عظیم صوفی شاعر حضرت شاہ حسینؒ المعروف مادھو لال حسین

آپؒ کے کلام میں امن وآشتی ،محبت اور انسانیت کا د رس ملتا ہے
419ویں عرس مبارک کے موقع پر خصوصی تحریر

[[شاہ حسین کا تصوف اصل میں مستی کا تصوف تھا جو کہ ذکر خفی اور تصور کی منزلوں سے بہت آگے کی بات ہے، انہوں نے اپنے فکروفن کے ذریعے لوگوں کے دلوں پر حکومت کی]]
[[شاہ حسین نے پنجابی ادب کو کافی کی صنف سے روشناس کرایا، ان کو کلاسیکل دور کا دوسرا بڑا شاعر کہا جاتا ہے، آپؒ نے عبادت و ریاضت کا ایسا لبادہ اوڑھ لیا کہ دنیا و مافیہاکی خبر نہ رہی]]
[[مادھولال بھی رنگ شاہ حسین میں رنگا گیا اور گھر بار چھوڑ کر دامن شاہ حسین سے پیوستہ ہوگیا اور دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا، شاہ حسین کی نظر کرم کی بدولت مادھو جلد ہی تصوف کے درجہ کمال کو پہنچے]]

خالقِ کائنات کی برگزیدہ ہستیاں نہ صرف اپنی حیاتی میں بلکہ اس کے بعد بھی آپنی تعلیمات اور افکار کے ذریعے بنی نوع انسان کی بہتری و بھلائی کا فریضہ سر انجام دیتی رہتی ہیں۔ اﷲ بزرگ و برتر نے انسان کی رہنمائی کے لئے مختلف ادوار میں مختلف اقوام کی رہنمائی کے لئے پیغمبر مبعوث فرمائے۔ انبیاء ؑ کی آمد کا یہ سلسلہ اﷲ کے آخری نبی حضرت محمدؐ پر آکر ختم ہوا۔ ختمِ نبوت کے بعد انسان کی بھلائی کا یہ فریضہ امت محمدیہؐ کے اولیاء کے سپرد کیا گیا۔ اﷲ تعالیٰ کی یہ مقدس ہستیاں ہر دور میں اﷲ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات کا پرچار کرنے میں پیش پیش رہی ہیں۔ اس حوالے سے برصغیر پاک وہند کا خطہ بڑا خوش نصیب رہا ہے کہ جہاں حضرت عثمان بن علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒ، حضرت معین الدین چشتی اجمیریؒ، خوجہ نظام الدین اولیاءؒ، حضرت بختیار کاکیؒ، حضرت میاں میرؒ،حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانیؒ اور دیگر کئی اولیاء ؑ کے علاوہ صوفی شاعر اور ولی حضرت سلطان باہوؒ، بابا مسعود فرید الدین گنج شکرؒ، خواجہ غلام فریدؒ ، شاہ عبدالطیف بھٹائی ؒ وغیرہ نے اپنے کلام، افکار اور تبلیغ کے ذریعے بھٹکے ہوئے انسانوں کو صراطِ مستقیم دکھائی۔ ان ہی صوفی شعراء میں سے ایک عظیم ہستی حضرت شاہ حسینؒ ہیں۔

حضرت شاہ حسینؒ 945ھ بمطابق 1538ء کو اندرون ٹیکسالی گیٹ میں پیدا ہوئے آپ کے والد گرامی کا نام شیخ عثمان تھا جوکہ کپڑا بننے کا کام کرتے تھے۔ آپ کے دادا کا نام کلجس رائے تھا جوکہ فیروز شاہ تغلق کے دور میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔شاہ حسینؒ کی صحیح تاریخ پیدائش کے بارے میں اختلاف ہے۔بعض روایات کے مطابق 9 153 ء اور تحقیقات چشتی کے مطابق 945ہجری بمطابق 1538ء ہے۔ آپ ؒشہنشاہ اکبر کے دور میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ اس وقت اس محلے کا نام ٹلہ ہوتا تھا۔ آپؒ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے آباؤاجداد کپڑا بننے کا کام کرتے تھے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم گھر میں اورمسجد میں ہوئی تھی جب آپ کو مولوی محمد ابوبکر کے ہاں قرآن حفظ کرنے کے لیے بھیجا گیا تو اس وقت آپ کی عمر دس سال تھی۔ شاہ حسین کی سوانح کی کتابوں سے کئی واقعات ملتے ہیں جن سے ان کی کرامات سامنے آئی ہیں ، وہ عربی کے عالم اور صاحب کرامت صوفی تھے۔شاہ حسینؒ کے بارے میں میاں ظفر مقبول نے ایک جگہ لکھا ہے ؛’’شاہ حسین کا تصوف اصل میں مستی کا تصوف تھا جو کہ ذکر خفی اور تصور کی منزلوں سے بہت آگے کی بات ہے تاہم ان کے تصوف میں اخلاق، فلسفہ، خیال، رومانیت اور اس کے جملہ عناصر کے اسرارورموز سبھی کچھ موجود ہیں۔‘‘ شاہ حسین کی وفات ایک حوالے کے مطابق 1599ء اور تحقیقات چشتی کے مطابق بھی 1599ھ میں ہوئی جبکہ شفقت تنویر مرزا کی تصنیف ’’شاہ حسین دی حیاتی‘‘ کے مطابق ان کی وفات 63سال کی عمر میں 1601ء میں ہوئی۔ شاہ حسین نے اپنے احباب اور عزیز واقارب کو وصیت کی تھی کہ مجھے شاہدرہ میں دفنا یا جائے۔ تیرہ برس بعد میری قبرراوی کے سیلاب سے تباہ ہو جائے گی۔ بعد میں مجھے بابو پورہ حالیہ باغبانپورہ میں دفن کیا جائے لہٰذا ایسا ہی ہوا۔ آج ان کا مزار باغبانپورہ میں موجود ہے۔ شاہ حسینؒ کے کلام کے قلابے انسان کی حقیقت اور انسان کے اگلے پڑاؤ سے جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے فکروفن کے ذریعے لوگوں کے دلوں پر حکومت کی۔ شاہ حسین نے پنجابی ادب کو کافی کی صنف سے روشناس کرایا، ان کو کلاسیکل دور کا دوسرا بڑا شاعر کہا جاتا ہے۔ ان کے کلام میں امن وآشتی ،صلح ومحبت ، پیار واخلاق اور انسانیت کی رہنمائی ہے۔ انہوں نے حق اور سچ کا بول بالا کیا ہے اور اپنے عارفانہ کلام کے ذریعے محبت کا پیغام دیا ہے۔ ان کی تعلیمات اخلاقیات کا درس دیتی ہیں۔ نام ور پنجابی کھوج کار اور لکھاری اقبال قیصر لکھتے ہیِ’’ شاہ حسینؒ،مادھو لال حسین،میلہ چراغاں، میلہ شالامار باغ اور پھر حامد علی بیلا۔یہ تمام حوالے صرف ایک ہی شخصیت کے گرد گھومتے ہیں۔ تو وہ شخصیت ہے’’شاہ حسین‘‘ پنجابی شاعری میں بہت بڑا نام، پنجابی کی شعری صنف کافی کے موجد،صوفیاء کے ایک فرقے ’’ملامتیہ‘‘ کے نمائندہ’’شاہ حسین‘‘ وہ شاہ حسین جن کو حامد علی بیلا کی آواز میں آپ نے سنا ہو گا۔‘‘ مائے نی میں کنہوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال نمونہ کلام ربا!میرے حال دا محرم توں ربا! میرے حال دا محرم توں اندرتوں ہیں باہر توں ہیں، روم روم وچ توں توں ہیں تانا، توں ہیں بانا ، سبھ کجھ میراں توں کہے حسین فقیر نمانا ، میں ناہیں سبھ توں اردو ترجمہ: اے پالنے والے !میرا حال تو ہی اچھی طرح جانتا ہے۔ میرے اندر اور باہر کی دنیا میں تو ہی جلوہ نما ہے اور میرے لوں لوں میں سمایا ہوا ہے۔ میرا تانا بانا سب کچھ تو ہی ہے۔ میں (شاہ حسینؒ) تو ایک عاجز بے بس فقیر ہوں۔ میری ہستی میں اگر تو نہ ہوتو اس کی بالکل کوئی حیثیت نہیں ہے۔ میری حیثیت کچھ بھی نہیں ہے سب کچھ تو ہی ہے۔
چرخہ میرا رنگڑا رنگ لال
جے وڈ چرخہ، تے وڈ منے
ہن کہہ گیا باراں اپنے
سائیں کارن لوئن رْنّے
روئے ونجایا حال!
