سورج نے ابھی آنکھیں دکھائی ہی نہیں کہ محکمہ
موسمیات کے کسی صاحب بہادر نے آنکھیں دکھا دی ہیں، فرمایا ہے کہ موجودہ سال
بھی انسانی تاریخ کے گرم ترین سالوں میں سے ایک ہوگا۔ یہ اندازہ انہوں نے
گزشتہ دو ماہ کے موسمی حالات کے تیور دیکھتے ہوئے لگایا ہے۔ واقعی اس سال
سردیوں کا موسم تو ضرور آیا کہ اپنے ہاں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ نومبر سے
فروری تک سردیاں ہوتی ہیں، سردیوں کے یہ مہینے آئے مگر سردیاں نہیں آئیں،
بس ایک دو لہریں سردی کی آئیں، یار لوگ ابھی سنبھل ہی رہے ہوتے تھے کہ گرم
کپڑے پھر سے رکھنے کا ماحول بن جاتا۔ گرم کپڑے ہم لوگ پہنتے رہے، اس کی خاص
طور پر دو وجوہات تھیں، ایک یہ کہ سرکاری طور پر ہم سب لوگوں کے لئے یہ حکم
نامہ سوئی گیس کے بل کے پیچھے درج ہوتا تھا کہ سردیوں میں گیس ہیٹر کا
استعمال نہ کیا جائے، (اس کی بھی ایک خاص وجہ ہے، کہ یہ ہیٹر حکومتی شخصیات
کو گرم رکھنے کے کام آتے ہیں، کہ تمام تر سہولتوں کی بہم رسانی ان کے لئے
قانونی مجبوری ہوتی ہے)۔ اس کی جگہ پر گرم کپڑے پہنے جائیں، ہم نے ہیٹر
نہیں جلائے البتہ گرم کپڑے پہن لئے، کہ آخر یہ موجود ہیں تو ان کا کوئی تو
استعمال ہو، دوسرا یہ کہ گیس کے بل کے پیچھے حکم درج ہے کہ گرم کپڑے پہنیں،
اگرنہیں پہنتے تو حکم عدولی ہوتی ہے۔ اگر ہم لوگ حکومت کے اس حکم کی تعمیل
نہیں کرتے تو قانون شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں، قانون توڑنے والے کے لئے قانون
نافذ کرنے والے ادارے چوکس کھڑے ہوتے ہیں، پہلے تھانہ، پھر جیل، بعد میں
عدالتیں۔اس قسم کے مقاماتِ آہ وفغاں جس قدر بھی ہوں ایک قدر ضرور مشترک
ہوتی ہے کہ ذلالت و خواری وافر مقدار میں میسر آجاتی ہے۔
سردیوں کو ہم لوگ ترس گئے، سردی نہ آئی، حکومتی حکم بھی پورا ہوا کہ لوگوں
کو ہیٹر جلانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔اب مارچ کے اواخر میں سردی کی کسی ہلکی
پھلکی لہر کے امکانات بھی معدوم ہو چکے ہیں، محکمہ موسمیات کی پیش گوئی نے
تو امید کا آخری چراغ بھی بجھا کر رکھ دیا ہے۔ اب ہم ہونگے اور گرمی ہوگی،
دیکھیں گرمی کے خاتمے کے لئے حکمران کیا ہدایات دیتے ہیں؟ بجلی کا استعمال
کم کیا جائے، اے سی نہ چلائے جائیں، پانی کا استعمال بہت کم کیا جائے ،
نہانے والے پانی کا استعمال اس لئے کم ہو کہ اس پانی کے حصول کے لئے بجلی
کی ضرورت ہوتی ہے، اور بجلی بچانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے،پینے والے پانی
کا استعمال اس لئے کم کیا جائے کہ پاکستان میں صاف پانی کی ویسے کمی ہے،
صاف پانی کا حصول مہنگا ہے، اگر خراب پانی پیئں گے تو صحت کے خراب ہونے کے
امکانات بڑھ جاتے ہیں، جس سے معاملات مزید خرابی کی طرف جائیں گے۔ جس طرح
سردیوں میں موٹے اور گرم کپڑے پہننے کا حکم تھا ، ممکن ہے گرمیوں میں باریک
اور کم سے کم کپڑے پہننے کا آرڈر مل جائے۔ ایسے میں بات کہاں سے شروع ہوگی
اور کہاں ختم ،یہ آنے والے وقت سے ہی اندازہ ہو سکے گا۔
گرمی کے بارے میں ماہرین ہی درست اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آخر کیا ہوا کہ
پوری دنیا میں درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، سردیوں کا دورانیہ سمٹ رہا ہے،
گرمیوں کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کی رائے تو بعد میں لیتے ہیں،
یہاں ایک مسئلہ اور سامنے ہے، کہ ماحول کا ایسا اثر انسانوں پر ہوا ہے کہ
وہ بھی گرما گرمی میں ہی مبتلا ہیں۔ کونسا مقام ہے جہاں گرما گرمی نہیں
ہوتی، بات گھر سے شروع کر لیں تو بھی اکثر اوقات ٹکراؤ کے مناظر سامنے
آجاتے ہیں، کھانا کھلانے ، پکانے پہ جھگڑا، پانی پینے پلانے پہ جھگڑا۔ کپڑے
دھونے اور استری چلانے پہ جھگڑا۔ سامان خریدنے اور بتی بجھانے پہ جھگڑا۔
اولاد کے ستانے اور دل جلانے پہ جھگڑا۔ کتنی قسمیں گنوائیں، گھر سے باہر
جائیں تو دوکان پہ جھگڑا، بازار میں لڑائی، جلسے جلوسوں میں گالی گلوچ، ٹی
وی اخبارات اور سوشل میڈیا پر مغلظات کی گردان۔ اور تو اور اسی جھگڑالو
پاکستانی قوم کے نمائندے بھی اپنے عوام کا بالکل درست حقِ نمائندگی ادا
کرتے ہوئے ایوانوں میں بھی دست وگریباں ہو جاتے ہیں، طعنے، الزامات اور
کیچڑ اچھالنے کے معاملات تو پیچھے رہ گئے، اب براہ راست گالیاں دی جاتی اور
مکے برسائے جاتے ہیں، ہاتھا پائی اور لڑائی کے میدان سجائے جاتے ہیں، ایک
دوسرے سے پنجے لڑائے جاتے ہیں۔ جب ہم سب لوگ اتنے ہی گرم ہیں تو گرمی میں
اضافہ کیوں نہ ہو؟ |