انسانی تاریخ کے مختلف ادوار میں کئی ایک تبدیلیاں رونما
ہوتی رہیں ۔ ہر دور کے کچھ اپنے تقاضے اور معروضی حالات ہوتے ہیں۔ عصر حاضر
تاریخ انسانی کا سب سے ترقی یافتہ دور شمار ہوتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی
نے ماحول اور حالات کو اس قدر تبدیل کردیا ہے کہ ماضی بعید کا انسان شاید
کبھی خواب بھی نہ دیکھ سکا ہو کہ یہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن اس حقیقت سے
انکار ممکن نہیں کہ جہاں بے شمار آسانیاں اور فوائد ہیں وہاں اس ترقی کے
پردے میں اسی نسبت سے نقصانات اور خرابیاں بھی موجود ہیں۔ عصر حاضر کا ایک
ناسور ’’پورنوگرافی‘‘ یعنی( فحش مواد دیکھنا )ہے۔ یہ ایک ایسا زہر ہے جس کا
کوئی تریاق ابھی تک ایجاد نہیں ہوا۔ بلکہ نئی نئی ایجادات کی بدولت معاشرے
میں اس کا اثرو رسوخ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ جنسی بے راہ روی کے اکا دکا
واقعات ہر دور میں ملتے ہیں لیکن فحاشی اور بے حیائی کا جو طوفان بد تمیزی
دور حاضر کی ’’پورنوگرافی‘‘ نے بپا کیا ہے اس کی مثال پچھلی صدیوں میں
ڈونڈھنے سے بھی نہیں ملتی۔مسلمان ساسائنسدان اور ماہرین فلکیات بہت پہلے سے
سائنسی علوم کی ترویج و تحقیق کرچکے تھے البتہ یورپ میں اٹھارویں صدی میں
سائنسی علوم نے انگڑائی لی اور سماجی و معاشی انقلاب کی طرف بڑھنے شروع
ہوئے۔ اٹھارویں صدی میں فرانس میں وڈ پورنوگرافی (Wood Pornography)کا آغاز
ہوا۔ لکڑی سے انسانی جنسی اعضاء تیار کرکے انہیں نمائش کیلئے پیش کیاجاتا۔
درختوں کو کاٹ کربھی جنسی ہیئت کے سامان تیار کیے جاتے۔ لوگ جمع ہوتے اور
دلچسبی کے ساتھ ان مناظر کو دیکھ کر لطف انداز ہوتے۔ وقت گزرتا گیا اور
1839 ء میں پہلا کیمرہ ایجادہوگیا۔ یہ بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فحش
تصاویر کے ذریعے لوگوں تک جنسی تصاویر پہنچا کر پورنوگرافی کو پروموٹ کرنے
لگا۔ 1855ء میں پہلی بار کیمرے کو پورنو گرافی کیلئے استعمال کیاگیا۔ لیکن
مسئلہ یہ تھا کہ کیمرہ تصویر تو بنا لیتا لیکن دوسروں تک کیسے پہنچائی جائے۔
یہ جن بوتل سے باہر نہیں آرہاتھا۔ جب 1863 ء میں پرنٹر ایجاد ہوا تو پھر ۂ
مسئلہ بھی حل ہوگیا۔اب کیمرے سے عکسبندی کرکے آگے پہنچانا آسان ہوگیا۔
1871ء تک بلیک اینڈ وائیٹ تصاویر عام ہوچکی تھیں۔ یورپ میں اس کی بڑی
مارکیٹ فرانس میں تھی۔ بعد ازاں ٹیکنالوجی نے مزید ترقی کی اور 1895ء میں’’
لومیر انڈسٹری‘‘ نے’’ مسٹر البرٹ کرچنر‘‘ کی ڈائریکٹر شپ میں پہلی16 منٹ کی
فحش فلم ریلیز کردی جس میں عورت کو ننگا کرکے دکھایا گیاتھا۔ بیسویں صدی
میں کیمرہ ٹیکنالوجی نے مزید ترقی کی تو ’’پورن اداکاروں‘‘ کی کھیپ بھی
تیار ہونی شروع ہوگئی۔ 1920تک پورنو گرافی یورپین تہذیب کا حصہ بن چکی
تھی۔اس کے نتیجے میں سر عام فحش حرکات کا سلسلہ عروج پر پہنچ گیا۔ ساحل
سمندر بیڈ رومز کا منظر پیش کرنے لگے اور میاں بیوی کے تعلقات میں دراڑیں
پڑنی شروع ہوگئیں۔ پھر HD اور اس سے بھی اعلی ٹیکنالوجی نے تو پورنوگرافی
کونہ صرف ترقی دی بلکہ دنیا کامنافع بخش کاروبار بنا دیا۔اس فحاشی کو عروج
تک پہنچانے کیلئے امریکہ میں’’ ہالی وڈ ‘‘کے نام سے باقاعدہ فلم انڈسٹری
بنائی گئی۔ ہم بھی کب کسی سے پیچھے رہنے والے ہیں۔ امریکہ کی نقل کرتے ہوئے
انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش میں ’’بولی وڈ‘‘،’’ لولی وڈ ‘‘اور ’’ڈولی وڈ‘‘
فلم انڈسٹریز معرض وجود میں آگئیں۔ پھر انٹرنیٹ ایجاد ہوا اور پہلی بار