جے وڈ چرخہ تے وڈگھمائن
سبھے آئیاں سیس گندائن!
کائی نہ آیا حال ونڈائن
ہن کائی نہ چلدی نال
وچھے کھاہدا گوہڑا واڑا
سبھو لڑدا ویہڑا پاڑا
میں کیہہ پھیڑیا ویہڑے دانی
سبھ پیئاں میرے خیال
جے وڈ چرخہ تے وڈ پچھی
ماپیاں میرے سرتے رکھی
کہے حسین فقیر سائیں دا
ہر دم نال سنبھال
اردو ترجمہ : اے میرے رب! تو نے میرے اس حقیر سے چرخے (جسمانی ڈھانچے) کو کئی خوبیوں سے نوازا ہے۔ اگر تو نے مجھے یہ بڑائی بخشی ہے تو دوسری جانب مجھ پر بارہ سال پورے کرلینے (بالغ ہونے) کا زمانہ بھی عطا کیا ہے۔ جب میں اپنے اوپر عائد ذمہ داریوں کو دیکھتا ہوں تو میری آنکھیں اشکباررہتی ہیں۔ اگر تو نے مجھے کثرت اسرار ورموز سے آشنا کیا ہے تو مجھے بے شمار ذمہ داریاں پوری کرنے کے فرائض بھی سونپے ہیں۔ مجھے یہ بھی احساس ہے کہ آخرکار کوئی بھی میرا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور نہ ہی کوئی میرا ساتھ دے گا۔ہوس نے نیک اعمال ضائع کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے جبکہ گھروالے اور ہمسائے ان سب کے اپنے اپنے جھگڑے ہیں مگر وہ مجھ سے فضول جھگڑا کرتے ہیں۔ میں نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا مگر پھر بھی زمانہ میرے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ میرے چرخے (جسمانی ڈھانچے) کو جتنی بڑائی دی ہے ذمہ داری بھی اسی قدر بڑھادی ہے۔ میرے والدین نے بچپن سے ہی یہ سب کچھ سکھانا شروع کیا تھا مگر یہ سب خداتعالیٰ کے حکم کے مطابق ہوتا رہا ہے۔ شاہ حسین ایک عاجز فقیر کہتا ہے کہ اے بندے! تو ہمیشہ اپنے رب کا نام ورد کیاکر۔

بچپن میں شاہ حسین کے والد نے آپ کو ٹیکسالی گیٹ کی بڑی مسجد میں حافظ ابو بکر کے پاس حفظ قرآن پاک کے لئے بھیجا۔ شاہ حسین نے دس برس کی عمر تک سات پارے حفظ کر لئے اسی دروان ایک صوفی درویش حضرت بہلول حافظ ابو بکر کی مسجد میں تشریف لائے۔ حضرت بہلول ضلع جھنگ کے قصبہ لالیاں کے قریب دریائے چناب کے کنارے ایک گاؤں بہلول میں پیدا ہوئے حضرت بہلول نے حافظ ابو بکر سے شاہ حسین کے متعلق دریافت کیا۔ شاہ حسین حضرت بہلول کے روبرو پیش ہوئے تو حضرت بہلول نے شاہ حسین کو خوب پیار کیا اور دریائے راوی سے وضو کے لئے پانی لانے کے لئے کہا۔ شاہ حسین فوراً دریا سے پانی لے کر واپس مڑے تو دریا کے کنارے ایک سبز پوش نورانی صورت بزرگ کو دیکھا جس نے شاہ حسین کو فرمایا کہ بیٹا تھوڑا سا پانی میرے ہاتھ پر ڈال دو شاہ حسین نے پانی بزرگ کے ہاتھ پر ڈال دیا بزرگ نے وہ پانی شاہ حسین کے منہ میں ڈال دیا پانی حلق سے اترتے ہیں شاہ حسین کی دنیا بدل گئی۔ پھر سبز پوش بزرگ نے خضرؑ کے نام سے اپنا تعارف کروایا اور ہدایت کی کہ پیرومرشد کے پاس جاؤ اور میرا سلام پیش کرنا۔ شاہ حسین پانی لے کر حضرت بہلول کے پاس پہنچے اور تمام واقعہ گوش گزار کیا۔ حضرت بہلول نے وضو کیا ور بارگاہ خدا وندی میں خصوصی دعا فرمائی۔ حضرت بہلول نے حافظ ابو بکر سے دریافت کیا کہ یہاں تراویح کی نماز کون کراتا ہے حافظ ابو بکر نے کہا کہ میں کراتا ہوں حضرت بہلول نے فرمایا کہ اس دفعہ شاہ حسینؒ تراویح کی نماز میں امامت کریں گے۔ شروع رمضان میں شاہ حسین نے امامت فرمائی آپ کو چھ سپارے یاد تھے جب وہ سنا چکے تو حضرت بہلولؒ کی خدمت میں عرض کی حضرت جو قرآن مجھے یاد تھا وہ سنا چکا ہوں۔جواب میں حضرت بہلول نے شاہ حسین کو دریائے راوی سے دوبارہ پانی لانے کیلئے کہا۔ حضرت بہلول نے اس پانی سے وضو کیا اور شاہ حسین کے حق میں دعا فرمائی اسکے بعد انہوں نے27رمضان تک سارا قرآن پڑھ کر مکمل کر لیا۔ سب لوگ حیران رہ گئے کہ اس بچے کو صرف چھ پارے یاد تھے قرآن پاک مکمل کیسے ہو گیا۔ رمضان المبارک کے بعد حضرت بہلول شاہ حسین کو لے کر دربار حضرت داتا گنج بخش ؒلے گئے اور فرمایا کہ بیٹا یہ تیرے بھی مرشد ہیں اور میرے بھی مرشد ہیں۔ اب تم ان کی خدمت میں حاضر رہنا حضرت بہلول شاہ حسین کو داتا علی ہجویری کے سپرد کرنے کے بعد وہ پنڈی بھٹیاں کی طرف روانہ ہوگئے۔ حضرت شاہ حسین نے عبادت و ریاضت کا ایسا لبادہ اوڑھ لیا کہ دنیا و مافیہاکی خبر نہ رہی ہر رات دریائے راوی میں کھڑے ہوکر پورا قرآن پڑھتے صبح دربار حضرت علی ہجویری پر حاضر ہوکر تلاوت کلام پاک میں مشغول رہتے اور روزانہ روزہ بھی رکھتے۔حضرت شاہ حسینؒرسول کریم کے فرمان مبارک ’’الفقر و فخری، و لفقرو مستی‘‘ کی عملی تصویر بن گئے مسلسل 27سال آپ کے معمول میں ذرا برابر فرق نہ آیا اچانک ایک دن اپنے استاد مکرم حافظ سعداﷲ سے تفسیر مدارک کا سبق پڑھ رہے تھے زیر موضوع آیت ’’ وما الحیواۃ الدنیا الالہوو لعب‘‘ پر دنیا تو فقط کھیل تماشا ہے
من اٹکیا بے پروا دے نال
اس دین دنی دے شاہ دے نال
قاضی ملاں مستی دیندے
کھرے سیانے راہ دسیندے
عشق کی لگے راہ دے نال

آپ انتہائی درویش صفت بزرگ اور باکمال صوفی شاعر ہیں آپ نے کافی کی صنف میں موسیقی کے سروں کے ساتھ متعارف کرایا شاہ حسین کی شاعری اپنے اندر نہ صرف مطالب کی گہرائی رکھتی ہے بلکہ راگوں اور سروں کا خزانہ بھی ہے شاہ حسین کی شاعری میں درد ہجر وصال کی وہ کیفیت نظر آتی ہے جو انسانی فطرات کو تخلیق کائنات کے رازوں سے آشنا کرتی ہے۔ آپ صاحب کرامت بزرگ اور فقیر کامل تھے ۔ آپ کی کرامات کی ایک طویل فہرست طوالت سے گریز کا تقاضا کرتی ہے۔ شاہ حسین جب عمر مبارک کے 51ویں برس میں داخل ہوئے آپ کو مادھو لال نامی ہندو برہمن سے عشق ہوگیا۔جو کہ شاہدرہ کا رہائشی تھا شاہ حسینؒ مادھولال کے مکان کے گرد چکر لگاتے رہتے اور اندرون خانہ کی ساری باتیں باہر بیان کرتے آہستہ آہستہ مادھولال بھی رنگ شاہ حسین میں رنگا گیا اور گھر بار چھوڑ کر دامن شاہ حسین سے پیوستہ ہوگیا اور دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا۔شاہ حسین نے آپ کا اسلامی نام محبوب الحق رکھا۔ شاہ حسین کی نظر کرم کی بدولت مادھو جلد ہی تصوف کے درجہ کمال کو پہنچے۔ شاہ حسین کے حکم پر انہوں نے تیرہ سال مغل فوج میں ملازمت اختیار کی۔ 1008ھ میں حضرت شاہ حسین کا وصال ہوگیا، آپ کو شاہدرہ میں سپرد خاک کیا گیا۔ آپ کی پیشگوئی کے مطابق دریائے راوی میں تیرہ سال بعد سیلاب کا ذکر کیا گیا تھا۔ پیش گوئی کے مطابق قبر کی شکستہ حالی کے بعد آپ کا مدفن بابو پورہ موجودہ باغبانپورہ منتقل کیا جانا تھا۔ چنانچہ حضرت مادھو لال حسین نے مرشد کا جسد خاکی وصیت کے مطابق یہاں سے منتقل کر دیا۔اس طرح حضرت شاہ حسین کا مزار مبارک صدیوں سے باغبان پورہ لاہور شہر میں فیوض و برکات کا سرچشمہ ہے جہاں ہرسال مارچ کے آخری ہفتہ میلہ لگتا ہے جوکہ میلہ چراغاں کے نام سے ساری دنیا میں مشہور ہے۔

شاہ حسین کو اپنے ایک برہمن شاگرد مادھو لال سے سے لگاؤ کے باعث مادھو لال شاہ حسین کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔شاہ حسین کہتے تھے کہ انسان کا ظاہراورباطن ایک ہونا چاہیے۔
Box
شاعری
ادب کے میدان میں اکبر اعظم کا دور بڑے بڑے نابغوں کے لیے مشہور ہے ،چنانچہ حسین کے ہمعصر ایک طرف فیضی، نظیری، عرفی اور خان خاناں تھے تو دوسری طرف اغلباً داستان ہیر رانجھا کے پہلے پنجابی شاعر دمودر بھی تھے۔ ہندی اور بھگتی ادب میں بھی محرم نام لیے جا سکتے ہیں۔ لیکن ذہن نشین کر لینے کی بات یہ ہے کہ شاہ حسین نے مرکز حکومت سے دور رہ کر بھی ادب کے میدان میں اپنا ممتاز مقام پیدا کر لیا۔ چنانچہ مختصراً یہاں ان کی اوّلیات درج کی جاتی ہیں:
٭پنجابی میں وہ کافی کی صنف کے موجد تھے۔
٭ پنجابی کے وہ پہلے شاعر تھے، جنہوں نے ہجر و فراق کی کیفیات کے اظہار کے لیے عورت کی پرتاثیر زبان استعمال کی۔
٭سب سے پہلے داستان ہیر رانجھا کو بطور عشق حقیقی کی تمثیل اپنے شعری کلام میں سمویا۔
٭ اپنے پیشے بافندگی کے روزمرہ کے استعمال کی اشیاء و آلات کو مثلاً چرخہ، سوت، تانا، بانا وغیرہ کو صوفیانہ اور روحانی معنی پہنائے۔ ان کے بعد یہ پنجابی کا ایک جزولاینفک بن گئے۔
