ریلوے سے میری محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ میرے خاندان
کے بیشتر افراد کا تعلق ریلوے سے رہا اور ہے ۔ میری زندگی کا بیشتر حصہ
ریلوے کے اردگرد ہی گزرا۔یہی وجہ ہے کہ ریلوے ایک طلسماتی دنیا کی طرح میرے
ذہن و دل پر ہمیشہ سے سوار ہے اور ٹرین کا سفر ہمیشہ میرا پسندیدہ رہا ۔
کبھی وہ وقت بھی تھا جب والد صاحب کو ریلوے کے مفت سفری پاس ملاکرتے تو ہم
اکثر لاہور سے عارف والا نانی کے گھرجایا کرتے ۔ اس وقت ٹرین کا سفر ہی
محفوظ ترین ذریعہ کہلاتا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ریلوے کچھ اس قدر
بدانتظامی کا شکار ہوا کہ حادثات اور ویرانیاں ہی اس کا مقدربن گئیں ۔اس کے
ذمہ دار گزشتہ تیس سالوں میں برسراقتدار آنے والے تمام حکمران ہیں۔ کسی نے
بھی چاروں صوبوں کی زنجیر ریلوے کو بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق جدید بنانے
کی طرف توجہ نہیں کی۔کبھی وہ وقت تھا جب لاہور کینٹ اسٹیشن کا پلیٹ فارم
مسافروں سے کھچا کھچ بھرا ہوا نظر آتا جو نہی کوئی ٹرین پلیٹ فارم پر رکتی
تو دھکم پیل کا نہ ختم ہونے وا لا سلسلہ شروع ہوجاتا جو ٹرین کی روانگی تک
جاری رہتا لیکن یکم مارچ 2017ء کی صبح کینٹ اسٹیشن کا پلیٹ فارم دور دور
خالی دکھائی دیا ہم جیسے چند مسافر ایک دوسرے کو دیکھ کر خوش ہورہے
تھے۔مجھے اس لمحے حیرانی ہوئی کہ صبح پونے آٹھ بجے آرمی کے دو جوان پلیٹ
فارم پر سیکورٹی ڈیوٹی انجام دے رہے تھے لیکن ریلوے پولیس کہیں نظر نہ آئی
۔ بہرکیف خیبر میل پلیٹ فارم پر آکر رکی تو ایک بوگی میں سوار ہوکر کھڑکی
سے باہر نگاہیں جما دیں اور باہر قطار در قطار گزرنے والے مناظر کو دیکھنے
میں مصروف ہوگیا ۔لاہور کینٹ سے پتوکی تک جتنے بھی اسٹیشن اور ریلوے
کالونیاں نظر آئیں و ہ سب کے سب ہڑپہ اور موہنجو داڑو کا منظر پیش کررہے
تھے ۔ رائے ونڈ جیسے بین الاقوامی شہر ت کے حامل اسٹیشن پر بھی سہولتیں
ناکافی تھیں۔ البتہ پتوکی اسٹیشن اور پلیٹ فارم نمبر ون دکھائی دیا۔ایک بات
کی خوشی ہوئی کہ ٹکٹ فروخت کرنے والے سے لے کر ٹکٹ چیکر تک ہر ملازم اپنے
فرائض منصبی انجام دے رہا تھا۔ جو ایک خوش آئند بات ہے۔پہلے گارڈ ، پولیس
اہلکار بغیر ٹکٹ مسافروں کو بوگیوں میں بٹھا کر ٹکٹ کے پیسے جیب میں ڈال
لیا کرتے تھے۔ اب ایسا کوئی واقعہ دیکھنے میں نہیں آیا۔پتوکی پہنچ کر ہماری
منزل حبیب آباد تھی جہاں میرے والد 1958 سے 1964تک کیبن مین کی حیثیت سے
تعینات رہے ۔اسی شہر کے پرائمری سکول میں ،مجھے پہلی سے چوتھی جماعت تک
تعلیم حاصل کرنے کااعزاز حاصل ہوا ۔ سکول ،ریلوے اسٹیشن اور کوارٹروں سے
میری بیشمار یادیں وابستہ تھیں جنہیں میں اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی تمنا
لیے لاہور سے یہاں پہنچا ۔ افسوس کہ میری یادوں اور تصورات بھی ریلوے کی
بربادی کی نذر ہوکر مٹی ڈھیر بن چکے ۔ نہ کہیں مسافر دکھائی دیئے اور نہ ہی
مسافر خانہ ۔ دونوں اطراف کے پلیٹ فارم صفحہ ہستی سے مٹ چکے ۔استفسار پر
بتایاگیا کہ یہاں اب کوئی ٹرین نہیں رکتی ۔اس لیے لوگ اسٹیشن اور پلیٹ فارم
کی اینٹیں بھی اٹھا کر لے گئے ۔ یہاں ایک بات کی خوشی ہوئی کہ ریلوے وزیر
خواجہ سعد رفیق کی متحرک قیادت اور جرات مندانہ فیصلوں کی وجہ سے چائنز
انجینئر اسٹیشن کی زیر تعمیر عمارت میں ایک ایسا جدید اور حیرت انگیز سسٹم
نصب کرنے میں مصروف تھے جو حقیقت میں ریلوے کو زمین سے اٹھا کر آسمان تک لے
