ہے اور حضوراکرم ﷺ بھی باربار انکی اس خدمت
کاتذکرہ فرماتے تھے ،بخاری شریف کی ایک حدیث ہے کہ ’’ابوبکر مجھے دارہجرت (مدینہ)
میں سوارکرکے لائے اور وفات سے پانچ دن پہلے جو خطبہ آپ ﷺ نے پڑھا اس میں
فرمایا کہ جس نے کوئی احسان ہمارے ساتھ کیا ہم نے انکا بدلہ ادکردیا سوائے
ابوبکر صدیق کے کہ انکی خدمت کابدلہ قیامت کے دن خودخدا ہی دے گا ۔حضرات
صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین میں بھی سیّدناابوبکرصدیق ؓ کی اس بے
نظیرجاں نثاری کاچرچا بہت تھا لوگ سیّدناابوبکرصدیق ؓ سے اس سفرکے حالات
پوچھاکرتے تھے اور خود انکی زبان مبارک سے سننے کے مشتاق رہتے تھے۔اسلام سے
پہلے آپ ؓ مکہ کے بڑے تاجروں میں سے ایک تھے دولت مند تھے کپڑے کی تجارت
کرتے تھے اور نہایت ہی خوشحال انسان تھے مگراسلام کے بعد ساری دولت اﷲ کے
راستے میں اﷲ کے رسول ﷺ کی مرضی کے مطابق صرف کردی حتیٰ کہ ایک وقت
ایساآیاکہ پہننے کونہ کرتاتھا اور نہ تہہ بند۔ایک کمبل تھا جس میں بجائے
گھنڈی اور تکمہ کے کانٹے لگے رہتے تھے اپنے زمانہ خلافت میں اپنے کسی قرابت
دارکوکوئی عہدہ نہیں دیا کسی مقام کاافسر نہیں بنایا اپنے بعد خلافت کے لیے
نامزد کیاتواپنے بیٹے کواور نہ کسی عزیزکو،دنیاکودکھلاگئے کہ انبیاء علیہم
السلام کے جانشین ایسے ہوتے ہیں ،جب روح اقدس نے پرواز کی تومغرب اور عشاء
کادرمیانی وقت تھا عمر شریف 63سال تھی ایام خلافت 2برس 3ماہ اور 9دن ۔حضرت
عمرفارق ؓ نے نماز جنازہ پڑھائی ،حضرت عمر،حضرت طلحہ ،حضرت عثمان اور حضرت
عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہم نے میت پاک کوآغوش لحدمیں اتارا اور ایک ایسی
برگزیدہ شخصیت جورسول دوجہاں ﷺ کے بعد امت مسلمہ کی سب سے زیادہ مقبول ،بزرگواراور
صالح شخصیت تھے ہمیشہ کیلئے چشم جہاں سے اوجھل ہوگئی ۔ |