٭ پنجابی کو ایسے مصرعے، تشبیہات اور موضوعات دیے کہ ان کے بعد آنے والوں نے یا تو ان کو اپنی طرف منسوب کر لیا یا ان پر طبع آزمائی کی مثلاً رانجھا رانجھا کردینی۔ میں آپے رانجھا ہوئی۔
شاہ حسین نے اپنی کافیو ں کی بنیاد راگ راگنیوں پر رکھی۔ شاہ حسین کا باطن کھلتا ہے تو انہیں پتہ چلتا ہے کہ دنیا ایک کھیل کے سوا کچھ نہیں۔شاہ حسین کے عرس کو میلہ چراغاں بھی کہا جاتا ہے۔شاہ حسین نے صوفیانہ کلام اور صوفیانہ کافیوں سے شہرت پائی۔شاہ حسین کی شاعری عام فہم،عشقِ حقیقی سے بھرپور اور دِل کو چھو جانے والی ہے۔آپؒ کی شاعری میں درد ہجر وصال کی وہ کیفیت نظر آتی ہے جو انسانی فطرات کو تخلیق کائنات کے رازوں سے آشنا کرتی ہے۔ شاہ حسین تصوف کے فرقہ ملامتیہ سے تعلق رکھنے والے صاحب کرامت صوفی بزرگ اور شاعر تھے، وہ اْس عہد کے نمائندہ ہیں جب شہنشاہ اکبر مسند اقتدار پر متمکن تھا۔ اْس کے نورتنوں میں فیضی، نظیری، عرفی اور خان خاناں جیسے نابغہ شامل تھے جنہیں اْس وقت فن و ثقافت کے زعما کا درجہ حاصل تھا۔ تاہم شاہ حسین نے مرکز حکومت سے دور رہ کر اپنا قلندرانہ وصف نبھایا۔ انہوں نے راگ کو دربار سے نکال کر عوامی موسیقی کا درجہ دیا۔ شاہ حسین پنجابی زبان و ادب میں کافی کی صنف کے موجد ہیں۔ وہ پنجابی کے اولین شاعر تھے جنہوں نے ہجر و فراق کی کیفیات کے اظہار کے لئے عورت کی پرتاثیر زبان استعمال کی۔ شاہ حسین نے بے مثل پنجابی شاعری کی۔ اْن کی شاعری میں عشق حقیقی کا اظہار ہوتا ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں شاہ حسین اور مادھو کی محبت کا بیان بھی ہے اور ان کے شعری خصائل اور درویشانہ اوصاف کا اظہار بھی۔ یہ اْن کے فنی سفر کا تحقیقی جائزہ بھی ہے اور سفر زیست کا احوال بھی۔
سارتر نے کہا تھا:
''شعری عمل روح کے ایک ناچ کا نام ہے۔ جبھی شاعر کسی درویش کی طرح ناچتا ہے یہاں تک کہ مدہوش ہو جاتا ہے۔ تو وہ اپنے اندر وہ مقدس وقت داخل کر لیتا ہے جو اس کے بزرگوں کا وقت ہے۔۔۔ پھر وہ اس وقت کو شدید جھٹکوں کی صورت میں محسوس کرتا ہے۔ اور بڑا شاعر اپنی ذات کو انہی جھٹکوں میں تلاش کرنے کی سعی کر رہا ہوتا ہے۔''

سارتر کا یہ قول ہمیں شاہ حسین کی شاعری اور شخصیت پرپوری طرح منطبق ہوتا دکھائی دیتاہے۔

یہ اْس عہد کی داستان ہے جب ایک طرف اکبر زمینوں کا بادشاہ تھا تو دوسری طرف سخن کی سلطنت پر شاہ حسین کی حکمرانی تھی۔ تان سین اکبر کا درباری گوےّا تھا تو شاہ حسین نے راگ پر کمال حاصل کیا اور اسے دربار سے نکال کے پہلی بار پنجابی کافی کی صورت میں عام لوگوں کی چیز بنا دیا۔ یہی کافیاں وہ لاہور کے گلی کوچوں میں گاتے اور لوگوں کے دلوں میں اﷲ کی بڑائی اجاگر کرتے رہے۔