1992میں پاکستان بھی پہنچ گیا۔ اسے ایک یورپین کمپنی برین نیٹ نے پاکستان
میں لانچ کیاتھا۔ اس کے ساتھ ہی پورنو گرافی کا زہر بھی عام ہوگیا۔ فلموں
کے ذریعہ فحش تصویروں اور وڈیوزسے کمائی کی جاتی تھی لیکن انٹرنیٹ نے اس
جھنجھٹ کو ہی ختم کردیا۔ اب یہ وبا کسی ایک ملک ، مذہب یا معاشرے میں ہی
نہیں بلکہ پورے عالم انسانیت کو اپنے لپیٹ میں لیکر انہیں جانوروں سے بھی
بدتر طرز زندگی پرآمادہ کردیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات میں
بحیثیت مسلمان ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ عرض یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات اس حوالے
سے بہت واضح ہیں۔ سورہ الاعراف کی آیت نمبر 33 میں ارشاد فرمایا کہ ’’ اے
نبی ﷺ آپ ارشاد فرمادیں کہ اﷲ کریم نے ہر طرح کی بے حیائی اور فحاشی کو
حرام قرار دیا ہے خواہ ظاہری ہو یا باطنی‘‘ قرآن پاک کی تعلیمات کے مطابق
ہر دور میں اﷲ تعالی نے اپنے ایماندار بندوں کے ایمان بالغیب کو آزمایا ہے۔
صحابہ کرام ک رضوان اﷲ تعالی اجمعین کے ایمان بالغیب کو حالت احرام میں
شکار کے ذریعے آزمایا گیا۔ شکار کو ان کے اس قدر قریب کردیا گیا کہ ان کے
ہاتھوں اور نیزوں کی دسترس میں تھے۔ صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالی اجمعین ان
جانوروں کو دیکھ کر اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا کرتے تھے کیونکہ اس حالت
میں ان کیلئے شکار کرنا حرام ہے۔ اس طرح اس آزمائش میں کامیاب ہوئے۔ سورہ
المائدہ کی آیت نمبر 94 میں فرمایا کہ ’’اے ایمان والو! اﷲ کریم تمہیں شکار
کے کچھ جانوروں کے ذریعے آزمائیگا جن کو آپ نیزوں اور ہاتھوں سے پکڑ سکوگے۔
تاکہ وہ جان لے کہ کون ہے جو اس کو دیکھے بغیر بھی اس سے ڈرنے والا ہے۔ پھر
اس کے بعد بھی جو حد سے تجاوز کرنے والا ہوگا وہ درد ناک عذاب کا مستحق
ہوگا‘‘۔ اسی طرح قرآنی آیات کے مطابق بنی اسرائیل کے ایمان بالغیب کو
مچھلیوں کے ذریئے آزمایاگیا۔ شکار والے دن مچھلیاں نظر ہی نہ آتیں اور
پابندی والے دن پانی کے اوپر آجاتیں اور انہیں دعوت دیتیں کہ ہمت ہے تو آکر
پکڑو۔ انہوں نے حکم الہی کے خلاف کرتے ہوئے انہیں پکڑ کر دکھایااور اس
آزمائش میں ناکام ہوگئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج ہمارے غیب پر ایمان
لانے کی آزمائش کیا ہے؟ ہماری دانست کے مطابق آج کے دور میں ہمارے ایمان
بالغیب کا ٹیسٹ ہمارا انٹرنیٹ اور موبائل ہے۔ وہ لوگ جو خلوتوں کو نجی
معاملہ سمجھتے ہوئے بے خوف ہوکر استعمال کرتے ہیں وہ جان لیں کہ حضرت علی
رضی اﷲ عنہ کا ارشاد ہے کہ’’ تم میں سے نیک وہ نہیں کہ جس کی جلوت پاک ہو
بلکہ نیک وہ ہے کہ جو خلوتوں کو بھی خداخوفی کے ساتھ پاک صاف رکھتاہے‘‘
ہمیں آگاہ ہونا چاہیے کہ ہمارا لکھا اوردیکھا ہوا سب ہمارے نامہ اعمال میں
محفوظ ہورہا ہے جسے صرف سچی اور پکی توبہ ہی مٹا سکتی ہے۔ سورہ یاسین کی
آیت نمبر 65 میں فرمایا گیا کہ ’’ آج ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے۔ اور
ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں
گے۔ آج بھی فحاشی و عریانی سے توبہ کے صرف چند الفاظ اور آئندہ کیلئے مکمل
احتیاط و پرہیز کا عزم ہمارے پچھلے کیے ہوئے کو صاف کر کے مزید رسوائی سے
بچا سکتا ہے ورنہ آخرت کی رسوائی تو ہے ہی۔ یاد رہے کہ خلوت کے گناہ انسان
کے عزم و ارادے کو متزلزل کرکے رکھ دیتے ہیں اور زندگی میں خود اعتمادی اور
اور معاملات سے شفافیت بھی رخصت ہوجاتی ہے۔
|