جائے گا ۔یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ ہر اسٹیشن پر دو کیبن موجود ہیں جہاں
بھاری بھرکم لوہے کے لیور کھینچ کر کانٹے سیٹ کرنا ، سگنل اپ و ڈاؤن کرنے
پڑتے ہیں ۔ریلوے نظام میں پھاٹک بھی بہت اہم ہیں جو آئے دن حادثات کا شکار
بنتے ہیں۔ریلوے کنٹرولر کا دفتر جہاں سے ٹرینوں کی آمد ورفت کو مانیٹر
کیاجاتاہے ۔وہاں بھی صدیوں پرانا نظام چل رہا ہے ۔ کاغذ کی شیٹس پر لکیریں
کھینچ کر کام چلایاجارہا ہے جبکہ دنیا بھر میں ریلوے سسٹم اس قدر جدید
ہوچکاہے کہ کنٹرولر اپنے دفتر میں بیٹھ کر تمام گاڑیوں کی نقل وحرکت کو
دیکھ کر ڈرائیور ، گارڈز اور اسٹیشن ماسٹرز کی رہنمائی کرتا ہے ۔ پاکستان
میں باہمی رابطے کا یکسر فقدان ہے اور یہی فقدان پے درپے حادثات کا باعث
بنتاچلا آرہاہے ۔ سی پیک منصوبے کے تحت اب چائنز انجنئیر جو سسٹم نصب کررہے
ہیں اگر وہ کامیابی سے انسٹال ہوگیا تو یقین سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ
پاکستان ریلوے بھی جدید ترین دور میں داخل ہوجائے گا۔ ابتدائی طور پر
خانیوال سے لاہور تک یہ سسٹم شروع کیاجارہاہے جس کے تحت ہر اسٹیشن کے
اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر کے دفتر میں ایک بڑی ڈیجیٹل ایل سی ڈی ( ٹی وی سکرین )
نصب ہوگی جسے کمپیوٹر ماؤس سے آپریٹ کیاجائے گا ۔ ڈیوٹی پر مامور اے ایس
ایم ، ماؤس کی مدد سے کانٹے سیٹ کرکے سگنل بھی ڈاؤن کرے گا اور وائرلیس کے
ذریعے انجن ڈرائیور ، گارڈاور اپنے ڈویژن کے دیگر اسٹیشن اور کنٹرولر سے
رابطے میں ہوگا ۔وہ مشکل ترین فرائض جو انتہائی بدترین حالات اور بدترین
موسمی صعوبتوں کا شکار ہوکر کیبن مین ،کانٹے والا انجام دے رہے تھے، وہی
کام اب ماؤس کی ایک کلک سے باآسانی انجام پاجائے گا ۔ یہ خبر بھی انتہائی
اہم ہے نواز شریف نے سعدرفیق کے مطالبے پر پشاور سے کراچی تک تمام پھاٹک
ختم کرکے انکی جگہ انڈر پاس یا اوور برج تعمیر کرنے کا فیصلہ کیاہے ۔یقینا
یہ اقدامات ریلوے کو جدید بنانے میں اپنی جگہ حوصلہ افزا ء اور قابل ذکر
ہیں اگر حقیقت میں ایسا ہوگیا تو پھر پاکستان ریلوے کو نئی زندگی مل سکے گی
لیکن اب بھی ٹریک اور بوگیوں کی حالت قابل رحم ہے جس پر ٹرین دوڑتی نہیں
رینگتی نظر آتی ہے۔چائنز انجن بھی بیکار ہیں اگر ریلوے کو جدید خطوط پر
استوار کرنا ہے تو امریکہ اور جرمنی کے انجن اور بوگیاں بھی منگوانی پڑیں
گی۔یہ بات انتہائی تکلیف دہ ہے کہ سٹاف کی کمی کی وجہ سے ہفتہ وار چھٹی ختم
اور اگر کوئی بیمار ہوجائے تو دوسروں کو بارہ گھنٹے مسلسل دینی پڑتی ہے ۔جوانسانی
حقوق پامال کرنے کے مترادف ہے۔ بہرحال ریلوے کو جدید تقاضوں پر استوار کرنے
پر جہاں خواجہ سعد رفیق تحسین کے مستحق ہیں وہاں پشاور سے کراچی تک ریلوے
ملازمین کے رہائشی کوارٹرز اور اسٹیشن کی از سر نو تعمیر بہت ضروری ہے ۔پشاور
سے کراچی تک ریلوے ٹریک کے اردگرد جتنی جگہ بھی خالی ہے اگر وہ نرسریوں کو
پٹے پر دے دی جائے تو ریلوے کو کافی آمدنی متوقع ہے ۔پسنجر ٹرینیں بحال اور
لاہور کے مضافات کوٹ لکھپت ، والٹن ، کینٹ پر تمام ایکسپریس ٹرینوں کے سٹاپ
بحال کیے جائیں تاکہ بڑے اسٹیشن پر جاکر رکشہ والے کی بلیک میلنگ سے
مسافروں کو بچایاجاسکے۔پتوکی سے لاہور کاکرایہ 140 روپے تھالیکن رکشے والا
اسٹیشن سے گلبرگ جانے کے پانچ سو روپے مانگتا ہے ۔جو سراسر زیادتی ہے اس
لیے بڑے اسٹیشن کے مضافاتی اسٹیشنوں کے سٹاپ بحال کرنا ازحد ضروری ہے ۔ |