BOX
میلہ چراغاں۔۔۔کل اور آج
شاہ حسینؒ کے عرس کو میلہ چراغاں اور میلہ شالیمار بھی کہا جاتا ہے۔ ماضی قریب تک یہ میلہ لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا کلچرل فیسٹول سمجھا جاتا تھا۔ مادھولال حسینؒ کے عرس پر ملک بھر سے ملنگ جمع ہوتے ہیں اور اس میلے کو ملنگوں کا سب سے بڑا اجتماع کہا جاتا ہے۔ پنجابی شاعری میں کافیوں کی بنیاد رکھنے والے عظیم صوفی شاعر شاہ حسینؒ کا عرس ہر سال مارچ کے آخری ہفتے میں منایا جاتا ہے۔ میلہ چراغاں کب اور کیوں شروع ہوا اس کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اس بات کے شواہد ضرور ملتے ہیں کہ متحدہ ہندوستان میں سکھوں کے دور میں بھی یہ میلہ منایا جاتا تھا۔ راجہ رنجیت سنگھ خود اپنے درباریوں کے ساتھ اس میلے میں شریک ہوتا تھا۔ اور باغبانپورہ میں شاہ حسینؒ کے دربار پر گیارہ سو روپے اور ایک جوڑا بسنتی چادروں کا چڑہاوے کے طور پر دیا کرتا تھا۔ یہ میلہ موسم بہار کی آمد کی خوشی میں منایا جاتا تھا۔ تقسیم ہند سے قبل اس میلے میں شرکت کرنے والے لوگوں کی تعداد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس میلے کا پھیلاؤ دہلی دروازے سے لے کر شالامار باغ تک ہوا کرتا تھا اور زائرین کی کثیر تعداد شاہ حسینؒ کے مزار پر چراغ جلایا کرتی تھی اور منتیں مانا کرتی تھی۔ اسی مناسبت سے اس کا نام میلہ چراغاں پڑگیا۔ شاہ حسینؒ کا عرس ہر سال رجب کی پہلی تاریخ کو ہواکرتا تھا۔ ایک مرتبہ عرس اور میلہ ایک ہی وقت میں اکٹھے ہو گئے تب سے اس بات کا فیصلہ کیاگیا کہ عرس اور میلہ ہمیشہ اکٹھے ہی منائے جائیں گے اور اس مقصد کے لئے مارچ کا آخری ہفتہ مختص کیاگیا۔ شروع سے لے کر 1950ء تک میلہ چراغاں یا مادھو لال حسین(شاہ حسینؒ) کا عرس شالا مار باغ میں ہوا کرتا تھا مگر بعد میں شالا مار باغ کی تخریب کو مد نظر رکھتے ہوئے میلے کو جی ٹی روڈ اور باغبانپورہ تک محدود کر دیا گیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق آٹھ سے دس ہزار لوگوں کا روزگار اس میلے سے وابستہ ہوتا ہے۔ یہ میلہ عوام کو محض تفریح فراہم نہیں کرتا اورنہ ہی خالصتاً عرس کی طرح منایا جاتا ہے بلکہ تجارتی مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔اس طرح حضرت شاہ حسین ؒکا مزار مبارک صدیوں سے باغبان پورہ لاہور شہر میں فیوض و برکات کا سرچشمہ ہے

٭٭٭
 

Rehman Mehmood Khan
About the Author: Rehman Mehmood Khan Read More Articles by Rehman Mehmood Khan: 38 Articles with 39358 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.